صلیبی جنگیں اور نائن الیون

بےباک

محفلین
شیخ عبدالمجید، جرمنی


مغرب کے باسی نائین الیون سے قبل اس زعم میں مبتلاء تھے کہ دنیا کے بعض حصوں کے امن کو اگر مغربی طاقتوں نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے تو ان کا یہ خیال تھا کہ ہم تو امن میں ہیں اور ان کو یہ بھی زعم تھا کہ ان کی اقتصادی حالت باقی دنیا سے بہتر ہے ا ور انہیں سیاسی برتری کے ساتھ سائنس ٹیکنالوجی کی برتری بھی حاصل ہے اس احساس کو تقویت ان کی اقتصادی خوشحالی اور سیاسی طاقت کی برتری کی وجہ سے ملی ۔اور اس احساس نے انہیںنفس پرست اور خود غرض بنادیاکہ رونڈا کے لاکھوںافراد لقمہ اجل بن گئے ۔یو این او کے سیکریٹری جنرل نے اپیل پر اپیل کرتے رہے ۔لیکن جب ان بے کسوں کے نظارے میڈیا نے دکھلانے شروع کئے تو اہل مغرب نے اپنے عشرت کدوں سے ان کی حالت زار کوکسی قدر دیکھا لیکن مغرب کے ضمیر نے کروٹ نہ لی ۔فلسطین اور افغانستان کے بارہ میں تو پورا مغرب عجیب و غریب قسم کی نفسیاتی چپ سادھ کر بیٹھا تھا جیسے کوئی ردعمل نہ دکھانے کی ٹھان رکھی ہو۔

تاہم اس دوران ایک ناقابل یقین واقع یعنی گیارہ ستمبر٢٠٠١ ء کا رُونما ہو گیا اس نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ۔اس کے بعد سپین میں دہشت گردی اور سیون سیون لندن بم دھما کو ں نے ان کی پریشانیو ں میں اس قدر اضافہ کردیا ہے کہ یہ سوچنے لگے ہیں حالات ایسے تو نہیں تھے کہ ہمارے ملک کے شہروں اور گھروں اور عشرت کدوںتک میں ایسے حالات پید ا ہو سکتے تھے بہرحال ان کی حکومتوں نے جو ان کو ہر طرح کے حفاظت کی ضمانت دی تھی ۔دن بدن ایسے سانحات نے ان کی حفاظت کے سب خواب چکنا چور کر دئے ۔اور ایسے واقعا ت کے بعد اہل مغرب کے باسیوں نے کسی قدر ہوش کے ناخن لئے ۔ اور اس کے بعد برطانیہ سمیت یورپ کے اکثرممالک میں صدر بش کی عراق افغانستان میںصدر بش کی پالیسی اور سٹیٹ دہشت گردی کے خلاف یورپ میں مظا ہرے ہوئے ۔

لیکن حالات کا اگر گہری نظر سے تجزیہ کیا جاوے تو صاف نظر آرہا ہے کہ اہل مغرب اس کرہء ارض پرامن وسلامتی کے خواہاں ہیں ۔لیکن ان کے مغربی راہنمائوں میں نسلی برتری مذہبی منافرت اور اسلام دشمنی ہے ا ور انہوں نے اپنے عوام کے دلوں میں جو نسلی و مذہبی منافرت کی دیواریں کھینچ دی ہیں گویا مشرق اور مغرب کے درمیان کھینچی ہوئی یہ دیواریں ہیں جو انہیں آپس میں ملنے نہیں دیتیں ۔ گزشتہ کئی سوسال کی یورپی ملکوں کی متحدہ طاقت کی صلیبی جنگیں جو تھیں جو مسلمانوں پر فقط مذ ہبی منافرت اسلام دشمنی کی وجہ مسلط کیں گئیں تھیں گزشتہ کئی سوسال سے مغرب نے جو مسلمانوں سے ناروا جو سلوک کیااس سلوک کی تاریخ مسلمانوں کو یقین دلا چکی ہے کہ ان کی مسلمانوں سے نفرت مذہبی بناء پر ہے اور اسلام کا نام خواہ یہ لیں نہ لیں۔

