شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کے لئے

پروفیسر وحید عزیز

عصرحاضر میں صرف وطن عزیز ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی امن وامان کا فقدان نظر آتا ہے۔ بڑی طاقتوں اور ترقی یافتہ ملکوں سے لے کر ترقی پذیر ممالک تک سبھی کسی نہ کسی طرح کے انتشار اور بکھراوٹ کا شکار ہیں، دہشت گردی ہر جگہ عام ہے حصول قوت کے لئے ایک دوسرے کو دبانے کی منصوبہ بندی عروج پر نظر آ رہی ہے۔ مذہبی انتشار اور تفرقے بازی نے لوگوں کو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اسی تقسیم نے وطن عزیز کے امن کو بھی نگلنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام دنیا کا عظیم ترین مذہب اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے آدمیت کو انسانیت کی عمدہ واعلیٰ پوشاک پہنائی اور اسے معتبر بنا دیا۔ اسلام نے شعور اور جینے کا ڈھنگ دیا۔ سوچ کو پختگی تاریکیوں کو جلا بخشی، انسان کو اس کے مقام کی اصل پہچان کروائی، اسلام ہی کی بدولت انسانیت نے توانائی حاصل کی اور دنیا تہذیب جیسے لفظ سے باضابطہ طور پر متعارف ہوئی، ایسے عظیم و اعلیٰ مذہب کو بھی فرقوں میں بانٹ دیاگیا، انسانیت کو پھر آدمیت کی طرف دھکیلنے کی سعی کی گئی اور آدمیت، حیوانیت میں تبدیل ہو کر اپنے ہی ہم نسلوں، ہم مذہبوں کا لہوبہانے گلی، فرقہ پرستی کی بنیاد پر اللہ رب العزت کی بخشی گئی جانوں کو مسلا گیا، کچلا گیا، دبایا گیا، مٹایاگیا، ستایاگیا، اس سارے عالم نے عظیم دین ودنیا کی نظر میں ’’دہشت،، کی علامت بنا دیا، غیر مسلموں نے اس صورت حال کو اور بھی ہوا دی اور سچے مذہب پر اپنے بنائے گئے، مذاہب کو برتر ثابت کرنے میں لگ گئے، ان سب کاموں کا موقع ہمارے ہی لوگوں نے انہیں مہیا کیا تھا، فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی تھی، اپنے مفادات کے لئے حقائق کو چھپا کر مذہبی تقاریر کی گئیں، یہ ایک تکلیف دہ امر تھا، ایسے میں اللہ رب العزت نے ایک شخص کو مسیحیت کا چولہ علمیت کے رنگ میں پہنا کر اسی جدید دور کے عالمی میڈیا (جو کہ مذہب عظیم کے خلاف سازشوں کے جال بننے میں مصروف عمل تھا) کے سامنے مرد آہن کی طرح لا کھڑا کیا، اس شخص نے اپنے علم کا استعمال اس کامیاب مہارت سے کیا کہ ایک زمانے کو اپنا گرویدہ کر لیا اور فرقہ پرستی کی فضا قربت و محبت کی ہواؤں سے مہکنے لگی، بدامنی کی فضاؤں میں امن کا دیپ روشن ہونے لگا، مذہب سے دورجانے والے مقدس دائر میں واپس آنے لگے، اسلام اصل رنگ، اصل محبت کے ساتھ ایک بار پھر لوگوں تک پہنچنے لگا، تفرقہ میں بٹے ہوئے لوگ اخوت و محبت جو کہ اسلام کا خاصہ ہے میں ڈوبنے لگے ہیں، دلوں کے درمیان فاصلے مٹانے کا سہرا عصر حاضر کے سب بڑے مفکر، شیخ الاسلام پروفیسرڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے سر ہے۔

