شہر خالی، رستے خالی، گلیاں خالی، خانہ خالی

شہر خالی، کوچے خالی، گلیاں خالی، خانہ خالی
جام خالی، میز خالی، ساغر و پیمانہ خالی
چل دئے ہیں ، دوستوں اور بلبلوں کے قافلے
باغ خالی، شاخیں خالی اور خالی گھونسلے

ہائے ، اے دنیا کہ یار اب یار سے ڈرنے لگے
پیاسے غںچے، اپنے ہی گلزار سے ڈرنے لگے
عاشق اب محبوب کے دیدار سے ڈرنے لگے
موسیقار اب ساز ہی کے تار سے ڈرنے لگے
شہسوار اب رستہء ہموار سے ڈرنے لگے
دیکھنے کو چارہ گر ، بیمار سے ڈرنے لگے

ساز ٹوٹے اور درد شاعراں حد سے بڑھا
شاق گذرا، ہم پہ ، تم پہ، انتظار سال ہا

شہر خالی،کوچے خالی، گلیاں خالی، خانہ خالی
جام خالی، میز خالی، ساغر و پیمانہ خالی
چل دئے ہیں ، دوستوں اور بلبلوں کے قافلے
باغ خالی، شاخیں خالی اور خالی گھونسلے

جو شناسا تھے ہمارے، ہوگئے نا آشنا
ایسا کہنا بھی ہے جیسے، کوئی آفت یا بلا
نالہ و شیون کیا ، ہر در پہ دی میں نے صدا
خاک ویرانہ سے اپنے سر کو آلودہ کیا
پھر بھی ساکت پانیوں میں کوئی نا حرکت ہوئی
خواب غفلت میں جو ڈوبے ، آنکھ نا ان کی کھلی

شہر خالی، کوچے خالی، گلیاں خالی، خانہ خالی
جام خالی، میز خالی، ساغر و پیمانہ خالی
چل دئے ہیں ، دوستوں اور بلبلوں کے قافلے
باغ خالی، شاخیں خالی اور خالی گھونسلے

خشک چشمے ہوگئے، دریا بہت ہی کم رواں
آسمان بھی ہنس دیا ، سن کر ہماری داستاں
عشق محروم حبیب، جام خالی جوش سے
ہمدرد کوئی نہیں ، جو میرے نالے کو سنے
لوٹ آؤ، تاکہ لوٹیں ، جانے والے قافلے
لوٹ آو، پھر اٹھائیں، ناز اہل ناز کے

شہر خالی، رستے خالی، گلیاں خالی، خانہ خالی
جام خالی، میز خالی، ساغر و پیمانہ خالی
چل دئے ہیں ، دوستوں اور بلبلوں کے قافلے
باغ خالی، شاخیں خالی اور خالی گھونسلے

لوٹ آؤ تاکہ لوٹے ، مظرب و آہنگ و ساز
زلف پھیلاؤ کے لوٹے پھر نگاہ دل نواز
در پہ حاضر، مظہری ہوں ، حافظ شیراز کے
پھول برسیں، چھلکے ساغر، مےء خوش انداز کے

شہر خالی، کوچے خالی، گلیاں خالی، خانہ خالی
جام خالی، میز خالی، ساغر و پیمانہ خالی
چل دئے ہیں ، دوستوں اور بلبلوں کے قافلے
باغ خالی، شاخیں خالی اور خالی گھونسلے

فارسی نظم، حافظ شیرازی، ترجمہ - پرل (موتیاں)
 
آخری تدوین:
Top