جاسم محمد
محفلین
سہیل وڑائچ کا کالم: ضمانت کی سیاست اور سال 2019، آنے والے چند ماہ کیا گل کھلائیں گے؟
سہیل وڑائچ صحافی و تجزیہ کار
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
حالات کا جبر کچھ ایسا ہو گیا تھا کہ سب فریقوں کو نواز شریف کی ضمانت سے ریلیف ملا ہے۔ سب کے لیے یہ ضمانت Win Win ہے۔
نواز شریف کی طویل خاموشی اور علاج کے لیے ہسپتال جانے سے انکار دراصل مدافعانہ مزاحمت کی ایک نئی شکل تھی جس سے فوج، عدلیہ اور عمران حکومت تینوں پر دباؤ پڑا۔
نواز شریف کی مدافعانہ مزاحمت سے یہ تاثر پختہ ہو رہا تھا کہ نواز شریف کا صرف احتساب نہیں ہو رہا بلکہ انہیں انتقام کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو اقتدار سے نکال باہر کرنے اور انکی طاقت کم کرنے کے بعد انہیں بھٹو جیسا شہید نہیں بنانا چاہتی تھی اور نہ ہی پھر سے تارا مسیح جیسے جلاد کا خطاب لینا پسند کرتی۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES/AFP
آج اسٹیبلشمنٹ جنرل ضیا الحق دور جیسے کوڑوں اور جیلوں کے حربے کے بجائے عدم تشدد پر مبنی نفسیاتی اور سیاسی طریقے استعمال کرنے میں زیادہ یقین رکھتی ہے۔
اسی لیے اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو جیل میں رکھ کر اور بیماریوں سے گھٹ گھٹ کر مرنے پر تحفظات کا شکار تھی اور اب اس معاملے کو آگے نہیں لے جانا چاہتی تھی۔
دوسری طرف شہباز شریف کی ڈپلومیسی اور نواز شریف کی خاموشی نے انھیں کافی حد تک نیو ٹرلائز کر دیا تھا۔ عدلیہ پر بھی دباؤ تھا کہ نواز شریف کے خلاف مسلسل فیصلوں سے جانبداری کا تاثر پختہ ہو رہا تھا اور اس فیصلے سے یہ تاثر کمزور ہو گا۔
پی ٹی آئی حکومت بھی اس مدافعانہ مزاحمت کے دباؤ میں تھی۔ ہر روز کسی نہ کسی وفاقی یا صوبائی وزیر کی وضاحت آرہی تھی کہ نواز شریف کو صحت کی تمام سہولیات حاصل ہیں، چناچہ میڈیکل بنیادوں پر دی جانے والی ضمانت سے جہاں نواز شریف اور انکی جماعت کو ریلیف ملا ہے وہاں باقی فریقوں کو بھی فائدہ ہی ہوا ہے ۔
نواز شریف کو چھ ہفتوں کی جو ضمانت ملی ہے اس میں ظاہر ہے سب سے پہلے وہ اپنے علاج کی طرف توجہ دینگے اور ساتھ ہی ساتھ ضمانت میں توسیع کے حوالے سے وہ کھل کر سیاست نہیں کر سکیں گے۔
البتہ پارٹی قیادت سے ضرور ملیں گے تاکہ پارٹی پر گرفت قائم رہے ۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
نواز شریف کی ضمانت سے البتہ ایک فریق کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے اور وہ ہیں آصف زرداری۔
ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اگر نواز شریف کو ریلیف دیا گیا ہے تو اب آصف زرداری کی گرفتاری کا عمل تیز تر ہوتا جائے گا۔
فیصلہ ساز دونوں بڑے فریقوں سے ایک ساتھ لڑائی نہیں کرتے۔ نواز شریف کو گرانے کے لیے زرداری سے ساز باز کی گئی اور یوں نواز شریف کو گرانا آسان ہو گیا اب نواز شریف کو ریلیف دے کر خاموش کر دیا گیا ہے اس کا مطلب شاید یہ ہے کہ اب آصف زرداری کی باری آنے والی ہے۔
بیک وقت دونوں کا احتساب کیا جاتا تو دونوں اکٹھے ہوکر لڑتے۔ حکومت اور اداروں کو چیلنج کر سکتے تھے۔ اسی لیے ہمیشہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔
شہباز شریف اور آصف زرداری کی لڑائی سوکنوں جیسی ہے۔ ان کا جمہوریت، احتساب اور سیاست پر اتفاق ہے مگر لڑائی صرف محبوب اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔
