صوبہ جنوبی پنجاب

اور اگر صوبائی اسمبلیاں نہ بنائی جائیں۔۔۔
کابینہ سارے انتظامی امور انجام دے تو؟؟؟
ویسے کابینہ ۔بھی عجیب طریقے سے تشکیل پاتی ہے ہمارے ہاں، ریلوے کے وزیر کو ریلوے کا کچھ علم ہو نا ہو پارلیمان کا رکن ہونا ضروری ہے۔ وزیر بننے کے لئے رکن پارلیمان ہونے کی پابندی نہیں ہونی چاہئے بلکہ میرٹ پر پورا اترنا اس کا معیار ہونا چاہئے۔
 
اگر آبادی کی تعداد پر صوبہ کو تشکیل دیا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔ انتظامی امور کے لیے لوکل باڈی گورنمنٹ کا طریقہ کار موجود ہے ،اس پر عمل کرتے ہوتے کام چلا جا سکتا ہے ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ابتدائی طور پر ایسا کیا جاسکتا ہے کہ ہر ڈویژن کی بجائے کل دس صوبے بنا لئے جائیں اور وزراء اور ارکان اسمبلی کی تعداد کو آئینی طور پر محدود رکھا جائے، بہت سی وزارتیں مرکز کو منتقل کر دی جائیں ۔ بہتر ہے پالیسی سازی جیسے کہ تعلیمی نصاب وغیرہ مرکز میں بنایا جائے اور عملدرآمد کی ذمہ داری صوبوں کو دے دی جائے۔

اور اگر صوبائی اسمبلیاں نہ بنائی جائیں۔۔۔
کابینہ سارے انتظامی امور انجام دے تو؟؟؟
آپ حضرات نے تھوڑا سا اُلٹ معاملہ کر دیا، وفاق میں تو کوشش ہوتی ہے کہ صوبوں یا ریاستوں کو زیادہ سےزیادہ اختیار منتقل کیے جائیں اور مرکز کے پاس چنیدہ اور مخصوص اختیارات ہی رہیں۔
 

