صنائع و بدئع

کاشف نقوی

محفلین
تلمیح

تلمیح کے لغوی معنی ہیں اِشارہ کرنا۔
شعری اصطلاح
شعری اصطلاح میں تلمیح سے مراد ہے کہ ایک لفظ یا مجموعہ الفاظ کے ذریعے کسی تاریخی‘ سیاسی‘ اخلاقی یا مذہبی واقعے کی طرف اشارہ کیا جائے۔ تلمیح کے استعمال سے شعر کے معنوں میں وُسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ مطالعہ شعر کے بعد پورا واقعہ قاری کے ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے۔
استعمال و مثال
مثال کے طور پر
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آﺅ نا ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

اس شعر میں اُس واقعے کی طرف اشارہ ہے جب حضرت
موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر چڑھ کر اللہ تعالٰیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔ اس خواہش کے جواب میں اللہ تعالٰیٰ نے تجلّی ظاہر کی جس کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے اور کوہِ طور جل کر سیاہ ہو گیا۔
ایک اور مثال ہے:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشا ئے لبِ بام ابھی
مندرجہ بالا شعر میں حضرت
ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ بادشاہ نمرود آپ علیہ السلام کو آگ میں جلا دینے کی دھمکی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے آگے سجدہ کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنے کے بجائے آگ میں کود پڑتے ہیں اور یہ آگ آپ علیہ السلام کے لئے گلشن بن جاتی ہے۔
ّّآ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھا ئی بہت ٗٗ
میں اپنے باپ کا یوسف تھا اس لیے محسن
سکوں سے سو نہ سکا بھا ئیوں سے ڈرتا رہا
تمنا دید کی موسیٰ کرے اور طور جل جا ئے
عجب دستورِ الفت ہے کرے کو ئی بھرے کو ئی
ابنِ مریم ہوا کرے کو ئی
میرے دکھ کی دوا کرے کو ئی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشا ئے لبِ بام ابھی
میں نے مانا کہ تو یوسف سا حسین ہے لیکن
یہ مرا دل ہے کو ئی مصر کا بازار نہیں

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے

حسنِ تعلیل


کسی چیز کی خوبصورت شاعرانہ وجہ بیان کرنا جو اس کی اصل وجہ نہ ہو،اس صنعت جس میں شاعر یا مصنف ایسی چیز کو کسی چیز کی علت فرض کرتا ہے جو درحقیقت اس کی علت نہیں ہوتی مثلاً پھول کے کھلنے کی وجہ یہ بیان کرنا کہ وہ بلبل کی نغمہ سنجی پر خوش ہو رہا ہے یا خوشی میں ہنس رہا ہے۔
اب جو پتھر ہے آدمی تھا کبھی
اس کو کہتے ہیں انتظار میاں !

پیاسی جو تھی سپاہِ خدا تین رات کی
ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

صنعت تجنیس
شعر میں دو یا دو سے زیادہ ایسے الفاظ لانا جو ایک ہی جنس کے ہوں.یعنی املاء میں ایک سے ہوں لیکن معنی الگ ہوں ۔
clip_image001.png
(1:- تجنیس تام
شعر میں ایسے دو یا دو سے زیادہ الفاظ لانا جو حروف کی نوع , تعداد , ترتیب اور حرکات و سکنات میں بالکل ایک جیسے ہوں. مگر معنی میں مختلف ہوں
جان دی , دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا (غالب
آدمی کہتے ہیں جس کو ایک پُتلا کل کا ہے
پھر کہاں کل اس کوگر کل ہوذرا بگڑی ہوئی (ظفر
ﭼﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺍﻟٰﮩﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﮈﺍﻟﯽ ﺁﺝ
ﺟﻮ ﮐﮭﻠﮑﮭﻼﺗﯽ ﮨﮯ ﮔﻞ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮈﺍﻟﯽ ﺁﺝ
clip_image001.png
تجنیس مرکب:-
دو متجانس الفاظ میں سے ایک لفظ مفرد ہو اور دوسرا کسی ایک لفظ کا کچھ حصہ. یعنی ایک دو حروف... مثلا
مطربِ دل نے مرے تارِ نفس سے غالب
ساز پر رشتہ پے نغمہ بیدل باندھا
ﺁﭖ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮑﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯼ ﺩﺍﺭ ﮐﯽ
ﺁﭖ ﮨﯽ ﻧﮯ ﺧﻮﺍﮨﺶِ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﯽ

صنعت مراعات النظیر
یعنی ایسے الفاظ استعمال کرنا جس کے معنی آپس میں ایک دوسرے کےساتھ سوائے تضاد کچھ مناسبت رکھتے ہوں۔ جیسے چمن کے ذکر کے ساتھ گل وبلبل وباغبان وسرو وقمری یا چمن بہار خزاں ہوا وغیرہ کا ذکر ہے۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

