ضمانت کی سیاست اور سال 2019، آنے والے چند ماہ کیا گل کھلائیں گے؟

جاسم محمد

محفلین
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا تھا
گول دائرے کی سیاست!
عاصمہ شیرازی صحافی
_105020473_mediaitem105020531.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionتحریکِ انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے آٹھ ماہ ہو چکے ہیں
گول دائرے میں جو بھی سیاست کو لایا وہی اصل فنکار ہے۔ دائرے کی بڑائی یا چھوٹائی کا فیصلہ کرنے والی پُرکار اپنی مرضی سے دائرے کا حجم بڑھا رہی ہے البتہ سیاست دائرے سے باہر نہیں نکلنے دے گی۔ دائرے کے اندر ہی نکتے طے کر دیے گئے ہیں، حدود بنا دی گئی ہیں۔۔ بس سبھی انہی نکتوں اور حدوں میں پُرکار کے نیچے اپنا کردار نبھائیں گے۔

نواز شریف باہر ہیں لیکن محدود مدت کے لیے۔ اس دوران ان کی اپیل پر فیصلہ ان کے حق میں ہوا تو بہتر نہ ہوا تو واپس اندر۔ یہ فیصلہ نواز شریف کو کرنا ہے کہ وہ دائرے سے نکلنے کی کوشش نہ کریں اور یہی تا حال ایک مسئلہ بھی ہے۔

نواز شریف کی جیل اور سزا سے ایک سبق تو مل ہی گیا کہ کسی رہنما کو اندر رکھنا مناسب نہیں بس اُس پر تلوار لٹکتی رہے اور میڈیا اربوں کھربوں گنتا رہے۔ عدالتوں سے بہتر روزانہ لگنے والی آٹھ سے بارہ عدالتیں ہیں جو سزا بھی دیتی ہیں اور نہیں بھی دیتیں سو انھی سے کام چلایا جائے۔ بہرحال پُرکار کے اندر کے سیاسی پیچوں کو دھیرے دھیرے تیل دیا جائے گا۔
_105111794_gettyimages-996326776.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionنواز شریف کو ملنے والا ریلیف پیپلزپارٹی کے نزدیک 'خاموش مفاہمت' ہے
دائرے کے اندر ہی بند سیاسی کرداروں کو اب باہر کیسے آنا ہے؟ دیکھا جائے تو محض ایک ہی کردار آزاد ہے اور وہ ہے بلاول۔ مریم نہ چاہتے ہوئے بھی والد کی رہائی سے لگی بیٹھی ہیں۔ انھیں کب اور کہاں باہر آنا ہے یہ فیصلہ نوازشریف کے خلاف اپیل کے فیصلے کے بعد ہو گا۔ زرداری اپنے مقدمات نمٹاتے رہیں گے۔ گو بلاول کے ہاتھ کمان تو آ چکی ہے لیکن تیر کب چلنا ہے یہ بھی ابھی طے نہیں ہوا۔

پُرکار کے دو کردار بلاول اور مریم بالواسطہ آپسی رابطوں اور نواز شریف کے بلاواسطہ رابطے میں تھے، ہیں اور رہیں گے۔ البتہ نواز شریف کو ملنے والا ریلیف پیپلزپارٹی کے نزدیک ’خاموش مفاہمت‘ ہے۔ کیا بلاول جیل والی گفت گو اور نواز شریف کی شاباش کو بھلا دیں گے یا کوٹ لکھپت کی ’خاموش مفاہمت‘ پر قائم رہیں گے۔ پیپلزپارٹی اعتبار کرنے یا نہ کرنے کے مرحلے میں ہے۔

بلاول دائرے کی بیرونی حد کے ہلکا سا قریب ہیں۔ حالیہ ٹرین مارچ کے دوران سندھ کے عوام کا والہانہ استقبال دیکھنے والوں کو متاثر کر گیا۔ بااختیار بھی سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ تھوڑی دیر کو سہی مگر دائرہ سندھ کی حد تک ذرا وسیع رہنے دیا جائے۔ البتہ لاڑکانہ کے بعد جنوبی پنجاب تک ٹرین مارچ کا مرحلہ طے کرے گا کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کتنا آگے جا سکے گی اور کیا بلاول وسطی پنجاب تک مارچ لے آئیں گے اور کیا ’ن لیگ نظریاتی‘ یہاں ان کا ساتھ دے گی؟
_106181922_bilawal_train2.jpg

تصویر کے کاپی رائٹPAKISTAN PEOPLES PARTY
Image captionبلاول بھٹو کے کراچی سے لاڑکانہ تک ٹرین کے سفر کو عوام کی جانب سے پذیرائی ملی
دائرے کا ایک اور متحرک کردار رائیونڈ اور پنڈی کے درمیان محدود ہو گیا ہے۔ رائیونڈ سے بالا ہی بالا بعض معاملات طے ہوئے مگر اُن پر مہر ثبت نہ ہو سکی۔ اُن کا کردار سینیٹ انتخابات کے بعد نظر آرہا ہے جب سیٹ اپ کو ان ہاؤس ٹیون کرنے کا امکان ہو گا۔

پُرکار کے سیاسی پیچ پرزے البتہ کام نہیں کر رہے، توقع یہی تھی کہ ان کی کارکردگی اصل بااختیاروں کو مضبوط کرے گی لیکن اس محاذ پر اصل اہداف تاحال حاصل نہیں ہوئے۔ معیشت پر اندرونی اور بیرونی دباؤ نظام کا بیک اپ تیار کرنے کا مشورہ دے رہا ہے اور دائرے کے اندر ہی پُرکار کے پرزوں کے اختیار کو بھی محدود کر رہا ہے۔

مئی جون کا بظاہر پہلا اور حقیقتاً تیسرا بجٹ کیا رنگ لائے گا۔ عوامی حمایت میں کمی اور ایف اے ٹی ایف جیسے بیرونی دباؤ بین الاقوامی دائرے کو بھی تنگ کر سکتے ہیں جس سے اندرونی دائرے کی حدود ٹوٹ سکتی ہے، کردار آزاد ہو سکتے ہیں، اور فنکار۔۔۔ دیکھیے اور انتظار کیجیے!
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کے دو سنگین ترین مسئلے
02/04/2019 وسعت اللہ خان



ڈھائی سو روپے کے کیبل پر آنے والے بھانت بھانت کے چینلوں پر ٹاک شو دیکھ دیکھ کر، بیس روپے کا اخبار پڑھ کے، فیس بک اور ٹویٹر پر سیاستدانوں کو برا بھلا کہہ کر، ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ملکی حالات پر کڑھتے ہوئے اور پھر سو روپے کا پٹرول موٹر سائیکل میں ڈلوا کر مہنگائی کو گالیاں دیتے ہوئے آپ خود کو بہت بڑا بقراط سمجھتے ہیں نا؟

تو پھر بتائیے کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے کہ جس نے حکومت اور حزبِ اختلاف کی نیند اڑا رکھی ہے؟ مجھے معلوم ہے آپ میں سے کوئی فٹاک سے کہے گا کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اتنی اضافی اجناس پیدا ہوئی ہیں کہ رکھنے کی جگہ نہیں۔ اسی لیے پچھلے بارہ ماہ کے دوران پانچ لاکھ ٹن گندم اور ساڑھے سات لاکھ ٹن چاول ہم نے بیرونی ممالک کو فروخت کر دیا ہے، چینی کے گودام منہ کو آئے ہوئے ہیں۔

نیا اسٹاک رکھنے کی جگہ بمشکل نکالنی پڑ رہی ہے۔ پھر بھی ہر پانچواں پاکستانی ناکافی غذائیت سے دوچار ہے۔ کیونکہ رزق تو وافر ہے مگر خریدنے کے پیسے نہیں، پیسے ہوں بھی تو اس رزق کی تقسیم کا نظام اتنا ناقص ہے کہ خوراک غریب ترین طبقات تک آسانی سے پہنچ ہی نہیں پاتی۔ گویا دریا کے کنارے بیٹھے ہیں مگر پیاسے ہیں۔ یہ مسئلہ ضرور ہے مگر اتنا بڑا بھی نہیں کہ حکمرانوں اور حزبِ اختلاف کی نیند اڑا دے۔ تو کیا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ روپیہ مسلسل پھسل رہا ہے، آج ایک سو بیالیس روپے کا ڈالر ہے اور اگلے چند ماہ میں ایک سو ستر تک پہنچ سکتا ہے۔

برآمدات اگر سو روپے کما کے دے رہی ہیں تو درآمدات ایک سو اڑسٹھ روپے کھا رہی ہیں۔ سعودی، اماراتی اور چینی دوستوں سے جو آٹھ ساڑھے آٹھ ارب ڈالر قرضے پر اٹھائے ہیں وہ چھ سے آٹھ ماہ کے دوران چٹ پٹ ہو جائیں گے، اگر معیشت تب بھی نہ اٹھی تو پھر کس کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے؟ آئی ایم ایف قرضہ دینے کو تیار بیٹھا ہے مگر اللے تللے اور بیمار اداروں اور عوامی سہولتوں کی سبسڈی ختم کرنے کی شرط پر۔ کیا یہ ہم سے ہو پائے گا؟

معیشت بیٹھنے کی وجہ سے شرح سود میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے، شرح سود میں اضافے کے سبب سرمایہ کار بینک سے قرضہ لے کر نئی سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ افراطِ زر آٹھ ماہ میں چار فیصد سے بڑھ کر ساڑھے آٹھ فیصد تک ہو گیا ہے۔ چنانچہ مہنگائی دگنی محسوس ہو رہی ہے۔ تو یہ ہے اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ۔ جی نہیں اس سے بھی بڑا ایک اور مسئلہ ہے جس کا حکومت اور حزبِ اختلاف کو تو مکمل ادراک ہے مگر آپ جیسے بقراطوں کو ہرگز ہرگز نہیں۔