ان دونوں کی خواہش ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب ہوں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسرے کو دور کردیں اور مگر خود اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوکنوں کی اس لڑائی کا اسٹیبلشمنٹ کو بھی پورا علم ہے اور وہ اس لڑائی کا ہمیشہ سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ اگر دونوں سوکنیں اس کھیل کو نہ سمجھیں تو یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES/AFP
نواز شریف کی میڈیکل ضمانت سے تحریک انصاف بھی دباؤ سے نکلے گی البتہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کا احتساب کا بیانیہ کمزور ہوا ہے۔
عدلیہ اور فوج اب اس بیانیے پر آنکھیں بند کر کے چلنے پر تیار نظر نہیں آتیں۔
یہ ادارے عمران خان کے سیاسی حریفوں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے خطرات سے لازماً آگاہ ہونگے کیونکہ ایک تو اس سے عمران خان واحد طاقتور سیاستدان رہ جائے گا اور اسکی طاقت کسی فاشسٹ لیڈر جتنی ہو جائے گی۔
دوسری طرف نواز شریف اور زرداری کی جماعتیں کمزور پڑنے سے ملک کا سیاسی اور جمہوری نظام بھی کمزور ہو جائے گا۔
تحریک انصاف کو بھارت کے ساتھ ہوائی جھڑپوں سے فائدہ ہوا اور انھیں کچھ وقت اور مل گیا ہے تاہم یہ بات طے ہے کہ تحریک انصاف کیلئے اصل چیلنج سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے۔
دوست ممالک سے قرضوں کے باوجود معاشی حالت میں استحکام نہیں آسکا۔ روپیہ سستا اور ڈالر مہنگا ہو تا جارہا ہے، گیس بجلی اور پٹرول کی قیمتوں ممیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل قریب میں بھی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔
یہی حکومت کا اصل امتحان ہے۔
صرف چند ووٹوں کی برتری سے قائم تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ماہ جون اور جولائی سخت ہوں گے۔ بجٹ منظور کروانا اور اس وقت اراکین اسمبلی کے ناز نخرے اٹھانا تحریک انصاف کے لیے نیا اور مشکل تجربہ ہو گا۔ دیکھنا ہو گا کہ اس صورتحال سے کس طرح نمٹا جاتا ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹISPR
اور جولائی اگست اگر خیر خیریت سے گزر گئے تو ستمبر اکتوبر 2019 میں نئی پریشانیاں سامنے آئیں گی۔
ان مہینوں میں موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع یا پھر نئے کمانڈر کی تلاش کا مرحلہ ہو گا۔ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی سیاسی وزیر اعظم کے لیے یہ سخت ترین آزمائش کا فیصلہ ہوتا ہے اور عام طور پر اس فیصلے سے اختلافات بڑھتے ہیں۔
امید کرنی چاہیے کہ جس طرح فوج اور حکومت آجکل ایک صفحے پر اکٹھے چل رہے ہیں آئندہ بھی ایسے ہی چلتے رہیں گے تاہم اگر کہیں بھی کوئی لفزش ہوتی تو عام طور پر اسکا خمیازہ وزیر اعظم کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
نواز شریف کی ضمانت سے سیاسی فضا میں استحکام آسکتا ہے لیکن اگر آصف زرداری کو گرفتار کیا گیا تو سندھ میں لازماً ردعمل ہو گا۔
سندھ حکومت کمزور ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ اسکے نتیجے میں وہاں تبدیلی آجائے یا تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔
ایسی تبدیلیاں آئیں تو وفاق بھی مستحکم نہیں رہے گا اور سیاست اور سازش وفاقی حکومت کو بھی لے بیٹھے گی۔ غرضیکہ یہ سال سیاست میں بہت کچھ لیکر آئے گا، کچھ اچھا کچھ بُرا، کچھ کھٹا کچھ میٹھا۔