عباس اعوان

محفلین
اعوان صاحب ، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان دو ڈویژنوں میں ایسے کونسےانتظامی معاملات یا بد انتظامی ہےکہ ان کو علیحدہ علیحدہ صوبہ بنایا جائے ؟
ان دو ڈویژنوں بظاہر تو کوئی بد انتظامی نہیں، لیکن جب نئے صوبوں کو بنانے کے لیے کوئی اکائی تلاش کی جارہی ہے، تو میرے نزدیک زبان، کلچر وغیرہ سے بہتر اکائی ڈویژن ہے تا کہ لسانیت کو فروغ نہ ملے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ترکی:
٭ اِس وقت ہماری آبادی بیس کروڑہے جب کہ ترکی کی آبادی سات کروڑ ساٹھ لاکھ ہے، یعنی ہم سے لگ بھگ تیسرے حصے سے کچھ زیادہ ہے۔ ترکی نے اپنا پورا نظام اور حکومتی و انتظامی ڈھانچہ ڈی سنٹرلائز کر دیا ہے اور تمام سروسز کو مقامی حکومتوں کی جانب منتقل کردیا ہے۔ گویا اپنا پورا نظام حقیقی جمہوری اُصولوں پر استوار کرچکے ہیں۔
سات کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی والے اِسلامی ملک ترکی کے 81 صوبے ہیں۔ ہم کیوں چار صوبوں پر چل رہے ہیں؟
وہاں 957 ضلعی حکومتیں اور 3,216 میونسپل حکومتیں قائم ہیں۔ اس سے نیچے ویلیج گورنمنٹ سسٹم رائج کیا گیا ہے، جس کے تحت 34,395 دیہی حکومتیں قائم ہیں۔ اس میں ذیلی یونٹ کے طور پر "ویلیج کوآپریشن نیبر ھُڈ سسٹم "رائج کیا گیا ہے۔ اِس طرح تمام تر اِختیارات نیچے منتقل کرکے عوامی شرکتِ اِقتدار‘ کا نظام عملاً وضع کردیا گیا ہے۔ مالیاتی اِختیارات، عوام کی خوش حالی کے وسائل اور قانون سازی اور ترقیاتی اِختیارات بھی نیچے منتقل کردیے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ساؤتھ کوریا :
٭ ساؤتھ کوریا میں Special Act for Balanced National Development کے تحت 157 حکومتی وزارتیں، محکمے اور سرکاری ادارے مقامی حکومتوںلوکل گورنمنٹس کو منتقل کیے جارہے ہیں۔ اختیارات کی منتقلی کے عمل میں National Territorial Development Plans کے تحت 2007ء سے 2031ء کا مرحلہ وار منصوبہ چل رہا ہے جس میں تمام اِختیارات مرکزی حکومت سے لے کر مقامی حکومتوں کومنتقل کردیے جائیں گے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
امریکہ :
٭ اِسی طرح کا نظام امریکہ میں بھی ہے۔ امریکہ کی بتیس کروڑ کی آبادی کے لیے پچاس ریاستیں، 3,034 کاؤنٹی حکومتیں، 16,405 ٹاؤن شپ حکومتیں، 19,429 میونسپل حکومتیں اور 35 ہزار سے زائد Special Purposed Governments ہیں۔ ساری حکومت اور انتظام نچلی سطح پر عوام کو منتقل کر دیا گیا ہے اور مرکزی سطح پر صرف سکیورٹی اور بین الاقوامی معاملات طے ہوتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
ہر صوبے میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو نئے صوبوں کے قیام کی مخالف ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے پریشر گروپس بھی ہیں جونسلی، لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر نئے صوبوں کا قیام چاہتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی رہے گا کہ جس صوبے کی اسمبلی میں اس حوالے سے آواز بلند ہو تو وفاق اس پر توجہ دے۔ ہماری دانست میں تین چار صوبے مزید بن جائیں تو غنیمت ہے۔ اس سے زائد کے خواب دیکھنے پر پابندی نہیں تاہم ایسا ہونا مستقبل قریب میں ممکن دکھائی نہیں دیتا؛ اسے بدقسمتی تصور کیا جا سکتا ہے۔
 
آپ حضرات نے تھوڑا سا اُلٹ معاملہ کر دیا، وفاق میں تو کوشش ہوتی ہے کہ صوبوں یا ریاستوں کو زیادہ سےزیادہ اختیار منتقل کیے جائیں اور مرکز کے پاس چنیدہ اور مخصوص اختیارات ہی رہیں۔
لوگ وفاق کی کیسی تعریف کرتے ہیں ضروری نہیں ایسی تعریف ہمارے ملکی مفادات پر پوری اترتی ہو، مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم ایسی ہونی چاہئے جو قوم کو (لسانیت اور کلچر وغیرہ بنیادوں پر) تقسیم در تقسیم نہ کرے بلکہ ہم آہنگی میں اضافہ کرے، اس لئے قومی پالیسیاں مرکز میں ہی قومی اتفاق رائے سے بننا چاہئیں، صوبوں کے پاس عملدرآمد کے انتظامی اختیارات ہوں تاکہ معاملات جلد اور عوام کے قریب رہ کر حل کیے جا سکیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
لوگ وفاق کی کیسی تعریف کرتے ہیں ضروری نہیں ایسی تعریف ہمارے ملکی مفادات پر پوری اترتی ہو، مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم ایسی ہونی چاہئے جو قوم کو (لسانیت اور کلچر وغیرہ بنیادوں پر) تقسیم در تقسیم نہ کرے بلکہ ہم آہنگی میں اضافہ کرے، اس لئے قومی پالیسیاں مرکز میں ہی قومی اتفاق رائے سے بننا چاہئیں، صوبوں کے پاس عملدرآمد کے انتظامی اختیارات ہوں تاکہ معاملات جلد اور عوام کے قریب رہ کر حل کیے جا سکیں۔

ارتکازِ اختیارات و وسائل کے خاتمہ سے متعلق آئین پاکستان کے آرٹیکلز:-
آرٹیکل 35 شق (ط)
مملکت:
(ط) نظم و نسق حکومت کی مرکزیت دور کر ے گی (decentralization the Government administration) تا کہ عوام کو سہولت بہم پہنچانے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے کام کے مستعد تصفیہ میں آسانی ہو۔
 