اب آپ کہیں گے کہ گزشتہ ایک برس سے بین الاقوامی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( فیٹف ) دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کے چینلز بند کرنے کے لیے ہماری گردن پر جو گرم گرم پھونکیں مار رہی ہے دراصل یہ ہے اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا دردِ سر۔ حالانکہ جب سے گزشتہ برس پاکستان کو فیٹف نے دہشت گردی کے لیے پیسے کی ترسیل روکنے میں ناکام ممالک کی گرے لسٹ میں ڈالا ہے اس کے بعد سے ہمارے مالیات، انتظام اور سلامتی کے اداروں نے اس گرے لسٹ سے باہر آنے کے لیے قانون سازی کی ہے، نگرانی کے عمل کو بہتر بنایا ہے، کئی شدت پسند تنظیموں پر اور گہری نگاہ رکھی جا رہی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی دہشت گرد فہرست میں جتنی تنظیموں اور افراد کے نام ہیں ( سوائے مولانا مسعود اظہر) ان سب کو کالعدم قرار دے کر ان کے اثاثے تحویل میں لے لیے گئے ہیں، اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں۔ ان سے بظاہر غیر منسلک افراد اور تنظیموں کی مالیاتی ترسیلات پر بھی کڑی نگاہ رکھی جا رہی ہے۔ مگر فیٹف والے پھر بھی نہیں مان رہے اور کہہ رہے ہیں کہ کاغذ پر تو ہم نے بہت اچھا اور متاثر کن نقشہ بنایا ہے مگر دہشت گردوں کو سرمائے کی ترسیل روکنے کے لیے وفاقی سے لے کر ضلع سطح تک جس انتظامی و معلوماتی رابطہ کار موثر ڈھانچے کی ضرورت ہے وہ غائب ہے۔

بینکوں پر بھلے نظر ہو مگر چندوں کے ڈبوں، اسمگلنگ کے پیسے اور اس کالے پیسے سے اجناس کی خرید کے بعد انھیں بیچ کر پھر اس سفید پیسے کو دہشت گردوں تک پہنچانے کا نیٹ ورک اب بھی قائم ہے۔ لہذا کوئی ضمانت نہیں کہ جون میں جب فیٹف کا پیرس میں بڑا اجلاس ہو گا تو وہ پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج کرنے کے بجائے کہیں بلیک لسٹ میں ڈالنے کی سفارش نہ کر بیٹھے۔ اس لیے ہمیں نقشے مت دکھاؤ کچھ کیا ہے تو وہ بتاؤ۔ اور اگر پاکستان بلیک لسٹ ہو جاتا ہے تو پھر علاوہ چند وفادار دوستوں کے کوئی ملک یا مالیاتی ادارہ تجارت، قرضے اور امداد کی بات کرتے ہوئے ہچکچائے گا یا من مانی شرائط کے عوض ہماری مدد پر تیار ہوگا۔

یوں ادھ موئی معیشت پر مزید درے پڑیں گے۔ ہماری کمر پے پہلے ہی اتنے نیل پڑ چکے ہیں کہ ہم مزید اقتصادی پھینٹی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ تو یہ ہے اس وقت ہمارا سب سے بڑا اور سنگین قومی مسئلہ۔ یہ مسئلہ ضرور ہے مگر اتنا سنگین بھی نہیں کہ حکومت اور حزبِ اختلاف سب کچھ بھول بھال کر اسے حل کرنے کے لیے کندھے سے کندھا جوڑ لیں۔ تو سنیے کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ کیا ہے؟ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام بدلنا۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے گھوٹکی میں جلسے سے خطاب کے بعد اپنے حامی ارکانِ اسمبلی اور اتحادیوں سے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جس کے تحت پچھلے نو برس میں ایک سو چوبیس ارب روپے پچاس لاکھ لاچار خواتین میں پانچ ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے بانٹے گئے ہیں۔ اس پروگرام میں بے قاعدگیوں کے سبب اس کا نام بدلا جا سکتا ہے ( گویا صرف نام بدلنے سے یہ پروگرام شدھ اور پوتر ہو جائے گا)۔ اس پر ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی نے سخت ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے گھٹیا سیاسی حربہ قرار دیا۔

عمران خان کے دستِ راست شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر نام بدلنے کے حق میں نہیں۔ عمران خان کے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے شاہ صاحب کی رائے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نام ضرور بدلا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے کہا کہ انکم سپورٹ پروگرام سے بے نظیر کا نام ہٹانے کی بات کرنے والو عوام کے دلوں سے کیسے ہٹاؤ گے۔ اس کے لیے تمہیں قانون میں ترمیم کرنی پڑے گی اور سینیٹ میں ہم یہ کوشش اپنی اکثریت کی بنا پر ناکام بنا دیں گے۔ اس پر وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے خورشید شاہ کو وہ دیمک قرار دیا جو قومی اداروں کو اب تک کھاتی رہی ہے۔

اس سے بھی بڑا ایک سنگین قومی مسئلہ ہے۔ یعنی ایف آئی اے ان صحافیوں، بلاگرز اور تنظیموں کے پیچھے لگ گئی ہے جنہوں نے عزت ما آب سعودی ولی عہد کے دورہِ پاکستان کے موقع پر فیس بک پر مقتول سعودی صحافی جمال خشوگی کا تواتر سے تذکرہ کیا۔ یہ عناصر شاید بھول گئے کہ آئین کا آرٹیکل انیس جہاں آزادیِ اظہار کی ضمانت دیتا ہے وہیں دوست ممالک کے بارے میں منفی تبصروں کی بھی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ چنانچہ اگر ایف آئی اے جرم ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے بعد آئین سے غداری کے مقدمے کی بھی راہ کھل سکتی ہے اور آئین سے غداری کا مقدمہ آرٹیکل چھ کے تحت چلایا جاتا ہے اور آرٹیکل چھ کے تحت سزا موت ہے۔ تو یہ ہیں جناب اس وقت پاکستان کو لاحق دو سب سے سنگین مسائل۔ کوئی شک؟
 

جاسم محمد

محفلین
ناقابلِ اشاعت کالم: تبدیلی ریورس گئیر میں
06/04/2019 عمار مسعود



حکومت نا اہلی اور ناکردہ کاری کی جس معراج پر پہنچ چکی ہے اس کا بیان الفاظ میں ممکن نظر نہیں آتا۔ المیہ یہ نہیں ہے کہ حکومت کی اس ابتر حالت کا لوگوں کو اندیشہ نہیں تھا۔ المیہ تو یہ ہے کہ وہ سارے زرخیز دماغ جو گزشتہ پانچ سال تک تبدیلی کا سنہرا خواب بیچتے رہے وہی اب اس خواب کی بھیانک تعبیر قوم کو دکھانے پر مامور ہو گئے ہیں۔ ایسے معصوم بن گئے ہیں کہ جیسے شریک جرم ہی نہیں تھے۔ جو اشخاص ٹی وی سکرینوں پر تبدیلی کے خوش رنگ سونامی کی داستان سناتے تھے اب اسی سونامی کی تباہی کی کہانی سنانے میں بھی وہی رطب اللسان ہیں۔

اس ساری صورت حال میں بس ایک غربت میں پسے ہوئے عوام ہیں جو ایک دوجے کا حیرانی اور پشیمانی سے منہ تک رہے ہیں۔ اس لئے کہ خیر کی کوئی خبر، امید کی کوئی کرن اب ان کو نظر نہیں آ رہی۔ حالات ایسی تیزی سے بگڑ رہے ہیں کہ اس تنزلی کے راستے میں اب کوئی شئے حائل نہیں ہو رہی۔ بسا اوقات تو یہ لگتا ہے کہ اس تباہی کی رفتار جان بوجھ کر تیز کی جارہی ہے۔ مہمیز لگائی جا رہی ہے۔ حکومت خود اپنے آپ سے انتقام لے رہی ہے اور عوام کو اس تبدیلی کا مزہ چکھا رہی ہے جس کے نعرے گزشتہ پانچ سال کنٹینروں، ٹی شوز اور جلسوں میں لگائے گئے تھے۔

معیشت کی ابتر حالت کا ذمہ دار اب پرانی حکومتوں کو قرار دینے کی سہولت ختم ہوتی جارہی ہے۔ آٹھ ماہ ہو گئے ہیں لوگ اب سہولت مانگتے ہیں، فلاح کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان ڈھائی کروڑ بچوں کا ذکر کرتے ہیں جو صاف پانی نہ ملنے سے مر جاتے ہیں اور جن کا ماتم تحریک انصاف کے ہر جلسے میں کیا گیا۔ ان کروڑوں بچوں کی تعلیم کے وعدے یاد دلاتے ہیں جو سکول جانے سے رہ گئے تھے اور تحریک انصاف نے ان کی بے بسی کا نعرہ الیکشن میں لگایا تھا۔

ان تین سو پچاس ڈیموں کو ذکر کرتے ہیں جس سے کے پی کے کا سارا علاقہ سیراب ہونا تھا۔ پشاور کی اس میٹرو کا ذکر کرتے ہیں جس نے سب سے کم لاگت والی میٹرو بننا تھا۔ ان تقریروں کا ذکر کرتے ہیں جس میں غریب پر ٹیکس کم لگنا تھا اور امیر سے دولت چھین کر غریبوں میں تقسیم ہونی تھی۔ بجلی کے ان بلوں کا ذکر کرتے ہیں جن کے ذریعے ماضی میں حکومتیں عوام کا خون چوستی تھیں۔ پٹرول کی ان قیمتوں کا ماتم کرتے ہیں جن میں اضافے کو عوام کا معاشی قتل قرار دیا گیا۔

