صبح کا بھولا ۔۔۔۔ س ن مخمور

loneliness4ever

محفلین
صبح کا بھولا
س ن مخمور


’’ابو ! دیتھیں میں نے ٹصویڑ میں ڑنگ بھڑے ہیں‘‘
پیاری عائشہ نے اپنی توتلی زبان میں مجھے متوجہ کیا
’’ہاں بہت اچھے ہیں بیٹی، شاندار‘‘
میں نے اس کی طرف متوجہ ہوئے بنا جان چھڑانے کے لئے جلدی سے کہا
’’عائشہ ! آپ جلدی سے اسکول کا کام کر لیں پھرمیں آپ کو کہانی سنائوں گی ۔‘‘
معصوم پری نہ جانے باپ کی ایک نظر کے لئے کتنی دیر کھڑی رہتی کہ اس کی ماں نے یہ کہہ کر اس کی توجہ دوسری جانب مبذول کر دی ۔
کمرے میں پھر خاموشی چھا گئی۔ میرا قلم بہت تیزی سے قرطاس پر رواں تھا،میں لکھ رہا تھا اور باربار اپنےلکھے کو رد کر رہا تھاکہ اچانک یہ سلسلہ ختم ہوگیا اور کمرے میں میری چہکتی آواز نے خاموشی کا گلا گھونٹ دیا۔
’’ آہا! بہت خوب کیا گرہ لگائی مابدولت نے، آہا بہت عمدہ ۔۔۔ یقین نہیں کہ یہ میں نے لکھا ہے۔۔۔عائشہ کی ماں ! سنو گی تو عش عش کر اٹھو گی‘‘
’’ فرمائیں ‘‘

حنا نے بہت ہی روکھے انداز سے میرے چہکنے کا جواب تھا، میری پیشانی پر ایک دم سلوٹیں پڑ گئیں میں نے اس کو بغور دیکھتے ہوئے استفسار کیا
’’خیریت تو ہے اتنا روکھا انداز کیوں؟؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟کوئی فکر؟ پریشانی؟؟؟‘‘
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں آپ اپنا لکھا سنائیں‘‘

حنا نے زبردستی کی مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجا کر جواب دیا۔ میں نے لاپروائی سے کندھے اچکائے اور اپنا لکھا ہوا شعر لہک لہک سنانے کے بعد اس کو دیکھا، میرے دیکھنے پر اس نے روکھے انداز سے کہہ دیا بہت اچھا لکھا ہے ۔ مگر میری تسلی نہیں ہوئی ، حنا کے اس انداز نے مجھ پر اچھا اثر نہیں ڈالا، میں نے پھر استفسار کیا کہ اس رویے کا سبب کیا ہے تو جیسے آتش فشاں پھٹ پڑا۔
’’جب دیکھو آپ ہوتے ہیں اور آپ کی شاعری، اور اب تو آپ اپنے اس شوق کے پیچھے بیوی بچوں کو بھی بھول چکے ہیں، آپ لاکھ اچھا شعر کہہ لیں میرے نزدیک وہ محض تک بندی یا زبان کی آرائش کا سامان ہے اور بس، شعر کہنا والا تو حسّاس ہوتا ہے اپنے لوگوں کے غم بیان کرتا ہے ان کی ترجمانی کرتا ہے اور آپ اپنے گھر والوں کےاحساس کو فراموش کرکے محض داد و تحسین کے لئے لکھتے ہیں‘‘
اب یہ باتیں ظاہری بات ہے شوہر ہونے کے ناطے مجھ سے کیسے برداشت ہوتیں۔۔۔؟؟
’’کیوں جی ایسا لگتا ہے آپ جگ بھر کی مظلوم ہیں ؟کیا میں آپ لوگوں کا احساس نہیں کرتا ؟اپنے بچوں کا خیال نہیں کرتا ؟‘‘
میں نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا
’’آپ شادی سے پہلے استانی تھیں اور اس بات کو عرصہ گزر گیا اب میری استانی مت بنیں‘‘
’’استانی کی کیا بات؟ سچ آپ کو برداشت نہیں ہے، مانا آج کے دور میں کمانا آسان نہیں صبح جاتے ہیں تو شام اندھیرا ہوکر لوٹتے ہیں گھر کو، کہنے کو تو آفس کی نوکری ہے مگر مزدوری ہی لگتی ہے ایک چھٹی نہیں کرسکتے ۔۔‘‘
’’آہا اب آئیں ناں درست سمت میں، خود ثابت کردیا کہ مظلوم تم ہو یا تمہارا شوہر‘‘

