ضمانت کی سیاست اور سال 2019، آنے والے چند ماہ کیا گل کھلائیں گے؟

جاسم محمد

محفلین
سہیل وڑائچ کا کالم: ضمانت کی سیاست اور سال 2019، آنے والے چند ماہ کیا گل کھلائیں گے؟
سہیل وڑائچ صحافی و تجزیہ کار
_106206251_getty.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
حالات کا جبر کچھ ایسا ہو گیا تھا کہ سب فریقوں کو نواز شریف کی ضمانت سے ریلیف ملا ہے۔ سب کے لیے یہ ضمانت Win Win ہے۔

نواز شریف کی طویل خاموشی اور علاج کے لیے ہسپتال جانے سے انکار دراصل مدافعانہ مزاحمت کی ایک نئی شکل تھی جس سے فوج، عدلیہ اور عمران حکومت تینوں پر دباؤ پڑا۔

نواز شریف کی مدافعانہ مزاحمت سے یہ تاثر پختہ ہو رہا تھا کہ نواز شریف کا صرف احتساب نہیں ہو رہا بلکہ انہیں انتقام کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو اقتدار سے نکال باہر کرنے اور انکی طاقت کم کرنے کے بعد انہیں بھٹو جیسا شہید نہیں بنانا چاہتی تھی اور نہ ہی پھر سے تارا مسیح جیسے جلاد کا خطاب لینا پسند کرتی۔

_106206245_gettyafp22.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES/AFP
آج اسٹیبلشمنٹ جنرل ضیا الحق دور جیسے کوڑوں اور جیلوں کے حربے کے بجائے عدم تشدد پر مبنی نفسیاتی اور سیاسی طریقے استعمال کرنے میں زیادہ یقین رکھتی ہے۔

اسی لیے اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو جیل میں رکھ کر اور بیماریوں سے گھٹ گھٹ کر مرنے پر تحفظات کا شکار تھی اور اب اس معاملے کو آگے نہیں لے جانا چاہتی تھی۔

دوسری طرف شہباز شریف کی ڈپلومیسی اور نواز شریف کی خاموشی نے انھیں کافی حد تک نیو ٹرلائز کر دیا تھا۔ عدلیہ پر بھی دباؤ تھا کہ نواز شریف کے خلاف مسلسل فیصلوں سے جانبداری کا تاثر پختہ ہو رہا تھا اور اس فیصلے سے یہ تاثر کمزور ہو گا۔

پی ٹی آئی حکومت بھی اس مدافعانہ مزاحمت کے دباؤ میں تھی۔ ہر روز کسی نہ کسی وفاقی یا صوبائی وزیر کی وضاحت آرہی تھی کہ نواز شریف کو صحت کی تمام سہولیات حاصل ہیں، چناچہ میڈیکل بنیادوں پر دی جانے والی ضمانت سے جہاں نواز شریف اور انکی جماعت کو ریلیف ملا ہے وہاں باقی فریقوں کو بھی فائدہ ہی ہوا ہے ۔

نواز شریف کو چھ ہفتوں کی جو ضمانت ملی ہے اس میں ظاہر ہے سب سے پہلے وہ اپنے علاج کی طرف توجہ دینگے اور ساتھ ہی ساتھ ضمانت میں توسیع کے حوالے سے وہ کھل کر سیاست نہیں کر سکیں گے۔

البتہ پارٹی قیادت سے ضرور ملیں گے تاکہ پارٹی پر گرفت قائم رہے ۔

_106206249_gettyzardari.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
نواز شریف کی ضمانت سے البتہ ایک فریق کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے اور وہ ہیں آصف زرداری۔

ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اگر نواز شریف کو ریلیف دیا گیا ہے تو اب آصف زرداری کی گرفتاری کا عمل تیز تر ہوتا جائے گا۔

فیصلہ ساز دونوں بڑے فریقوں سے ایک ساتھ لڑائی نہیں کرتے۔ نواز شریف کو گرانے کے لیے زرداری سے ساز باز کی گئی اور یوں نواز شریف کو گرانا آسان ہو گیا اب نواز شریف کو ریلیف دے کر خاموش کر دیا گیا ہے اس کا مطلب شاید یہ ہے کہ اب آصف زرداری کی باری آنے والی ہے۔

بیک وقت دونوں کا احتساب کیا جاتا تو دونوں اکٹھے ہوکر لڑتے۔ حکومت اور اداروں کو چیلنج کر سکتے تھے۔ اسی لیے ہمیشہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔

شہباز شریف اور آصف زرداری کی لڑائی سوکنوں جیسی ہے۔ ان کا جمہوریت، احتساب اور سیاست پر اتفاق ہے مگر لڑائی صرف محبوب اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔

ان دونوں کی خواہش ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب ہوں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسرے کو دور کردیں اور مگر خود اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوکنوں کی اس لڑائی کا اسٹیبلشمنٹ کو بھی پورا علم ہے اور وہ اس لڑائی کا ہمیشہ سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ اگر دونوں سوکنیں اس کھیل کو نہ سمجھیں تو یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔

_106206247_gettyapf.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES/AFP
نواز شریف کی میڈیکل ضمانت سے تحریک انصاف بھی دباؤ سے نکلے گی البتہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کا احتساب کا بیانیہ کمزور ہوا ہے۔

عدلیہ اور فوج اب اس بیانیے پر آنکھیں بند کر کے چلنے پر تیار نظر نہیں آتیں۔

یہ ادارے عمران خان کے سیاسی حریفوں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے خطرات سے لازماً آگاہ ہونگے کیونکہ ایک تو اس سے عمران خان واحد طاقتور سیاستدان رہ جائے گا اور اسکی طاقت کسی فاشسٹ لیڈر جتنی ہو جائے گی۔

دوسری طرف نواز شریف اور زرداری کی جماعتیں کمزور پڑنے سے ملک کا سیاسی اور جمہوری نظام بھی کمزور ہو جائے گا۔

تحریک انصاف کو بھارت کے ساتھ ہوائی جھڑپوں سے فائدہ ہوا اور انھیں کچھ وقت اور مل گیا ہے تاہم یہ بات طے ہے کہ تحریک انصاف کیلئے اصل چیلنج سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے۔

دوست ممالک سے قرضوں کے باوجود معاشی حالت میں استحکام نہیں آسکا۔ روپیہ سستا اور ڈالر مہنگا ہو تا جارہا ہے، گیس بجلی اور پٹرول کی قیمتوں ممیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل قریب میں بھی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔

یہی حکومت کا اصل امتحان ہے۔

صرف چند ووٹوں کی برتری سے قائم تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ماہ جون اور جولائی سخت ہوں گے۔ بجٹ منظور کروانا اور اس وقت اراکین اسمبلی کے ناز نخرے اٹھانا تحریک انصاف کے لیے نیا اور مشکل تجربہ ہو گا۔ دیکھنا ہو گا کہ اس صورتحال سے کس طرح نمٹا جاتا ہے۔

_106206252_ispr.jpg

تصویر کے کاپی رائٹISPR
اور جولائی اگست اگر خیر خیریت سے گزر گئے تو ستمبر اکتوبر 2019 میں نئی پریشانیاں سامنے آئیں گی۔

ان مہینوں میں موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع یا پھر نئے کمانڈر کی تلاش کا مرحلہ ہو گا۔ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی سیاسی وزیر اعظم کے لیے یہ سخت ترین آزمائش کا فیصلہ ہوتا ہے اور عام طور پر اس فیصلے سے اختلافات بڑھتے ہیں۔

امید کرنی چاہیے کہ جس طرح فوج اور حکومت آجکل ایک صفحے پر اکٹھے چل رہے ہیں آئندہ بھی ایسے ہی چلتے رہیں گے تاہم اگر کہیں بھی کوئی لفزش ہوتی تو عام طور پر اسکا خمیازہ وزیر اعظم کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔

نواز شریف کی ضمانت سے سیاسی فضا میں استحکام آسکتا ہے لیکن اگر آصف زرداری کو گرفتار کیا گیا تو سندھ میں لازماً ردعمل ہو گا۔

سندھ حکومت کمزور ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ اسکے نتیجے میں وہاں تبدیلی آجائے یا تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔

ایسی تبدیلیاں آئیں تو وفاق بھی مستحکم نہیں رہے گا اور سیاست اور سازش وفاقی حکومت کو بھی لے بیٹھے گی۔ غرضیکہ یہ سال سیاست میں بہت کچھ لیکر آئے گا، کچھ اچھا کچھ بُرا، کچھ کھٹا کچھ میٹھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
شہباز شریف اور آصف زرداری کی لڑائی سوکنوں جیسی ہے۔ ان کا جمہوریت، احتساب اور سیاست پر اتفاق ہے مگر لڑائی صرف محبوب اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔
ان دونوں کی خواہش ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب ہوں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسرے کو دور کردیں اور مگر خود اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوکنوں کی اس لڑائی کا اسٹیبلشمنٹ کو بھی پورا علم ہے اور وہ اس لڑائی کا ہمیشہ سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ اگر دونوں سوکنیں اس کھیل کو نہ سمجھیں تو یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
دونوں ہی کھوٹے سکے ہیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
کھیل ختم پیسہ ہضم
27/03/2019 اظہر سید


جس طرح سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا کھیل پانامہ نے ختم کیا تھا اس طرح تیزی سے تباہ ہوتی معیشت نے عمران خان کا کھیل بھی ختم کر دیا ہے۔ نواز شریف کی فراغت کا عمل پانامہ سے شروع ہو کر واٹس اپ جے آئی ٹی سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا اور اقامہ پر نا اہلی کے فیصلے سے مکمل ہوا۔ تحریک انصاف کی فراغت کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے لیکن یہ عمل نواز شریف کی طرح دو سال نہیں لے گا غالب امکان یہی ہے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی عدم منظوری سے حکومت پارلیمنٹ میں اکثریت کھو بیٹھے گی اور میاں شہباز شریف ملک کے نئے وزیراعظم بن جائیں اور سلسلہ دو ڈھائی ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔

اسلام آباد میں اقتدار کی غلام گردشوں میں اکثر گھومنے والے سیاح یہ کہتے ہیں وزیراعظم سے جوائنٹ چیفس اف سٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی گزشتہ دنوں ہونے والی ملاقات اصل میں کھیل ختم اور پیسہ ہضم والی ملاقات تھی۔

تبدیلی کا عمل ملکی معیشت کے استحکام اور خطہ میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی خارجہ اور داخلہ پالیسوں پر ملکیت برقرار رکھنے کی ایک کوشش تھی لیکن معاشی ترقی کے ہدف کی ناکامی نے باقی اہداف کی تکمیل کو بھی مشکوک کر دیا ہے اور یہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ میاں شہباز شریف ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول رہے ہیں لیکن اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف سے بے وفائی نہ کرنے پر انہیں وزارت عظمی بھی نہ مل سکی اور آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کی صورت میں انہیں اسٹیبلشمنٹ کی خفگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ حکومت کی تمام محاذوں پر ناکامی اور اس سے زیادہ نا اہلی نے شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا نمائدوں کے درمیان تجدید تعلقات کا موقع فراہم کیا ہے۔

شہباز شریف اگر دونون فریقین میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین کوئی قابل عمل تصفیہ کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو میاں نواز شریف واپس جیل میں نہیں جائیں گے۔ سابق وزیراعظم کو جس طرح فارغ کیا گیا ہے اس کی حقیقت سے تمام فریق واقف ہیں۔ میاں نواز شریف اس وقت مضبوط وکٹ پر ہیں اور ان کو مضبوط پوزیشن حکومت کی نا اہلی اور معاشی تباہی کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ معاملہ اب اس بات ختم ہو گا کہ مسلم لیگ ن میاں نواز شریف کی سربراہی میں اپنے پتے کس طرح کھیلتی ہے۔