ان سمندر پار پاکستانیوں کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی ڈالروں سے خزانے کو بھر دینا تھا۔ ان خیالی ہسپتالوں کا ذکر رکتے ہیں جو قریہ قریہ گاؤں گاؤں تعمیر ہونے تھے۔ اس سبز پاسپورٹ کا ذکر کرتے ہیں جن کو ساری دنیا میں عزت ملنی تھی۔ ان سمندر پار پاکستانیوں کا انتظار کرتے ہیں جنہوں نے یہاں نوکریاں کرنے آنا تھا۔ بوریاں بھر بھر کر زرمبادلہ لانا تھا لوگ اب ان یونیورسٹیوں کا انتظار کرتے ہیں جو وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز میں کھلنی تھیں۔

تبدیلی کے اس خواب کی حقیقت بہت بھیانک ہے۔ اب ڈالر کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور روپیہ تنزلی کے نئے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اب دنیا بھر میں ہم ایک بھکاری کے طور پر معروف ہو گئے ہیں۔ کسی ملک کا سربراہ ادھر آتے ہوئے گھبراتا ہے کہ کہیں ہم کشکول اس کے سامنے نہ رکھ دیں۔ سی پیک جو کہ ایک گیم چینجر تھا اب اس کے منصوبے بند ہو رہے ہیں۔ ٹیکسوں کی آمدنی کم ہو رہی ہے۔ بیرون ملک سے آنے والا زر مبادلہ گزشتہ برسوں کی نسبت کم ہو گیا ہے۔

ترقیاتی فنڈز روک دیے گئے ہیں۔ تعلیم اور صحت پر اخراجات روک دیے گئے ہیں۔ سڑکوں اور شاہراوں کی تعمیر روک دی گئی ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت کم ہونے کے باوجود پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گیس کے بل عوام کے لئے سوہان روح بن چکے ہیں۔ بجلی کی قیمت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ادویات نایاب اور مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود حکومتی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پروٹوکول کی قبیح روایت ختم نہیں ہو رہی۔ وزراء کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ گورننس نامی شے ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ کرپشن کے مجرم وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ حکومت نے اس سارے منظر میں جھوٹ کو ایک فن بنا دیا ہے۔ اب بھی گزشتہ حکومتوں پر لعن طعن کر کے اپنی ابتر کارکردگی پر پردہ پوشی کر رہے ہیں۔

گزشتہ حکومتوں کا ماتم کرنے والی حکومتی جماعت سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ چند سال پہلے یہ ملک نہ افغانستان تھا، نہ عراق اور نہ ہی صومالیہ۔ اس ملک میں ترقی کے منصوبے لگ رہے تھے، شاہراہیں بن رہی تھِیں، لوڈ شیڈنگ ختم ہو رہی تھی، طالبعلموں کو لیپ ٹاپ مل رہے تھے۔ ڈالر کی قیمت کنٹرول میں تھی، سٹاک مارکیٹ اچھا پرفارم کر رہی تھی۔ ترقی کی طرف اقدامات ہو رہے تھے۔ لیکن ان آٹھ ماہ میں سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ حکومت کے پاس اس تباہی کو روکنے کا کوئی حل نظر نہیں آرہا۔ کوئی ایسا فعال منصوبہ جس سے ملک درست سمت پر گامزن ہو ان کے پاس ہے ہی نہیں۔ امید کی کرن کے طور پر مرغیاں، بکریاں اور گائے بھینسیں پیش کی جا رہی ہیں۔ گیس کے ان ذخائر کا ذکر ہو رہا ہے جن کے ملنے کا موہوم سا امکان ہے اور جس کی تلاش کا کام دس سال پہلے شروع کیا گیا تھا۔

حکومت کی اپنی صفوں میں شکست و ریخت واضح نطر آ رہی ہے۔ پنجاب کا تخت لرزہ براندام نظر اتا ہے۔ اتحادی جماعتوں کے اپوزیشن سے رابطے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن چاہے تو کسی وقت بھی نمبر گیم سے بساط پلٹ سکتی ہے۔ تخت پنجاب کبھی بھی اپوزیشن کا ہو سکتا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس ابتر صورت حال میں سوائے اپوزیشن کے ہر شخص اب تبدیلی کو ریورس گئیر میں دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اب یہ ارباب و بست و کشاد کے اختیار میں ہے کہ وہ یہ ریورس گئیر کب لگاتے ہیں۔

ایک بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ یہ صورت حال اسی طرح زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ ہر روز آنے والی تباہی کے سامنے اب بند باندھنا ہو گا۔ ورنہ اس سے معشیت کے علاوہ ملکی وقار، حمیت، اور سالمیت کو بھی خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔ یہ ابتر صورت حال اب سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے۔ ہم تنزلی کی ڈھلوان پر اب زیادہ دیر پھسلنا افورڈ نہیں کرسکتے۔ کسی نہ کسی کو اب کچھ کرنا ہے۔ اپوزیشن جو کسی بھی طرح اس حکومت کی تباہی میں حصہ دار نہیں بننا چاہتی اب زیادہ دیر تک دم سادھے کھڑی نہیں رہ سکتی۔

اس ملکی صورت حال کا حل بہت ضروری ہے۔ اب یہ اپوزیشن پر منحصر ہے کہ وہ اس صورت حال کا حل کیسے نکالتے ہیں۔ اگر اس معاشی، اخلاقی اور سماجی بحران سے ہم کسی جمہوری طریقے سے نکلتے ہیں تو بات بنے گے۔ لیکن اگر اس حکومت کو گرانے کے لئے کوئی غیر جمہوری طریقہ اختیار کیا گیا تو یہ سیاسی شہید بھیانک خواب کی طرح ہمیں ڈراتے رہیں گے۔ اگلے چند ماہ بہت اہم ہیں۔ حکومت کے اندر سے ہی ایک تبدیلی متوقع ہے۔ انہی شعلہ بیان وزراء میں سے کوئی ایک تبدیلی کی گاڑی کو ریورس گئیر لگائے گا۔ یہ ریورس گئیربحالی جمہوریت کی طرف پہلا قدم کہلائے گا۔ ماضی کی غلطیوں کو مٹائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہوا تبدیل ہو چکی ہے
07/04/2019 عماد ظفر




اقتدار کا کھیل سانپ اور سیڑھی کی مانند ہوتا ہے جہاں کب اور کیسے مسند اقتدار پر فائز بزرجمہروں کو ان کی نادانی یا سانپ سیڑھی کا کھیل رچانے والے ڈس لیں بالکل پتا نہیں چلتا۔ ملک میں آج کل بالکل ہی ایک ایسا منظر نامہ تشکیل پاتا جا رہا ہے۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے والی قوتیں ان سے کام لے چکی ہیں۔ عمران خان کے ذریعے پورے سیاسی نظام پر کالک تھوپی گئی اور دانستاً منتخب رہنماؤں کو نیچا دکھایا گیا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی ریاست چلانے کی نا اہلیت کو مقتدر قوتیں بھی پہلے سے جانتی تھیں اور بہت سے نقاد بھی۔

لیکن انہیں اس لئے میدان میں اتارا گیا کہ ایک طرف تو مسلم لیگ نواز کو اس کی نافرمانی کی سزا دی جائے اور دوسری جانب جمہوریت کے نظام سے عوام کو مزید بدظن کیا جائے۔ وہ پیج جس پر حکومت وقت اور مقتدر قوتیں اکٹھا ہونے کا دعوی کرتے تھے اب سرے سے ہی پھاڑ پھینکا گیا ہے۔ پنجاب میں عثمان بزدار کی نا اہل حکومت اور وفاق میں اسد عمر کی ناقص معاشی حکمت عملی نے تحریک انصاف کی حکومت کو چند ماہ کے اندر ہی غیر مقبول بنا دیا ہے۔

ڈالر کی اونچی اڑان ہو یا سونے کے بڑھتی قیمتیں، سوئی گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافہ ہو یا ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، تحریک انصاف کی حکومت کسی بھی مسئلے سے نبرد آزما ہونے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے بھی واضح پیغام دیا جا چکا ہے کہ جب تک پاکستان فنانشلُ ایکشن ٹاسک فورس کو شدت پسند تنظیموں کے مالیاتی امور کے خلاف کارروائی کے حوالے سے مطمئن نہیں کرے گا اس وقت تک آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرضہ فراہم نہیں کیا جائے گا۔

مقتدر قوتیں جتنا زور لگا سکتی تھیں وہ لگا کر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے قرضے کے آئیں اب اس سے آگے ان کے بس میں بھی کچھ نہیں ہے۔ طاقت کی بساط رچانے یا اسے اکھاڑنے کا دارومدار معیشت کے مستحکم ہونے سے مشروط ہوتا ہے اگر معیشت بحران کا شکار ہو جائے تو پھر نہ تو بساط سجانے والے اپنے مہروں کو بچاتے ہوئے دوام بخش سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں مہرے بچانے میں کوئی خاص دلچسپی باقی رہ جاتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو آئے ہوئے یہ آٹھواں ماہ ہے اور اس دوران بڑھتی ہوئے افراط زر اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ وہ جو تحریک انصاف کو اقتدار میں لائے تھے انہیں بخوبی معلوم تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے اور ملک کو دوبارہ ون یونٹ اور صدارتی نظام کی جانب واپس لانے کے لئے تحریک انصاف اور عمران خان سے اچھی اور کوئی کٹھ پتلیاں ہو ہی نہیں سکتی تھیں۔

