شکوہ گردش حالات لیے پھرتا ہے ۔ انور مسعود

شکوہ گردش حالات لیے پھرتا ہے
جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے

اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے
اور مجھے شوق ملاقات لیے پھرتا ہے

شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے لیکن
اب بھی کچھ سوکھے ہوئے بات لیے پھرتا ہے

سوچئے جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے
اپنے سائے کو بھی جو ساتھ لیے پھرتا ہے

آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے

لے تو مہر سے چاند کی جھلمل انورؔ
اپنے کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے
 
Top