لیکن یہ مسلما نو ں کی ترقی دیکھ نہیں سکتے اور مسلمان قوموں کے آگے بڑھنے کے خوف سے یہ ہمیشہ ایسے اقدام کرتے ہیں کہ جس سے مسلمانوں کی طاقت پارہ پارہ ہو جائے ۔یہ گہرا تاثر ہے جو مسلما ن عوام الناس کے دل میں موجود ہے ۔اور ایک لمبے تاریخی تجربے کے نتیجہ میں عامتہ المسلین دل میں یقین رکھتے ہیںاور یہ یقین ان کے دل مین جاگزیں ہو چکا ہے کہ یہ قومیں ہر مشکل کے وقت ہماری مخالفت کریںگی اور ایسے اقدامات کریں گی جس سے عالم اسلام کو نقصان پہنچے گا۔

اس تاثر کو خلیج کی جنگوں نے اور امریکہ کی ایماء پر عراق ایران جوجنگ لڑی گئی اور گہرا کردیا۔اور اس تاثر کو نائین الیون کے بعد امریکہ کے عراق افغانستان قبضہ اور امریکی سٹیٹ دہشت گردی نے مزید تقویت دی پس مغربی مشرقی قوموں کے دل گواہی دیتے ہیںکہ مغرب مشرق کبھی آپس میں مل نہیں سکتے۔ مسلمان سے مسلسل زیادتیو ں اور ان کی حق تلفیو ں اوراُمت مسلمہ سے ناروا سلوک اور ظلم و ستم کی ایک بہت طویل داستان ہے ۔ یورپی عیسائی قوموں کی اسلام سے مذہبی منافرت کی بناء پر جو صلیبی جنگوں کا ایک لمبا دور ہے ۔

پس ان صلیبی جنگوں کے زخم جو یورپی اقوام کو لگے تھے وہ ابھی تک تازہ ہیں ۔ اور سلطنت عثمانیہ کے عروج کا خصوصاََ یعنی سلیمان اعظم کے زمانہ میںجس طرح بار بار یورپی طاقتوں کو صلیبی جنگوں میں جو زک پہنچی اس کی وجہ سے یہ لوگ مجبور ہو گئے ہیں کہ اسلام کو اپنے لئے خطرہ سمجھیں۔ ان کے نفسیاتی پس منظر کا اسلام سے خوف ان سے مٹائے نہیں مٹتا۔
اور مغربی قوموں کی عرب مسلمانوں کے خلاف ان کی سازش یہ تھی کہ یہودی قوم پر یورپی اقوام کی مظالم قتل و غارت کی لمبی تاریخ ہے ۔اس لئے مغربی قوموں نے سوچا کہ یہود کے اپنے خطرہ کوکیوں نہ اسلام کی طرف منتقل کردیا جائے۔اس سے دوہرا فائدہ ہوگا ۔ایک وقت میں دو دشمن مارے جائیں ۔اور مغربی قوموں کی آخری سازش یہ ہے مسلمانوں سے صلیبی جنگوں کا انتقام لینے کے لئے 'اور ان کو دبانے کے لئے یہود کو ہمیشہ استعمال کرتے رہو ۔مغربی دنیا اسلام سے گہری دشمنی رکھتی ہے اس دشمنی کے پس منظر میں صلیبی جنگوں کی تاریخی رقا بتیں ہیں۔اور اس دشمنی کی وجہ ایک وہ خوف بھی ہے جو جاہل ملاں کے اسلام کے نام نہاد جہاد کے متعلق خود کش حملوں نے ان کے دلوں میں خوف پیدا کردیا ۔