ایک ایسی جماعت جو ایک منصفانہ ماحول میں منعقد کردہ انتخابات میں خود سے ملک بھر میں پچیس نشستیں بھی جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہو اور جسے پرویز مشرف کی کابینہ اور مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی چھوڑ کر ہر نئے حاکم وقت کی شریعت پر اذانیں دینے والے موسمی پرندوں کی مدد سے قومی اسمبلی میں اکثریت دلوائی گئی ہو وہ خود بھی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ یہ اقتدار میں اس کی پہلی اور آخری باری ہے۔ چنانچہ عمران خان کا سارا دھیان اس وقت نیب کے ذریعے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے اور ان پر مشرف کی مانند جبر کرنے میں صرف ہوتا ہے جبکہ تحریک انصاف کے باقی رہنما سیلفیاں لے کر اور فوٹو سیشن کروا کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔

اس صورتحال میں مقتدر قوتوں نے پہلے بھی ہلکے پھلکے انداز میں کئی بار تحریک انصاف کو مطلع ابر آلود ہونے کی وارننگ دی لیکن اس کا خاطر خواہ اثر اقتدار کے مزے اڑاتی تحریک انصاف پر نہ پڑا۔ جب مقتدر قوتوں کی شہباز شریف کے ساتھ معاملات طے کرنے کی باتیں منظر عام پر آئیں تو وزیراعظم صاحب نے ہلکی سی بڑبڑاہٹ بھی کر ڈالی کہ اگر معاملات ایسے چلانے ہیں تو پھر حکومت بھی مقتدر حلقے خود ہی کر لیں۔ اس بڑبڑاہٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ تمام ٹی وی اینکرز اور ہمارے وہ صحافی ساتھی جو قوم کو یہ یقین دلوانے میں مصروف تھے کہ عمران خان اب دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے گا انہوں نے فورا قبلہ بدلہ اور طنز و تنقید کے نشتر لے کر تحریک انصاف کی حکومت پر چڑھ دوڑے۔

جب محترم عارف حمید بھٹی جیسے افراد ٹی وی پر بیٹھ کر عمران خان کو کوسنے دینا شروع کر دیں اور سونے کی کاروباری شخصیت کا روایتی قصیدہ خواں ٹی وی چینل بھی تحریک انصاف پر بولنا شروع کر دے تو اس کا مفہوم بیحد واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ ہوا اب تبدیل ہو چکی ہے۔

ہمارے ہاں جنوبی پنجاب اور سندھ کے متعدد حلقوں کے الیکٹیبلز اس ہوا کے رخ پر چلنے کو فرض سمجھتے ہیں اس لئے وہ اکثریت جو عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈال کر حاصل کروائی گئی تھی اس کو ختم ہونے میں کچھ دیر نہیں لگے گی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بدلتے ہوئے تیور بھی اس بات کی تصدیق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی گھاگ اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور وہ عرصہ دراز سے مقتدر قوتوں کی توجہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش میں مگن ہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ نواز اس وقت لب سی کر شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست کی کامیابی کی دعائیں مانگتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے حالات میں جب یہ جماعت اپنے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے پیچھے ہٹ چکی ہے اس کو چھیڑ کر یعنی حمزہ شہباز کے گھر پر نیب کا چھاپہ ڈلوانا اور پھر شہباز شریف پر آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کے نئے مقدمات قائم کرنا صاف بتاتا ہے کہ اب عمران خان اپنی جان چھڑوانا چاہتے ہیں اور سیاسی شہید بننے کے چکر میں ہیں۔ دوسری جانب آصف زرداری حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا عندیہ دے چکے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمان نے بھی حال میں ہی اسلام آباد دھرنا دینے کا اشارہ دیا ہے

شنید ہے کہ مولانا فضل الرحمان سے مقتدر حلقوں کی دوری آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے۔ یعنی بات اب کچھ یوں ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت چاہتی ہے کہ مقتدر حلقے یا اپوزیشن اس کی چھٹی کروا دیں اور وہ اپنی نا اہل حکمرانی کے طوق سے چھٹکارہ پا سکے جبکہ مقتدر قوتیں چاہتی ہیں کہ تحریک انصاف کو نکالنے کا کام اپوزیشن سرانجام دے۔ لیکن اپوزیشن میں نواز شریف، محمود خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حکومت کو ہرگز بھی نہیں گرانا کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت خود اپنے نعروں اور دعووں کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے۔ یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے کیونکہ بہت سے اپوزیشن کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ انہیں تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کے لئے استعمال کر کے ُ مشرف کی ایمرجنسی پلس جیسا کوئی وقتی سیٹ آپ لایا جا سکتا ہے جو بعد میں صدارتی نظام میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

راقم نے گزشتہ برس ہی تحریر کیا تھا کہ بند کمروں میں ایجاد ہونے والی ڈاکٹرائنیں نمو کی قوت سے محروم ہوتی ہیں کیونکہ ان کی جڑوں میں اجتماعی عقل و فہم کا فقدان ہوتا ہے جبکہ عوام میں جڑ پاتے بیانیے ہمیشہ مضبوط ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کی بنیادوں میں اجتماعی فہم کا جز شامل ہوتا ہے۔ اگر بند کمروں میں فروغ پاتی ڈاکٹرائن میں نمو کی قوت موجود ہوتی تو ایوب خان، یحی خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کو پسپائی اختیار نہ کرنی پڑتی۔ اگر اب بھی مقتدر حلقے اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مصنوعی طریقے سے یہ نطام اور ریاست نہیں چل سکتے اور پھر سے صدارتی نظام یا ایمرجنسی پلس جیسی کوئی چیز متعارف کروانا چاہتے ہیں تو ہم بتدریج آگے بڑھنے کے بجائے سن پچاس اور ساٹھ کی دہایوں کی جانب واپسی کا سفر جاری رکھیں گے۔

رہی بات تحریک انصاف کی تو بے رحم ہوا کے تھپیڑے کنونشن لیگ، اصغر خان، اور قاف لیگ کی مانند اسے بھی سیاست کے دشت اور تاریخ کے اوراق میں کہیں گم کرنے کے لئے پر تولے بیٹھے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ووٹ دینے اور گننے والے پریشان ہیں کہ ایسا کیسے چلے گا؟
10/04/2019 سلیم صافی


اس میں کوئی شک نہیں کہ اسد عمر ذہین ترین انسان ہیں لیکن بدقسمتی سے ساری ذہانت صرف اور اپنی صرف اپنی ذات اور اس کی مارکیٹنگ کے لئے بروئے کار لارہے ہیں۔ خوش لباسی اور خوش شکلی کے ساتھ خوش گفتاری کا تڑکہ لگا کر گفتگو ایسی کرتے ہیں کہ منٹوں میں مخاطب ان کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ چونکہ مارکیٹنگ کے میدان کے شہسوار ہیں اس لئے گیدڑ کو شیر اور بکری کو اونٹ ٖبنا کر بیچ سکتے ہیں۔ فوجیوں کے ساتھ فوجی، سیاستدانوں کے ساتھ سیاستدان، مولویوں کے ساتھ مولوی، لبرلز کے ساتھ لبرل، جہادیوں کے ساتھ جہادی اور میڈیا والوں کے ساتھ میڈیا پرسن بن جاتے ہیں۔

وہ پی ٹی آئی کی سوچ اور نظریے کے حامی تھے اور نہ عمران احمد خان نیازی سے متاثر۔ ورنہ تو تحریک انصاف کے قیام کے بعد اس میں شامل ہوجاتے لیکن جب انہیں پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا تو اپنی ایسی مارکیٹنگ کرادی کہ جیسے جنرل حمید گل مرحوم نے نہیں بلکہ انہوں نے عمران خان کو سیاست کا راستہ دکھایا اور ڈاکٹر فاروق خان مرحوم نے نہیں بلکہ انہوں نے پی ٹی آئی کا دستور تخلیق اور تحریر کیا ہو۔ جہانگیر ترین پیسہ لٹا رہے تھے اور شاہ محمود قریشی کے پاس ووٹ اور تجربے کی دولت تھی۔

اسد عمر ان میں سے کسی صفت کے حامل نہیں لیکن صرف زبان کی طاقت اور درپردہ سازشوں کے ذریعے اپنے آپ کو پارٹی میں ان کا ہم پلہ بنایا۔ کراچی جہاں وہ رہتے ہیں، میں شاید یونین کونسل بھی نہیں جیت سکتے لیکن عمران خان اور ان کے سرپرستوں سے اپنے آپ کو اسلام آباد سے رکن اسمبلی منتخب کروایا۔ عمران خان کے ہاں اپنی اہمیت اس بنیاد پر بڑھاتے رہے کہ ان کے سرپرستوں کے ساتھ قربت ہے اور سرپرستوں کو یہ باور کرا کر اپنی اہمیت بڑھاتے رہے کہ عمران خان ان کی مٹھی میں بند ہے۔

حامی تو کیا عمران خان کے اچھے بھلے نقاد بھی ان کو ماہر معیشت اور پی ٹی آئی کا افلاطون سمجھنے لگے۔ چنانچہ پوری قوم انتظار میں بیٹھی تھی کہ کس دن وزارت خزانہ کا قلمدان اس افلاطون کے ہاتھ میں آئے تاکہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوں۔ البتہ صرف تین بندے کسی غلط فہمی کا شکار نہیں تھے۔ جہانگیر ترین، شیریں مزاری اور تیسرا یہ طالب علم۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ جہانگیر ترین معیشت کو اسد عمر سے بہتر سمجھتے ہیں اور بہت پہلے سمجھ گئے تھے کہ یہ شخص اگر نہیں سمجھتا تو معیشت کو نہیں سمجھتا۔