سہیل وڑائچ صحافی و تجزیہ کار

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
حالات کا جبر کچھ ایسا ہو گیا تھا کہ سب فریقوں کو نواز شریف کی ضمانت سے ریلیف ملا ہے۔ سب کے لیے یہ ضمانت Win Win ہے۔
نواز شریف کی طویل خاموشی اور علاج کے لیے ہسپتال جانے سے انکار دراصل مدافعانہ مزاحمت کی ایک نئی شکل تھی جس سے فوج، عدلیہ اور عمران حکومت تینوں پر دباؤ پڑا۔
نواز شریف کی مدافعانہ مزاحمت سے یہ تاثر پختہ ہو رہا تھا کہ نواز شریف کا صرف احتساب نہیں ہو رہا بلکہ انہیں انتقام کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو اقتدار سے نکال باہر کرنے اور انکی طاقت کم کرنے کے بعد انہیں بھٹو جیسا شہید نہیں بنانا چاہتی تھی اور نہ ہی پھر سے تارا مسیح جیسے جلاد کا خطاب لینا پسند کرتی۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES/AFP
آج اسٹیبلشمنٹ جنرل ضیا الحق دور جیسے کوڑوں اور جیلوں کے حربے کے بجائے عدم تشدد پر مبنی نفسیاتی اور سیاسی طریقے استعمال کرنے میں زیادہ یقین رکھتی ہے۔
اسی لیے اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو جیل میں رکھ کر اور بیماریوں سے گھٹ گھٹ کر مرنے پر تحفظات کا شکار تھی اور اب اس معاملے کو آگے نہیں لے جانا چاہتی تھی۔
دوسری طرف شہباز شریف کی ڈپلومیسی اور نواز شریف کی خاموشی نے انھیں کافی حد تک نیو ٹرلائز کر دیا تھا۔ عدلیہ پر بھی دباؤ تھا کہ نواز شریف کے خلاف مسلسل فیصلوں سے جانبداری کا تاثر پختہ ہو رہا تھا اور اس فیصلے سے یہ تاثر کمزور ہو گا۔
پی ٹی آئی حکومت بھی اس مدافعانہ مزاحمت کے دباؤ میں تھی۔ ہر روز کسی نہ کسی وفاقی یا صوبائی وزیر کی وضاحت آرہی تھی کہ نواز شریف کو صحت کی تمام سہولیات حاصل ہیں، چناچہ میڈیکل بنیادوں پر دی جانے والی ضمانت سے جہاں نواز شریف اور انکی جماعت کو ریلیف ملا ہے وہاں باقی فریقوں کو بھی فائدہ ہی ہوا ہے ۔
نواز شریف کو چھ ہفتوں کی جو ضمانت ملی ہے اس میں ظاہر ہے سب سے پہلے وہ اپنے علاج کی طرف توجہ دینگے اور ساتھ ہی ساتھ ضمانت میں توسیع کے حوالے سے وہ کھل کر سیاست نہیں کر سکیں گے۔
البتہ پارٹی قیادت سے ضرور ملیں گے تاکہ پارٹی پر گرفت قائم رہے ۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
نواز شریف کی ضمانت سے البتہ ایک فریق کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے اور وہ ہیں آصف زرداری۔
ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اگر نواز شریف کو ریلیف دیا گیا ہے تو اب آصف زرداری کی گرفتاری کا عمل تیز تر ہوتا جائے گا۔
فیصلہ ساز دونوں بڑے فریقوں سے ایک ساتھ لڑائی نہیں کرتے۔ نواز شریف کو گرانے کے لیے زرداری سے ساز باز کی گئی اور یوں نواز شریف کو گرانا آسان ہو گیا اب نواز شریف کو ریلیف دے کر خاموش کر دیا گیا ہے اس کا مطلب شاید یہ ہے کہ اب آصف زرداری کی باری آنے والی ہے۔
بیک وقت دونوں کا احتساب کیا جاتا تو دونوں اکٹھے ہوکر لڑتے۔ حکومت اور اداروں کو چیلنج کر سکتے تھے۔ اسی لیے ہمیشہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔
شہباز شریف اور آصف زرداری کی لڑائی سوکنوں جیسی ہے۔ ان کا جمہوریت، احتساب اور سیاست پر اتفاق ہے مگر لڑائی صرف محبوب اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔
ان دونوں کی خواہش ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب ہوں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسرے کو دور کردیں اور مگر خود اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوکنوں کی اس لڑائی کا اسٹیبلشمنٹ کو بھی پورا علم ہے اور وہ اس لڑائی کا ہمیشہ سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ اگر دونوں سوکنیں اس کھیل کو نہ سمجھیں تو یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES/AFP
نواز شریف کی میڈیکل ضمانت سے تحریک انصاف بھی دباؤ سے نکلے گی البتہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کا احتساب کا بیانیہ کمزور ہوا ہے۔
عدلیہ اور فوج اب اس بیانیے پر آنکھیں بند کر کے چلنے پر تیار نظر نہیں آتیں۔
یہ ادارے عمران خان کے سیاسی حریفوں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے خطرات سے لازماً آگاہ ہونگے کیونکہ ایک تو اس سے عمران خان واحد طاقتور سیاستدان رہ جائے گا اور اسکی طاقت کسی فاشسٹ لیڈر جتنی ہو جائے گی۔
دوسری طرف نواز شریف اور زرداری کی جماعتیں کمزور پڑنے سے ملک کا سیاسی اور جمہوری نظام بھی کمزور ہو جائے گا۔
تحریک انصاف کو بھارت کے ساتھ ہوائی جھڑپوں سے فائدہ ہوا اور انھیں کچھ وقت اور مل گیا ہے تاہم یہ بات طے ہے کہ تحریک انصاف کیلئے اصل چیلنج سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے۔
دوست ممالک سے قرضوں کے باوجود معاشی حالت میں استحکام نہیں آسکا۔ روپیہ سستا اور ڈالر مہنگا ہو تا جارہا ہے، گیس بجلی اور پٹرول کی قیمتوں ممیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل قریب میں بھی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔
یہی حکومت کا اصل امتحان ہے۔
صرف چند ووٹوں کی برتری سے قائم تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ماہ جون اور جولائی سخت ہوں گے۔ بجٹ منظور کروانا اور اس وقت اراکین اسمبلی کے ناز نخرے اٹھانا تحریک انصاف کے لیے نیا اور مشکل تجربہ ہو گا۔ دیکھنا ہو گا کہ اس صورتحال سے کس طرح نمٹا جاتا ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹISPR
اور جولائی اگست اگر خیر خیریت سے گزر گئے تو ستمبر اکتوبر 2019 میں نئی پریشانیاں سامنے آئیں گی۔
ان مہینوں میں موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع یا پھر نئے کمانڈر کی تلاش کا مرحلہ ہو گا۔ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی سیاسی وزیر اعظم کے لیے یہ سخت ترین آزمائش کا فیصلہ ہوتا ہے اور عام طور پر اس فیصلے سے اختلافات بڑھتے ہیں۔
امید کرنی چاہیے کہ جس طرح فوج اور حکومت آجکل ایک صفحے پر اکٹھے چل رہے ہیں آئندہ بھی ایسے ہی چلتے رہیں گے تاہم اگر کہیں بھی کوئی لفزش ہوتی تو عام طور پر اسکا خمیازہ وزیر اعظم کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
نواز شریف کی ضمانت سے سیاسی فضا میں استحکام آسکتا ہے لیکن اگر آصف زرداری کو گرفتار کیا گیا تو سندھ میں لازماً ردعمل ہو گا۔
سندھ حکومت کمزور ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ اسکے نتیجے میں وہاں تبدیلی آجائے یا تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔
ایسی تبدیلیاں آئیں تو وفاق بھی مستحکم نہیں رہے گا اور سیاست اور سازش وفاقی حکومت کو بھی لے بیٹھے گی۔ غرضیکہ یہ سال سیاست میں بہت کچھ لیکر آئے گا، کچھ اچھا کچھ بُرا، کچھ کھٹا کچھ میٹھا۔