اقتباسات شیر آیا ، شیر آیا ۔۔مختار مسعود کی کتاب 'سفر نصیب' سے اقتباس

سید زبیر

محفلین
شیر آیا ، شیر آیا ۔۔مختار مسعود کی کتاب 'سفر نصیب' سے اقتباس

"مسافر نے وہ رسالہ بلا ارادہ اٹھا کر پڑھنا شروع کردیا جو ہوائی جہاز والوں نے وقت گذاری کے لئے فراہم کیا ہے رسالہ میں لکھا ہے 'چین نے زر کی بے زری اور بے وقعتی کا عجب عالم دیکھا ہے ۔1937 میں سو(100) یو آن میں بیلوں کی جوڑی آتی تھی پانچ سال بعداس رقم سے چاول کی صرف ایک بوری کی خرید ممکن رہ گئی پانچ برس اور گذرے تو اس زر کثیر سے بجھے ہوئے کوئلہ کا ایک ڈلا آتا تھا یا چڑیا گھر میں شیر دیکھنے کے لئے داخلہ کا ٹکٹ۔جہاز اب عدیس ابابا میں خصوصی مہمقان نواای کے ہال کے نزدیک کھڑا ہے مسافر کا خیال تھا کہ حبشہ ایک لق ودق صحرا ہے اور عدیس ابابا خیموں اور جھگیوں پر مشتمل ایک قصباتی نخلستان کا نام ہے لیکن یہ کوہستانی خطہ زمین تو سوئٹزرلینڈ کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے ہوائی اڈہ آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔چاروں طرف سرسبز و شاداب پہاڑیاں اور بادلوں سے ڈھکی وادیاں ہیں چند گھنٹے پہلے جولائی کے گرم مرطوب مہینے میں کراچی سے چلے تھے تو بش شرٹ بدن کو ناگوار گزر رہی تھی اب صبحدم کی تازہ اور یخ ہوا کا جھونکا ہوائی جہاز کا دروازہ کھلنے پر اندر آیا ہے تو لوگ مفلر اور کوٹ پہن رہے ہیں ۔ایک ساتھی کہتے ہیں جہاز میں جُڑ کر بیٹھے رہنے کی وجہ سے سردی کا احساس زیادہ ہو رہا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ تیزی سے سیڑھیاں اتر کر چند قدم چلا جائے خون گردش کرے گا اور جسم گرم ہو جائے گا ۔یہ ساتھی اپنے نسخے پر عمل کرنے کے لئے دوسروں کا انتظار اور تشریفات کا لحاظ کئے بغیر نیچے اترنے کے لئے لپکے تیزی سے اکٹھی دودو سیڑھیاں چھوڑ کر اترنا شروع کیں آخری دو چار سیڑھیاں رہ گئیں تو یکدم پلٹ کر تین تین سیڑھیاں پھلانگ کر واپس اوپر چڑھ رہے ہیں اور ہانپتے کانپتے شور مچارہے ہیں شیر آیا ۔۔شیر آیا

