ضمیر ِ ذات سنائے گا جو سزا ہے جدا

زھرا علوی

محفلین
ضمیر ِ ذات سنائے گا جو سزا ہے جدا
دکھائے گا جو زمانہ وہ آئینہ ہے جدا

میں تجھ کو بھولنا چاہوں یہ حادثہ ہے الگ
میں تجھ کو بھول نہ پاؤں یہ سانحہ ہے جدا

کبھی چلے تھے تری سمت اب پلٹنا ہے
وہ راہ اور تھی لیکن یہ راستہ ہے جدا

سکون کیا ہے ؟ دل ِ خود فریب کا جادو
شراب ِ درد کی تلخی کا ذائقہ ہے جدا

تو جس حصار کا قیدی ہے اس کی بات ہے اور
جو میرے گرد کھینچا ہے وہ دائرہ ہے جدا

جلا بہ طاق ِ مودت چراغ ِ دیدہ و دل
حصار ِ حبس تلا ہے جدا، ہوا ہے جدا

علم وفا کا نگوں سر نہ ہو سکا حیدر
وہ ہاتھ کٹ کے گرے ہیں یہ واقعہ ہے جدا

حیدر گیلانی
 
Top