ہم سرائیکی لوگ ہر بار بڑی غلطی کر جاتے ہیں جب ہم معاشی اور انتظامی مفاد کو نئے صوبے کی وجہ بتاتے ہیں۔ سرائیکی ایک الگ قوم ہے، جیسےجرمن یا سندھی یا فارسی یا ازٹک ہیں۔ بات یہ ناگوار گزرے مگر سہی بات یہ ہے کہ مسلمان یا پاکستانی ایک قوم نہیں صرف ایک مصنوعی لیبل ہے ۔

اگر آپ سرائیکی نہیں ہیں، آپ نہیں سمجھ سکتے ہمارا دکھ جو ہمیں ہوتا ہے جب کبھی پاکستانی اقوام جیسے پنجابی، بلوچی، سندھی، پٹھان گنوائی جاتی ہیں اور ہر بار اس 2 سے 4 کروڑ لوگوں کی عوام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ (آخر کیوں؟ کیوں کہ ہمارا صوبہ نہیں ہے؟) آپ وہ دکھ نہیں سمجھ سکتے جب لوگ ہمیں پنجابی کہتے، جب کہ ہم بالکل ہی مختلف قوم ہیں۔ اور اگر پنجابیوں سے کسی طرح کا تعلق بھی ہے، یہ وہی تعلق ہے جو کشمیریوں کا ہندوستان سے ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
وفاقی وزیر بجلی اویس لغاری نے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے منشور میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبے کو شامل کرنے کااعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوبارہ اقتدار میں آکر ایجنڈے کی تکمیل کریں گے۔
اسلام آباد میں دیگر اراکین اسمبلی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اویس لغاری نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) جنوبی پنجاب میں نئے صوبوں کی حامی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اسمبلی میں صوبہ بہاولپور اور صوبہ جنوبی پنجاب کی قراردادیں پیش کی ہیں لیکن حزب اختلاف نے ہمارا ساتھ نہیں دیا اور نہ ہی چھوٹے صوبوں کی آواز اٹھائی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ نے بڑے بڑوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ 35اراکین پارلیمنٹ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت کے لیے پر تولنے لگے۔شمولیت اختیار کرنے والوں کا تعلق پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سے ہوگا۔تفصیلات کے مطابق الیکشن کا وقت قریب ہے۔پاکستان کے مقتدر اداروں سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔
سیاسی لوگ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے تحت سیاسی وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں۔ایسے میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے لیے مسلم لیگ ن کے باغی اراکین نے اپنا ایک الگ سیاسی دھڑا قائم کر لیا ہے جس کا نام جنوبی پنجاب صوبہ محاذ ہے۔جنوبی پنجاب صوبہ محاذ نے بڑے بڑوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔35اراکین پارلیمنٹ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت کے لیے پر تولنے لگے۔ذرائع کے مطابق شمولیت اختیار کرنے والوں کا تعلق پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سے ہوگا۔10سے 12اراکین استعفیٰ دینے کے بعد اس نئی پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے جبکہ بیشتر اسمبلیاں تحلیل ہونے کا انتظار کریں گے
 

زیک

مسافر
ان دو ڈویژنوں بظاہر تو کوئی بد انتظامی نہیں، لیکن جب نئے صوبوں کو بنانے کے لیے کوئی اکائی تلاش کی جارہی ہے، تو میرے نزدیک زبان، کلچر وغیرہ سے بہتر اکائی ڈویژن ہے تا کہ لسانیت کو فروغ نہ ملے۔
لسانی یا کلچر وغیرہ کی بنیاد پر صوبہ بنانے کا فائدہ یہ ہے کہ اس گروہ میں جو علیحدگی کا عنصر ہو سکتا ہے اسے صوبائی اختیارات دے کر کم کیا جائے۔ لسانی یا گروہی وجوہات کو نظرانداز کر کے آپ کردوں والے حالات پیدا کر سکتے ہیں
 
Top