جہاز کی سیڑھیاں جہاں ختم ہوتی ہیں وہاں اسفالت کے فرش پر ایک ببر شیر کھڑا ہے لحیم شحیم اونچا لمبا گھنے سیاہی مائل ایال کے بادلوں سے ابھرتا ہوا با رعب چاند چہرہ۔اس پر جڑی ہوئی دو روشن انگار آنکھیں جو سیڑھی پر کھڑے ہچکچاتے مہمانوں پر جمی ہیں یہ شیر خیر مقدمی کے لئے آیا ہے اس سے پرے کوئی دس قدم کے فاصلے پر استقبالیہ کمیٹی کے باقی ارکان سیدھی قطار بنائے کھڑے ہیں بعض ہار لئے ہوئے ہیں بعض استقبالی جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں جن پر لکھا ہے 'افریقہ جاگ اٹھا ہے ' ان سے ہٹ کر ناچنے اور گانے والوں کے طائفہ نے دائرہ بنایا ہوا ہے سیڑھیوں کے نیچے سے ایک شخص ننگے پاؤں برآمد ہوا اور اپنا پیر شیر کی لمبی دم کے آخری سرے پر رکھ دیا جو خمدار بالوں کا گھنا گچھا ہے شیر اس زور سے دہاڑا کہ کہ ہوائی اڈے کی کھلی فضا میلوں تک دہل گئی چنگھاڑ دورپہاڑیوں سے جا ٹکرائی اور اس کی گونج وادی کے گھنے جنگل میں گُم ہو گئی یہ ایک چنگھاڑ اکیس توپوں کی سلامی کے برابر ہے ہر ملک کے وفد کے رئیس کے لئے شیر نے ایک نعرہ لگایا سات آٹھ نعروں کے بعد شیر افگن نے دم کچھ ایسے دبائی کہ کہ شیر ساے ظاہری رعب و داب کے باوجود مسکینی پر اتر آیا وہ فرش پر چاروں پیر پھیلائے زمین پر سر رکھ کر یوں لیٹ گیا جیسے کھال میں بھُس بھرا ہو ۔اُس کے پاس کھڑا آدمی اب نرا سائیس لگ رہا ہے جب شیر ہی شیر نہ رہے تو شیر افگن بھلا اور کیا لگ سکتا ہے ۔

قافلہ مصافحہ اور بغل گیری میں مصروف ہوگیا اور طائفہ سواگتی ناچ گانے میں جُت گیا اتنی ٹھنڈ کے باوجود طائفہ کے دس مرد اور پندرہ عورتوں نے سفید لٹھے اور ململ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں آبنوس جسم پر سفید ململ کا جھلکتا کرتا یوں لگتا ہے جیسے دھوبی نے محنت سے جان چُرائی اور نیل زیادہ لگا دیا مردوں نے ململ کی قمیص کھدر کی واسکٹ تنگ موری والا لٹھے کا پاجامہ اور سینڈل پہنا ہوا ہے شانے اور کمر کے گرد چادر لپیٹی ہوئی ہے یہ ساری چیزیں سفید رنگ کی ہیں جو بڑا اُجلا لگ رہا ہے ۔عورتوں کے پاس نہ چادر ہے اور نہ واسکٹ،بس ناف تک آنے والا جمپر ہے اور گھٹنوں تک رہ جقانے والا غرارہ ۔بد نظری کے لئے اس لباس میں بہت سے رستے اور رخنے بنے ہوئے ہیں سردی ان جھری دار کپڑوں میں آسانی سے گھس سکتی ہے چند زیورات ننگے پنڈے پر چمک رہے ہیں اور ان سے جتنی گرمی پیدا ہو سکتی ہے وہ عورت ہونے کی حیثیت سے انہیں کافی ہے۔بیشتر آدمی ڈھول پیٹنے پر مامور ہیں دو تین طرح کے تاشے ہیں جنہیں گلے میں ڈالے جھک کر گھٹنوں کی قوس بنائے دھما دھم بجائے جارہے ہیں کوئی چپٹی لکڑیوں سے کوئی گولے والی چوبِ طبل سے اور کوئی محض خالی ہاتھ طبال اپنے کمال پر خود ہی سر دھُن رہے ہیں شائد یوں ر مارے اور جان کھپائے بغیر یہ ساز بجانا ممکن نہ ہودو تین موسیقاروں کے کلے اتنے پھولے ہوئے ہیں جیسے ابھی پھٹ جائیں گے مگر ہوا نے کے ذریعے یک سُری لے میں باہر نکل رہی ہے ایک شخص مانکو بجا رہا ہے جو یہاں کا یک تارا ہے اس حساب کے بعد جو واحد مرد بچا وہ دھما چوکڑی مچارہا ہے اس کے سرپر مصنوعی لمبی لٹیں بندی ہوئی ہیں وہ سر کو گھماتے ہوئے ہوا میں چھلانگ لگاتا ہے اور اس ایک لمحہ کے لئے جب وہ کشش ثقل سے نیچے آتا ہے اُس کے سر پر گز بھر کے بال سیدے کھڑے ہو جاتے ہیں جیسے وہ چھتری کے بغیر صرف پیرا شوٹ کی رسیوں کے سہارے ہوائی جہاز سے نیچے کود گیا ہو عورتیں گانے اور ناچنے میں مصروف ہیں ۔گانا بہت آسان ہے کیونکہ ہر دو بول کے بعد ٹیپ کا بند آجاتا ہے اور وہ سوائے بے محابا چیخنے چلانے اور کچھ بھی نہیں ۔ جس کی سسکیاں خوفناک ہوں وہ کنٹرالٹو، جس کی چٰکیں بلند ہوں وہ سپرانو۔ ناچ کا یہ عالم کہ جسم مسلسل چیخ بنا ہوا ہے عام آدمی کا جسم ہوتا ہو تو جھٹکوں سے اُس کے سارے جوڑ علیحدہ ہو کر گر پڑتے ان ناچنے والیوں کے جسم میں لوچ اور تندرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔ جس تندرستی کو ہزار نعمت کہا جاتا ہے وہ افریقیوں کے لئے بڑی مہلک ثابت ہوئی جب نئی دنیا کو غلاموں کی صورت پیش آئی تو مریض اور مریل قومیں بچ گئیں اور یہ صحت مند لوگ پھنس گئے