میں نے بات کاٹتے ہوئے فورا اپنے مطلب کی بات کی
’’شاعر صاحب ! مجھے کوئی شوق نہیں مظلوم بننے کا، آپ لکھتے ہیں لکھنے کے آداب کے ساتھ بات کرنے کے آداب بھی بخوبی جانتے ہونگے، میری بات پوری نہیں ہوئی تھی جو آپ نے آداب ِ گفتگو کے برخلاف میری بات اچک لی‘‘
’’ استانی جی ! معذرت بند ہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہے آپ اپنی تقریر کا سلسلہ وہیں سے جوڑ لیں جہاں سے منقطع ہوا تھا‘‘

اب میں حنا کے غصے سے محظوظ ہونے لگا
’’ آپ خود سوچیں ایک دن اگر آفس سے جلدی آنا نصیب ہوگیا ،تو ملا ہوا وقت آپ اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے کے بجائے شاعری کی نظر کر رہے ہیں ۔ کتنی خوش تھی عاشی کہ ابو جلدی آئیں ہیں تو آج پارک لے کر چلیں گے آپ نے اس بچی کا دل بھی نہیں رکھا ، حالانکہ وہ کبھی ضد بھی نہیں کرتی ‘‘
یہ کہہ کر حنا خاموش ہوگئی
’’نیک بخت !اس پورے گھر کا بوجھ میرے ہی کندھوں پر ہے ۔ کیا میں یہ ذمہ داری نہیں نبھاتا؟؟کیا گھر کا خرچ پورا نہیں ہو پاتا ؟؟ صبح سے شام کرتا ہوں تو مہینہ تمام ہونے پر چار پیسے ہاتھ آتے ہیں کیا مجھ کو اتنا حق نہیں کہ اپنی خوشی پر گھنٹہ ، ڈیڑھ گھنٹہ لگا دوں، دوستوں کی بیٹھک میں نہیں بیٹھتا ، کوئی نامعقول شوق نہیں پال رکھا ۔ایک شاعری کا شوق ہے وہ بھی آپ کی آنکھوں میں خار بن کر چبھتا ہے‘‘
’’اجی اب آپ کنوارے نہیں ہیں ۔ شادی اور بالخصوص بچوں کے بعد تو مرد اور عورت دونوں کی ترجیحات میں واضح تبدیلی آتی ہے مگر آپ تو ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ خود سوچیں عائشہ کے دنیا میں آنے سے پہلے کبھی میں نے آپ سے کہیں گھمانے لیجانے کی بات کی؟ یہ مطالبہ بھی اب صرف بچوں ہی کی وجہ سے کرتی ہوں‘‘
’’بھئی بچے جاتے تو ہیں گھومنے اپنے چاچا کے ساتھ بلکہ تم بھی جاتی ہو پھر ایسا مسئلہ کیا‘‘
’’مخمور آپ بچوں کے باپ ہیں، منصور نہیں ۔ چاچا کے ساتھ تفریح پر جانا الگ اور باپ کے ساتھ جانا الگ اہمیت رکھتا ہے۔ ۔‘‘

میں سمجھ گیا کہ اب حنا کاغصہ عروج پرپہنچ چکا ہے، وہ میرا نام کبھی نہیں لیتی سوائے بے انتہا غصے کے ، مگر میں بھی کیا کروں اپنی ڈھیٹ طبیعت کے ہاتھوں مجبور، واقعی کان پر جوں تک نہیں رینگی، میں فورا بستر سے اٹھ کر اس کے انتہائی قریب کھڑا ہو گیا تھوڑی دیر اس کی آنکھوں میں جھانکتا رہا اور جٹ پٹ اس کی آنکھوں کی تعریف میں ایک قطعہ داغ دیا۔ مگر واقعی حنا کادماغ خوب گرم ہو رہا تھا ۔اپنی تعریف میں قطعہ سن کر بھی اس کا غصہ تمام نہیں ہوا
’’ اللہ ہدایت دے آپ کو ‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ پیر پٹختی ہوئی نچلی منزل کو چلی گئی۔
’’آمین‘‘
میں نے مسکراتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔ لگتا یوں ہے کہ میں ڈھیٹائی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کر چکا ہوں۔