اس لئے یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی ایک بھاری اقلیت سے بھی انہیں خطرہ لاحق ہو گیا جومغربی ممالک میں ان کی اقتصادیات کی ستون کی صورت میںان کے دست کار ہیں ۔برطانیہ کے بم دھماکوں نے ان کے دلی وسوسہ کو تقویت دی ہے ۔کیونکہ پہلے تو ان کو دہشت گردی کا بیرون خطرہ ستا رہا تھا لیکن گیارہ ستمبر'اور سپین میڈرڈ ' اور لندن بم دھما کے سانحوں جیسے اندرون خطرہ نے بھی انہیں ہلا کر رکھ دیا ۔کیونکہ اہل مغرب کے نسلی امتیاز اور تفاخر نے اور ان کی نسلی منافرت اور حق تلفیوں کا سب سے زیادہ نشانہ مشرق کی نئی نسل بن رہی ہے اور سب سے زیادہ انہیںیورپ میں بسنے وا لی مشرق کی نئی نسل سے خطرہ ہے ۔ اور اہل مغرب کی اسلام دشمنی اگر پہلے درپردہ کار فرما تھی تو اب یہ ظاہر باہر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔مغربی راہنما اپنا دلی بغض یعنی اسلام دشمنی کو ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ لیکن دل کی آواز مختلف بہانوں سے اُٹھ کر ظاہر ہو کر زبان پر بھی آہی جاتی ہے۔

اگر مغربی قومیںیہ فی الحقیقت امن کے خواہاں ہیں تو امریکہ اور یورپی اقوا م عراق ' فلسطین اور افغانستان میںاپنی جنگی مخاصمت کی پالیسی ترک کر کے اس کا عملی ثبوت مہیا کریں اور اسرائیل کی پشت پناہی ختم کر کے اسرائیل کے ہاتھ مزید مسلمانوں کے خون بہانے سے روکنے ہوںگے ۔ مخاصمت کے تجربات نے ثابت کر دیا کہ انہوں نے اس خطہ میں نفرتوں کے گہرے بیج بو کر اپنے آپ کو مزید غیر محفوظ کر لیا ہے اور مغربی قوموں کو مشرق وسطیٰ کی مخاصمت اور عراق افغانستان کی پالیسی سے جو سبق حاصل ہوا ہے۔اس سے یہ ظاہر ہو اہے کہ موجودہ دہشت گردی کو طاقت سے یکطرفہ طور پر ختم کرنا ان کے لئے ممکن نہیں رہا۔کیونکہ دہشت گردی میں جو دن بدن اضافہ ہورہا ہے وہ بھی مسلمانوں کی ہلاکتوں کا ردعمل ہے اور دنیا میں ان قوموں کے خلاف نفرتوں کے ردعمل ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اس کا سبب ان کی نسلی برتری اور نسلی منافرت کی نفرتیں کارفرما ہیں جن کا یہ ردعمل ہے ۔

مغربی قوموں نے اور ان کے میڈیا نے مٹھی بھر جہادیوں کی دہشت گردانہ کا روائیوں میں ساری اُمت مسلمہ کو ملوث کرنے کی کوشش کی ہے اور مسلمانوں کی مکروہ عملی تصویریں اپنے میڈیا پر نفرت کے برش سے بنائی جارہی ہیں کہ جو خون کا رنگ رکھتی ہیں ۔ اور ایسی تصویریںنفرت کے برش سے بنائی جارہی ہیں اور اسلام کی نفرت کا برش ان تصویروں کے خدو خا ل بناتا چلا جا رہا ہے ۔اور کھل کر دنیا کے سامنے یہ تصویریں اُبھرتی چلی جا رہی ہیں ۔اس کے نتیجہ میں اور جو کچھ بھی ہو امن بہرحال قائم نہیں ہو سکتا ۔

بیشک اہل مغرب اس خطہ ارض میں امن کے خواہاں ہیں لیکن جو ان قوموں نے نفرتیں پھیلائی ہیں نفرتیں نفرتوں کے بچے جنم دیتی ہیں ۔جہاں نفرتوں کے بیج اتنے گہرے بو دئے گئے ہوں وہا ں عراق اور افغانستان اور فلسطین جیسی جنگیں ہی اُگیں گی اور یہ نہیں ہو سکتا کہ ان نفرتوں کے نتیجہ میں محبتیں پیدا ہونی شروع ہو جائیں اور جب تک امریکہ اور مغربی قومیں مسلمان ملکوںپر جنگ مسلط کرنے کی پالسی ترک نہیں کریں گے تو جنگ کے نتیجہ میں امن کی فصلوں کی اُمید رکھنا بے سود ہے ۔اور امریکہ سے یہ اُمید رکھنا کہ وہ ان ملکوں پر سٹیٹ دہشت گردی کے ذریعہ امن قائم کردے گایہ مغرب کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا ۔یعنی یہ کہ امریکہ اور مغربی قوموں کی محض خواب وخیال کی جاہلانہ باتیں ہیں ۔ نفرت کی بنیاد پر ان کے بنائے گئے منصوبوں کے نتیجہ میںقیام امن ممکن نہیں۔