اس لئے وہ کافی عرصہ سے خلوتوں میں عمران خان کو بھی سمجھاتے رہے کہ اس بندے کی باتوں میں نہ آنا۔ شیریں مزاری کا میں اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ چند سال قبل انہوں نے ایک نشست میں مجھے اور عرفان صدیقی صاحب کو گھر بلا کر کافی لمبا لیکچر دیا تھا کہ اسد عمر اندر سے کیا ہیں اور پھر اپنی رائے کی تائید میں مجھے اینگرو اور ان کے معاملات سے متعلق کچھ ای میل بھی بھجوائی تھیں۔ اسی طرح میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے چند سال قبل اسد عمر کو سمجھنے کا موقع ملا تھا اور میں اس نتیجے تک پہنچا تھا کہ یہ شخص ماہر معیشت نہیں بلکہ میکاولی اور چانکیا کے فلسفے پر عمل پیرا سیاستدان ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ماہر معیشت کے طور پر پیش ضرور کرتے ہیں لیکن اصلاً مارکیٹنگ کے میدان کے آدمی ہیں اور مارکیٹنگ کرتے ہوئے بھی ان کی توجہ پروڈکٹ پر نہیں بلکہ اپنی ذات کی مارکیٹنگ پر ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے وزیر خزانہ بننے کے بعد بھی ان کی توجہ صرف اور صرف اپنی ذات کی مارکیٹنگ کرنے پر مرکوز رہی اور چونکہ خود کو مسیحا ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ وہ پاکستانی معیشت کا ایسا نقشہ پیش کریں کہ جیسے وہ تو ڈوب رہی تھی لیکن اس مسیحا نے آکر اسے بچا لیا۔ چنانچہ وزیر خزانہ بننے کے بعد وہ پاکستانیوں اور دنیا کو بتاتے رہے کہ پاکستانی معیشت کا بیڑہ ہر حوالے سے غرق ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے اندر بھی پاکستانی معیشت پر سے لوگوں کا یقین اٹھنے لگا اور باہر بھی۔

وزیراعظم کو یہ پٹی بھی شاید انہوں نے پڑھائی کہ انٹرنیشنل فورمز پر جا کر اپنے لوگوں کو کرپٹ ترین اور اپنی معیشت کو تباہ حال قرار دیتے رہیں۔ چنانچہ عالمی اداروں کا اعتماد بھی مجروح ہوا اور ملکی و بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا بھی۔ پہلے دن سے آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے تو بے یقینی کی کیفیت ختم ہو جاتی۔

اب آٹھ ماہ بعد ہمارے افلاطون بتارہے ہیں کہ معیشت آئی سی یو سے نکل کر وارڈ میں منتقل ہو گئی حالانکہ الٹا قوم معاشی حوالوں سے وارڈ سے آئی سی یو میں چلی گئی۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کا قد اتنا بلند ہو گیا جتنا کہ شیریں مزاری کے مقابلے میں اسد عمر کا ہے۔ خراب ہوتی معیشت کی وجہ سے کابینہ کے ایک اجلاس میں فواد چوہدری ان سے لڑ پڑتے ہیں تو دوسرے میں فیصل واوڈا۔ میں تو معیشت کو نہیں سمجھتا لیکن شاید اسد عمر سے زیادہ سمجھتا ہوں کیونکہ میں بھی محسوس کر رہا ہوں کہ معیشت تباہ ہو رہی لیکن ان کی نظروں میں بہتر ہورہی ہے۔

میرے گھر کے سوئی گیس کا بل کبھی چار ہزار سے زائد نہیں آیا لیکن گزشتہ ماہ میں نے 37 ہزار اور اس ماہ 28 ہزار کا بل جمع کروایا۔ جو دوائی میں دو سو کی خریدتا تھا وہ اب میں تین سو پچاس کی خرید رہا ہوں۔ ان حالات میں کیسے کہوں کہ معیشت بہتر ہورہی ہے۔ ان حالات میں معیشت کو بہتر قرار دینے کے لئے عمران خان کا حوصلہ اور اسد عمر کی زبان چاہیے اور ظاہر ہے میرے پاس یہ دونوں نہیں۔ اسد عمر کے سوا ملک میں کوئی ماہر معیشت نہیں کہ جسے معیشت ڈوبتی نظر نہ آرہی ہو۔

پہلے ایشین ڈولپمنٹ بینک نے گواہی دی اور اب اس پر عالمی بینک نے مہر تصدیق ثبت کر دی کہ پاکستان کی معیشت بہتری نہیں بلکہ ابتری کی طرف جا رہی ہے۔ مکرر عرض ہے کہ میں معیشت کو نہیں سمجھتا لیکن اتنا سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر فرخ سلیم جیسے لوگ معیشت کو اسد عمر سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ہم جیسے پی ٹی آئی کے نقاد بھی نہیں۔ گزشتہ پانچ سال انہوں نے عمران خان صاحب کو اقتدار میں لانے اور مسلم لیگ (ن) کو ملک کی تباہی کا ذمہ دار ثابت کرانے میں اسد عمر سے بھی زیادہ حصہ ڈالا۔

ان خدمات کی بنیاد پر ہی اسد عمر نے ڈاکٹر صاحب کو اپنی وزارت کے لئے ترجمان مقرر کیا تھا لیکن اب ان کا تجزیہ کیا ہے؟ اس کی ایک جھلک گزشتہ ہفتے روزنامہ ”دی نیوز“ میں ”Is it wroking“ کے زیرعنوان ان کے آرٹیکل میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر فرخ سلیم لکھتے ہیں کہ اگست 2018 میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت دس ارب ڈالر تھی۔ دوست ممالک سے قرض لینے کے بعد وہ پندرہ ارب ڈالر ہونا چاہیے تھی لیکن اس کی مالیت الٹا کم ہوکر 8.1 ارب ڈالر رہ گئی۔

اسی طرح اگست 2018 میں گردشی قرضہ 1.1 کھرب تھا جو اب 1.4 کھرب ہو گیا یعنی پی ٹی آئی حکومت نے اس میں 137 دنوں میں 260 ارب کا اضافہ کیا۔ اسی طرح جولائی تا جنوری 2018 کے درمیانی عرصہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری 4.1 ارب ڈالر تھی جو جولائی تا جنوری 2019 میں کم ہو کر ایک ارب ڈالر رہ گئی۔ اسی طرح پی پی کی حکومت روزانہ پانچ ارب روپے قرض بڑھا رہی تھی۔ مسلم لیگ (ن) اس میں روزانہ 7.7 کے حساب سے اضافہ کررہی تھی لیکن اب پی ٹی آئی کی حکومت روزانہ 14 ارب روپے قرض لے رہی ہے۔

تبھی تو میں عرض کررہا ہوں کہ ووٹ دینے والے حیران اور گننے والے پریشان ہیں۔ کیونکہ سب سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ ایسا کیسے اور کب تک چلے گا؟
بشکریہ جنگ۔
 

جاسم محمد

محفلین
میرے گھر کے سوئی گیس کا بل کبھی چار ہزار سے زائد نہیں آیا لیکن گزشتہ ماہ میں نے 37 ہزار اور اس ماہ 28 ہزار کا بل جمع کروایا۔ جو دوائی میں دو سو کی خریدتا تھا وہ اب میں تین سو پچاس کی خرید رہا ہوں۔ ان حالات میں کیسے کہوں کہ معیشت بہتر ہورہی ہے۔ ان حالات میں معیشت کو بہتر قرار دینے کے لئے عمران خان کا حوصلہ اور اسد عمر کی زبان چاہیے اور ظاہر ہے میرے پاس یہ دونوں نہیں۔ اسد عمر کے سوا ملک میں کوئی ماہر معیشت نہیں کہ جسے معیشت ڈوبتی نظر نہ آرہی ہو۔
سرکاری سبسڈیز اور مراعات ختم ہو جانے کا لفافوں نے آجکل یہ مطلب نکالا ہوا ہے کہ معیشت ڈوب رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ملک مزید بیڑہ غرق ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا
10/04/2019 عارف نظامی


نیب کو گزشتہ چند ہفتوں میں ”شریفوں“ کا مکو ٹھپنے کی کارروائیوں میں تین بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی احتساب بیورو جو ناقدین کے مطابق اب ایسے طرزعمل کا مظاہرہ کر رہا ہے جس سے احتساب سے زیادہ انتقام کی بو آتی ہے۔ نیب کے تمام تر پاپڑ بیلنے کے باوجود چیف جسٹس آف پاکستان نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو جو کوٹ لکھپت جیل میں سزا کاٹ رہے تھے علاج کی خاطر چھ ہفتے کے لیے ضمانت پر رہا کر دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق تسلی سے علاج کرا سکیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے دیا۔ جی ہاں! یہ وہی جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں جنہوں نے پاناماکیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ ہونے کے ناتے سے نواز شریف کو مافیا ڈان سے تشبیہ دی تھی۔ اس معاملے میں وزیراعظم سمیت حکمران جماعت تحریک انصا ف کا رویہ بھی دلچسپ ہے۔ ایک طرف تو اس کے تر جمان ہر فورم پر رطب اللسان رہتے ہیں کہ ہما را احتساب کے عمل سے کو ئی تعلق نہیں، یہ یکسر آزاد ہے لیکن دوسری طرف یہ رٹ بھی تسلسل سے لگائی جا رہی ہے کہ چور ہیں، خائن ہیں، پکڑلو، بچنے نہ پائیں، زرداری، نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کا مقدر جیل ہے۔

نوازشریف کی ضمانت پر رہائی کے فیصلے پر ان پر ’نہ جا ئے ماندن نہ پائے رفتن‘ کی کیفیت طاری تھی۔ ’پاناما گیٹ‘ کے موقع پر جس عدلیہ کی واہ واہ ہو رہی تھی اب اسی کو مطعون کیا جا رہا ہے۔ نیب کی دوسری بڑی پسپائی سابق وزیر اعلیٰ پنجاب، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی گرفتاری میں ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ جمعہ کو ایسے لگ رہا تھا کہ نیب حمزہ شہباز شریف کو گرفتار کرنے نہیں بلکہ ان کی اقامت گاہ کو فتح کرنے آئی تھی۔

پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ احتساب بیورو کے اہلکار سیڑھیاں لے کر آئے تھے تاکہ گھر میں گھس کر پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو پکڑا جا سکے۔ حمزہ کا استدلال تھا کہ انہیں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق گرفتار کرنے سے دس روز پہلے بتانا ضروری ہے۔ اس محاذ آرائی کے دوران مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے نیب اہلکاروں کو زدوکو ب کرنے کی بھی کوشش کی، بہرحال پہلے روز پسپائی کے بعد اگلے روز ہفتے کو نیب دوبارہ براجمان ہو گئی۔

اس بار حمزہ کو چیف جسٹس لاہور ہا ئیکورٹ سے پیر تک عبوری ضمانت مل گئی جس روز جسٹس شہزاد احمد ملک کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے 17 اپریل تک ان کی ضمانت منظور کرلی۔ جب حمزہ شہباز نیب عدالت میں پیش ہو رہے ہیں تو انھیں زبردستی گرفتار کرنا چہ معنی دارد؟ ویسے بھی نیب کی دسترس سے کسی بھی سیاستدان کا بچنا بکرے کی ماں کب تک خیرمنائے گی کے مترادف ہے۔ قریباً ہر ملزم پر ایک ہی کیس بنایا جا رہا ہے کہ اس کے اثاثے ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں۔

ایک کیس میں ناکامی کے بعد دوسرا کیس بنا دیا جاتا ہے۔ نیب کی تیسری پسپائی قائد حزب اختلاف میاں شہبازشر یف کا نام ای سی ایل سے ہٹایا جانا ہے۔ پیپلزپا رٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور منی لانڈرنگ کے کیسز میں ضمانت پر ہی گزارا کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کے کئی پہلو ہیں۔ اس امر کے باوجود کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نیب بالکل آزاد ہے، سیاسی حلقوں میں غلط یا صحیح طور پر یہ تاثر جا گزین ہو چکا ہے کہ سب کچھ حکمرانوں کی ہدایت پر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاسی انجینئرنگ کے لیے ہو رہا ہے۔

ایک تاثر یہ ہے کہ آصف زرداری اینڈ کو پر عرصہ حیا ت تنگ کرنے کے ساتھ سا تھ شہباز شریف کے بارے میں رویہ نسبتا ً نرم رکھا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس بات پر سخت سیخ پا تھے کہ نواز شریف کی کیونکر ضمانت ہو گئی لیکن نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں حکومت یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ خدانخواستہ میاں نواز شر یف کی صحت مزید دگرگوں ہو گئی تو ذمہ داری حکومت پر ڈال دی جائے گی۔

بلاول بھٹو کے ’کاروان بھٹو‘ ٹر ین ما رچ اور اس دوران شعلہ نوا تقریریں جن میں انھوں نے حکومت کے علاوہ بلا واسطہ طور پر مقتدر حلقوں کو بھی رگڑا لگایا۔ عمران خان اندرون سندھ جی ڈی اے کے سا تھ مل کر پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں دراڑیں ڈالنے کی کو شش کر رہے ہیں اور شہری سندھ میں ایم کیو ایم کے انہی رہنماؤں جنہیں وہ پہلے دہشت گرد قرار دیتے تھے لیکن وہ اب ڈرائی کلین ہو کر راتوں رات محب وطن بن گئے ہیں۔ وہ اب ان کی کابینہ کا حصہ ہیں اور ان کے سا تھ مل کر اگلے انتخابات کے انتخابی میدان میں اترنے کاعندیہ دے رہے ہیں۔

اس پس منظر میں آصف زرداری اور بلا ول بھٹو کو للکارا بھی جا رہا ہے کہ آ ؤ ’ہمت ہے تو تحریک چلاؤ۔ وزیر اطلاعا ت فواد چودھری پیپلز پارٹی کی طرف سے سندھ کارڈ استعمال کر نے کے امکان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ نہ جانے کیوں تحریک انصاف کے نادان مشیر ملکی سالمیت سے کھلواڑ کرنے والے ایسے نعروں کو تقویت دے رہے ہیں۔ تاحال پیپلز پارٹی کے سٹیج سے تو سندھ کارڈ کی کو ئی دھمکی نہیں دی گئی۔ جیسا کہ ہمارے سیا سی کلچر میں ہر بات اور اقدام کے پس منظر میں سازش ہونے کی بو سونگھ لی جاتی ہے۔

اسی طرح یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حمزہ شہبازپر تازہ یلغار دراصل شہباز شریف کے گرد بلاواسطہ گھیرا تنگ کرنے کی کوشش ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق چونکہ شہباز شریف روز اول سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے اور بڑے بھائی کے سامنے بھی ہاتھ جوڑتے رہے کہ حضور والا! فوجی قیادت سے پنگا مت لیں، بعد از خرابی بسیار بڑے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی برادر خورد کے موقف کے قائل ہو گئے، انہوں نے چپ سادھ رکھی ہے لیکن میاں شہباز شریف کو بھی تحریک انصاف سیاسی طور پر اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے کیونکہ میاں نوازشریف کے سیاسی طور پر راستے سے ہٹ جانے اور عمران خان کو ڈس کریڈٹ کرنے کے بعد انھیں آگے لایا جا سکتا ہے۔

اسی قسم کی بوالعجبیوں کی بنا پر نیب کو آزاد اور خو دمختار نہیں سمجھا جاتا اور تاثر یہ ہے کہ اس کی طنابیں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔ اس پس منظر میں اکانومی جو وزیر خزانہ اسد عمر کی شیخی کے باوجود کہ معیشت انتہائی نگہداشت کے وارڈ سے نکل کر جنرل وارڈ میں آ گئی ہے اور اب ستے خیراں ہیں عملی طور پر انتہائی مخدوش ہے اور ورلڈ بینک سمیت تمام عالمی مالیاتی ادارے کہہ رہے ہیں کہ اگلے دو برس تک معیشت مزید خراب ہوگی، پیداوار کم اور مہنگائی کا بوجھ بڑھے گا، عالمی بینک نے بھی حال ہی میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ سے بھی زیادہ معیشت کی گھمبیر ترین صورتحال پیش کر دی ہے۔ اس صورتحال میں حکمرانوں کو کرپشن کرپشن کی رٹ لگانے سے زیادہ اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ خدا نخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں اور ملک کا مزید بیڑہ غرق ہو جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس پس منظر میں اکانومی جو وزیر خزانہ اسد عمر کی شیخی کے باوجود کہ معیشت انتہائی نگہداشت کے وارڈ سے نکل کر جنرل وارڈ میں آ گئی ہے اور اب ستے خیراں ہیں عملی طور پر انتہائی مخدوش ہے اور ورلڈ بینک سمیت تمام عالمی مالیاتی ادارے کہہ رہے ہیں کہ اگلے دو برس تک معیشت مزید خراب ہوگی، پیداوار کم اور مہنگائی کا بوجھ بڑھے گا، عالمی بینک نے بھی حال ہی میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ سے بھی زیادہ معیشت کی گھمبیر ترین صورتحال پیش کر دی ہے۔ اس صورتحال میں حکمرانوں کو کرپشن کرپشن کی رٹ لگانے سے زیادہ اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے
گھر ٹھیک کر رہے ہیں اسی لئے تو معیشت گر رہی ہے۔ وگرنہ مزید بیرونی قرضے چڑھا کر معیشت بہتر کرنا کونسا مشکل کا م تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
متبادل کی تلاش
17/04/2019 سلیم صافی



آپ کس کس اسد عمر کو بدلیں گے، یہاں تو ہر کونے میں اسد عمر بیٹھا ہے۔ اس صدر مملکت کا کیا کریں جو فرمایا کرتے تھے کہ ایوان صدر میں نہیں رہیں گے لیکن اب اس کی تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے اڑانے کے بعد کبھی مشاعروں پر کروڑوں روپے اڑاتے ہیں تو کبھی ان کی اہلیہ پُر تعیش دعوتوں کا اہتمام کرتی نظر آتی ہیں۔

ممنون حسین کی طرح کام ان کا کوئی نہیں لیکن پروٹوکول اور سیکورٹی کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کنونشن سینٹر میں اس وجہ سے امام کعبہ کی تقریب میں سعودی مہمانوں کو دھکے کھانا پڑے اور علمائے کرام تک کو ہال سے باہر رہنا پڑا۔

شروع میں نمائش کے لئے کبھی ائرپورٹ پر قطار میں کھڑے ہو کر اور کبھی بنچ پر لیٹ کر تصاویر بنوانے کی ڈرامہ بازی کرتے رہے لیکن اب ان کی شان ہی نرالی ہو گئی ہے۔

وزیراعظم جب وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے اور وہاں پر موجود بھینسوں کی نیلامی کا ڈرامہ کر رہے تھے تو ہم چیخ رہے تھے کہ ایسا نہ کیا جائے کیونکہ غیر ملکی مہمانوں کی آمد کی صورت میں اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن اس وقت چونکہ دکھاوا مقصود تھا، اس لئے اس گھر کے باتھ روموں تک کی ویڈیوز دکھا کر اعلان کیا گیا کہ اس کو یونیورسٹی بنا دیا جائے گا لیکن پھرجب محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر آرہے تھے تو یہ سوال در پیش ہوا کہ ان کو گارڈ آف آنر کہاں دیا جائے اور انہیں کہاں ٹھہرایا جائے۔