×××

کہتے ہیں کہ گیڈر کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے یوں میر ی شامت آئی تو میں نے بھی نچلی منزل کا رخ کیا، ابھی زینےکو الوداع کہا ہی تھا کہ دادی جان نے خاطر تواضع کر دی
’’ نامعقول، نالائق ، موئے کو ذرا بھی پرواہ ہی نہیں بچوں کے دلوں کی، بچی نے پارک لیجانے کا کہا تو کہہ دیا ابو جان تھکے ہوئے ہیں اور نکما شاعری کرنے سے نہیں تھکتا۔ نوکری پر جا کر بھی شاعری ہی کرتا ہوگا‘‘
میں نے فوراََامی جان کی طرف دیکھا کہ ماں کی ممتا کا سہارا لےلوں مگر امی نے نگاہیں ناراضگی سے دوسری جانب کر لیں
’’اماں جی صحیح کہہ رہی ہیں آپ، آج اس کا کھانا بند‘‘
امی جان نے بھی دادی جان کے جابرانہ فیصلے کی بھرپور حمایت فرمادی۔ میں نے غضب ناک آنکھوں سے باورچی خانے کی جانب حنا کو دیکھا۔
’’ جی نہیں میں نے کچھ نہیں کہا ، یہ آپ کی لاڈلی ہے اس نے اپنی دادی سے آنکھیں لال کر کےسب کہا ہے۔ مگر آپ کو کیا پرواہ۔ آپ جائیں ستمگر کی یاد سے آنکھیں لڑائیں۔ ‘‘
حنا نے میرے کہے تازہ شعر پر چوٹ مارتے ہوئے اپنی صفائی پیش کر دی۔
’’ یاسمین منع کیا تھا تجھے مت کر اپنی بہن کی بچی سے اس کی شادی ، بچاری کے نصیب پھوٹ گئے اس نکمے سے شادی کر کے ‘‘
دادی جا ن نے ایک اور حملہ کیا
’’اماں جی!! معلوم تھوڑی تھا کہ یہ اس درجہ ڈھیٹ نکلے گا، اللہ جنت نصیب کرے اس کے ابو کو ، اماں وہ تو بلکل ایسے نہیں تھے ، کمانے والے وہ بھی ایک تھے انھوں نے تو اپنی بہنوں کی بھی شادی کرنی تھی ، گھر آکر پڑھاتے بھی تھے مگر میرےاور اپنی اولاد کے لئے ان کے پاس وقت ہی وقت ہوتا تھا۔‘‘
امی جان نے بھی یادوں کے دریچے کھول دئیے۔ میں نے عافیت اسی میں سمجھی کے واپس اوپر چلا جائوں۔ زینہ چڑھتے ہوئے میری سماعت میں دادی جان اور امی جان کی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں مگر میرے خیالات نے وہ آوازیں دھیمی کر دیں۔ میں سوچنے لگا کہ میرا معاملہ بھی گھر کی مرغی دال برابر جیسا ہے، میرے لکھے کی گھر والے ہی قدر نہیں کرتے، تو باہر والے کیا کریں گے، کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے گھر والے ان کو سراہاتے ہیں ۔ ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔اور یوں وہ اپنے آپ میں نکھار پیدا کر لیتے ہیں، گھر والے ساتھ ہوں تو کتنا آسان ہوجاتا ہے سفر، دنیا کا خوف اپنے آپ مر جاتا ہے، غرض میں اسی طرح کی سوچیں ذہن میں لئے اپنے کمرے تک آگیا کہ یکایک ذہن کے بند دریچے کھل گئے، ابھی آدھے گھنٹے پہلے ہی کی تو بات ہے، کتنے شوق سے میرے پاس آئی تھی میری پیاری بیٹی اور میں نے اس کی جانب دیکھے بنا کیسے جان چھڑانے والا رویہ اختیار کیا تھا، کیا اس کا معصوم دل نہیں بجھا ہوگا؟ جیسے حنا کے روکھے جواب نے مجھے آسودگی نہیں بخشی تو کیا اولاد کو ضرورت نہیں کہ اس کا باپ اس کی ہمت بندھائے؟؟ باپ کا جان چھڑانے والا انداز اولاد پر اچھا اثر ڈالے گا؟؟ میں اپنی ہی عدالت میں آپ مجرم ثابت ہو نے لگا، دادی جان ہوں یا امی جان کوئی میرے لکھے کو سراہتا نہیں ہے تو میرا یہ ہنر اپنےآپ دم توڑ دے گا، کیا ایک دن اولاد کے اعتماد کو باپ کی سرد مہری یا یوں نظر انداز کرنے کا رویہ ریزہ ریزہ نہیں کر یگا؟؟ امی جان ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں، ابا جان تو ایسے نہیں تھے، کالج میں پڑھا کر آتے تو گھر آئے لڑکوں کو پڑھاتے اور پھر ہم لوگوں کو تفریح کے لئے بھی لے کر جاتے تھے، عجیب انسان تھے اتنا وقت کیسے نکال لیتے تھے؟؟ اور ان کے برعکس میں ۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟ حد ہوگئی پورے ہفتے نوکری کی تھکن کا کہہ کر اپنی ذمے داری سے منہ موڑے رکھتا ہوں پھر اتوار کو ایک دن آرام کا کہہ کر نجات پا لیتا ہوں۔ عجیب باپ ہوں اپنے شوق کے لئے تو وقت ہے مگر اولاد کے شوق کے لئے وقت کے بجائے تھکن کا بہانہ!! ۔۔۔۔ تف ہے مجھ پر، جس عمر میں اولاد کو باپ کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے اس عمر میں محض اس کی ضروریات پوری کرنے کے لئے روپے کمانے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھا ہوا ہوں۔ میں کتنا غافل باپ ہوں۔ ان سوچوں کے ساتھ ہی مجھے اپنے آپ پر ملامت ہونے لگی ، کچھ سوچ کر وہ ورق اٹھایا جس پر اپنی تازہ غزل لکھی تھی اور جلدی سے زینہ اتر گیا۔

