شیخ صاحب سے رسم و راہ !

شیخ صاحب سے رسم و راہ !

کیا خوب کہا تھا حضرت فیض نے بلکہ کہا کیا تھا نصیحت کی تھی سمجھایا تھا عار دلائی تھی

شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی

مگر کیا کیجئے

ہائے ری ہماری نگوڑ ماری قسمت شیخ صاحب سے ملاقات کراچی کے پاک ٹی ہاؤس ہماری چورنگی کی رسم ٹھہری اور ہر روز چورنگی پر بیٹھے انکی راہ تکنا ہماری عادت ....

نجانے کتنی ہی راتیں حضرت کی معیت میں چورنگی پر کالی ہوئیں موصوف کی کیا تعریف کیجئے کہ
" کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے "

جناب کی شخصیت کے بیان کیلئے دفاتر درکار ہیں اور اگر یہ دفاتر سرکاری ہوں تو زیادہ بہتر ہے کہ انکی فائل داخل دفتر کرکے دریا برد کرنا آسان ہوگا ..

گو حضرت شیخ کی زندگی کھولنا کسی پوشیدہ سرکاری فائل کھولنے سے کم خطرناک نہیں جس میں کئی پردہ نشینوں کے نام آتے ہوں......

ان کی تعریف میں صرف اتنا ہی کہ دینا کافی ہے کہ وہ " شیخ " ہیں انکے روحانی مقامات اور اخلاقی معیارات کا موازنہ صرف رشید سے ہی ہو سکتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ انکی شیخی کے سامنے شیدے کی شوخی ہیچ ہے ........

شیخ کی زندگی پیاز کی پرتوں کی طرح سادہ اور جلیبی کے گھیروں کی طرح سیدھی ہے سرکار ایک ایسے پیشے سے منسلک ہیں جس کا نام انگریزی میں معزز اور اردو میں گالی سنائی دیتا ہے اور اگر آپ شیخ کی گفتگو سنیں تو زیادہ تر بس یہی کچھ سنائی دیتا ہے ...

کہتے ہیں شیخ صاحب نے کافی سال کراچی نفسیاتی ہسپتال میں گزارے گو وہ وہاں نہ تو معالج تھے اور نہ ہی مریض اور ہر دو گروہ انہیں گروہ مخالف کا آدمی سمجھتے رہے لیکن حقیقت میں جناب شیخ وہاں لارنس آف ارے بیا کے ہمفرے کی طرح منشی ہی تھے .......

شیخ صاحب کی سیاسی بصیرت کے کیا کہنے ایسے ایسے پوشیدہ نکات ڈھونڈھ کر لاتے ہیں کہ سننے والے کا دل سر دھننے کو جی کرتا ہے لیکن بیچارہ صرف سر پیٹ کر رہ جاتا ہے وہ بھی اپنا ...

شیخ پکے لیگی ہیں لیکن یہ لیگ جناح صاحب کی لیگ نہیں بلکہ یہ ان گنج ہاے گرانمایہ کی لیگ ہے جن کے پس خاک ہونے کی آرزو میں کتنے ہی خانوں کی خاک اڑ رہی ہے .........

عالی جناب دینی اعتبار سے خود کو پکا جماعتی گردانتے ہیں لیکن جماعت نے انکے شباب میں ہی ملت کے و سیع تر مفاد میں انھیں چمن سے نکال دیا تھا اور وہ پاسباں بننے کا خواب دیکھتے ہی رہ گئے ...

شیخ وہ شمع محفل ہیں کہ جب وہ جلتے ہیں تو دوسرے بھی جلتے ہیں انکی موجودگی میں اکثر لوگوں کے کان لال اور اگر حضرت فاطمی موجود ہوں تو رخسار بھی لال دکھائی دیتے ہیں بلکہ اکثر اس بات کا خدشہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی انکے گال لال گلال نہ فرما دے...، گو انکی رنگت اسکی اجازت نہیں دیتی .

دوران گفتگو اگر انکو کوئی بات بری لگ جاوے تو انکی چہرے پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا ہے لیکن یہ رنگ آتا جاتا دکھائی نہیں دیتا ........

شیخ جی کو زندگی میں کافی دیر بعد یہ احساس ہوا کہ ان کے اندر ایک شاعر بھی موجود ہے جو کب سے باہرنکل آنے کیلئے بیتاب ہے گو شیخ نے بہت پہلے ہی یہ ٹھان لی تھی کہ

احتراماً گر مجھے شاعر نہین ماناگیا
انتقاماً ایک دن نقاد بن جاؤنگا میں

باتوں سے بات نکالنا اور باتوں ہی باتوں میں لوگوں کی چیخیں نکال دینا شیخ کا کمال ہے چند نمونے ملاحاظہ ہوں .......