میاں نواز شریف سیاست سے دستبردار ہونے کے لئے آمادہ ہو سکتے ہیں لیکن وہ مریم نواز کی سیاست میں موجودگی پر اصرار کریں گے۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی سیاست سے دست برداری پر تیار ہو سکتے ہیں لیکن وہ بھی بلاول بھٹو کی سیاست میں موجودگی پر اصرار کریں گے اور اگر دونوں سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کسی اسے معاملہ پر رضامند ہو گئیں تو مستقبل مریم نواز اور بلاول بھٹو کا ہو گا اور اسٹیبلسمنٹ کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ جہاں تک لوٹی ہوئی دولت واپس کرنے اور این آر او لینے کا سٹنٹ ہے اس معاملہ پر اسٹیبلشمنٹ کو کچھ نہیں ملے گا نہ میاں نواز شریف سے اور نہ آصف علی زرداری سے۔ پیسے دے کر ڈیل لینے کا عمل دونوں سیاسی جماعتوں کے سیاسی مستقبل کو تباہ کر دے گا اور یہ کام کرنا دونوں سیاسی جماعتوں کے لئے ممکن نہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے پاس آپشن محدود ہو چکے ہیں ان کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ جس گھوڑے پر داؤ لگایا تھا وہ ریس ہار چکا ہے وہ ہارا ہی نہیں اس نے جوکی کا مستقبل بھی مشکوک کر دیا ہے اس گھوڑے پر اب داؤ نہیں لگے گا۔ اس گھوڑے کا کھیل ختم ہو چکا ہے اور دوبارہ یہ کبھی بھی کھیل میں شامل نہیں ہو گا۔

عمران خان نے بھی نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے وہ اب اینکرزوں کے ساتھ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی بجائے بیٹ رپورٹر کے ساتھ غم بانٹنے لگے ہیں کہ انہیں پتہ ہے اینکرز کس کی زبان بولتے ہیں۔ وزیراعظم کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ پورا میڈیا ہی ایک مخصوص زبان بول رہا ہے وہ اب وزیراعظم کو بیل آؤٹ بھی نہیں کرے گا اور انہیں اب مسیحا بنا کر بھی پیش نہیں کیا جائے گا کیونکہ کھیل ختم ہو چکا ہے اور پیسہ بھی ہضم ہو چکا ہے۔

جہاں تک این ار او نہیں دوں گا کے دعوی کا تعلق ہے تو ان کی اصلیت کا تبدیلی لانے والوں کا بھی پتہ ہے اور خود حکومت کو بھی خبر ہے وہ کس طرح اقتدار میں آئے۔ وزیراعظم اور ان کے وزرا جو کچھ بھی کہتے رہیں ہوگا وہی جو منظور خدا ہو گا اور خدا کو یہی منظور تھا کہ شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے اور ان پر آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں فرد جرم عائد نہ کی جائے۔ خدا کو یہی منطور تھا میاں نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت مل جائے اور چھ ہفتوں کے دوران کوئی مفاہمتی فارمولہ طے پائے جائے۔
یہ اس قدر ظالم اور نا اہل ثابت ہوئے ہیں پوری معیشت کا ناس مار دیا ہے اور حالات اس نہج پر آگئے ہیں مارشل لا بھی نہیں لگ سکتا اس لئے ڈیل ہو گی اور چھ ہفتوں کے اندر ہو گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ اس قدر ظالم اور نا اہل ثابت ہوئے ہیں پوری معیشت کا ناس مار دیا ہے اور حالات اس نہج پر آگئے ہیں مارشل لا بھی نہیں لگ سکتا اس لئے ڈیل ہو گی اور چھ ہفتوں کے اندر ہو گی۔
بالکل۔ پچھلی حکومت تو جیسے آئی ایم ایف سے قرضے لے کر سونے کے انڈے دے رہی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پرانی کہانی، نئے کردار
28/03/2019 حامد میر



یہ ایک مردہ شہر کی کہانی ہے، جس کی سنسان سڑکوں پر بوٹوں کی ٹھک ٹھک سنائی دے رہی تھی۔ اس شہر کے لاش نما زندہ انسان دن رات موت کی دھمکیاں سنتے تھے، احتجاج پر پابندی عائد تھی۔ ریڈیو گلیوں کے آوارہ کتوں کی طرح مسلسل بھونکتا رہتا تھا اور اخبار رات کو جھوٹ سے منہ کالا کر کے اگلی صبح گھر گھر کی دہلیز پر لاش کی طرح پڑے نظر آتے۔

اس شہر کی ایک جیل کے ٹارچر سیل میں ایک قیدی پر تشدد کیا جارہا تھا۔ یہ قیدی تشدد کرنے والوں سے کہہ رہا تھا پلیز میری بات سنیں، مجھے اس وقت گرفتار کیا گیا جب میں شہر کے بند دروازے کھٹکھٹا رہا تھا کیونکہ شہر والوں کو خوف کی بیماری لگ گئی ہے، وہ خوف کی بیماری کے باعث بے ہوش ہو چکے ہیں۔

یہ قیدی بتا رہا تھا کہ میں سزائے موت سے نہیں بھاگا، میں تو اس قیامت سے بھاگ رہا ہوں جو اس شہر کو ختم کرنے آ رہی ہے۔ اس قیدی نے تشدد کرنے والوں سے کہا کہ اس سے پہلے کہ سارا شہر قبرستان بن جائے، آئو شہر والوں کو مل کر جگائیں۔ اس دوران ٹارچر سیل میں فون پر ایک حکم موصول ہوا اور حکم کے غلاموں نے اپنے قیدی کو اس کا کوئی جرم بتائے بغیر ہی گولی مار کر موت کی نیند سلا دیا۔

یہ کہانی نور الہدیٰ شاہ نے جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت میں لکھی تھی۔ ’’مجرم‘‘ کے نام سے یہ سندھی زبان میں لکھی گئی۔ اس کہانی کا اردو ترجمہ ہو چکا ہے لیکن ٹارچر سیل والوں کو ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ وہ جن قیدیوں پر تشدد میں مصروف رہتے ہیں، ان کا جرم صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ شہر والوں کو آنے والی قیامت سے خبردار کر رہے ہوتے ہیں۔

قیامت سے خبردار کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کل رات وزیراعظم عمران خان کی ایک اتحادی جماعت کے رہنما نے مجھے پوچھا کہ آپ نے سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کو علاج کیلئے 6ہفتوں کی عارضی ضمانت کو خوش آئند کیوں قرار دیا؟ مجبوری تھی یا واقعی آپ کو عدالت کا فیصلہ اچھا لگا؟

میں نے جواب میں کہا کہ نواز شریف کو ایک نہیں کئی بیماریاں لاحق ہیں، وہ واقعی خصوصی طبی سہولیات کے مستحق ہیں، اس لئے عدالت نے انہیں علاج کی غرض سے عارضی ضمانت دے کر ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ اتحادی جماعت کے رہنما نے انتہائی زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا کہ یہ بیماریاں اس وقت کہاں تھیں جب نواز شریف یہ کہتے تھے کہ سپریم کورٹ کے جج ان کے خلاف بغض اور کینے سے بھرے ہوئے ہیں۔

پھر اچانک یہ صاحب سنجیدہ ہو گئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائو کہ جو کچھ نواز شریف عدلیہ اور فوج کے بارے میں کہتے رہے، اگر یہی کچھ آصف علی زرداری، اسفندیار ولی یا اختر مینگل نے کہا ہوتا تو آپ کی عدالتیں انہیں وہ ریلیف دیتیں جو نواز شریف کو دیا گیا؟

میری مسکراہٹ بھی غائب ہو چکی تھی۔ میں نے مدھم لہجے میں کہا کہ نواز شریف کو ضمانت دے کر عدالت نے نواز شریف کا موقف غلط ثابت کر دیا ہے، آپ دعا کریں نواز شریف صحت یاب ہو جائیں، ان کی صحت یابی میں صرف اپوزیشن کا نہیں حکومت کا بھی بھلا ہے۔

میری بات سن کر عمران خان کے اتحادی نے کہا آپ حکومت کا بھلا چھوڑیئے، اِس حکومت کو تو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ایک بہت بڑی قیامت ہمارے سر پر کھڑی ہے جبکہ حکومت کے وزیر کابینہ کے اجلاس میں ایک دوسرے پر قیامت ڈھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ سن کر میں نے ایک لمبا سا ہونہہ کہا اور پھر اجازت لے کر اٹھ گیا۔

واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ نواز شریف کی عارضی ضمانت پر ان کے حامیوں کے علاوہ مخالفین کو بھی شکر ادا کرنا چاہئے لیکن کچھ مخالفین اس ضمانت سے اتنے گھبرا گئے ہیں کہ کچھ سمجھ نہ آئی تو شہباز شریف پر غصہ اتارنا شروع کر دیا۔ انہیں شک ہے کہ شہباز شریف چپکے چپکے اپنے کام میں مصروف ہیں۔

خود بھی ضمانت پر ضمانت لے رہے ہیں اور آخرکار نواز شریف کے لئے بھی مستقل ضمانت حاصل کر لیں گے، اس لئے کسی نہ کسی طریقے سے شہباز شریف کو دوبارہ کہیں بند کر دو۔ وزیراعظم عمران خان تو علی الاعلان شہباز شریف کو ان کے بڑے بھائی سے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں کیونکہ انھیں شہباز شریف کا بیانیہ اپنے لیے خطرہ نظر آتا ہے۔

شہباز شریف ’’پاور پالیٹکس‘‘ کے داؤ پیچ آزمانے پر یقین رکھتے ہیں جبکہ نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اب نظریاتی ہو چکے ہیں اور ان کے کچھ پرستار تو ان میں ذوالفقار علی بھٹو بھی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ اگر نواز شریف 2018کے انتخابات سے کچھ دن پہلے پاکستان واپس نہ آتے تو جیل نہ جاتے۔

انہوں نے جیل کا انتخاب کر کے شہباز شریف کو بھی مشکل میں ڈال دیا۔ شہباز شریف سے کہا گیا تھا کہ وہ بڑے بھائی کے خلاف اعلانیہ بغاوت کردیں تو وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ شہباز شریف نے بغاوت سے انکار کیا اور یوں عمران خان کے لئے وزیراعظم بننا آسان ہو گیا۔

عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے لیے اصل خطرہ نواز شریف نہیں شہباز شریف ہیں۔ عارضی ضمانت کے بعد نواز شریف کی زیادہ توجہ اپنے علاج پر ہو گی۔ نواز شریف کے کچھ خیر خواہوں کا خیال ہے کہ چھ ہفتوں کے بعد نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی درخواست کرنا چاہئے لیکن ان کے کچھ ساتھی کہتے ہیں کہ اگر بیرون ملک جانا تھا تو پھر پچھلے سال واپس کیوں آئے تھے؟

مجھے یہ بھی علم ہے کہ 2016میں بھی جب نواز شریف وزیراعظم کی حیثیت سے علاج کے لیے لندن گئے تھے تو انہیں یہ پیغام دیا گیا تھا کہ وہ واپس پاکستان نہ جائیں لیکن وہ واپس آ گئے تھے۔ جو انہیں ایک دفعہ پھر بیرون ملک بھیجنا چاہتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ نواز شریف تیسری دفعہ بھی واپس آ جائیں گے۔