×××
’’لو جی نکما پھر آگیا‘‘
دادی جان نے مجھے دیکھتے ہی پھر حملہ کیا ۔ میں محض مسکرا دیا۔ اور باورچی خانے میں داخل ہوتے ہی جلتے ہوئے چولھے میں اپنی تازہ غزل جھونک دی۔
’’ ارے ارے یہ کیا کیا آپ نے‘‘
حنا بوکھلا گئی اور چمٹے سے جلتا کاغذ نکالنے لگی میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔اور سر ہلا کر منع کیا وہ ایک دم پیچھے ہٹ گئی۔ امی جان اور دادی جان میری اس کاروائی پر یکلخت خاموش ہوگئیں۔ میں مسکرا نے لگا ۔
’’عاشی کدھر ہے؟‘‘ ۔
میرے استفسار پر حنا نے ہاتھ کے اشارے سے دوسرے کمرے کی جانب اشارہ کیا۔ میں وہاں گیا تو معلوم ہوا وہ اپنے اسکول کا کام کر رہی ہے ۔ میں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ مجھے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوگئی ۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں فوراََ ہی اپنا کام ، اپنی استانی سے ملی شاباش ، کئے گئےکام پر بنے ستارے دکھانے لگی میں پوری توجہ سے اس کی میٹھی میٹھی باتیں سنتا رہا ۔
’’ اچھا یہ بتائیں کتنا کام رہ گیا ہے میری بیٹی کا؟؟‘‘
’’ابو! ات طفحہ کی لتھائی تلنی ہے ۔‘‘

