شہر میں ہر طرف نادیدہ فسوں ہے یوں ہے (خیام قادری)

ہر طرف شہر میں نادیدہ فسوں ہے یوں ہے
صاحبِ دار کو مطلوب جنوں ہے یوں ہے

شہرِ جاں سے ہوا آمادہِ ہجرت غم بھی
ساتھ اشکوں کے رواں آنکھ سے خوں ہے یوں ہے


آنکھ کو اُس کی ، کسی اور شناسائی کی ضد
دل مگر مجھ کو یہ سمجھائے کے یوں ہے یوں ہے


قریہء کن میں بھی ہے صاحبِ کن کا ہی جمال
زندگی خود بھی نثارِ فیکوں ہے یوں ہے


زخم اک اور ملا تیری مسیحائی سے
آج آشفتہ مزاجوں کو سکوں ہے یوں ہے


جانے کب دل کو محبت کا یقیں آجائے
ارتعاشِ رگِ جاں اور فزوں ہے یوں ہے


خستہ حالوں پہ نئے غم کے ہیں سائے خیام
زندگی اور زبوں اور زبوں ہے یوں ہے​
 

اکمل زیدی

محفلین
آنکھ کو اُس کی ، کسی اور شناسائی کی ضد
دل مگر مجھ کو یہ سمجھائے کے یوں ہے یوں ہے


قریہء کن میں بھی ہے صاحبِ کن کا ہی جمال
زندگی خود بھی نثارِ فیکوں ہے یوں ہے
خوب ہے ....... کیا ردیف نبھایا ہے........یوں ہے .....واہ
 
Top