وہ جیل میں رہیں یا جیل سے باہر، پاکستان میں رہیں یا پاکستان سے باہر، وہ کچھ لوگوں کے لئے باعث قیامت رہیں گے۔ نواز شریف جیل سے باہر آ گئے ہیں اور آصف علی زرداری کے بارے میں یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ وہ بہت جلد جیل میں چلے جائیں گے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ بلاول کے ٹرین مارچ کا مقصد اپنے ابو کو بچانا ہے لیکن ناقدین یہ نہیں جانتے کہ ابو تو کافی عرصے سے خود جیل جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ابو کو پتہ ہے کہ وہ جیل جائے گا تو بیٹا بلاول قیامت بنے گا۔ افسوس کہ وطن عزیز میں ایک نہیں کئی قیامتیں سر اٹھا رہی ہیں۔

وہ نواز شریف جو کبھی جنرل ضیاء الحق کا سیاسی بیٹا کہلاتا تھا، کل تک نورالہدیٰ شاہ کی کہانی کا وہ کردار تھا جو ٹارچر سیل میں تشدد کرنے والوں سے کہہ رہا تھا آؤ مل کر شہر والوں کو جگائیں۔ کچھ دن بعد یہی کردار آصف علی زرداری بن جائے گا۔ نیب کا ترجمان تو یہی کہے گا کہ یہ سب ملک لوٹنے والے کرپٹ لوگ ہیں، ان کی بات نہ سنو لیکن نیب کے ترجمان کی اب وہی حیثیت ہے جو نورالہدیٰ شاہ کی کہانی کے اخبار اور ریڈیو کی تھی۔

عمران خان کی حکومت کے آٹھ ماہ گزر گئے اور لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لانے کا وعدہ سچ نہ ہوا۔ نیب نے ہمیں صرف خوف، مایوسی اور خودکشی دی ہے۔ آج کل نیب میڈیا کو قانونی کارروائی کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے کیونکہ میڈیا کی زندہ لاش کے ہونٹوں سے کبھی کبھی سچّے الفاظ بھی نکل جاتے ہیں۔

میڈیا کو خوف اور دہشت کا شکار ہوئے بغیر کچھ نہ کچھ سچ تو بولنا ہو گا اور شہر والوں کو آنے والی قیامت سے خبردار کرنا ہو گا کیونکہ لاش نما انسانوں کے شہر میں رہنے سے بہتر ہے کسی قبرستان میں بسیرا کیا جائے۔ ہمیں مردہ نہیں زندہ انسان بننا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کی حکومت کے آٹھ ماہ گزر گئے اور لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لانے کا وعدہ سچ نہ ہوا۔
عمران خان کرپٹ ٹولے کے پیچھے جائیں تو یہی لفافی شور مچاتے ہیں کہ سیاسی انتقام ہو رہا ہے۔ احتساب کے اداروں کو اپنا کام کرنے دیں۔ اور جب احتساب کے ادارہ ناکام ہو جائیں تو کہتے ہیں:
نیب نے ہمیں صرف خوف، مایوسی اور خودکشی دی ہے۔

یعنی دونوں صورتوں میں ریکوری نہ ہونے کے قصوروار وزیر اعظم ہی ہیں۔نہ وہ خود احتساب کر سکتے ہیں کیونکہ یہ سیاسی انتقام ہے۔ اور نہ ریاستی ادارے کر سکتے ہیں کیونکہ وہ قانونی اور جی ایچ کیو والی مصلحتوں کا شکار ہیں۔ ایسے میں احتساب کون اور کیسے کرے گا؟
 

جاسم محمد

محفلین
واہ رے میرے محبوب قائد!
28/03/2019 ارشاد بھٹی



واہ رے میرے محبو ب قائد، 6ہفتوں کی چھٹی، چھوٹے کا نام ای سی ایل سے خارج، ایک دن میں دو ریلیف، حسنِ اتفاق یا دعا، دَم، دوا کام کر گئی، میرے محبوب قائد دونوں فیصلے میری عدالتوں کے، مجھے اپنی عدالتوں پر اعتبار، یہ علیحدہ بات آج یہ کہتے ہوئے دل ساتھ نہیں دے رہا.

میرے محبوب قائد 6ہفتوں کی چھٹی، تاریخ کا انوکھا فیصلہ، کبھی سنا نہ دیکھا، کل یہ وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ حکومت کوٹ لکھپت جیل سے نکال کر ملزم شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دے گی، آج یہ سوچا نہ تھا کہ مجرم نواز شریف کو جیل سے نکال کر 6ہفتوں کیلئے گھر پہنچا دیا جائے گا۔ اسے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کہوں گا نہ تعریف کر پاؤں گا، ہاں قوم کو، محبو ب قائد آپ کو، سابق خادم اعلیٰ کو مبارک۔

واہ رے میرے دیس، میں چھج پتاشے ونڈاں، واہ رے میرے نظام ’’اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے‘‘ واہ رے میرے ملک، لکڑ ہضم، پتھر ہضم، واہ رے میر ی قوم تیرے نصیب

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

میرے محبوب قائد، میرے قائداعظم ثانی، میرے منڈیلا، جب قانونی جواز ختم ہوئے، جب سپریم کورٹ نے پوچھا ’’کہاں کس میڈیکل رپورٹ میں لکھا محبوب قائد کی جان کو خطرہ‘‘ تب ترلے ذہنی دباؤ کے، واسطے اعصابی تناؤ کے، انقلاب، مزاحمت، ووٹ کی عزتیں، سب ہَواہوا.

میرے محبوب قائد آپ کی عقلمند بیماریاں، بروقت ڈیلیں کمال، آپ کی الٹے قدموں مڑنے کی ثابت قدمیاں، چور دروازے، پتلی گلیاں، بے مثال، میرے محبوب قائد آپ کی قسمت لاجواب، پوری زندگی، موسم مری کا، سہولیات اسلام آباد کی، میرے محبوب قائد اب آپ ذہنی دباؤ، اعصابی ٹینشن سے بالاتر ہو کر علاج کروائیں.

6ہفتے کم پڑ جائیں، عدالت سے رجوع کریں، پھر وقت کم پڑ جائے، پھر عدالت سے رجوع کریں، عدالتوں پر بھروسہ رکھیں، ایون فیلڈ کیس میں 69روزہ جیل کے بعد ضمانت مل گئی، العزیزیہ میں 92دنوں کی جیل کے بعد ضمانت، لیڈریاں قائم، بیانیے دائم، ریلیف حاضر، 80ہزار قیدیو، تم بھی اٹھو، اپنے گھر والوں سے ٹویٹر اکاؤنٹس بنواؤ، بیماریوں بھرے ٹویٹ کرواؤ، سہمی، ڈری حکومت پہ دباؤ بڑھاؤ، اچھا سا وکیل کرو، قانونی جواز نہ بھی ہو، پھر بھی ذہنی دباؤ، اعصابی تناؤ والا 6ہفتہ ریلیف پیکیج تو ہے ہی۔

میرے محبوب قائد، آپ کا میڈ اِن جاپان موقف جیت گیا، وہ بھی نئے پاکستان میں، ویسے نیا پاکستان بڑوں کیلئے کتنا بابرکت، عدالت 25ہزار ایکڑ زمینیں ریگولرائزکر چکی، گرینڈ حیات، چک شہزاد فارم ہاؤس معاملے حل ہو گئے.

عدالت کہہ چکی بلاول معصوم، ماں کا مشن مکمل کر رہا، عدالت فرما چکی مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل پر کیوں، ان کی عزت نفس مجروح ہوئی، عدالت نیب کو حکم دے چکی حمزہ کو گرفتار کرنے سے پہلے 10دن کا نوٹس دیں، عدالت مریم نواز کو خاتون ہونے پر نرمی دے چکی، اب محبوب قائد آپکی بھی سنی گئی، پیارے بچو یہ ہوتا ہے نیا پاکستان، اسے کہتے ہیں نیا پاکستان۔

محبوب قائد، آپ کو دیکھیں تو یقین آجائے، واقعی ریاست ماں جیسی، آپ کیلئے ریاست کی ممتا قدم قدم پر، ریاست ماں نے ہر مشکل میں آپکے آنسو پونچھے، ماتھا چوما، گلے لگایا، لوریاں سنائیں، دکھ یہ نہیں ریاست ماں آپ سے لاڈ کرے، دکھ یہ ریاست ماں کو آپکے علاوہ کوئی اور بچہ نظر ہی نہ آئے، عبا س تابش نے تو کہا تھا کہ

ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

یہ ریاست ماں کیسی، زینب لٹ گئی، ماں سوئی رہی، شریفاں برہنہ ہو گئی، ماں سوئی رہی، بلدیہ فیکٹری میں بچے جل گئے، ماں سوئی رہی، ماڈل ٹاؤن میں بچے یتیم ہوئے، ماں سوئی رہی، ساہیوال والے 3بچے یتیمی کی چادر اوڑھے سسک رہے، ماں سوئی ہوئی، روز بچے لٹ رہے، روز بچے اجڑ رہے، ماں ٹس سے مس نہیں ہو رہی، کوئی نقلی دلاسا، کوئی جعلی تسلی، کوئی دو نمبر بہلاوا بھی نہیں، رو، رو بچوں کے آنسو خشک ہو گئے، بین ڈال ڈال گلے رندھ گئے، ماں تک آواز ہی نہ پہنچے، یوں لگے، عباس تابش کسی دوسری ماں کا ذکر کر رہے، یہ ریاست ماں نہیں ہو سکتی۔

میرے محبوب قائد، آپ کا ہر روپ امر، آپ کی ہر بات میں وزن، آپ جھوٹ بولیں، سچ سمجھا جائے، آپکے فریب محفلیں لوٹ لیں، آپ کابیانیہ روز پٹڑی بدلے، آپ آئے روز اپنی باتوں سے پھر جائیں، پھر بھی بازی آپ کی، جیت آپ کا ہی مقدر بلکہ آپ مقدر کے سکندر.

میرے محبوب قائد، میرے دیس کی ساری نرمیاں، رعایتیں آپکے لئے، آپ کے پاس ایسی ’ماسٹر چابی‘ جو ہر دروازے کو لگ جائے، آپکے پاس ایسا چُھو منتر، جو ہرایک کو سحر زدہ کر دے، آپکا جادو سر چڑھ کر بولے، آپ پینٹ ہاؤس بحری قذاق ہو کر بھی مسیحا، آپ عدلیہ، پارلیمنٹ، عوام کو بے وقوف بنا کر بھی قابلِ بھروسہ.

میرے محبوب قائد، سب میوے، سوغاتیں آپ کے، ہمارے لئے بس جمہوریت کا لولی پاپ، پارلیمنٹ کی چوسنی، سویلین بالادستی کے غبارے، میرے محبوب قائد، سب نعمتیں، موجیں آپ کیلئے، ہمارے لئےبس وعدے، دعوے، نعرے، میرے محبو ب قائد، آپکی محنتوں سے بنا یہ مکڑی جالوں بھرا نظام ایسا کہ ہم ’زندہ قوم‘ کیلئے آپ کا پٹواری ہی کافی، آپ کے تھانیدار کے چھتر کے سائے تلے ’ہم سب ایک ہیں‘، آپکی عطا کردہ جہالت میں ہر کوئی ’میں رانجھا رانجھا کردی آپے رانجھا ہوئی‘، یہ علیحدہ بات آج رانجھا بھی آپکا، ہیر بھی آپکی، کیدو بھی آپکا، کھیڑا بھی آپکا۔

میر ے محبوب قائد، شکر صد شکر آپکو رہائی ملی، ریلیف ملا، وقتی ہی سہی مگر ہمارے دکھ، دردوں کو کچھ سہاراتو ملا، وقتی ہی سہی آنسو تو تھمے، دعائیں سنی گئیں، مرادیں پوری ہوئیں، محبوب قائد، چند مرحلے رہ گئے، طے ہو جائیں، پھر سے آپکے سنگ ترقی وخوشحالی کا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں یہ رکا.

