شیر علی گروپ مسلم لیگ ن کی دفاعی لائن سے غائب کیوں ؟

ساجد

محفلین
495x278x4476_20942406.jpg.pagespeed.ic.TlyJuKPKud.jpg

غلام محی الدین
فیصل آباد سے مسلم لیگ نواز نے کلین سویپ کیا، سب کے سب منتخب نمائندے مسلم لیگ نواز کی چھتری تلے جمع ہیں اور یہ سب عوامی نمائندے منتخب ہیں اور کسی بھی قانون، ضابطے، اقدار یا اصلاح کے تحت انہیں عوامی نمائندگی سے کم تر سجھنا درست نہیں ہو گا مگر 12جون 2013ء کے بعد سے لگتا ہے کہ شاید فیصل آباد عوامی نمائندوں سے محروم ہوچکا ہے۔کچھ تو اسے اب لاوارثوں کا شہر قرار دے رہے ہیں۔ فیصل آباد کی تاجر برادری، ایلیٹ کلاس کے صنعت کاروں ، برآمد کنندگان اور چھوٹے درجے کے فیکٹری مالکان اور لاکھوں مزدوروں کی گزرے ایک ہفتے سے صرف ایک ہی آواز سنائی دے رہی ہے کہ وفاقی اور صوبائی بجٹ میں حکومت نے بڑے ظلم کئے ہیں۔ سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافہ، پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود کاروباری افراد کے گرد گھیرا تنگ، نان رجسٹرڈ فرموں پر دو فیصد اضافی سیلز ٹیکس، ٹیکس کلکٹرز کو بے لگام صوابدیدی اختیارات ، بجلی اور گیس کے ٹیرف میں اضافہ کو دم توڑتی ٹیکسٹائل کی صنعت کے تابوت میں آخری کیل قرار دیا جارہا ہے ۔مگر یہ سب تحفظات اقتدار کے ایوانوں تک کون پہنچائے گا اور جس کسی نے ایسا کیا اسے شاید ’’باغی‘‘ سمجھ لیا جائے۔ اسی لئے سب عوامی نمائندے شہر کے ہر کونے سے بلند ہونے والی عوامی آواز پر کان دھرنے کی بجائے قیادت سے وفاداری کو زیادہ ضروری خیال کررہے ہیں ۔ پہلے بجٹ پر ہی مسلم لیگ نوازکوآڑے ہاتھوں لینا ہر گز مقصد نہیں، نہ ہیگیارہ مئی سے پہلے کی حکومت کے دور میں دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں تاہم لوگ فکرمند ہیں کہ فیصل آباد کے عوام کی آواز، تحفظات، احتجاج اور اعتراضات اب ایوانوں تک کون پہنچائے گا !! ضلع بھر کے تمام عوامی نمائندوں کی حکومت ہے لیکن اس شہر کے باسیوں کو اپوزیشن کا سمجھ لیاگیا ہے۔گزشتہ حکومت میں جب بھی وفاقی حکومت کی جانب سے فیصل آباد کے شہریوں پر اگر ظلم کیا گیا تو اس کے سامنے عابد شیر علی سینہ تان کر کھڑے ہوئے۔ ایک دن میں کئی کئی ٹی وی چینلز پر مسلم لیگ نواز اور عوامی مفادات کا یوں دفاع کیا کہ شہر کے نئے قائد کے طور پر ابھرے۔ مگر اب عابد شیر علی کی اپنی حکومت کے پہلے بجٹ کو پیش ہوئے دس دن گزر چکے ہیں مگر موصوف حکومت کی دفاعی لائن میں کہیں نظر نہیں آئے۔ اس سے بخوبی ابدازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس حکومتی اقدام کا دفاع کرنا کتنا مشکل ہو چکا ہے۔ اس بار مخبری کم اور کھلی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نواز فیصل آباد میں دو کے بعد تین، اب چار، پانچ دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ہر گزرے دن کے ساتھ مقامی رہنماوں میں خلیج بڑھ ہی ہے۔بعض سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ ایک لاوا سا پک رہا ہے۔ جب پھٹ پڑا تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ سیاسی پنڈت مسلم لیگ نواز کے فیصل آباد میں ’’بلدیاتی وارث ‘‘ چوہدری شیر علی کے گروپ کی خاموش ناراضی کو بخوبی محسوس کررہے ہیں کہ ان کے فرزند عابد شیر علی کو تو وفاقی وزارت کے اہل نہیں سمجھا گیا جبکہ دوسرے لیگی گروپ کے سربراہ رانا ثنا اللہ کو بلدیات کی پوری وزارت ہی سونپ دی گئی۔ یہاں مسلم لیگ ن کے دو گروپوں میں بٹ جانے کی بات تو پرانی ہوچکی ہے لیکن اب شہرکے باسیوں نے نیا منظر یہ دیکھا کہ وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ جب وزارت کا منصب سنبھال کر پہلی مرتبہ اپنے مرکزی دفتر سمن آباد پہنچے تو ان کے دائیں بائیں اراکین پنجاب اسمبلی الیاس انصاری، جعفر علی ہوچہ، رائے عثمان اور رانا شعیب ادریس تھے، پچھلے پانچ سالوں کے دوران رانا صاحب کے ساتھ کندھے سے کندھا ملانے والے ایم پی ایز خواجہ محمد اسلام اور ملک محمد نواز منظر سے غائب تھے، اس کی وجہ وزارتوں کی تقسیم ہے یا کچھ اور، حقیقت چندہفتوں میں کھل کرسامنے آجائے گی ۔ ٭٭٭
ماخذ
 
Top