چنانچہ یوٹرن لے کر وزیراعظم ہائوس کی تزئین و آرائش کا کام شروع ہوا اور اس پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے۔ اب ایک تو اس کی ہر چیز حقیقی معنوں میں شاہانہ بن گئی اور دوسرا محمد بن سلمان نے اپنے جم کے سامان کو یہاں پر چھوڑ دیا۔ چند روز قبل وزیراعظم نے وزیراعظم ہائوس کا دورہ کیا اور جب عالی شان باتھ رومز اور جم کا شاہانہ سامان دیکھا تو ان کا دوبارہ وہاں منتقل ہونے کے لئے دل مچلنے لگا۔

جب وزیراعظم سیکرٹریٹ میں آگ کا بہانہ مل گیا تو اسی روز وہاں منتقل ہو گئے۔ کابینہ کا اجلاس بھی اگلے روز وہاں طلب کیا گیا لیکن جب میں اس یوٹرن کو سامنے لے آیا تو اگلے روز پھر میٹنگز کے لئے سیکرٹریٹ منتقل ہو گئے تاہم یہاں یونیورسٹی کا خیال ہمیشہ کے لئے دفن ہوتا نظر آرہا ہے۔

غرض نادیدائوں کی ایک فوج ہے جو تبدیلی کے نام پر ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ چند روز قبل وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے درجنوں کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر بیان داغ دیا کہ عافیہ صدیقی کے معاملے پر چند روز میں قوم کو خوشخبری مل جائے گی حالانکہ طالبان اور امریکہ کے مذاکرات میں عافیہ صدیقی کے موضوع پر کوئی بات ہوئی ہے اور نہ ہو گی۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ عافیہ صدیقی پاکستانی ہیں اور ان پر القاعدہ سے تعلق کا الزام ہے۔ امریکہ اور طالبان کا ابھی تک صرف جس نکتے پر اتفاق ہوا ہے، وہ امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کا غیر افغان عناصر سے ہر طرح کا تعلق توڑنے کا نکتہ ہے۔ یوں وہ عافیہ صدیقی جو غیرافغان ہے، کا موضوع زیر بحث ہی نہیں لا سکتے۔

ایک اور رکاوٹ یہ ہے کہ عافیہ صدیقی گوانتا نامو بے یا بڈگرام میں نہیں، جن پر امریکی عدالتوں کا اختیار نہیں بلکہ انہیں امریکی عدالت سے سزا دلوائی گئی ہے۔ وزیر موصوف کے بیان کے بعد میں نے وزارت خارجہ اور امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا تو ان کی طرف سے بتایا گیا کہ عافیہ کے موضوع پر ان دنوں کوئی پیش رفت ہوئی ہے اور نہ ہو رہی ہے۔

میں حیران تھا کہ یہ دعویٰ وزیر صاحب نے کس بنیاد پر کیا ہے؟ اور جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ انہوں نے صرف اخبار میں سرخی لگانے اور لوگوں کو خوش کرنے کے لئے یہ دعویٰ کیا۔

وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی جو ان دنوں وزیر داخلہ کم اور خطیب یا ذاکر زیادہ دکھائی دیتے ہیں، تین دن کی تاخیر کے بعد ہزارہ کمیونٹی کے دھرنا دینے والے مظلوموں کی خبر گیری کے لئے جب کوئٹہ تشریف لے گئے تو خطاب کا جادو جگاتے ہوئے کہنے لگے کہ وزیراعظم نے ایران کے صدر ہاشمی رفسنجانی سے تفصیلی بات کی۔ حالانکہ ایران کے سابق صدر رفسنجانی کب کے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔

وزرا صرف ان تماشوں میں مصروف ہیں لیکن اہم فیصلے جہانگیر ترین اور ندیم بابر جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ وہاں اسد عمر واشگٹن میں آئی ایم ایف سے قرضے کی بھیک مانگ رہے ہیں اور یہاں یہ دونوں حضرات اس سے ملنے والی رقم سے سرکولر ڈیٹ کے ذریعے استفادے کی تیاریوں میں لگے ہیں۔

اصل حکومت کچھ اور لوگ چلا رہے ہیں ۔ بنی گالہ اور وزیراعظم سیکرٹریٹ پراسرار اور غیرمنتخب لوگوں سے بھر گئے ہیں۔ ایک طرف وزیراعظم کے ذاتی دوست اور خدمتگار ہیں۔ دوسری طرف ان ذاتی دوستوں کے دوست اور خدمتگاروں کے خدمتگار ہیں۔ پھر مختلف سرمایہ داروں اور کمپنیوں کے نمائندے ہیں جو تبدیلی لانے کے لئے اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔

کوئی حکومتی عہدہ لے چکا ہے تو کوئی کسی بورڈ کا ممبر بن گیا ہے۔ گزشتہ کالم میں میں نے خیبر پختونخوا میں دس ڈیفکٹو وزرائے اعلیٰ کا ذکر کیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مرکز میں ہر محکمے اور ادارے کے درجنوں مختار بن گئے ہیں۔ وزیراعظم نے مسلم لیگ(ق) کے خالق اور پرویز مشرف کے دست راست بریگیڈئر(ر) اعجاز شاہ کو نیشنل سیکورٹی ایڈوئزر لگانا چاہا۔

ان سے وعدہ کیا تھا۔ ان کے لئے دفتر بھی تیار ہوا۔ نوٹیفکیشن بھی تیار تھا لیکن اچانک انہیں ایک کال آئی اور انہیں اس اقدام سے یوں کہہ کر روک دیا گیا۔ چنانچہ وزیراعظم نے اعجاز شاہ سے معذرت کر لی لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ انہیں کہاں کھپایا جائے۔ چنانچہ انہیں پارلیمانی امور کا وزیر بنا دیا گیا اور اب انہیں وزیر داخلہ بنانے پر غور ہو رہا ہے۔

گویا نئے پاکستان میں کام کے لئے بندہ نہیں بلکہ بندے کے لئے کام ڈھونڈا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تبدیلی لانے والے صرف چند ماہ بعد متبادل ڈھونڈنے لگ گئے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

جاسم محمد

محفلین
جناب عمران خان! کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا
16/04/2019 سید مجاہد علی



وزیر اعظم اور ان کے وزرا کا بیشتر وقت سیاسی مخالفین کی کرپشن کا پردہ فاش کرنے کے علاوہ یہ یقین دلانے پر صرف ہوتا ہے کہ حالات پر قابو پا لیا گیا ہے اور اب ہم استحکام کی طرف جا رہے ہیں۔ خاص طور سے وزیر خزانہ اسد عمر نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اورمعیشت کے بارے میں نت نئی خبروں کے جلو میں تسلسل سے معیشت کو آئی سی یو سے نکال کر عام وارڈ میں داخل کرنے کی جو مثال دی ہے، وہ معنی خیز ہے۔ پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس بات کی تصدیق کرنا ضروری سمجھا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کو یہ باور کروانے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ تحریک انصاف معاملات کو سمجھنے اور درست سمت میں لانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ اس لئے ایک کورس کی صورت میں ایسے بیانات سماعت سے ٹکراتے رہتے ہیں کہ مشکلات پر قابو پا لیا گیا ہے۔

تاہم حکومت کی ان کاوشوں کا ایک سادہ سا جواب ہے کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ یہ بیانیہ بھی درست نہیں کہ یہ حکومت اس سے پہلے آنے والی حکومتوں سے مختلف ہے۔ نہیں یہ حکومت بھی مختلف نہیں ہے۔ اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ نیا پاکستان ایک ایسا خواب تھا جو ایک فرد کی حرص اقتدار سے شروع ہو کر اس کی کم نگاہی اور کم عقلی پر ختم ہو جاتا ہے۔ عمران خان کے پاس نہ کبھی حکومت کرنے کا کوئی منصوبہ تھا اور نہ ہی انہوں نے پاکستان کو درپیش داخلی و خارجی، معاشی و سیاسی اور سماجی و معاشرتی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی۔

انہوں نے پاکستان کی زبوں حالی کے لئے ایک افسانہ تراشا اور اسے بیان کرتے کرتے وہ اس کی سچائی پر یقین کرنے لگے۔ اور اب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سابقہ حکومتوں اور دو خاندانوں کی کرپشن کو ہی ملک کے گوناں گوں مسائل کی واحد وجہ قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ ملک کا بچہ بچہ اس بات پر ایمان لے آئے۔ اسی لئے وزیر اطلاعات نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ملک کے مسائل کی وجہ یہ ہے کہ شریف اور زرداری خاندان قومی وسائل لوٹ کر لے گئے ہیں۔ اگر یہ دونوں خاندان ملک کی دولت واپس کردیں تو ہمارے مسائل فوری طور سے ختم ہو جائیں گے۔

یہ بیانیہ اس قدر تواتر سے سنایا اور بیان کیا جا رہا ہے کہ بعض لوگ واقعی سوچنے لگے ہیں کہ ضرور اس میں کوئی سچائی ہوگی۔ بعض اس ایک نکتے پر کھڑی حکومت کی سیاسی، انتظامی اور اقتصادی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے سمجھنے لگے ہیں کہ حکومت ملک کے حالات سنبھالنے کے قابل نہیں ہے۔ جبکہ عوام کے علاوہ خواص کی اکثریت سوال کر رہی ہے کہ اب کیا ہو گا؟ یہ اب کیا ہو گا دراصل حکومت کی نا اہلی اور ڈیلیور نہ کرنے میں مکمل ناکامی پر حیرت و استعجاب کے علاوہ اس پریشانی کا اظہار بھی ہے کہ عوام نے ووٹوں اور اسٹبلشمنٹ نے بھرپور تائید کے ذریعے اپنی امیدوں کے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیے تھے۔ امیدوں کی اس ٹوکری کا نام عمران خان یا تحریک انصاف تھا۔ اب اس فیصلہ پر دونوں اپنی اپنی جگہ حیران و پریشان ہیں۔