پروفیسر جو کہ اصل میں ابھی صرف لکچرار ہیں لیکن انکی توصیف اور انکے ساتھ بیٹھنے میں اپنی توقیر بڑھانے کیلئے ہم انہیں پروفیسر ہی کہتے گو انکو کو دیکھیں تو نوجوان لونڈا سا ہی دکھتا ہے جو تنگ ٹی شرٹ میں اپنے مسلز کی نمائش کرتا دکھائی دیتا ہے قصہ مختصر

پروفیسر کی خبروں سند دیکھ کر شیخ نے اسے روزنامہ " چیخ " کا نمائدہ قرار دیا ہے
ایک دن فیاض صاحب (ہمارے محترم شاعر دوست ) کی یوں کرکری کی کہ " ان کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ کوئی نئی نئی موٹرسائیکل چلانا سیکھے اور قبرستان پہنچ کر پریشان ہو کہ " ارے یہ اتنے سارے سپیڈ بریکر کہاں سے آ گئے "

جب دوسرے کو بے دلیل کرنا ہو تو شیخ کہتے ہیں

کس قدر مفلس دلیل ہو تم
اپنے اسلاف کے وکیل ہو تم

فیاض صاحب نے ہی ایک بار ایک مصرع سنایا " رات کا گہرا سناٹا بھی چیخ اٹھا "

آگے جو شیخو نے لگایا اسکو لکھنے اور سنانے کی اجازت ہمارا دین اخلاقیات میرے کمپیوٹر کا کی بورڈ اور میرے جذبات بلکل نہیں دیتے "

لیکن

صاحبان فکر و نظر کی پرواز تخیل کے سامنے گو یہ کوئی چیستان بھی نہیں ایک اشارہ ملاحظہ کیجئے

جس کا جی چاہے، وہ انگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے منگوائے ہُوئے لوگ ہیں ہم

اس شعر کی انگلی اور اس شعر کی چیخ میں گہرا تعلق ہے

اب شیخ کی اس انگلی کا کیا کیجئے کہ یہ دوسروں کو خوب نچاتی ہے

شیخ کے ذومعنی جملے کمال ہیں اردو ادب میں استاد چرکیں لکھنوی المعروف " چرکن " کے بعد سب سے بڑا مقام شیخ کا ہی ہے

جب چنے کے کھیت میں وہ ماہ رو ہگنے لگا
لینڈ بل کھا کر ہلال چرخ گردوں ہو گیا۔۔۔

استاد چرکیں کی طرح شیخ صاحب کو بھی اس بیت الخلائی ادب میں کامل مہارت حاصل ہے

میرے ہی ایک شعر

اس کو روکیں یا اس کو جانے دیں
ہم بڑی دیر گو مگو میں رہے

کے " گو " کو شیخ نے اس بے دردی سے پکڑا کہ ہمیں اپنا یہ شعر غزل سے نکالنا پڑ گیا ......

محترم جناب طاہر عباس صاحب نے سلام کا شعر سنایا

ہشیار طفل حق سے یہ بچہ اسی کا ہے

شیخ نے " یہ بچہ اسی کا ہے " کو پکڑ لیا اور جناب طاہر عباس کو بھی سلام سے یہ شعر نکالنا پڑ گیا ......

بس کچھ ایسے ہی کمالات ہمارے شیخ کے ہیں گو وہ اپنے افکار زیادہ تر نثر میں بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن نظم ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ......

گفتگو ہو رہی تھی شیخ کی شاعری کی تو شیخ نے اردو زبان کی واحد یک مصرعی غزل کہی ہے

" وقف پرسان حال دل زدگاں "

جتنی اضافتیں اس ایک مصرعے میں ہیں پوری غزل بھی انکی متحمل نہیں ہو سکتی اور جو حکم و معارف اس میں پوشیدہ ہیں انکی کنہ تک سقراط و بقراط و افلاطوں بھی کیا پہنچ سکیں .........

گو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شیخ کی شاعری نے جتنی جلدی ترقی کی ہے وہ انکی باکمال شخصیت کا ہی کمال ہے گو انھیں کچھ مکینکوں کی ضرورت بھی پڑتی ہے اور اکثر وہ مکینک خود کو شاعر کہلوانے پر مصر بلکہ شیخ کے سر ہوتے ہیں لیکن شیخ سر جھٹک کر ان کے ساتھ مکینک والا سلوک ہی فرماتے ہیں ......

گو شیخ خود شاعر ہیں لیکن اگر کوئی دوسرا ایک سے دوسری غزل سنا دے تو یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں

وہ شاعری کے پهیر میں نقاد ہو گیا ..
کل تک جو مبتدی تها وہ استاد ہو گیا .

اس نے سنا سنا کے غزل ہم کو دی سزا
شاعر ہمارے عهد کا ... جلاد ہو گیا .......

شیخ نہ سنی ہیں اور نہ شیعہ بلکہ یوں کہیے

بلھا کی جاناں میں کون؟
نہ میں عربی نہ لاہوری
نہ میں ہندی شہر نگوری
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں رہندا وچ ندون
بلھا کی جاناں میں کون؟

بقول علی ارشد (چورنگی کی معروف سیاسی شخصیت) شیخ " ابلیس " ہیں

اور

بقول مرزا غالب

ہاں اتنی بات اور ہے کہ اباحث ار زندقہ کو مردد اور شراب کو حرام اور اپنے کو عاصی سمجھتا ہوں ۔ اگر مجھ کو دوزخ میں ڈالیں گے تو میرا جلانا مقصود نہ ہو گا بلکہ میں دوزخ کا ایندھن ہوں گا اور دوزخ کی آنچ کو تیز کروں گا تاکہ مشرکین اور منکرین نبوت مصطفوی و امامت مرتضوی اس میں جلیں ۔ ‘‘
گو شیخ کے ساتھ غالب کا ذکر جچتہ نہیں لیکن ہر دو حضرات اپنے اپنے دور کے نابغے ہیں بس اب اور کیا کہیں

کچرا ہمارے حسن تخیل کا کر دیا
عقدہ کشا کیا یہ کسی زن مرید نے

جنت میں حور ہونگی نہیں ہونگے نابکار
فتویٰ دیا ہے آج یہ شیخ جدید نے

نوٹ : خاکے سے کسی بھی شخصیت کی ظاہری مماثلت اختلافی سمجھی جاوے .

حسیب احمد حسیب
 
Top