پھر سے’میاں دے نعرے وجن گے‘ پھر سے ’قائد تیرے جانثار بے شمار بے شمار‘، لیکن پہلے آپ سکون سے علاج کروائیں ، تسلی سے صحت یاب ہو جائیں، کوشش کریں لندن والا ڈاکٹر لارنس یہاں آجائے، ورنہ تھوڑی سی اور کوشش کر کے آپ وہاں چلے جائیں، ہم ہر کوشش میں آپکے ساتھ شانہ بشانہ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے.

ارے ہاں محبوب قائد، حسن، حسین سے پہلی فرصت میں بات کر لیجئے گا، بے چارے بہت پریشان، جب سے آپ جیل گئے، یہ روز ایون فیلڈ فلیٹس سے پیدل چل کر لند ن ائیر پورٹ آتے، سارا سارا دن جہازوں کو دیکھتے، شام کو واپس پیدل لوٹ جاتے، ان معصوموں نے آپ کی محبت میں جس مشکل سے خود کو خود پاکستان آنے سے روکے رکھا، وہ انہی کا کمال، دونوں مبارکباد کے مستحق.

میرے محبوب قائد، چھ ہفتے اپنا خیال خود، 6ہفتوں کیلئے اپنا ذہنی دباؤ ،اعصابی تناؤ خود دیکھیں، دعائیں مانگ مانگ، جاگ جاگ ہمارے اعصاب جواب دے گئے، ہم ذہنی مفلوج ہو گئے، لہٰذا 6ہفتے ہمیں مطلب قوم کو کچھ اور کرنے کی اجازت دیدیں اور ہاں میرے محبوب قائد، آپکی صحت بہتر ہوئی تو یہ بھی مطلع کریں کہ اگلی بار انقلابی ہونا یا مفاہمتی، ووٹ کو عزت دینی یا ووٹر کو مزید ۔ ۔ ۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے، بس یہ بروقت بتادیجئے گا، باقی سب کچھ ہم پر چھوڑ دیں، مایوس نہیں کریں گے، ویسے بھی مایوسی گناہ اور ہم اتنے بھی گناہ گار نہیں کہ یہ گناہ سرزد ہونے دیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

فرقان احمد

محفلین
کالموں کے انتخاب میں آپ اچھے خاصے غیر جانب دار واقع ہوئے ہیں۔خدا جانے کہ اب آپ کس پارٹی میں جانے کے لیے پر تول رہے ہیں ۔۔۔! :)
 

محمد وارث

لائبریرین
کالموں کے انتخاب میں آپ اچھے خاصے غیر جانب دار واقع ہوئے ہیں۔
آپ بھی کمال کرتے ہیں فرقان صاحب قبلہ! جس "جناتی " رفتار سے آنجناب پوسٹ کرتے ہیں بعید نہیں ہے کہ انہوں نے ان سب کالمز کا مطالعہ بھی کیا ہو یا مطالعے کا وقت ہی موصوف کو ملتا ہو۔ ہاں جب کوئی تبصرہ کرے گا یا کسی کالم کا اقتباس لے کر کوئی بات کرے گا تو موصوف "فی البدیہہ" جواب ضرور عرض کریں گے، اور فی البدیہہ کا معاملہ تو آپ جانتے ہیں کہ استاد کے ہاتھ میں ہو تو زمین کو آسمان پر پہنچا دے اور اگر بے ہنروں کے ہاتھ میں ہو تو زمین و آسمان تہس نہس کر دیں۔ :)
 
خدا جانے کہ اب آپ کس پارٹی میں جانے کے لیے پر تول رہے ہیں ۔۔۔! :)
آبپارہ والے کیا اب کوئی نئی جماعت کھڑی کر رہے ہیں :)

ہماری مانیں موصوف تو آبپارہ والی جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف کی سیاست: ووٹ کی عزت سے ضمانت کی بھیک تک
28/03/2019 سید مجاہد علی



طبی بنیاد پر نواز شریف کی چھے ہفتے کے لئے رہائی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور مریم نواز نے اللہ کا شکر ادا کیا ہے۔ کل رات ہی کوٹ لکھپت جیل سے نواز شریف کو جاتی عمرہ ان کے گھر پہنچانے کے لئے رہائی کی عدالتی روبکار کو نجی طیارے میں اسلام آباد سے لاہور لانے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اہل خاندان کی طرف سے اپنے ایک قیدی باپ، بھائی یا بیٹے کی رہائی کے لئے کی جانے والی یہ کوشش قابل فہم ہے لیکن اس کاوش کے دوران سیاسی قد کاٹھ کے ساتھ کھڑے ہونے والے لیڈر کی شبیہ ماند پڑی ہے۔

نواز شریف کے وکلا نے العزیزیہ کیس میں سزا کی معطلی اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلوں کا فیصلہ ہونے تک ضمانت کی درخواست کو میڈیکل بنیاد پر رہائی دلوانے کی کاوش تک محدود کرلیا تھا۔ پہلے مرحلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے یہ درخواست ناکافی ثبوت ہونے کی وجہ سے مسترد ہوگئی تھی۔ تاہم اس دوران متعدد میڈیکل بورڈ متعین ہونے اور ایک سے دوسرے ہسپتال لے جانے کے توہین آمیز طریقہ کے خلاف خاموش احتجاج کرتے ہوئے نواز شریف نے جیل سے باہر قدم نہ رکھنے کا عہد کیا تھا۔

اس فیصلہ کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں نے تحریک انصاف کی منتقم مزاجی اور سیاسی ہتھکنڈوں پر الزام دھرتے ہوئے نواز شریف کے لئے ہمدردی کا ایک ماحول بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ ان کوششوں کا ماحصل سپریم کورٹ پر دباؤ میں اضافہ کرنا تھا تاکہ وہ ضمانت کی درخواست قبول کر لے۔ اب یہ مقصد حاصل ہو چکا ہے اور مسلم لیگ(ن) کے حامی خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ تاہم قیاس یہی ہے کہ چھے ہفتوں بعد یہ خوشی دوبارہ مایوسی اور حکومت مخالف نئے بیانات کی صورت اختیار کرنے والی ہے۔

سپریم کورٹ کے تازہ فیصلہ کی روشنی میں یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ عدالتیں نواز شریف پر عائد الزامات کے بارے میں مؤقف تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ نہ ہی اس اصول کو پذیرائی حاصل ہو رہی ہے کہ سیاسی لیڈروں پر کرپشن کے الزام عائد کرکے بدعنوانی کا خاتمہ تو نہیں ہوسکتا لیکن سیاسی تصادم، باہمی نفرت اور سماجی انتشار میں ضرور اضافہ ہوگا۔ اس کے مظاہر سیاسی لیڈروں اور وزیر اعظم سمیت حکومت میں شامل لوگوں کے بیانات میں روزانہ کی بنیاد پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس افسوسناک صورت حال میں اگر شاہد خاقان عباسی، نواز شریف کی ضمانت کو سچ کی فتح اور حکومت کے جھوٹ کاپول کھلنا قرار دیتے ہیں تو عمران خان، نواز شریف کو این آر او نہ دینے پر اصرار کرتے ہوئے درشت اور سخت لب و لہجہ اختیارکرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ کوئی سیاسی مخالف خواہ کتنا ہی برا ہو، اگر وہ علیل ہے تو اس کے بارے میں نرم لب ولہجہ اور متوازن طرز عمل خود حکومت کے وقار میں اضافہ کا سبب ہو گا۔

یہ انسانی رویہ اختیار کرنے کی بجائے وزیر اعظم نے یہ طعنہ دینا ضروری سمجھا کہ شریف خاندان تیس برس حکمران رہنے کے باوجود کوئی ڈھنگ کا ہسپتال نہیں بنوا سکا جس پر انہیں شرم آنی چاہئے۔ حالانکہ اگر یہ بات سو فیصد درست بھی مان لی جائے تو بھی جیل میں قید ایک بیمار شخص کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابقہ حکومتوں کے اعمال نامہ پر غور کرنے کی بجائے یہ دیکھا جائے گا کہ حکومت وقت اپنی ذمہ داری کس حد تک پورا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اگر نواز شریف کو جیل میں مناسب سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے کوئی گزند پہنچتی تو اس کا بوجھ تحریک انصاف کی حکومتوں کو ہی اٹھانا پڑتا۔

عمران خان سے بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے شاہ سے زیادہ وفاداری کی مثال کو زندہ کرنے والے فواد چوہدری، نواز شریف کی ضمانت پر یہ فرما رہے ہیں کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس کر کے جہاں چاہتے ہیں چلے جائیں۔ اس تصویر کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ایک ہی روز پہلے وزیراعظم ایک بار پھر یہ فرما چکے تھے کہ نیب پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ لیکن ان کے وزیر اطلاعات کی گفتگو سے تویہی لگتا ہے جیسے نیب نواز شریف کی رہائی کے لئے حکومت کے اشارے کا انتظار کر رہی ہے۔ جوں ہی نواز شریف اپنے ’خزانے‘ کا منہ کھول کر حکمت کی امیدوں کے مطابق تاوان ادا کردیں گے، وہ نیب کو اشارہ کرے گی اور نواز شریف کو رہا کردیا جائے۔ جس خواب کی تکمیل میں فواد چوہدری اور ان کے ہمنو ا یہ دل خوش کن قسم کے بیان دیتے ہیں، اس کی تکمیل کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔

واز شریف بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نہیں ہیں جو فائیلوں کو پہیہ لگانا ہی اپنی کامیابی کی بنیاد سمجھتے رہے ہیں۔ اور اب سپریم کورٹ کے ذریعے معاملات طے کرنے کے لئے ساڑھے چار سو ارب روپے کی ڈیل کرتے ہوئے بھی وہ یہی سمجھ رہے ہوں گے اس بار ’پہیہ لگانے‘ پر خرچہ کچھ زیادہ ہو گیا۔ لیکن بحریہ ٹاؤن یہ رقم ان لوگوں سے وصول کرے گا جنہیں وہ اپنے منصوبوں میں پلاٹ فروخت کرکے اس ملک کا اہم ترین مالیاتی گروپ بننے میں کامیاب ہؤا ہے۔ نواز شریف کے لئے یہ سیاسی معاملہ ہے۔ وہ اگر حکومت کی خواہش کے مطابق رقم ادا کرنے کی حیثیت میں بھی ہوں تب بھی وہ کبھی یہ اقدام نہیں کریں گے کیوں کہ ایسا کوئی معاہدہ ان کی سیاست کے لئے موت کا پروانہ ثابت ہوگا۔ اگر انہوں نے سیاست کو خیر آباد کہنا ہوتا تو وہ بستر مرگ پر اپنی عزیز اہلیہ کو برطانیہ میں چھوڑ کر گرفتاری دینے کے لئے پاکستان نہ آتے۔