حیرت ہے کہ عمران خان ذاتی طور پر یا سربراہ حکومت کے طور پر اس حیرانی کو سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے بعض ساتھیوں کو اگر اس صورت حال کا اندازہ ہے تو وہ بھی زبان دانتوں میں دبائے ہوئے ہیں۔ بظاہر کابینہ کے اجلاسوں کے دوران یا پارٹی کے اندر صورت حال کو سمجھنے اور اسے تبدیل کرنے کا کوئی اشارہ سامنے نہیں آیا۔ اس کی ایک وجہ عمران خان کا جمہوری سے زیادہ مطلق العنانیت پر مبنی رویہ بھی ہو سکتا ہے۔

وہ نہ کسی کو خود سے بہتر اور عقل مند سمجھتے ہیں اور نہ ان کے خیال میں کوئی دوسرا کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اختیارات کے ارتکاز کے جو مباحث گزشتہ کچھ عرصہ سے سننے میں آرہے ہیں، ان کی متعدد دوسری وجوہات بھی ہوں گی لیکن ان میں ایک بنیادی وجہ یہ سچائی بھی ہے کہ عمران خان اس ملک کے وزیر اعظم ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اس قوم کے مسیحا کے طور پر روانہ کیا ہے۔ اس لئے وہ مشوروں اور اصلاح سے ماورا ہیں۔ ان کی بات کاٹنے والا ہر شخص ان کا ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کا بھی دشمن ہے۔

عمران خان کے قریب ترین لوگوں کی طرف سے ملک کے پارلیمانی نظام سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صدارتی نظام نافذ کرنے کی بحث، وزیر اعظم کی خواہش اور ضرورت سے قریب تر ہے۔ اس شدید خود پسندی نے عمران خان کو تنہا اور ناقابل اصلاح بنا دیا ہے۔ وہ جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے جمہوری طریقے سے ہی ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں لیکن وہ اس وقت ملک کے جمہوری نظام کے لئے سب سے بڑے خطرے کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

پہلی صورت میں وہ موجودہ پارلیمانی نظام کو لپیٹ کر حکمرانی کا ایسا خودمختارانہ تصور سامنے لانے کے خواہشمند ہیں جس میں کوئی بھی حکمران سے کوئی سوال نہ کر سکے۔ یہ طریقہ ملک کے سیاسی تاریخی پس منظر، ضرورتوں اور صوبوں کے درمیان اختیار کی تقسیم کے اصول سے متصادم ہو گا۔ لیکن عمران خان اٹھارویں ترمیم پر حرف زنی کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اس کی وجہ سے مرکز قلاش ہو گیا ہے اور اس کے پاس اپنے مصارف کے لئے وسائل نہیں بچتے۔

اس بیان سے ایک حساس سوال کے بارے میں وزیر اعظم کی بے حسی اور کم فہمی آشکار ہوتی ہے۔ عمران کی حکمرانی سے دوسرا خطرہ ملک میں جمہوریت کے خلاف کسی ناگہانی اقدام کی صورت میں بھی رونما ہو سکتا ہے۔ جس میں صرف عمران خان کی وزارت عظمی ہی داؤ پر نہیں لگے گی بلکہ ملک میں جمہوریت کا نظام بھی مختصر یا طویل مدت کے لئے معطل ہوسکتا ہے۔

یہ سمجھا اور مانا جاتا ہے کہ عمران خان اسٹبلشمنٹ کی تائید و حمایت اور مرضی و منشا سے اقتدار میں آئے ہیں۔ لیکن وہ ان ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے ملک کی دوسری دونوں بڑی پارٹیوں کی بجائے انہیں اس عہدہ کا ’حقدار‘ سمجھا گیا تھا۔ دفاعی مصارف میں اضافہ اور ملکی معاملات میں عسکری اثر و نفوذ کو قبول کرنے کا رویہ، اس وسیع مقصد کے بنیادی جزو ہو سکتے ہیں۔ اصولی طور پر عمران خان کی حکومت نے ان دونوں معاملات پر صاد کیا ہے۔

دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے اور فوج کو سیاست، معیشت اور سفارت کاری تک کے معاملات میں دسترس حاصل ہے۔ بعض لوگ اسے یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ فوج کے تعاون اور دوڑ دھوپ کے بغیر تحریک انصاف کی حکومت وہ معاشی بیساکھیاں حاصل کرنے کے قابل نہ ہوتی جو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی طرف سے فراہم کی گئی ہیں۔

بدقسمتی سے روپے کی قدر میں کمی اور بھارت کے ساتھ تصادم کی نئی لہر کی وجہ سے دفاع کے لئے فراہم ہونے والے اضافی وسائل بھی کم پڑنے لگے ہیں۔ حکومت کوئی ایسی حکمت عملی بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے کہ اخراجات میں اضافہ کے ساتھ آمدنی میں بھی اضافہ ہو سکے۔ آمدنی میں اضافہ کے نام پر گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران نئے قرض لینے اور کسی طرح ملکی بجٹ میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اب بھی وزیر خزانہ کا سارا زور اس بات پر ہے کہ کسی طرح آئی ایم ایف سے معاشی پیکیج طے پا جائے تاکہ جون میں پیش ہونے والے بجٹ میں خوشگوار اعداد و شمار دکھائے جا سکیں۔

اس کے ساتھ ہی اب وزیر خزانہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ آئندہ تین برس کے دوران مختلف عالمی مالیاتی اداروں سے 22 ارب ڈالر تک کے قرضے لینے کی امید کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کا یہ بیان ہی عمران خان کے اس مؤقف کی تردید کے لئے کافی ہے کہ وہ نیا پاکستان بنانے والے ہیں جہاں قومی آمدنی میں اضافہ کے ذریعے بیرونی قرضوں پر انحصار ختم کیا جائے گا۔

حکومت کی عوام دوستی کے دعوے کی قلعی تو جنوری کے دوران ساہیوال سانحہ نے ہی کھول دی تھی جس میں پولیس گردی کا شکار بننے والے خاندان شور مچا کر بالآخرخاموش ہو چکے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم سمیت ان کے نائبین بیان جاری کرنے کے علاوہ کچھ کرنے سے قاصر رہے۔ اب کوئٹہ میں جمعہ کے روز ہزارہ شہریوں پر حملہ نے دکھ سکھ میں عوام کے ساتھ کھڑا رہنے کے دعوؤں کا پول بھی کھول دیا۔ ہزارہ نے تین دن تک دھرنا دیا تب جاکر وزیر مملکت برائے داخلہ امور کو کوئٹہ آکر دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے پسماندگان سے ملنے کی توفیق ہوئی۔ اب پانچ روز بعد صدر مملکت دہشت گردوں کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے کا اعلان کرنے کے لئے کوئٹہ وارد ہوئے ہیں۔

یہ سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر حکومتی ناکامیوں کی تصویر کے چند پہلو ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ حکومت نہ غلطیوں کا احساس کرتی ہے اور نہ حکمت عملی تبدیل کرنے کا کوئی اشارہ سامنے آیا ہے۔ ایسے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جناب عمران خان آپ غلط کہتے ہیں، کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ البتہ اس بحران میں قوم کسی بھی انہونی کے لئے تیار ہو رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہائی کورٹ اسلام آباد سے بھی درخواست ضمانت مسترد۔ ریاستی اداروں کے خلاف ڈٹ جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کردی
شیئر ٹویٹ
ویب ڈیسک جمعرات 20 جون 2019
1712150-nawazsharif-1561022364-589-640x480.jpg

نواز شریف کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں، وکیل خواجہ حارث فوٹو:فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہائی کی درخواست مسترد کردی۔

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت کی سماعت کی تو ان کے وکیل خواجہ حارث نے ڈاکٹرز کی میڈیکل رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں، ان کی 60 فیصد خطرے کی حالت ہے، شریانوں میں بندش کی وجہ سے کسی بھی وقت ہارٹ اٹیک کا خطرہ ہے، ذہنی تناؤ کے خاتمے کے لئے بھی علاج ضروری ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کو دل کے دورے سے بچانے کے لیے اسٹنٹس ڈالنے ضروری ہیں، اس سے خون کی ترسیل میں بندش ختم ہوگی، جو اسٹنٹ ڈالے جانے ہیں وہ ملک میں دستیاب نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مختصر یہ کہ علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہے؟۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پاکستان میں بھی بہت قابل ڈاکٹر ہیں جو بیرون ملک بھی جاتے ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید

پرویز مشرف کیس کا حوالہ

خواجہ حارث نے ضمانت کے لیے دلائل میں پرویز مشرف اور ڈاکٹر عاصم کے مقدمات کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرعاصم کیس میں علاج کے لیے طبی بنیادوں پر ضمانت ملی اور نام ای سی ایل سے بھی نکالا گیا، پرویز مشرف کا نام بھی بیرون ملک علاج کے لیے ای سی ایل سے نکالا گیا۔

جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ہے؟۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جی میرا خیال ہے جب برطانیہ سے واپس آئے تو ای سی ایل پر ڈالا گیا، ای سی ایل سے نام نکلوانے کے لیے تو الگ سے سماعت ہوگی ابھی عدالت کے سامنے نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس؛ نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد

نیب پراسیکوٹر جہانزیب بھروانہ نے نواز شریف کی ضمانت کے خلاف دلائل دیتے ہوئے انہیں رہا نہ کرنے کی استدعا کی۔ ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کردی اور نیب کی استدعا منظور کرلی۔ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت نہیں مل سکتی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ اس سے قبل 25 فروری 2019 کو بھی نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت اور سزا معطلی کی درخواست کو مسترد کرچکی ہے۔

کیس کا پس منظر؛

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بری کرتے ہوئے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید جب کہ ڈیڑھ ارب روپے اور 25 ملین ڈالر جرمانے کی سزا کا حکم سنایا تھا۔
 
Top