شہر اردو میں اردو سے بے اعتنائی

ساجداقبال

محفلین
کراچی صحیح معنوں میں ایک کاسمو پولیٹن سٹی ہے، چنانچہ اس کے کلچر میں یہ رنگ بھی شامل ہے۔ یہ شہر وہ ہے جو کبھی امن کا گہوارہ بھی تھا۔ یہاں سندھی ، پنجابی، پٹھان ،اردو سپیکنگ سب ایک فیملی کی طرح رہتے تھے، مگر اب دلوں میں دراڑیں آگئی ہیں۔ اس کے باوجود آج بھی یہ شہر ان سب قومیتوں کے مشترکہ دشمن کی فتنہ انگیز کوششوں کے باوجود اس قابل ہے کہ اس میں رہا جائے اور اس سے پیار کیا جائے ،کیونکہ اس کی بہت بڑی تعداد کے دل آج بھی شیشے کی طرح صاف ہیں وہ صرف محبت کرناجانتے ہیں، ان کے پاس نفرت کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔ مگر مجھے اس شہر سے ایک گلہ بھی ہے اور میرا آج کا کالم اس گلے کے اظہار ہی کے لئے ہے۔ اردو ہماری قومی اور رابطے کی زبان ہے جبکہ کراچی والوں کی یہ مادری زبان بھی ہے، چنانچہ اس لحاظ سے اہل کراچی پر اردو کے حوالے سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ اس زبان سے سب سے زیادہ تغافل کا رویہ بھی اسی شہر میں پایا جاتا ہے۔ یہاں اس طبقے کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جو اردو میں گفتگو کو کسر شان سمجھتا ہے اور اس کے مقابلے میں غلط ملط انگریزی کو ترجیح دیتا ہے، گزشتہ دنوں اپنے بھانجے مبین پیرزادہ کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لئے میں کراچی میں تھا۔ میں نے جب ایک محفل میں دو چار دوستوں کو مسلسل انگریزی میں گفتگو کرتے اور اس زبان کے قواعد و ضوابط کی بے حرمتی کرتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے کہا”آپ کو آخر کیا کمپلیکس ہے کہ آپ اپنی مادری زبان اردو میں بات نہیں کرتے؟”اس کا جواب دینے کی بجائے مجھ سے پوچھا گیا“ آخر آپ لوگوں کو کیا کمپلیکس ہے کہ آپ اپنی مادری زبان میں گفتگو کرنے کی بجائے اردو میں گفتگو کرتے ہیں“ان کا اعتراض بظاہر صحیح تھا لیکن ایک غلط کام کاجواز دوسرا غلط کام نہیں ہوسکتا، ویسے بھی پنجاب نے اردو کی بقاء اور استحکام کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں،تاہم یہاں بھی وہ طبقہ خاصی بڑی تعداد میں موجود ہے جو اپنے معاشرتی ”درجات“ بلند کرنے کے لئے بولنا توانگریزی ہی چاہتا ہے لیکن استعداد نہ ہونے کی وجہ سے اردوپر گزارہ کرتا نظر آتا ہے جو لوگ کوئی زبان اس زبان سے محبت کی وجہ سے بولتے ہیں وہ مجھے اچھے لگتے ہیں اور جو کسی زبان کو حقیر سمجھ کر اس سے اپنا رشتہ توڑ بیٹھتے ہیں۔ میری نظروں میں وہ خود حقیر ہیں ورنہ زبانیں تو ساری ہی خوبصورت ہیں۔ تاہم اس سے کہیں زیادہ شکوہ اہل کراچی سے مجھے یہ ہے کہ ان کے ہاں ایک سے ایک اعلیٰ درجے کے لکھنے والے موجود ہیں مگر ان کے لئے کوئی ڈھنگ کا پبلشر تلاش کرنا ایک مسئلہ ہے۔ کراچی میں اردو کتابیں عموماً اپنے خرچ پر شائع کرانا پڑتی ہیں اور جو کتابیں پبلشر اپنے خرچ پر شائع کرتے ہیں ان کی مارکیٹنگ کراچی تک ہی محدود رہتی ہے اور یوں کراچی کے لکھاریوں کا انٹرایکشن دوسرے صوبوں اور دوسرے شہروں کے لکھاریوں سے کماحقہ نہیں ہوپاتا جبکہ لاہور آج بھی اردو کی اعلیٰ کتابوں کا مرکز ہے ۔