فواد چوہدری کا بیان نہ صرف نیب کے اختیار اور دائرہ کار میں مداخلت کے مترادف ہے بلکہ تکنیکی لحاظ سے یہ توہین عدالت کا موجب بھی بن رہا ہے۔ نواز شریف کو نیب عدالتوں نے دو مقدمات میں سزا سنائی ہے۔ ایک میں انہیں ضمانت ملی ہے جبکہ دوسرے مقدمہ کی سزا بھگتنے کے لئے وہ کوٹ لکھپت جیل میں بند تھے۔ اب طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت پا کر وہ جاتی عمرہ میں فرو کش ہیں۔ ان فیصلوں کے خلاف اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ انہی اپیلوں کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ضمانت دینے کے حکم میں قرار دیا ہے کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ انہیں سزا دینے اور گرفتار کرنے کا حکم دیتی ہے تو اسے انہیں جیل بھیجنے کا اختیار ہوگا۔ یعنی سپریم کورٹ کی طرف سے ملنے والی عبوری ضمانت اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ اس صورت حال کا سامنا کرنے والے شخص کو فواد چوہدری رقم ادا کرکے رہا ہونے کا پیغام دے رہے ہیں۔ وہ خود بھی وکیل ہیں اور جانتے ہوں گے کہ نیب بھی کسی مقدمہ میں سزا پانے والے شخص کو انہی معاملات میں پری بارگین کی سہولت فراہم نہیں کرسکتی۔ یہ معاملہ عدالتوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس لئے وزیر اطلاعات کا بیان ملک کے مروجہ قانون اور طریقہ عدل پر براہ راست حملہ کے مترادف سمجھا جانا چاہئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات اس قسم کے بیان داغتے ہوئے دراصل سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنا چاہتے ہیں اور یہ گراؤنڈ ورک کر رہے ہیں کہ اگر کل کلاں کسی مجبوری میں نواز شریف کے ساتھ کوئی ’سمجھوتہ ‘ کرنا پڑے تو وہ اپنے بیانات کی آڑ لے کر کوئی عذر تراش سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان این آار اور نہ دینے پر اصرار کرنا ضروری سمجھتے ہیں حالانکہ جن لوگوں کو این آر او کی ضرورت ہے، وہ واضح کرچکے ہیں کہ انہیں ایسی کوئی سہولت نہیں چاہئے۔

معاملہ کی سیاسی نوعیت مسلمہ ہے۔ اسی لئے حکومت کے رویہ کو مسترد کرنا ضروری ہے۔ اور اسی لئے طبی بنیاد پر ضمانت حاصل کرنے اور جیل سے مختصر مدت کی رہائی کے لئے توہین آمیز عمل سے گزرنے والے نواز شریف سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ ووٹ کی عزت اور منتخب حکومت کے اختیار کی بحالی کا نعرہ لگاتے لگاتے آخر وہ کون سا کمزور لمحہ تھا کہ انہیں جیل سے نجات پانے کے لئے اپنی بیماری کو عذر بنانا پڑا۔

نواز شریف، ان کے اہل خاندان، حامیوں اور مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ یہ سزائیں دراصل ان کے سیاسی بیانیہ کی وجہ سے دی گئی ہیں۔ انہوں نے یہ جرم نہیں کیا۔ لیکن عوام کے حق انتخاب کے لئے آواز بلند کرنے والا کوئی قد آور لیڈر ’سیاسی مؤقف‘ کی وجہ سے ملنے والی سزا سے نجات پانے کے لئے بیماری کو عذر بنانے کی بجائے، جیل کی صعوبت اور حکومت کی ناانصافی کو برداشت کرنے کا حوصلہ دکھاتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر نواز شریف کا ساتھ دینے اور ان کے خلاف مقدمات اور اقدامات کی مخالفت کرنے والے اس ملک کے لاکھوں لوگو ں کو نواز شریف کی موجودہ حکمت عملی اور اس پر مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کے ’جشن کامیابی‘ پر حیرت اور افسوس ہؤا ہے۔

’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس سے ملک کو درپیش حقیقی مسائل کی نشان دہی ہوتی ہے۔ اس نعرہ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں بنیادی حقوق اور آزادیوں کو کن مصلحتوں کی بنا پر کیسے ہتھکنڈوں سے مصلوب کیا جاتا ہے۔ نواز شریف اگر اس نعرے کی حرمت کو برقرار رکھ پاتے تو ملک کی سیاسی تاریخ میں ان کے قد تک پہنچنا آسان نہ ہوتا۔ تاہم چھے ہفتے کی عبوری ضمانت کو فتح و نصرت قرار دینے والے لوگ کیوں کر اس قوم کی تقدیر تبدیل کرنے کا حوصلہ کر سکیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران حکومت اور بحران کے گہرے ہوتے سائے
29/03/2019 وجاہت مسعود



خدا خیر کرے، میر تقی کے اتباع میں نامرادانہ زیست کرتے ہیں۔ چنانچہ ان دنوں میں جگر مراد آبادی کا یاد آنا ایک دلچسپ اشارہ ہے۔ بات اتنی ہے کہ ادھر شہباز شریف کا نام اس فہرست سے خارج کر دیا گیا جس کے آوارہ نصیبوں کو بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں ہوتی۔ ادھر میاں نواز شریف کو طبی بنیاد پر چھ ہفتے کے لئے ضمانت پر رہائی مل گئی۔ یہی نہیں، آصف علی زرداری کو بھی دس اپریل تک مہلت مل گئی ہے۔ دس اپریل کی تاریخ معنی سے خالی نہیں۔

33 برس قبل دس اپریل کی شام محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کر کے لاہور ایئر پورٹ پر اتری تھیں۔ اس شام ان کے استقبال سے اقتدار کے صفحہ مرموز پر جو ارتعاش پیدا ہوا، بالآخر دو برس بعد 29 مئی 1988 کو جالندھر اور سندھڑی میں شراکت اقتدار کے سقوط پر منتج ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ 27 اور 28 مارچ کو محض چوبیس گھنٹوں کی مختصر مدت میں پیش آنے والے پے در پے ’حادثات‘ میں آنے والے وقت کی جھلک کیا، پوری تصویر اتر آئی ہے۔ اس پر بات کرنا ضروری ہے۔ مگر جگر مراد آبادی کا وہ شعر ضرور پڑھ لیجیے جس سے آج کی خیال آرائی کی موج اٹھی۔ اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا / کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے۔

اطلاعات یہ ہیں کہ ٹھیک آٹھ ماہ قبل دیدہ اور نادیدہ کھلاڑیوں نے بعد از مشقت بسیار جو بساط بچھائی تھی، اس کے مہرے متزلزل ہو رہے ہیں۔ بہت دن سے ’ایک پیج‘ پر ہونے کا اعلان بھی سنائی نہیں دیا۔ جاننا چاہیے کہ وہ پیج یہیں کہیں رکھا ہے، البتہ اس پر محررہ اعلان نے شرمندہ تعبیر ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ جسے شاہ بے داغ سمجھ کر آگے بڑھایا تھا، وہ شاہ بے اماں بننے کی فکر میں ہے۔ عمران خاں صاحب نے تین سمتوں میں ٹھوکر کھائی ہے۔

انہیں برسوں منتخب حکومتوں، عوامی تائید کی حامل سیاسی قیادت اور جمہوری حرکیات کے خلاف ایسا آموختہ پڑھایا گیا کہ وہ حکومت میں پہنچے تو ان کی زنبیل میں جمہوریت کی فہم ہی موجود نہیں تھی۔ جمہوریت دستور کی روشنی میں سیاسی تسلسل کا نام ہے۔ جمہوریت میں اختلاف ذاتی عداوت نہیں ہوتا، پالیسی اور ترجیحات میں فرق سے ترتیب پاتا ہے۔ سیاسی مخالف کو شیطان اور چور وغیرہ سمجھنا مناسب نہیں ہوتا۔ عمران خاں تو اسمبلی میں عقبی دروازے سے داخل ہو کر اپنی نشست تک جاتے ہیں، گویا حزب اختلاف سے ہاتھ ملانے کے بھی روادار نہیں۔

یہ سیاسی فراست نہیں، حد سے بڑھی ہوئی نرگسیت ہے۔ اس میں مشکل یہ ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے تابع ہے اور آئین ایسی خود پسندی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ قائد حزب اختلاف اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے انتخاب میں مات کھائی۔ اب الیکشن کمیش کے ارکان کی نامزدگی اور نیشنل ایکشن پلان پر نظر ثانی کے لالے پڑے ہیں۔ دو ماہ بعد بجٹ منظور کرانے کا مرحلہ درپیش ہو گا۔ دردمندوں نے بہت پہلے عرض کی تھی کہ کرپشن کے نعرے سے حکومتیں گرائی تو جا سکتی ہیں، کرپشن کے منتر سے حکومت چلائی نہیں جا سکتی۔ کیا دلچسپ منظر ہے کہ اپوزیشن کو ملیامیٹ کرنے کا عزم لے کر اٹھنے والا عضو معطل بنا بیٹھا ہے۔ یہی سوچ لیا ہوتا کہ آپ کی کشتی میں سوار بھاڑے کے مسافروں کی وفاداری آپ کی ذات اقدس سے نہیں، اپنے مفادات سے بندھی ہے۔

عمران خان کو دوسری بڑی ناکامی معیشت کے محاذ پر ملی۔ معیشت کے پتے ایک ایک کر کے مرجھا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاملات حتمی صورت اختیار نہیں کر رہے۔ ایف اے ٹی ایف والے البتہ دہلیز پر بیٹھے ہیں۔ اس کا کوئی تعلق ادائیگیوں کے توازن یا ڈالر کی قیمت سے نہیں۔ حقیقی ناکامی تو یہ رہی کہ عمران خان کا کیسہ معاشی بصیرت سے خالی پایا گیا۔ نواز حکومت نے انفرا اسٹرکچر، توانائی اور تجارتی روابط کا سہ نکاتی نمونہ پیش کیا تھا۔ عمران خان سرکاری گاڑیوں کی نیلامی سے شروع ہو کر مرغیاں اور بکریاں پالنے تک پہنچ گئے۔ اگر اسی کا نام معاشی بصیرت ہے تو یہ کام ڈاکٹر امجد ثاقب کہیں بہتر طریقے سے کر لیتے۔

عمران خان کی تیسری ناکامی یہ ہے کہ وہ خارجی دنیا میں پاکستان کا وقار بحال نہیں کر سکے۔ تسلیم کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ خارجی دنیا پاکستانی اخبارات کے کالم، ٹیلی ویژن شو اور پی ایس ایل نہیں دیکھتی۔ چنانچہ ہمارے حالات کا زیادہ حقیقت پسندانہ تجزیہ کرتی ہے۔ اور بیرونی دنیا سے سب اچھا سمجھنے اور کہنے کی درخواست بھی نہیں کی جا سکتی۔

2008 میں پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد سے جو مرحلہ شروع ہوا تھا، وہ بہت سے اتار چڑھاؤ سے گزرتا ہوا جولائی 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت پر منتج ہوا۔ گویا حکومت ایک بار پھر حکومت میں آ گئی۔ یہ خیال ہی نہیں رہا کہ اس دوران گلی کے اندر اور باہر بہت سے منظر بدل گئے ہیں۔ پرانے زمانوں میں ایسا بندوبست طویل سناٹے کا غماز ہوتا تھا۔ وقت کی رفتار کچھ یوں بدلی ہے کہ برسوں کا سفر اب مہینوں میں طے ہو جاتا ہے۔ نواز شریف بھلے صحت کے ہاتھوں خاموش ہوں یا سیاسی حکمت سے کام لے رہے ہوں، ہمارا شوخ چشم اور بلند آہنگ طائفہ جو بھی کہے، بنیادی قضیہ تو ووٹ کی عزت اور جمہور کی بالادستی ہی کا ہے۔