اس نے اردو کی کتاب کے ایک صفحے پر انگلی رکھ کر اپنی توتلی زبان میں مجھے بتایا
’’ٹھیک ہے بیٹی آپ اچھا اچھا لکھ لیں پھر ہم پارک چلیں گے‘‘
میری بات سن کر اس کی پیاری سے آنکھیں چمک اٹھیں اس نے والہانہ انداز سے میرے گال کا بوسہ لیا اور لکھائی مکمل کرنے لگی۔ میں اپنی بیٹی کے پاس سے اٹھا تو کمرے کی چوکھٹ پر گھر کی تینوں عورتوں کو موجود پایا۔
’’کیوں جی آپ ہماری جاسوسی کر رہی ہیں ۔ وہ بھی آپ تینوں کی تینوں ۔۔۔۔‘‘
میں نے اپنے مخصوص انداز میں کلام کیا تو امی جان نے آگے بڑھ کر میری پیشانی کا بوسہ لیا۔ دادی جان نے کمر پرہاتھ رکھ کر دعادی
’’جیتا رہ میرا بچہ‘‘
میں نے شرارتاََ حنا کی جانب دیکھا اور کہا
’’ آپ رہ گئیں استانی جی ہم کو شاباش دینے سے‘‘
میرے شرارت بھرے انداز کو وہ بخوبی سمجھ گئی اور بوکھلا گئی۔ میں نے امی جان سے کہا
’’ امی کیا ہم آپ کی بہو اور اپنی اولاد کو پارک لے جاسکتے ہیں ؟؟ ‘‘
’’ بیٹا ضرور ضرور، بھلا یہ بھی کوئی بات ہے پوچھنے کی؟؟‘‘

اتنے میں دو سالہ نسیم بابا، بابا کہتا دونوں ہاتھوں کو پھیلائے میری ٹانگوں سے لپٹ گیا ۔ میں نے مسکراتے ہوئے اس کو گود میں اٹھا لیا۔
’’آپ نےاپنی غزل کو جلا کر اچھا نہیں کیا۔ وہ واقعی بہت اچھی لکھی تھی آپ نے، اور میں جانتی ہوں آپ کی بھول آپ کو ویسا پھر نہیں لکھنے دے گی۔‘‘
’’ارے تو کس نے کہا کہ مجھے وہ دوبارہ لکھنی ہے؟ بس بہت ہوگئی شاعری، مجھے ایسا شوق نہیں رکھنا جو مجھے اپنے آپ سے۔۔۔۔، اپنوں سے دور کردے۔ چلو افسوس اب بعد میں کرنا ذرا پارک تک چلنے کو تیار ہوجائو‘‘۔

میرے اس انداز پر سب کھل اٹھے، میں جو ابھی کچھ دیر پہلے اپنی لکھی ہوئی شاعری پر خوشی محسوس کر رہا تھا وہ خوشی مجھے بہت معمولی سے لگی، میں نے سوچا سچ ہے جو سکون مجھے اپنے گھر والوں کے ساتھ ہنستے مل رہا ہے وہ انمول ہے۔ شاعری تو احساس کو علم ِ عروض کے تحت لفظوں کو ترتیب دینےکا نام ہے مگر مجھے نظام ِ زندگی کو والد صاحب کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے یوں ترتیب دینا ہے کہ ہر آن ایک مساوی کیفیت ہو اور یوں میں معمولات ِ زندگی کی اعلی ترتیب میں ایک عمدہ شاعر ہی تو بن جاونگا۔


س ن مخمور
امر تنہائی​
 

محمدظہیر

محفلین
گھر والوں کے ساتھ گزرا ہوا معیاری وقت ہی زندگی کے سب سے خوشگوار لمحات ہوتے ہیں!
جی خوش ہوا پڑھ کر. داد قبول فرمائیے اس خوب صورت تحریر کے لیے:)
 
بہت عمدہ اور خوبصورت تحریر۔
ہم لوگ اکثر نا چاہتے ہوئے اور انجانے میں بیوی بچوں کو کم وقت دے رہے ہوتے ہیں۔ اس اہم مسئلے پر احساس دلاتی تحریر۔

لیکن آپ نے ایک غزل لکھ کر مشاعرے میں ضرور شرکت کرنی ہے۔ :)
 
Top