سترھویں اور اٹھارویں صدی میں افریقہ کے شمال مغربی ساحل سے دس ملین افراد جانوروں کی طرح گھیر کر پکڑے 'بیچے اور برآمد کئے گئے اس ساحل کا نام ساحل غلاماں پڑگیا مسافر ساحل غلاماں پر کھڑا بحر اوقیانوس کی موجوں کو دیکھ رہا ہے یہ اسی طرح بے قرار ہیں جیسے پہلے ہوا کرتی تھیں انہیں اس نعرے اور گانے کا کوئی پاس نہیں کہ 'افریقہ جاگ اٹھا ہے اُنہیں اس خبر پر فی الحال اعتبار نہیں آیا کہ غلاموں کی تجارت بند ہو چکی ہے اور اس ساحل پر سارے چھوٹے بڑے ملک سرالیون سے نائجیریا تک آزاد ہو چکے ہیں مسافر کے دیکھتے دیکھتے سفید ڈھیلے ڈھالے چوغوں میں ملبوس پچاس ساٹھ آدمی وہاں آگئے اور صفیں بنا کر وہاں سمندر کی عبادت میں مصروف ہوگئے سمندر کی موجیں اور بکھر گئیں ۔وہ شرک میں شریک نہیں ۔غلامی کی بہت سی قسمیں اور طرح طرح کی شکلیں ہوا کرتی ہیں ۔گمراہی غلامی کی بد ترین صورت ہے اگر آزاد ہونے کے بعد بھی صحیح راستہ کا پتہ نہ چلے اور اگر چلے لیکن اس پر چلنے کی ہمت نہ ہو تو یہ صورت غلامی سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے ۔"
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
شیر آیا ، شیر آیا ۔۔مختار مسعود کی کتاب 'سفر نصیب' سے اقتباس