یہ نصب العین کسی کی ذاتی میراث نہیں، اس ملک کے 22 کروڑ باشندوں اور ان کی آئندہ نسلوں کی امانت ہے۔ لیاقت علی خان کونسے ایسے جمہوریت پسند تھے، لیکن غیر سیاسی قوتوں نے انہیں راستے سے ہٹایا تو وہ ہمارے جمہوری ارتقا کا سنگ میل ٹھہرے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اکتوبر 58 ء میں ایوب آمریت کا خیرمقدم کیا تھا۔ 1964 میں مادر ملت پارلیمانی جمہوریت کا پرچم اٹھا کر نکلیں تو ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی انتخابی مہم کے انچارج تھے۔

بے نظیر بھٹو نے ضیا آمریت سے ٹکر لی تو نواز شریف، غلام دستگیر خان، راجہ ظفرالحق، جاوید ہاشمی، یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی آمریت کی کشتی میں سوار تھے۔ 1985 میں محمد خان جونیجو آمریت کا حسن انتخاب تھے۔ 1988 میں ان کے خیمے کی طناب کٹ گئی تو کشتگان کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے دس برس کی اٹھا پٹخ میں کیا کسر چھوڑی لیکن 2006 ءکے میثاق جمہوریت نے سب داغ دھو ڈالے۔

پاکستان کے عوام تہی دست سہی، کم ظرف نہیں ہیں۔ جمہوریت کے پرچم پر کسی کا اجارہ نہیں۔ سر چھپانے کے لئے چھت، روٹی، تعلیم اور روزگار کا خواب بادل کی طرح ہمارے ساتھ ساتھ چلا ہے۔ آج کے محضر میں اچھی خبر یہ ہے کہ سناٹے کا وقفہ زیادہ طویل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ عمران خان تیزی سے بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ افسوس مگر یہ کہ ان کی بالانشین افتاد ایسی ہے کہ وہ ہماری تاریخ میں جمہوریت سے انحراف کے ایک مختصر نشان کے طور پر باقی رہیں گے۔ مزید افسوس یہ کہ اس برس کے آخر تک جب بادل چھٹیں گے تو بہت سی دھوپ ڈھل چکی ہو گی۔ احمد مشتاق نے کہا تھا، جاتے ہوئے ہر چیز یہاں چھوڑ گیا تھا / لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا۔ جمہوریت سے کھلواڑ کی یہ قیمت بہت زیادہ ہے۔ توڑا جو تو نے آئینہ، تمثال دار تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہنی مون پیریڈ کا خاتمہ اور غریبوں کے لئے بے چین عمران خان
29/03/2019 سید مجاہد علی



لگتا ہے تحریک انصاف کی حکومت کا ہنی مون پیریڈ اب پورا ہو چکا ہے۔ دو روز پہلے سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کو طبی بنیاد پر چھے ہفتے کی ضمانت ملنے کے بعد ایسی خبروں، تبصروں اور تجزیوں میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یوں لگنے لگا ہے کہ موجودہ حکومت کے چل چلاؤ کا وقت قریب آگیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس تاثر کو قوی کرنے میں وہ تمام صحافی، اینکر اور رائے سازی کرنے والے عناصر پوری تندہی سے کردار ادا کررہے ہیں جنہیں اصولی طور پر ملک میں جمہوری رویوں اور نظام کے استحکام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔

پاکستانی سیاست کا یہ افسوسناک پہلو نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ جمہوریت یا آزادی رائے کے لئے اصولی بات کرنے سے گریز کی کیفیت دیکھنے میں آتی ہے۔ اس بات کو براہ راست نہیں تو بالواسطہ طور سے تسلیم کرلیا گیا ہے کہ حکومت کرنا اور پالیسی سازی، ان طاقت ور عناصر کا حق ہے جو غیر منتخب اداروں سے تعلق کی بنا پر نام نہاد اسٹبلشمنٹ کا حصہ بنتے ہیں۔ تاہم ملک کی 70 سالہ تاریخ میں جمہوریت سے گریز، عوامی حق رائے کو مسترد کرنے اور آئین کو پامال کرنے کی داستان خواہ کتنی ہی بھیانک ہو لیکن تبصروں کی رنگینی، بیانات کی شدت اور اور جائزوں کے حصار میں الزامات کا طوق بہر حال سیاست دانوں کے گلے کا ہار ہی بنتا ہے۔ ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے والے خواہ کوئی بھی ہوں، ان کے بارے میں شناسائی رکھنے کے باوجود، اگر، مگر، لیکن، کیوں، کیسے، جیسے لاحقے استعمال کرتے ہوئے ہر بیان اور تبصرہ بالآخر سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کو کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے۔

یہ ماننے کے باوجود کہ اس ملک میں سیاسی لیڈروں اور جماعتوں کی جدوجہد جمہوریت کی ترویج کی بجائے اقتدار کے حصول کی دوڑ سے عبارت رہی ہے، لیکن ملک میں اگر جمہوریت کا نام باقی ہے اور اس کے لئے کوششیں دیکھنے میں آتی ہیں تو اس کا کریڈٹ بھی سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کو ہی دینا پڑے گا۔ اسی طرح ملک میں اگرچہ آزادی رائے اور میڈیا کی غیر جانبداری کو محدود کرنے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے اختیارکیے جا رہے ہیں اور خاص طور سے الیکٹرانک میڈیا کو سرکاری ترجمان میں تبدیل کرلیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں رائے کی آزادی، صحافت کی خودمختاری، خبر کی صداقت اور تبصرے کی اصابت کے لئے ہونے والی کوششیں بھی اسی لئے ممکن ہوئی ہیں کہ آزادی صحافت کے لئے ہر دور میں قربانیاں دینے والے صحافی اور ان کے لیڈر موجود رہے ہیں۔ انہیں بہرطور خراج تحسین پیش کرنا پڑے گا۔

اسی طرح ان صحافیوں کی بہادری اور عظمت کو سلام بھی کرنا ہوگا جو لالچ و تحریص کے باوجود اپنے پیشہ میں جھوٹ کی ملاوٹ کرنے پر تیار نہیں ہوتے خواہ اس کے لئے انہیں اپنے خاندان کی معاشی بدحالی کو قبول کرنا پڑا اور اپنے ہی ساتھیوں سے گھمنڈی اور عاقبت نا اندیش کے طعنے سننے پڑے۔ ان ہی لوگوں کے دم قدم سے ملک میں اب بھی آزادی رائے کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرنے کا چلن موجود ہے۔ سیاسی عمل کے ذریعے ملک کا انتظام چلانے کی بری بھلی صورت بھی اسی لئے دکھائی دیتی ہے کہ اس ملک میں سیاست دان تمام تر ناموافق حالات کے باوجود جمہوریت ہی کو واحد قابل عمل اور قابل قبول نظام قرار دیتے ہیں۔

تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے لئے متعدد عوامل کارفرما رہے ہیں۔ ان میں درپردہ قوتوں کی سابقہ حکمران جماعتوں سے مایوسی اور عوام میں عمران خان کو ’آؤٹ سائیڈر‘ کے طور دیانت دار سیاست دان سمجھتے ہوئے ایک موقع دینے کے نعرے کی مقبولیت کا بھی کردار رہا ہے۔ جولائی 2018 میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ عام لوگوں کو بھی تحفظات رہے ہیں۔ خاص طور سے جس طرح طاقت ور سیاسی گھرانے آخری ہفتوں یا مہینوں میں تحریک انصاف کا حصہ بنے اور انتخاب کے بعد مرکز کے علاوہ پنجاب میں اسے اقلیتی جماعت سے اکثریتی پارٹی بنانے والے ’آزاد ارکان‘ نے جوق در جوق جس طرح عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا، اس سے عمران خان کی سیاست، منشور، قیادت اور اہلیت سے زیادہ، ان کے لئے ’قبولیت‘ کا عمل دخل تھا۔

یہ کھیل چونکہ پاکستان میں تواتر سے کھیلا جاتا رہا ہے اور سیاست میں پاکستانی شہریوں کو گہری دلچسپی بھی رہتی ہے، اس لئے ہر کس و ناکس کو اس بات کا اندازہ ہے کہ گزشتہ برس ہونے والے انتخابات کے بعد جو جمہوری انتظام معرض وجود میں آیا ہے، وہ نیم جمہوری ہے اور فیصلوں کے لئے پارلیمنٹ سے زیادہ درپردہ مفاہمت و مواصلت پر انحصار کیا جاتا ہے۔

اس کے باوجود اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک انصاف کو انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے اور وہ قابل ذکر تعداد میں نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ یہ بات فراموش کرنا بھی جمہوریت سے گریز ہوگا کہ اس انتظام میں کسی بھی قسم کا خلل جمہوریت کو زیردست رکھنے والی قوتوں کی کامیابی ہوگی۔ ملک میں ایسے سیاست دان موجود ہیں جو اس چور راستے سے موجودہ پارلیمنٹ میں ’ان ہاؤس‘ تبدیلی کے ذریعے اقتدار میں آنے کا خواب دیکھتے ہیں۔

خالص سیاسی و جمہوری بنیاد پر فیصلوں کی وجہ سے ایسی تبدیلی جمہوری روایت کے عین مطابق بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن پاکستان میں اس قسم کی تبدیلی کے لئے غیر منتخب طاقتوں کی اشیر واد پر تکیہ کیا جاتا ہے اور ان ہی کے تعاون کسی حکومت کا تختہ الٹنے کی خواہش و امید کی جاتی ہے۔ ایسا عمل کبھی بھی جمہوریت کے استحکام کا سبب نہیں بن سکتا جس میں غیر جمہوری قوتوں کے کردار کو تسلیم کیا جارہا ہو۔

اس پس منظر میں موجودہ سیاسی صورت حال پر غور سے پہلے یہ بات بھی ذہن نشین کرنا ہوگی کہ ملک کے سیاست دانوں کی خود پسندی، کرپشن، بد انتظامی اور سیاسی غلطیوں پر تو دفتر سیاہکیے جاتے ہیں لیکن ملک میں کسی آئینی اختیارکے بغیر حکومت کرنے والی عسکری قوت کی غلطیوں اور سیاست میں مداخلت کے بارے میں سرسری بات کرکے اور اس کا ملبہ بھی سیاست دانوں کے سر ڈال کر آگے بڑھنے کا چلن عام رہا ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اس طرز عمل کو منصفانہ نہیں کہا جاسکتا۔

خاص طور سے مخالف سیاست دانو ں کی کردار کشی کی بنیاد پر سیاست کرنے والے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں تیس پینتیس برس لولے لنگڑے جمہوری انتظام کے تحت حکومت کرنے والے سیاست دان اگر قومی دولت لوٹ کر ذاتی خزانے بھر چکے ہیں تو باقی ماندہ مدت میں ملک پر مطلق العان حکومت کرنے والے فوجی لیڈروں کی لوٹ مار کے بارے میں کوئی بات کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جاتی۔

ملک کے قیام کے ساتھ ہی جمہوریت کے خلاف سازشوں کا حصہ بننے والے اور بعد میں آئین پامال کر کے فوجی حکمران کے طور پر دس برس تک حکمرانی کرنے والے ایوب خان کے دور حکومت کو تو عمران خان ’پاکستان کا سنہرا دور‘ قرار دینے میں حجاب محسوس نہیں کرتے۔ اسی مزاج کا شاخسانہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے 9 ماہ بھی پورے نہیں ہوئے کہ اس حکومت کی ناکامیوں اور غلطیوں کے قصے عامکیے جارہے ہیں۔ اس قسم کی رائے کو زبان خلق کا درجہ دلانے کی کوشش کرنے والے لوگ ’بدعنوان سیاسی لیڈروں‘ کے تنخواہ دار نہیں ہیں۔ بلکہ ان کی زبانوں کے نشتر کسی دوسرے سان پر تیز ہوتے ہیں۔

