صوبہ سرحد میں ترقیاتی کاموں کی رفتار

مہوش علی

لائبریرین
مشرف صاحب کو ہٹانے کی تجاویز سامنے ہیں اور اس پر سوال یہ اٹھا تھا کہ انکی جگہ کون لے گا۔

کچھ حضرات عمران خان کے حق میں ہیں، تو وہ عمران خان پر نیا ڈورا کھول لیں۔

مگر اس ڈورے میں ہم مذھبی الائنس کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں کیونکہ اس مذھبی الائنس کے جیتنے کے بھی بہت امکانات ہیں اور متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں نے پچھلے کچھ سالوں سے کافی سنبھل کر اپنی پالیسیاں جاری رکھی ہیں اور خود کو انتہا پسندی سے شروع سے دور رکھا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمان کو بہت کریڈٹ جاتا ہے (اور جماعت اسلامی کے متعلق تو ویسے ہی میرے بہت اچھے خیالات ہیں)۔

لیکن میڈیا پر مجھے کہیں بھی صوبہ سرحد کے ترقیاتی کاموں وغیرہ کے متعلق کچھ پڑھنے کو نہیں ملتا، اور نہ ہی یہ پتا چلتا ہے کہ کیا متحدہ مجلس عمل نے پولیس کی کرپشن کو مکمل طور پر کرش کر دیا ہے یا نہیں۔
(واحد منصوبہ جو میری نظر سے گذرا تھا وہ ہر مسافر خانے میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ جگہ بنانے کا تھا۔ اور شاید دوسرا منصوبہ فحش پوسٹروں کو ختم کرنے کا)

اس لیے آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی کارکردگی پر روشنی ڈالیں۔
 

جیہ

لائبریرین
مجموعی طور پر سرحد میں مجلس عمل کی کارکردگی ترقیاتی کاموں کے حوالے سے تسلی بخش ہے اگرچہ اتنی اچھی بھی نہیں۔ میں سوات کے حوالے سے بات کروں گی۔ یہاں صحت کے شعبے میں اچھا کام ہوا ہے۔ سیدو میڈیکل کالج سوات مجلس عمل کا کارنامہ ہے۔ سیدو گروپ آف ہاسپٹلس کی ٹیچنگ ہسپتال کے طور پراپگریڈیشن ، ٹی بی ہسپتال کا افتتاح، 500 بستروں پر مشتمل نئے ہسپتال کا افتتاح ایسے کام ہیں جو قابل تعریف ہیں۔

مگر سڑکوں کی تعمیر کے حوالے سے کارکردگی مایوس کن ہے۔ سوات تا پشاور شاہراہ پچھلے آٹھ سال سے زیر تعمیر ہے آج تک۔ نئے سڑک تو بالکل نہیں بنے۔ سوات کے مرکزی شہر سے کالام سیاحتی مقام تک 99 کلومیٹر کا فاصلہ 4 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ اسی وجہ سیاح سوات آنے سے کتراتے ہیں اور مری ایوبیہ وغیرہ علاقوں کے طرف ان کا رحجان زیادہ ہے۔

امن و امان کا مسئلہ بھی ہے۔ سوات میں تو الحمد للہ امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے مگر صوبے کے دوسرے علاقوں میں صورت حال کافی تشویشناک ہے۔
 
یہ اچھا دھاگہ کھولا ہے آپ نے مہوش اور یقینا اس سے معلومات حاصل ہوں گی۔ اس میں بلوچستان کو بھی شامل کرلیں کہ وہاں بھی متحدہ مجلس عمل حکومت میں شامل ہے۔

میرے خیال میں امن و امان کا مسئلہ گھمبیر ہے صوبہ سرحد میں اور صوبائی حکومت اس کی ذمہ داری وفاق پر ڈالتی ہے اور وفاق صوبے پر مگر نقصان عوام کا اور ملک کا ہو رہا ہے۔ میرے خیال سے اس محاذ پر انتہائی مشکلات کا سامنا ہے متحدہ مجلس عمل کو اور اگر انہوں نے اسے بہتر نہ کیا تو پھر وہ ایک ناکام حکومت ہے۔

اس مسئلے پر وہاب اعجاز اور دوسرے احباب جو سرحد سے تعلق رکھتے ہیں زیادہ بہتر رائے دے سکتے ہیں۔
 

ساجداقبال

محفلین
میری رائے صرف میرے شہر کوھاٹ تک محدود ہے۔ ہمارے کوہاٹ کا ایم پی اے کا تعلق مجلس عمل سے نہیں بلکہ قوم پرست اے این پی سے ہے۔ جیسے کہ آپکو پتہ ہے کہ ایم ایم اے اور اے این پی میں اللہ واسطے کا بیر ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ایم پی اے کے توسط سے ہونے والے ترقیاتی کاموں کی تعداد تقریباً صفر ہے۔ براہ راست صوبائی حکومت نے کوہاٹ راولپنڈی سڑک(پنجاب کی سرحد تک) بنانے کا آغاز 2002ء میں کیا اور تاحال اس کے مکمل کیا بننے کے آثار نظر نہیں آرہے۔ اور اس دوران ٹھیکیداروں کا بدلنا اور گھپلوں کا ہونا آپکے کیلیے جاننا بیکار ہوگا۔
واحد ترقیاتی کام جس کا مجھے علم ہے وہ پرائمری سکولوں میں کتب کی مفت فراہمی ہے۔ کوہاٹ میں صحیح معنوں میں ترقیاتی کام سابق گورنر جنرل(ر) افتخار حسین شاہ نے کروایا۔ جنمیں قابل ذکر کوہاٹ یونیورسٹی اور شفاء آئی ہاسپٹل کا قیام (پشاور کو نظر انداز کر کے :wink: ) شامل ہیں۔
 
Top