"مسافر نے وہ رسالہ بلا ارادہ اٹھا کر پڑھنا شروع کردیا جو ہوائی جہاز والوں نے وقت گذاری کے لئے فراہم کیا ہے رسالہ میں لکھا ہے 'چین نے زر کی بے زری اور بے وقعتی کا عجب عالم دیکھا ہے ۔1937 میں سو(100) یو آن میں بیلوں کی جوڑی آتی تھی پانچ سال بعداس رقم سے چاول کی صرف ایک بوری کی خرید ممکن رہ گئی پانچ برس اور گذرے تو اس زر کثیر سے بجھے ہوئے کوئلہ کا ایک ڈلا آتا تھا یا چڑیا گھر میں شیر دیکھنے کے لئے داخلہ کا ٹکٹ۔جہاز اب عدیس ابابا میں خصوصی مہمقان نواای کے ہال کے نزدیک کھڑا ہے مسافر کا خیال تھا کہ حبشہ ایک لق ودق صحرا ہے اور عدیس ابابا خیموں اور جھگیوں پر مشتمل ایک قصباتی نخلستان کا نام ہے لیکن یہ کوہستانی خطہ زمین تو سوئٹزرلینڈ کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے ہوائی اڈہ آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔چاروں طرف سرسبز و شاداب پہاڑیاں اور بادلوں سے ڈھکی وادیاں ہیں چند گھنٹے پہلے جولائی کے گرم مرطوب مہینے میں کراچی سے چلے تھے تو بش شرٹ بدن کو ناگوار گزر رہی تھی اب صبحدم کی تازہ اور یخ ہوا کا جھونکا ہوائی جہاز کا دروازہ کھلنے پر اندر آیا ہے تو لوگ مفلر اور کوٹ پہن رہے ہیں ۔ایک ساتھی کہتے ہیں جہاز میں جُڑ کر بیٹھے رہنے کی وجہ سے سردی کا احساس زیادہ ہو رہا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ تیزی سے سیڑھیاں اتر کر چند قدم چلا جائے خون گردش کرے گا اور جسم گرم ہو جائے گا ۔یہ ساتھی اپنے نسخے پر عمل کرنے کے لئے دوسروں کا انتظار اور تشریفات کا لحاظ کئے بغیر نیچے اترنے کے لئے لپکے تیزی سے اکٹھی دودو سیڑھیاں چھوڑ کر اترنا شروع کیں آخری دو چار سیڑھیاں رہ گئیں تو یکدم پلٹ کر تین تین سیڑھیاں پھلانگ کر واپس اوپر چڑھ رہے ہیں اور ہانپتے کانپتے شور مچارہے ہیں شیر آیا ۔۔شیر آیا

جہاز کی سیڑھیاں جہاں ختم ہوتی ہیں وہاں اسفالت کے فرش پر ایک ببر شیر کھڑا ہے لحیم شحیم اونچا لمبا گھنے سیاہی مائل ایال کے بادلوں سے ابھرتا ہوا با رعب چاند چہرہ۔اس پر جڑی ہوئی دو روشن انگار آنکھیں جو سیڑھی پر کھڑے ہچکچاتے مہمانوں پر جمی ہیں یہ شیر خیر مقدمی کے لئے آیا ہے اس سے پرے کوئی دس قدم کے فاصلے پر استقبالیہ کمیٹی کے باقی ارکان سیدھی قطار بنائے کھڑے ہیں بعض ہار لئے ہوئے ہیں بعض استقبالی جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں جن پر لکھا ہے 'افریقہ جاگ اٹھا ہے ' ان سے ہٹ کر ناچنے اور گانے والوں کے طائفہ نے دائرہ بنایا ہوا ہے سیڑھیوں کے نیچے سے ایک شخص ننگے پاؤں برآمد ہوا اور اپنا پیر شیر کی لمبی دم کے آخری سرے پر رکھ دیا جو خمدار بالوں کا گھنا گچھا ہے شیر اس زور سے دہاڑا کہ کہ ہوائی اڈے کی کھلی فضا میلوں تک دہل گئی چنگھاڑ دورپہاڑیوں سے جا ٹکرائی اور اس کی گونج وادی کے گھنے جنگل میں گُم ہو گئی یہ ایک چنگھاڑ اکیس توپوں کی سلامی کے برابر ہے ہر ملک کے وفد کے رئیس کے لئے شیر نے ایک نعرہ لگایا سات آٹھ نعروں کے بعد شیر افگن نے دم کچھ ایسے دبائی کہ کہ شیر ساے ظاہری رعب و داب کے باوجود مسکینی پر اتر آیا وہ فرش پر چاروں پیر پھیلائے زمین پر سر رکھ کر یوں لیٹ گیا جیسے کھال میں بھُس بھرا ہو ۔اُس کے پاس کھڑا آدمی اب نرا سائیس لگ رہا ہے جب شیر ہی شیر نہ رہے تو شیر افگن بھلا اور کیا لگ سکتا ہے ۔

