طالبان سے مذاکرات،اداروں اورسیاسی قیادت میں اتفاق نہیں تھا،سلیم صافی

کراچی(ٹی وی رپورٹ)سینئر صحافی سلیم صافی نے جیو کے پروگرام ’’آج کامران خان کے ساتھ‘‘ میں میزبان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان سے مذاکرات صرف وزیراعظم اور ان کے چند قریبی مشیروں کا اجتہاد تھا جس پر نہ اداروں اور نہ ہی سیاسی قیادت کا اتفاق ہے لیکن سب لوگ الزام سے بچنے کیلئے اس پروسیس کو سپورٹ کررہے ہیں،افغان طالبان اور القاعدہ سے بات کئے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ تحریک طالبان پاکستان پر دو چھتریاں ہیں ان میں ایک افغان طالبان اور دوسری القاعدہ ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی مرکزی قیادت کی گرفت موجود ہے اور بڑی حد تک ان کے فیصلے بھی مجموعی ہوتے ہیں، مختلف گروپوں کو اپنی کارروائیوں کیلئے بڑی حد تک خودمختار ی حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایف سی کے اہلکاروں کا قتل تو مہمند ایجنسی کے طالبان نے کیا لیکن ان کی مرکزی تنظیم نے اس کی مذمت نہیں کی ہے، طالبان کے مختلف گروپ اپنی تنظیم سے نہ تو نکل سکتے ہیں اور نہ ہی چیلنج کرسکتے ہیں لیکن یہ مختلف گروپ مختلف لابیز کے زیراثر ہیں،اگر تحریک طالبان کی مرکزی قیادت کوئی فیصلہ کرلیتی ہے تو کسی کے لئے اس سے بغاوت کرنا آسان نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کو بھی پاکستان سے بہت سی شکایتیں ہیں، پاکستان میں لڑنا افغان طالبان کی ترجیح نہیں ہے، آج تک ان کا کوئی بندہ پاکستان میں کسی کارروائی میں ملوث نہیں ہوا ہے۔سلیم صافی نے کہا کہ اگر ہم نے مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنا ہے تو اس میں افغان طالبان اور القاعدہ سے بات کئے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، پاکستان کی طرف سے بھی کوئی حل اس وقت تک پائیدار نہیں ہوسکتا جب تک پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیاں آن بورڈ نہ ہوں، اگر پاکستان طاقت استعمال کرنا چاہے تو پھر افغان حکومت اور نیٹو کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی بنائے بغیر کوئی حل نہیں نکل سکتا۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=173706
 
Top