دنیا اب گلوبل ویلج نہیں بلکہ گلوبل ہٹ کی صورت اختیار کر چکی ہے، الیکٹرانک میڈیا نے فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے۔ آئی ٹی کی ترقی نے براعظموں کے فاصلے اس حد تک کم کر دیئے ہیں، اب ہم گھر بیٹھے بٹھائے تمام دنیا کا نظارہ کرنے کے اہل ہو گئے ہیں، زمانے کی ترقی سے ہر شخص کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، اسلام دشمن قوتوں نے مسلم امہ کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کے جال بچھا رکھے ہیں، اور ہم فرقہ پرستی میں محو ہو کر دشمنان اسلام کی سازشوں کا باآسانی نشانہ بن رہے ہیں، شیعہ، سنی فسادات تو ہماری روایات کا حصہ بن چکے تھے مگر پروفیسرڈاکٹر محمدطاہر القادری نے علم کا مثبت استعمال کرتے ہوئے نفرت کی فضا میں محبت کے رنگ بکھیر دیئے ہیں، محبت کا ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کیا جس پر مسلمان آسانی سے اکٹھے ہو کر بین الاقوامی سازشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں، اللہ رب العزت نے فرمایا۔ ’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔،،

قرآن پاک کی آیت مقدسہ سے یکجہتی کی اہمیت وحیثیت کا اندازہ ہوتا ہے تفرقہ دراصل شیطنت ہے اور جو فرقہ بازی کو ہوا دیتا ہے حقیقی بات ہے کہ وہ شیطانیت وحیوانیت کی ترقی اور ترویج کے لئے سرگرم عمل ہے مگر اس کے برعکس اگر کوئی فرقہ پرستی کو ختم کرنے کے لئے اپنے علم کا استعمال کرتا ہے تو یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ زمین کو فسادات سے پاک کر کے اور اللہ کے دین کی پرخلوص اشاعت میں مصروف عمل ہے، اور جو صدق دل اور بے غرض طریقے سے اللہ کے دین کی بہتری کے لئے اپنی توانائیوں کو بروئے کار لاتا ہے زمانہ اسے شیخ الاسلام، جرات وبہادری کا سرچشمہ، ہمت وسچائی کا پیکر اور عاشق رسول جیسے معزز و اعلیٰ القابات سے نوازتا ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت جس پر مہربان ہوتا ہے اسے علم جیسی نعمت عطا فرماتا ہے اور علم اسے عطا ہوتا ہے جس کے ذہن وقلیم میں سچائی اور راست بازی کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ جس کی ادا میں عاجزی ہوتی ہے، جس کی زبان میں چاشنی ہوتی ہے، جس کے لہجے میں یقین اور سوچ میں پختگی ہوتی ہے اور طبیعت میں تحقیق کی لگن ہوتی ہے جب یہ سارے اوصاف انسان کی سوچ اور عمل میں گھر کر لیتے ہیں تو علمیت کے دروازے اس شخص پر کھل جاتے ہیں اور وہ صحیح معنوں میں حقیقتوں کو سمجھنے لگتا ہے، علم وہنر، پختہ سوچ، سچائی، راست بازی کو جب عشق خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس و پارا رنگ میں ڈالا جائے تو پھر پروفیسر ڈاکٹر محمدطاہر القادری زمانے کو میسر آتا ہے۔

پروفیسر صاحب صرف صاحب علم ہی نہیں ہیں بلکہ باکمال وخطیب بھی ہیں اور سننے والوں کو گھنٹوں اپنی گفتار کے بل پر خاموش رکھ سکتے ہیں، قدرت نے علم کے ساتھ ساتھ اگر خطابت کا فن بھی عطا کیا ہو تو شخصیت کمال کو پہنچ جاتی ہے، اپنی بات کو دوسرے تک پہنچانے کے لئے جو خوبی ایک مقرر میں ہونی چاہئے، بلاشبہ شیخ الاسلام میں وہ خوبی واضح نظر آتی ہے، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دشمنان اسلام نے مذہب عظیم کے خلاف سازشوں کا جو جال بنا تھا، اسے یقینی طور پر پروفیسر صاحب نے اپنے قلم اور گفتار سے نہ صرف توڑا ہے بلکہ مسلم امہ کے اختلافات کو ختم کرنے کے لئے زبردست کوششیں کی ہیں، پروفیسر صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ عام مقررین کی طرح صرف تقریر برائے تقریر نہیں کرتے بلکہ دلائل کے ساتھ بات بیان کرتے ہیں اور دلائل بھی ٹھوس ہوتے ہیں جو ان کے علمی قد میں مزید اضافہ کرتے ہیں، شائستہ لہجہ اور آسان الفاظ کے استعمال نے پروفیسر صاحب کی تقریر اور تحریر عام آدمی کے لئے بھی سمجھنے میں سہل کر دی ہے اس ہما ہمی، گہما گہمی کے دور میں جب کوئی خلوص ومحبت کی بات کرنے اور وہ بھی دین کے مقدس رنگ میں ڈبو کر تو وہ آدمی بہت زیادہ معزز اور معتبر ہو جاتا ہے۔ پروفیسر صاحب ان تمام خوبیوں سے آراستہ ہیں جو ایک بہترین انسان کا خاصہ ہیں۔