قافلہ مصافحہ اور بغل گیری میں مصروف ہوگیا اور طائفہ سواگتی ناچ گانے میں جُت گیا اتنی ٹھنڈ کے باوجود طائفہ کے دس مرد اور پندرہ عورتوں نے سفید لٹھے اور ململ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں آبنوس جسم پر سفید ململ کا جھلکتا کرتا یوں لگتا ہے جیسے دھوبی نے محنت سے جان چُرائی اور نیل زیادہ لگا دیا مردوں نے ململ کی قمیص کھدر کی واسکٹ تنگ موری والا لٹھے کا پاجامہ اور سینڈل پہنا ہوا ہے شانے اور کمر کے گرد چادر لپیٹی ہوئی ہے یہ ساری چیزیں سفید رنگ کی ہیں جو بڑا اُجلا لگ رہا ہے ۔عورتوں کے پاس نہ چادر ہے اور نہ واسکٹ،بس ناف تک آنے والا جمپر ہے اور گھٹنوں تک رہ جقانے والا غرارہ ۔بد نظری کے لئے اس لباس میں بہت سے رستے اور رخنے بنے ہوئے ہیں سردی ان جھری دار کپڑوں میں آسانی سے گھس سکتی ہے چند زیورات ننگے پنڈے پر چمک رہے ہیں اور ان سے جتنی گرمی پیدا ہو سکتی ہے وہ عورت ہونے کی حیثیت سے انہیں کافی ہے۔بیشتر آدمی ڈھول پیٹنے پر مامور ہیں دو تین طرح کے تاشے ہیں جنہیں گلے میں ڈالے جھک کر گھٹنوں کی قوس بنائے دھما دھم بجائے جارہے ہیں کوئی چپٹی لکڑیوں سے کوئی گولے والی چوبِ طبل سے اور کوئی محض خالی ہاتھ طبال اپنے کمال پر خود ہی سر دھُن رہے ہیں شائد یوں ر مارے اور جان کھپائے بغیر یہ ساز بجانا ممکن نہ ہودو تین موسیقاروں کے کلے اتنے پھولے ہوئے ہیں جیسے ابھی پھٹ جائیں گے مگر ہوا نے کے ذریعے یک سُری لے میں باہر نکل رہی ہے ایک شخص مانکو بجا رہا ہے جو یہاں کا یک تارا ہے اس حساب کے بعد جو واحد مرد بچا وہ دھما چوکڑی مچارہا ہے اس کے سرپر مصنوعی لمبی لٹیں بندی ہوئی ہیں وہ سر کو گھماتے ہوئے ہوا میں چھلانگ لگاتا ہے اور اس ایک لمحہ کے لئے جب وہ کشش ثقل سے نیچے آتا ہے اُس کے سر پر گز بھر کے بال سیدے کھڑے ہو جاتے ہیں جیسے وہ چھتری کے بغیر صرف پیرا شوٹ کی رسیوں کے سہارے ہوائی جہاز سے نیچے کود گیا ہو عورتیں گانے اور ناچنے میں مصروف ہیں ۔گانا بہت آسان ہے کیونکہ ہر دو بول کے بعد ٹیپ کا بند آجاتا ہے اور وہ سوائے بے محابا چیخنے چلانے اور کچھ بھی نہیں ۔ جس کی سسکیاں خوفناک ہوں وہ کنٹرالٹو، جس کی چٰکیں بلند ہوں وہ سپرانو۔ ناچ کا یہ عالم کہ جسم مسلسل چیخ بنا ہوا ہے عام آدمی کا جسم ہوتا ہو تو جھٹکوں سے اُس کے سارے جوڑ علیحدہ ہو کر گر پڑتے ان ناچنے والیوں کے جسم میں لوچ اور تندرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔ جس تندرستی کو ہزار نعمت کہا جاتا ہے وہ افریقیوں کے لئے بڑی مہلک ثابت ہوئی جب نئی دنیا کو غلاموں کی صورت پیش آئی تو مریض اور مریل قومیں بچ گئیں اور یہ صحت مند لوگ پھنس گئے

