شیطان کے حواری آزاد ہو رہے ہیں

نوید اکرم

محفلین
شیطان کے حواری آزاد ہو رہے ہیں
اس کائنات کے رنگ برباد ہو رہے ہیں

تن کی ہوس سے ہے یاں لبریز ابنِ آدم
اطوارِ صنفِ نازک صیاد ہو رہے ہیں

مابین مرد و زن کے ہے اختلاط ایسا
ویرانے کالجوں کے آباد ہو رہے ہیں

شاہراہ کو چھوڑ کر جو چلتے اِدھر اُدھر ہیں
وہ نوجوان جوڑے برباد ہو رہے ہیں​

محترم جناب الف عین صاحب
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں ’رنگ‘ مکمل نہیں تقطیع ہو رہا، گاف گرانا جائز نہیں۔
آخری شعر میں بھی شاہراہ کے ساتھ بھی اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔
 

نوید اکرم

محفلین
مطلع میں ’رنگ‘ مکمل نہیں تقطیع ہو رہا، گاف گرانا جائز نہیں۔
آخری شعر میں بھی شاہراہ کے ساتھ بھی اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔
بعد از ترمیم:

شیطان کے حواری آزاد ہو رہے ہیں
پیکر حیا کے نذرِ بیداد ہو رہے ہیں
یا
رنگینئ جہاں پر بیداد ہو رہے ہیں

تن کی ہوس سے ہے یاں لبریز ابنِ آدم
اطوارِ صنفِ نازک صیاد ہو رہے ہیں

مابین مرد و زن کے ہے اختلاط ایسا
ویرانے کالجوں کے آباد ہو رہے ہیں

شارع کو چھوڑ کر جو چلتے اِدھر اُدھر ہیں
وہ نوجوان جوڑے برباد ہو رہے ہیں
لفظ "بیداد" میرے لئے نیا ہے اور میں نے اندازے سے اس کا استعمال کیا ہے۔ اس کے درست استعمال کیلئے رہنمائی درکار ہے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اب درست ہے اگرچہ ’نذرِ‘ در اصل نذرے تقطیع ہوتا ہے جو درست تو ہے لیکن مستحسن نہیں۔ اضافت کو بطور حرف استعمال کرنا فصاحت نہیں مانا جاتا
 
Top