یہ بنیادی نکتہ سمجھ لیا جائے تو جمہوری مباحث میں توازن قائم کیا جا سکتا ہے اور سیاسی قوتیں اور مبصر سیاست دانوں کو تختہ مشق بنانے کے علاوہ، اصل خطرات سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ اس وقت اپوزیشن تحریک انصاف کے خلاف کسی سیاسی مہم جوئی کے لئے تیار نہیں ہے۔ ملکی سیاست میں خفیہ قوتوں کو حرف آخر سمجھنے کے مزاج کے تحت یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر حکومت مخالف مہم نہیں چلا سکتی۔

میاں نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کے بعد اب یہ چہ میگوئیاں عام ہو رہی ہیں کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیوں کیا اور اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے بعض پرجوش اس سال کے آخر تک عمران خان کی جگہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوانا چاہتے ہیں اور ’مصلحت پسند‘ عمران خان کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کرکے سول ملٹری تعاون کے ہنی مون کو جاری رکھنے کا اہتمام کریں۔ اس طرح تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج بھی آب و تاب کے ساتھ جگمگاتا رہے گا۔

البتہ ملک کے سیاسی منظر نامہ کو سمجھنے کے لئے صرف خفیہ ہاتھوں اور اشاروں کو حتمی قرار دینے کے علاوہ دیگر عوامل پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔ ان میں ملک کے انتہا پسندوں کے خلاف حکومت کی کارروائی کا عالمی سطح پر اعتبار، معیشت میں ہیجان کی کیفیت کا خاتمہ اور سیاسی مکالمے میں الزام تراشی کی بجائے افہام و تفہیم کی ضرورت، قابل ذکر پہلو ہیں۔ وزیر اعظم بدستور ان پہلوؤں سے اجتناب کرتے ہوئے صرف دو باتوں پر توجہ مبذولکیے ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ سیاسی مخالفین کی کردار کشی جاری رہے تاکہ تحریک انصاف کا نئے پاکستان کا مقبول نعرہ بکتا رہے۔ دوسرے ایسے منصوبوں کا اعلان کیا جائے جنہیں عمران خان کو ’غریبوں کا ہمدرد لیڈر‘ ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکے تاکہ ان کی مقبولیت کا گراف بدستور اونچا رہے۔

گزشتہ روز وزیر اعظم نے غربت کے خلاف ’احساس‘ کے نام سے جس مالی اور انتظامی منصوبہ کا اعلان کیا ہے، وہ بھی انہی سیاسی کوششوں کا حصہ ہے۔ عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ غربت کا خاتمہ خیرات بانٹنے سے ممکن نہیں ہے بلکہ ایسے انتظام کو تو غریبوں کو غریب رکھنے کا منصوبہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ملک میں غربت، سماجی علتوں کو ختم کرنے، معاشی چیلنجز سے نمٹنے اور قومی پیداوار میں اضافہ کے ذریعے ہی ختم ہوسکتی ہے۔ مالی امداد یا گھر بنا کر دینے کے منصوبوں کی بجائے نوجوانوں کو روزگار اور خاندانوں کی آمدنی میں اضافہ کے معاشی پروگرام شروع کرنا اہم ہوگا۔

پاکستان کی پیداواری صلاحیتیں، آبادی میں اضافے، غیر پیداواری اخراجات اور سماجی بے یقینی کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہیں۔ ان مشکلوں پر قابو پائے بغیر ’احساس‘ کی کوئی قوت عام شہریوں کو ’تحفظ‘ فراہم نہیں کر سکتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
جناب وزیراعظم ! کیا آپ اس عہدہ کے اہل بھی ہیں؟
31/03/2019 سید مجاہد علی


عمران خان نے گھوٹکی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جو عامیانہ لب و لہجہ اختیار کیا ہے ، اس کے بعد انہیں خود سے سوال کرنا چاہئے کہ جس عہدہ جلیلہ پر وہ ربع صدی کی جدوجہد کے بعد پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں ، کیا وہ اس کے اہل بھی ہیں۔
وزیر اعظم کے طور پر 7 ماہ مکمل ہونے کے باوجود عمران خان ملک کو درپیش مسائل کو سمجھنے اور اپنی حکومت کی مجبوریوں کا ادراک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہیں معاشی معاملات سے لے کر خارجہ تعلقات تک مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گو کہ گزشتہ ماہ بھارت کی طرف جارحیت کے مظاہرے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کو لائف لائن ملی تھی کیوں کہ عوام کے علاوہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی بھارتی حکومت کے غیر معقول اور ناجائز رویہ کے خلاف بیک آواز افواج پاکستان اور حکومت کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا تھا۔ اس طرح مسلسل ناکامیوں کی صورت میں عمران خان کی حکومت کو کچھ سکھ کا سانس لینا نصیب ہؤا تھا۔ اب یوں لگتا ہے کہ وزیر اعظم اس مہلت سے فائدہ اٹھانے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ وہ اپوزیشن پر الزام تراشی کے ذریعے اپنی ناکامیوں اور حکومت کی ناقص کارکردگی کو چھپانے کی ناکام اور بھونڈی کوشش کررہے ہیں۔
گھوٹکی کے جلسہ عام میں وزیر اعظم کی گفتگو سطحی اور ان کے سابقہ مقبول عام رویہ کے عین مطابق تھی۔ لیکن حکومت سنبھالنے کے نصف برس بعد اپوزیشن کے سیاسی اور سماجی بائیکاٹ کی صورت حال پیدا کرتے ہوئے بھی اگر ان کی حکومت بنیادی نوعیت کے معاملات میں بہتری پیدا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے تو اس کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کی بجائے تحریک انصاف اور اس کے چئیر مین کو ہی قرار دیا جائے گا۔
وہ بڑے اصرار سے شریف خاندان اور آصف زرداری کی لوٹ مار کو ملک کے موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے ان کا یہ دعویٰ یوں قابل قبول ہو سکتا تھا کہ ان کے پاس اختیار نہیں تھا اور وہ بڑے لیڈروں کی کرپشن سے آگاہ ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرنے سے قاصر تھے۔ لیکن اب انہیں حکومت سنبھالے سات ماہ کی مدت بیت چکی ہے۔ وہ پوری قوم کو ملک کی اہم اپوزیشن پارٹیوں کی کرپشن کے قصے ازبر کروانے کے علاوہ بیرونی دوروں میں عالمی لیڈروں اور سامعین کو بھی یہ بتاتے رہے ہیں کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ ملک میں جاری کرپشن ہے جس کی وجہ سے عوام غریب اور حکومت مجبور ہے۔ لیکن اب اس نکتہ پر شریف خاندان یا زرداری کو مطعون کرنے کی بجائے انہیں خود اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ ان کی حکومت نے اس مدت میں بدعنوانی میں ملوث افراد کے خلاف کتنے مقدمات قائم کئے ہیں، کون سے نئے قوانین منظور کئے گئے ہیں، نیب یا بدعنوانی کا سراغ لگانے والے دیگر اداروں کو کتنا مضبوط کیا گیا ہے اور وہ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ’سایہ عاطفت‘ میں پناہ لینے والے سیاست دانوں کے علاوہ ملک کے سب سیاست دان چور اور لٹیرے ہیں؟
حکومت اور اس کے نمائندے ملک میں نیب اور دیگر اداروں کی طرف سے اہم سیاسی لیڈروں کے خلاف کارروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اکثر ہاتھ اٹھا کر معصومیت سے یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ یہ مقدمے ان کی حکومت نے قائم نہیں کئے ، اس لئے اس پر سیاسی انتقام کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔ شریف خاندان ہو یا آصف زرداری اور ان کے دوست و اہل خانہ، وہ اس وقت انہی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں جو دہائیوں پہلے ان کے خلاف قائم کئے گئے تھے ۔لیکن ملک کے ناقص نظام عدل اور کمزور قانون سازی کی وجہ سے نہ الزامات ثابت ہو پاتے ہیں اور نہ ہی یہ مقدمات ختم ہوتے ہیں۔
ہر ایسے موقع پر جب کسی سیاسی قوت کو منظر نامہ سے ہٹانا مقصود ہوتا ہے اور جب سیاست دانو ں کے خلاف ناگوار فضا پیدا کرکے کسی مختلف سیاسی قوت کے ہاتھ مضبوط کرنا مطلوب ہوتا ہے ، تو پرانے مقدمات کو زندہ کرکے احتساب اور قانون کی بالا دستی کا علم اونچا کرلیا جاتا ہے۔ اب وزیر اعظم ان پرانے مقدمات کی گرفت میں آئے ہوئے سیاست دانوں کے بارے میں یہ نعرہ بلند کررہے ہیں کہ وہ انہیں ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ دوسرے لفظوں میں وہ اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ ملک میں استغاثہ اور عدل کا نظام غیر جانبدار اور خود مختار نہیں ہے بلکہ حکومت وقت کے اشاروں کا محتاج ہے۔ حکومت جس سیاست دان کو پابند سلاسل کرنا چاہے گی ، نظام بھی اس کا ساتھ دے گا اور وہ جسے رعایت دینے کا فیصلہ کرے گی ملک کی عدالتیں اور احتساب ادارے، ہاتھ باندھ کر انہیں رہا کردیں گے۔
وزیر اعظم کا یہ بیان تکنیکی لحاظ سے توہین عدالت کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ جس شخص کو بات کرتے ہوئے اس بات کا احساس تک نہ ہو کہ اس کی کون سی بات ملک کے مروجہ قوانین اور عدالتی روایت سے متصادم ہے ، اسے کیوں کر ملک پر حکمرانی کا اہل سمجھا جاسکتا ہے؟ وزیر اعظم کے طور پر ان کی حکومت اپنے زیر نگیں اداروں کو بدعنوانی میں ملوث لوگوں کے خلاف تحقیقات کرنے اور عدالتوں میں شواہد پیش کرنے کے لئے استعمال کرسکتی ہے۔ لیکن اس کے بعد ان الزامات کی نوعیت کا تعین کرنا اور ثبوتوں کو پرکھنا عدالتوں کا کام ہے۔ کوئی مجاز عدالت ہی کسی شخص کو بدعنوانی یا کسی بھی دوسرے الزام میں قصور وار ٹھہرا کر سزا دے سکتی ہے۔ جیسے مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کو سپریم کورٹ نے پبلک عہدہ سے نااہل قرار دیا لیکن انہیں سزا دینے کا فیصلہ مناسب عدالتی کارروائی کے بعد نیب عدالت کے ججوں نے کیا ہے۔
اب ان فیصلوں کے خلاف اپیلیں ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں جبکہ وہاں شنوائی نہ ہونے کی صورت میں نواز شریف ہوں یا دوسرے لوگ، سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ملکی عدالت عظمی کا فیصلہ ہی حتمی ہوگا۔ قانونی اور آئین لحاظ سے حکومت یا پارلیمنٹ بھی کسی مجرم کی سزا معاف کرنے کا اختیار نہیں رکھتیں۔ اگرچہ صدر مملکت کے پاس یہ آئینی اختیار ضرور ہے کہ وہ کسی مجرم کی سزا میں تخفیف یا معافی کا فیصلہ کرسکے۔ تاہم ایک پارلیمانی جمہوری نظام میں کوئی صدر ، وزیر اعظم کے مشورہ کے بغیر ایسا اقدام نہیں کرتا۔
اب وزیر اعظم اگر عام جلسوں میں اپوزیشن لیڈروں کو قومی خزانے کی لوٹی ہوئی دولت واپس کرکے رہائی حاصل کرنے کی ’پیش کش ‘ کررہے ہیں۔ انہیں بتانا چاہئے کی کیا حکومت نے پارلیمنٹ سے کوئی ایسا قانون منظور کروا لیا ہے کہ وزیر اعظم قومی دولت لوٹنے والے کسی شخص کو رقم واپسی کی صورت میں معافی دینے کا مجاز ہے؟ یا عمران خان اس اعلان سے یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ حکومت بالآخر وہ ’این آر او‘ دینے کی تیاری کررہی ہے ، جو نہ دینے کا اعلان وزیر اعظم نے دس بارہ دن پہلے لاہور میں ایک بار پھر کیاتھا؟
یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے خوابوں کی بنیاد پر نیا این آر اور تیار کرتے ہوئے اسےاس بات سے مشروط کررہے ہیں کہ جو بھی ان کی حکومت کو روزمرہ اخراجات چلانے کے لئے چند ارب روپے فراہم کردے گا ، وزیر اعظم اس کے گناہ معاف کرکے اسے تمام سہولتیں دینے پر آمادہ ہوں گے۔ کیا عمران خان ایک نیا یو ٹرن لیتے ہوئے سیاسی لیڈروں پر الزام تراشی رہے ہیں اور گھوٹکی کے معصوم لوگوں کو گواہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں؟ تاکہ کل کو اس بارے میں سوال اٹھنے پر وہ یہ کہہ سکیں کہ انہوں نے یہ فیصلہ ’وسیع تر قومی مفاد ‘ میں کیا تھا۔
آج کے خطاب میں وزیر اعظم نے اپنے اختیار سے بڑھ کربات کرنے کے علاوہ دراصل اپنی بے بسی اور مایوسی کو اپوزیشن پر کیچڑ اچھال کر چھپانے کی کوشش کی ہے۔ عمران خان آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ سیاست باہمی احترام، معاملات کی تفہیم اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کا نام ہے۔ فیصلوں کا اعلان جلسوں میں کرنے والے لیڈر کے بارے میں یہ سمجھنا دشوار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہورہا ہے اور اس خفت میں مخالفین پر الزام تراشی کی گولہ باری کرکے خود سوالوں سے بچنا چاہتا ہے۔ اس قسم کے غصیلے بیان کسی بھی سربراہ حکومت کی طرف سے اپنی ناکامی کا اعلان ہوتے ہیں۔ اس لئے عمران خان کو ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ جو عہدہ انہوں نے ہزار جتن اور سینکڑوں ساتھیوں ور دوستوں کی امیدوں پر پانی پھیر کر حاصل کیا ہے، کیا وہ اس کے اہل بھی ہیں؟
عمران خان اگر حکومت کے سربراہ کے طور پر معاملات سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں تو انہیں جان لینا چاہئے کہ اس کے باوجود اس عہدہ سے چمٹے رہنے سے بڑی بدعنوانی اور دھوکہ دہی کوئی نہیں ہوسکتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا مقبول ترین عمران خان کو ہٹا کر متبادل حکمران لانا ممکن ہے؟
01/04/2019 عدنان خان کاکڑ