سترھویں اور اٹھارویں صدی میں افریقہ کے شمال مغربی ساحل سے دس ملین افراد جانوروں کی طرح گھیر کر پکڑے 'بیچے اور برآمد کئے گئے اس ساحل کا نام ساحل غلاماں پڑگیا مسافر ساحل غلاماں پر کھڑا بحر اوقیانوس کی موجوں کو دیکھ رہا ہے یہ اسی طرح بے قرار ہیں جیسے پہلے ہوا کرتی تھیں انہیں اس نعرے اور گانے کا کوئی پاس نہیں کہ 'افریقہ جاگ اٹھا ہے اُنہیں اس خبر پر فی الحال اعتبار نہیں آیا کہ غلاموں کی تجارت بند ہو چکی ہے اور اس ساحل پر سارے چھوٹے بڑے ملک سرالیون سے نائجیریا تک آزاد ہو چکے ہیں مسافر کے دیکھتے دیکھتے سفید ڈھیلے ڈھالے چوغوں میں ملبوس پچاس ساٹھ آدمی وہاں آگئے اور صفیں بنا کر وہاں سمندر کی عبادت میں مصروف ہوگئے سمندر کی موجیں اور بکھر گئیں ۔وہ شرک میں شریک نہیں ۔غلامی کی بہت سی قسمیں اور طرح طرح کی شکلیں ہوا کرتی ہیں ۔گمراہی غلامی کی بد ترین صورت ہے اگر آزاد ہونے کے بعد بھی صحیح راستہ کا پتہ نہ چلے اور اگر چلے لیکن اس پر چلنے کی ہمت نہ ہو تو یہ صورت غلامی سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے ۔"
جزاک اللہ خیر. کیا بر محل پوسٹ شیر کی ہے سید زبیر انکل! کاش ہم اس میں چھپا پیغام سمجھ سکیں.
 

محمداحمد

لائبریرین
جس تندرستی کو ہزار نعمت کہا جاتا ہے وہ افریقیوں کے لئے بڑی مہلک ثابت ہوئی جب نئی دنیا کو غلاموں کی صورت پیش آئی تو مریض اور مریل قومیں بچ گئیں اور یہ صحت مند لوگ پھنس گئے

غلامی کی بہت سی قسمیں اور طرح طرح کی شکلیں ہوا کرتی ہیں ۔گمراہی غلامی کی بد ترین صورت ہے اگر آزاد ہونے کے بعد بھی صحیح راستہ کا پتہ نہ چلے اور اگر چلے لیکن اس پر چلنے کی ہمت نہ ہو تو یہ صورت غلامی سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے ۔"
بہت خوب!

لاجواب انتخاب ہے۔

مختار مسعود کی کیا بات ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
غلامی کی بہت سی قسمیں اور طرح طرح کی شکلیں ہوا کرتی ہیں ۔گمراہی غلامی کی بد ترین صورت ہے اگر آزاد ہونے کے بعد بھی صحیح راستہ کا پتہ نہ چلے اور اگر چلے لیکن اس پر چلنے کی ہمت نہ ہو تو یہ صورت غلامی سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے ۔"
بہت خوب شئیرنگ
ہم مختار مسعود صاحب کے شیدائی اس وقت اے ہیں جب آوازِ دوست اور لوحِ ایام پڑھی ۔۔مختار مسعود صاحب کی نثر نگاری میں ممتاز ترین حیثیت حاصل ہے ۔۔
کتاب کا نکتہ آغاز علامہ اقبال رح کے ایک فارسی شعر کا مصرعہ ہے؛ سفر نصیب، نصیبِ تو منزلیست کہ نیست۔ اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ اے وہ جس کے نصیب میں سفر لکھ دیا ہے ، تیرے نصیب میں کوئی منزل بھی ہے کہ نہیں؟اصل مقصد اپنے پڑھنے والے پر سوچ کے نئے در کھولنا ہے ۔۔۔۔
 
Top