امریکہ اور اسکی ہمنوا مغربی قومیں جو مشرق وسطی میں عراق'فلسطین پر اور افغانستان میں جو اقدامات کر رہی ہیںیہ ہمیشہ کے لئے دنیا کے امن کو تباہ کر رہی ہیں ۔ امریکہ نے افغا نستا ن کی جنگ کو پاکستان کے سرحدی علاقوں کے اندر دور دور تک اس جنگ کو منتقل کردیا ہے ۔امریکی آئے دن کی سٹیٹ دہشت گردی نے پاکستان کی سالمیت و بقاء کو خطرہ میں ڈال کر رکھ دیا ۔گویا امریکی بدنیتی پر مبنی سیاسی جارہانہ اقدامات نے افغانستان کے امن و سکون کی تباہی بربادی کے بعد اب وہ پاکستان کی امن و سلامتی کی تباہی کے درپہ ہے ۔ اہل مغرب ( خصوصاََیورپ) نے جو دو عالمگیر جنگوںکی ہلاکتو ں تباہیوں اور بربادیوںکے بعد تعمیر نو کرکے اپنے آپ کو اقتصادی عشرت کے قلعوںمیںمحفوظ کر لیا تھایہ قومیں اس وقت تک محفوظ نہیں جب تک یورپ نے امریکہ کی ہمنوائی کا سفر ترک نہ کیا ۔

اور اس میں کوئی شک نہیں امریکہ کی جنگجو پالسیوں کے نتیجہ میں تیسری عالمگیر جنگ کے آثار پیدا ہو رہے ہیں ۔اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے لئے تیسری عالمگیر جنگ ان کی بداعمالوں کی وجہ سے مقدر ہوگئی ہے۔اور مجرموں کی سزا کوئی معمولی سزا نہ ہوگی جو ان کو خدا دے گا ۔اس سزا کی خبر خدائی نوشتو ں میں یعنی آنحضرت ۖ کی پیشگوئی (صحیح مسلم ۔کتاب الفتن باب ذکر الدجال ) میںموجود ہے ۔ کہ تیسری عالمگیر جنگ کے نتیجہ میں دو سُپر پاور آپس میں ٹکرائیں گی ا ور اللہ تعالی ٰکی قہری تجلی ان کے ہلاکت کے سامان پیداکرے گی اس کے بعد دجالی قوموں کا فتنہ عا لمی جنگ کی شکل اختیار کر لے گا ۔ پس حدیث کے مضمون سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں کسی انسان کوان بڑی قوموں اور طاقتوں سے مقابلے کی طاقت نہیںہوگی خدا کی تقدیر ان کی طا قت ختم کرے گی اور خدا کی تقدیر ان کو مارے گی۔قرآن کریم و احادیث میں خدا تعالیٰ اور اس کا رسولۖ ان کی تباہی بربادی کی خبر دیتا ہے خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم انہیں تباہ کر یں گے اور ہم ایسا انتظام کریں گے کہ ہم ان قوموں کو اور اسرائیل کو عبرت کا نشان بنا دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
چھوٹا بھائی: بےباک
 

شمشاد

لائبریرین
بےباک مندرجہ بالا تحریر شریک محفل کرنے کا شکریہ لیکن یہ جیسا کہ آپ نے شروع میں " شیخ عبدالمجید، جرمنی " لکھا ہے، ان کی تحریر لگتی ہے۔ آپ نے اسے کہاں سے نقل کیا ہے؟ اس کا ربط یا حوالہ دینا چاہیے تھا۔ کاپی رائیٹ کا مسئلہ ہو سکتا ہے اور اردو محفل پر بغیر اجازت کے تحریر شریک محفل کرنا قواعد کی خلاف ورزی ہے۔
 
Top