آج کل مارکیٹ میں خبر گرم ہے کہ عمران خان کا بوریا گول کیا جا رہا ہے۔ مختلف امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً پارلیمنٹ میں سے ہی کوئی ان کا متبادل بن کر ابھرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی اپنی پارٹی کا ہو، ہو سکتا ہے کہ ان کا کوئی اتحادی ہو یا پھر ان کا مخالف۔ کبھِی شاہ محمود قریشی کا نام لیا جاتا ہے، کبھی گجرات کے چوہدریوں کا نام آتا ہے تو کبھی شہباز شریف سے ڈیل کی خبر گرم ہوتی ہے۔ لیکن کسی مقبول حکمران کو ہٹانا آسان تو نہیں ہوتا۔

حکومت آنے کے پانچ ماہ بعد جنوری میں آنے والے گیلپ کے دیسی پول تو عمران خان کی عوامی مقبولیت محض 51 فیصد بتا رہے تھے لیکن 14 مارچ کو آنے والے امریکی ادارے انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ کے پول تو عمران خان کی مقبولیت اس سے بھی بڑھا کر 57 فیصد بتاتے ہیں۔ جبکہ الیکشن میں انہیں کل ڈالے جانے ووٹوں کا محض 32 فیصد ملا تھا۔ طبعاً سیدھا سادہ ہونے کی وجہ سے اگر ہم ان پولز پر اعتبار کریں تو عمران خان کی مقبولیت انتخابات کے بعد دگنی ہو چکی ہے۔ پھر کیا نادیدہ قوتیں عمران خان کو ہٹا پائیں گی؟

ہٹانے کی خبر دینے والے کبھِی بتاتے ہیں کہ معیشت دیکھ کر لانے والے مایوس ہو رہے ہیں۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ نہیں، یہ محض افواہ ہے۔ لیکن جس طرح تواتر سے یہ خبریں چل رہی ہیں اس سے یہ تو ظاہر ہو رہا ہے کہ پس پردہ کچھ نہ کچھ کھیل ہو رہا ہے۔ دو امکانات ہیں۔ پہلا یہ کہ واقعی متبادل دیکھے جا رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ عمران خان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے تاکہ وہ قومی مفادات کے متعلق فیصلے کرنے میں لیت و لعل سے کام نہ لیں۔ خاص طور پر یہ مفادات والے فیصلے بجٹ کے متعلق ہوں گے۔

احتساب کے غبارے سے تو ہوا نکلتی دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت کو کچھ ریلیف نریندر مودی کے فضائی حملے نے فراہم کر دی ہے۔ مگر گیس بل کے ستائے عوام اب گرمیوں میں بجلی کے بل کا کرنٹ کھائیں گے۔ پیٹرول کی قیمت میں اضافے پر تو تحریک انصاف والے بھی بینر پکڑے احتجاج کرتے دکھائی دیے ہیں۔ ملک کی معاشی صورت حال دیکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ جون میں بجٹ آئے گا تو عوام کے پیٹ پر بڑا پتھر باندھا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے جانے کے اشاریے واقعی واضح ہو رہے ہیں یا یہ محض بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔

پاکستان میں حکومت ہٹانے کی روایت دلچسپ ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کے متعلق یہ بتایا جاتا ہے کہ چینی کی قیمت میں معمولی سے اضافے کے نتیجے میں طاقتور ایوب خان کے خلاف ایک تحریک چل پڑی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف انتخابی مہم میں کتیا استعمال کرنے والے ایوب خان کو کتے کے نعروں نے ہی جانے پر مجبور کیا۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جب بھٹو حکمران بنے تو ان کی مقبولیت آج کے عمران خان کی مقبولیت سے بہت زیادہ تھی۔ لیکن ان کی مقبول ترین حکومت کے خلاف ”تحریک نظام مصطفی“ چلائی گئی۔ نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ آج انہیں افسوس ہے کہ وہ استعمال ہو گئے تھے۔ اس تحریک میں سرخے بھِی شامل ہوئے اور مذہبی مجاہد بھی۔ بھٹو کی رخصتی کے ساتھ ہی نظام مصطفی کی تحریک بھی ختم ہو گئی۔ بھٹو جیسا مقبول شخص بھی اس مذہبی تحریک کے آگے لاچار ہوا اور جنرل ضیا نے اقتدار سنبھال لیا۔

یعنی جب ہٹانے والوں کا موڈ ہو تو وہ چینی سے لے کر مذہبی جذبات تک کسی شے کو بھی بنیاد بنا کر مقبول لیڈر کو غیر مقبول بنا دیتے ہیں۔ عمران خان کے تو حقیقی مسائل بھی ہیں۔ 57 فیصد مقبولیت بتانے والے امریکی سروے کے مطابق 39 فیصد افراد کی رائے میں ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، دوسرے نمبر پر 18 فیصد کی رائے میں غربت سب سے بڑا مسئلہ ہے، اور تیسرے نمبر پر 15 فیصد کی رائے میں یہ مسئلہ بیروزگاری ہے۔ یعنی ان سب کو روزی روٹی کا مسئلہ سب سے زیادہ پریشان کر رہا ہے۔

اب معیشت کا پہیہ تو جام ہے۔ احتساب کی خواہش نے سرمایہ مارکیٹ سے غائب کر دیا ہے۔ گیس کے بلوں نے عمران خان کی مضبوط بیس مڈل کلاس کی، اسد عمر کے الفاظ میں چیخیں نکلوا دی ہیں۔ بیروزگاری اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ آج ہونے والے پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے یہ مزید بڑھے گی۔ ڈالر مزید مہنگا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہم نے صرف قرضوں پر سود ہی نہیں دینا ہوتا بلکہ ہماری معیشت بھی ڈالر سے ہونے والی امپورٹ سے چلتی ہے۔ ڈالر کے مہنگا ہونے نے معیشت کا مزید بیڑہ غرق کرنا ہے۔ گرمی آ رہی ہے تو بجلی کا بحران بھِی ہو گا اور اس کی قیمت میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ ان سب مسائل سے نمٹنے کے لئے بجٹ میں سختی ہو گی اور اس کے بعد عوام کو مزید اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس دوران اگر ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ آ گئی تو اس کے معاشی جھٹکے سے حکومت کا بالکل ہی جنازہ نکل جائے گا۔

اس صورت میں مقبول ترین عمران خان کے خلاف عوام کو مشتعل کرنا مشکل نہیں ہو گا۔ یہ تو اب ارضی کارکنان قضا و قدر کے ہاتھ میں ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ چلتے ہیں یا پھر عزیز ہم وطنو کو نیا حکمران نصیب ہو جائے گا۔ لیکن جو بھی نیا حکمران آئے گا، اس کے لئے معیشت اور اداروں کو سنبھالنا مشکل ہو گا۔ اسد عمر اور عمران خان تو تیل نکلنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اس کے نکلتے ہی مشکلات آسان ہو جائیں گی۔ اگر یہ تیل دریافت بھی ہو گیا تو اس کی پیداوار شروع ہوتے ہوتے پانچ سات برس بیت جائیں گے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ اس دوران حکمران کیا کرے گا، سوال یہ ہے کہ اس دوران عوام اپنے حکمران کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس صورت میں مقبول ترین عمران خان کے خلاف عوام کو مشتعل کرنا مشکل نہیں ہو گا۔ یہ تو اب ارضی کارکنان قضا و قدر کے ہاتھ میں ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ چلتے ہیں یا پھر عزیز ہم وطنو کو نیا حکمران نصیب ہو جائے گا۔ لیکن جو بھی نیا حکمران آئے گا، اس کے لئے معیشت اور اداروں کو سنبھالنا مشکل ہو گا۔ اسد عمر اور عمران خان تو تیل نکلنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اس کے نکلتے ہی مشکلات آسان ہو جائیں گی۔ اگر یہ تیل دریافت بھی ہو گیا تو اس کی پیداوار شروع ہوتے ہوتے پانچ سات برس بیت جائیں گے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ اس دوران حکمران کیا کرے گا، سوال یہ ہے کہ اس دوران عوام اپنے حکمران کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔
اتفاق کیے بناء چارہ نہیں ۔۔۔!
 
Top