فساد کو اپنے علم کی مدد سے نہ صرف پروفیسر طاہر القادری صاحب نے کم کیا ہے بلکہ قرابت داری کا ایک مضبوط رشتہ بھی قائم کیا ہے، پرچم حسینی کی سربلندی کا ذکر ڈاکٹر صاحب کی تحریروں میں اس محبت کے ساتھ ملتا ہے کہ پڑھنے والا سبحان اللہ کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خوبصورتی سے شیخ الاسلام بیان کرتے ہیں کہ لہجہ عشق کے خمار میں ڈوب کر جب سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو کانوں میں رس اس خوبصورتی سے گھلتا ہے کہ قلب وذہن دونوں عشق رسول سے جگمگا اٹھتے ہیں، خاتم النبین کا ذکر پروفیسر صاحب جس احترام ومحبت سے کرتے ہیں عصر حاضر میں کوئی دوسرا خطیب بلاشبہ اس خوبی کا اہل نظر نہیں آتا، مالک کائنات نے عمدہ آواز اور اعلی تلفظ عطا کر کے پروفیسر صاحب کو ہم عصر علماء میں سے برتر مرتبہ بخش دیا ہے، ہر لمحہ، ہر پل، غرضیکہ ہروقت جس زبان سے صرف ذکر خدا اور رسول وآل رسول بیان ہوتا ہو جس نے صرف مدحت ہی مالک کائنات وتاجدار کائنات تخلیق کرنا ہو تو اس وجود کی قدسیت وبرتری کا کوئی بھی ذی شعور کیسے انکار کر سکتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹرصاحب کے قلب وذہن ہر لمحہ اسی عظیم فریضہ میں محور رہتے ہیں، ڈاکٹرطاہر القادری، شیخ الاسلام نے سینکڑوں تصانیف سپرد قلم کیں اور ان تصانیف کی اشاعت نے نہ صرف دین کو سمجھنا سہل کیا بلکہ فرقہ پرستی کے خاتمے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے، اس کے علاوہ پروفیسرصاحب کے خطابات کی سی ڈیز نے بھی اختلافات میں ڈوبے ہوئے لوگو ں کو صحیح سمت کا تعین کرنے میں بہترین کردار ادا کیا ہے۔ اللہ رب العزت اپنی مہربانیاں اس شخص پر بڑھا دیتا ہے جو اوروں کی فلاح کے لئے اپنی زندگی کو وقف کر دیتا ہے۔ پروفیسر صاحب کی شخصیت کا اہم پہلو دوسروں سے محبت کرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اس شعر کے مشابہ ہے۔

ایک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے

شیخ الاسلام بلاشبہ زمانے کے لئے نعمت ہیں اور ہمیں اس نعمت خاص کی دل و جان سے قدر کرنی چاہئے۔ اللہ رب العزت ڈاکٹر صاحب کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور رحمت وسلامتی عطا فرمائے تاکہ زمانہ پروفیسر صاحب کے پرخلوص علم ولہجے سے مستفید ہوتا رہے اور اختلافات کو بھلاتا چلا جائے۔ آمین

بشکریہ منہاج ڈاٹ آرگ
 
Top