کسی کو چلتا ہُوا دیکھ لیں تو چلتے بنیں
غزال ، مورنی ، موجیں ، نجم ، زمانہ ، گھڑی
کسی کی مدھ بھری آنکھوں کے آگے کچھ بھی نہیں
تھکن ، شراب ، دَوا ، غم ، خُمارِ نیم شبی
مبالغہ
مبالغہ کے لغوی معنی ہیں حد سے بڑھنا۔ شعری اصطلاح میں مبالغہ اس صفت کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شے یا شخص کی بعید از قیاس تعریف یا مذمت کی جاتی ہے۔ اگر مبالغہ صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو شعر کا حسن نکھر جاتا ہے۔
مثال کے طور پر
رشتہ عمر میں تیرے پڑیں گرہیں اتنی
بچہ گننے کو جو بیٹھے تو وہ بوڑھا ہو جائے
اس شعر میں عمر کی طوالت کے لئے مبالغہ استعمال کیا گیا ہے جو درحقیقت نا ممکن ہے۔
ایک اور مثال ہے
کل رات ہجرِ یار میں رویا میں اس قدر
چوتھے فلک پہ پہنچا تھا پانی کمر کمر
اس شعر میں شاعر نے آنسوﺅں کے لئے مبالغہ استعمال کیا ہے ایسی بات بیان کی ہے جو حقیقتاً ممکن نہیں۔
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

صنعت لف و نشر
کلام میں پہلے چندچیزوں کا ذکر کیا جائے پھر ان کے مناسبات و متعلقات کا تذکرہ ہو۔ چنانچہ پہلے کو لف اور دوسرے کو نشر کہتے ہیں۔ اگر نشر کی ترتیب لف کے مطابق ہو تو اس کو لف و نشر مرتب کہتے ہیں۔ ورنہ لف و نشر غیر مرتب کہیں گے۔

لف و نشر مرتب
؎ ترے رخسارو قد و چشم کے ہیں عاشق زار
گل جدا سرو جدا نرگسِ بیمار جدا
نہ ہمت نہ قسمت نہ دل ہے نہ آنکھیں
نہ ڈھونڈا، نہ پایا ، نہ سمجھا ، نہ دیکھا
ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

غیر مرتب:
رخ و زلف پر جان کھویا کیا
اندھیرے اجالے میں رویا کیا
زلف و رخ کے سائے میں زندگی گزاری ہے
دھوپ بھی ہماری ہے چھا وں بھی ہماری ہے
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں

صنعت تضاد
اس صنعت کو صنعت تقابُل بھی کہتے ہیں۔ صنعت تضاد شاعری میں اس صفت کو کہتے ہیں جس کے ذریعے ایک شعر میں دو یا دو سے زائد متضاد الفاظ استعمال کئے جائیں۔ مثلاً۔ زمین اور آسمان اندھیرا اور اُجالا۔
مثال کے طور پر نمونہ کلام ہے
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عُمر یونہی تمام ہوتی ہے
اس شعر میں صبح اور شام متضاد الفاظ ہیں اس لئے اس شعرمیں صنعت تضاد استعمال کی گئی ہے۔ ایک اور مثال پیش ہے
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جا ئے
صنعتِ تکرار:

کسی لفظ یا جملے کو شعر میں بار بار لا کر شعر میں حسن پیدا کرنا صنعتِ تکرار کہلاتا ہے ۔
وہ تھا جلوہ آرا مگر تم نے موسٰی
نہ دیکھا ، نہ دیکھا ، نہ دیکھا ، نہ دیکھا
جو بے داغ لالہ جو بے خار گل ہے
وہ تو ہے ، وہ تو ہے ، وہ تو ہے ، وہ تو ہے
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
آتے آتے آئے گا ان کو خیال
جاتے جاتے بے خیالی جائے گی
ابہام

لفظی معنوی وہم میں ڈالنا، کلام میں ایسے الفاظ لانا جس کے دو معنی نکلتے ہوں ۔ ایک معنی قریب اور دوسرے بعید، کلام کو سنتے ہی یہ وہم ہو کہ معنی قریب مراد ہیں لیکن غور کرنے پو معلوم ہوگا کے بعید مراد ہیں۔

ہجر میں گھل گھل کے آدھا ہو گیا
لے مسیحا اب میں موسا ہو گیا

گلدستہ معنی کو عجب ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں

پھولوں کی وجہ رنگ کے قریبی معنی ذہن میں آتے ہیں لیکن یہاں معنی بعید یعنی بیان اور اسلوب وادا مراد ہیں۔

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کر کے
 
Top