ادارہ سنگ میل اس حو الے سے واقعی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس نے پاکستان کے تمام شہروں بلکہ بھارت کے ممتاز اردو لکھاریوں کی کتابیں بہت آب و تاب کے ساتھ شائع کی ہیں۔ حال ہی میں لاہور کے ایک ادارے نے مشتاق احمد یوسفی کی کتابوں کا مجموعہ اور سلیم کوثر کا تازہ شعری مجموعہ شائع کیا ہے بلکہ ان کی فروخت کا ریکارڈ بھی قائم کیا ہے۔ کیا اہل کراچی صرف بینکوں کے ہیڈ آفس ہی پر گزارہ کریں گے یا وہاں ایسے ادارے بھی وجود میں آئیں گے جو اردو کتابوں کو ان کے شایان شان طریقے سے شائع کرسکیں ؟ کراچی میں معروف افسانہ نگار اور میرے عزیز دوست عرفان جاوید بسلسلہ ملازمت مقیم ہیں۔ وہ اردو کے عاشق ہیں انہیں جب کبھی اردو کتابوں کی ضرورت پڑتی ہے وہ انہیں لاہور سے منگوانا پڑتی ہیں ۔ کراچی کے اردو بازار میں اردو کتابوں کی چند دکانیں موجود ہیں ویلکم والے بھی ہیں مگر ڈیڑھ کروڑ آبادی کے شہر میں کیا یہ سب کچھ کافی ہے؟عرفان جاوید کو چند کتابیں خریدنا تھیں۔ میں ان کے ساتھ تھا اردو بازارجانا ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا، چنانچہ ہم ایک شاپنگ مال میں گئے وہاں انگریزی کتابوں کا انبار تھا۔ ایک ننھے منے سے کونے میں اردو کی چند کتابیں پڑی تھیں جو بہت شرمندہ شرمندہ سی لگتی تھیں۔عرفان جاوید نے سیلز مین سے پوچھا”آپ اردو کتابوں کو پہلے دکان کے شروع کے حصے میں ڈسپلے کرتے تھے اب آپ نے انہیں آخر میں پھینکا ہے‘ اس کی وجہ کیا ہے؟“ اس نے جواب دیا”ان کتابوں کے گاہک برائے نام ہیں ہم نے انہیں نمایاں کرکے بھی دیکھا تھا کوئی فرق نہیں پڑا“ اس کے برعکس لاہور کی صرف مال ر وڈ پر اردو کتابوں کے تین بڑے شو رومز ہیں۔ لاہور کا حوالہ میں اس لئے درمیان میں لا رہا ہوں تاکہ کراچی کا کاروباری طبقہ اگر اردو کی محبت میں نہیں تو کم از کم مسابقتکے جذبے ہی سے اس سلسلے میں کوئی پیش قدمی کرسکے۔ جہاں تک اپنی مادری زبان کی بجائے انگریزی میں گفتگو کا تعلق ہے تو اس کا علاج نہ تو اہل کراچی کے پاس ہے اور نہ کسی اور کے پاس، کیونکہ حکومت ”انگلش سپیکنگ یونین“ کے ارکان کی ہے اور وہ انگلش کو اردو کی جگہ لانا چاہتی ہے لیکن اردو کتابوں سے رغبت ان کی اشاعت اور ان کی فروخت کے لئے کسی حکومتی ادارے یا کاروباری افراد سے توقع رکھنے کی بجائے اگر کراچی کے کچھ فعال نوجوان آگے بڑھیں اور یہ کام اپنے ہاتھ میں لیں تو کراچی والوں کی ار دو سے عملی محبت سامنے آئے گی اور یوں اس شہر کی عزت و توقیر میں مزید اضافہ ہو گا۔ یہ کام اجمل کمال اور کچھ دوسرے لوگ محدود پیمانے پر کررہے ہیں لیکن اسے وسیع پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے ۔کراچی اردو کے حوالے سے ایک ماڈل سٹی ہونا چاہئے کراچی کے ادیب دوستوں اور اردو سے محبت کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ کراچی کے ناظم صاحب کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرائیں۔
 
Top