کاشفی

محفلین
شکوہ ء وطن
(ڈاکٹر سکندر شیخ مطرب - امریکہ)
(نظم مکمل پیش نہیں کی گئی ہے)


بہل نہ پائی طبیعت تو آنکھ بھر آئی
دل اداس کو کیا کیا نہ بات سمجھائی
تمہاری یاد بھی آئی تو اسکے بعد آئی
دیار غیر میں پہلے وطن کی یاد آئی
خیال آیا کبھی دوستوں کا یاروں کا
ستم گزاروں کا سوچا کبھی تو پیاروں کا
مرے جوان جو مارے، مرے جوانوں نے
خیال آیا کبھی انکے سوگواروں کا
مرے کسان، مرے کھیت، میری پیاری زمیں
سسکتے، ہانپتے مزدور جنکی صبح یقین
حصول علم کی راھوں میں بھٹکے طالب علم
کہ جنکے خوابوں کی تعبیر کھو گئی ہے کہیں
مرے وطن کے مکیں خوف کے حصار میں ہیں
یہ سادہ لوگ ہیں وعدوں کے اعتبار میں ہیں
کہ انکی خوشیاں بھی کب انکے اختیار میں ہیں
یہ ساٹھ سال سے سورج کے انتظار میں ہیں
خیال انکا بھی آیا جو بے سہارے ہیں
یہ میرے دیس کے ہاری ہیں اور مزارے ہیں
یہ چاک چاک گریبان کیسے سیتے ہیں
یہ میرے دیس کے مزدور کیسے جیتے ہیں
ہے دل اداس بہت انکی بدنصیبی پر
ستم بھی روتا ہے انکی ستم ظریفی پر
خدا بھی چپ ہے غریبوں کی اس غریبی پر
بے دست و پا ہیں یہ سردار و خان کے ہاتھوں
انہیں وڈیرے نے لوٹا ہے رات دن برسوں
یہ سہمے رہتے ہیں خود اپنے در کی آہٹ سے
ہے خوف کتنا مزارے کو چودھراہٹ سے
جوان بیٹیاں جنکی اٹھائی جاتی ہیں
انہی کے کھیتوں میں اکثر نچائی جاتی ہیں
اور انکی چیخیں بھی سبکو سنائی جاتی ہیں
مرا وطن جو شہیدوں کے خون کا حاصل
مرے بزرگوں کے جوش و جنون کا حاصل
مرا وطن مری برباد آرزو کا چمن
مرا وطن جو اندھیروں میں ڈھونڈتا ہے کرن
مرا وطن کہ جو گوروں کی قید سے چھٹ کر
وڈیروں اور لٹیروں کے ہاتھ آیا ہے
برا ےٴ نام بھی آزاد ہو نہ پایا ہے
مرا وطن جو نئے زخم روز سہتا ہے
کہ جسکے جسم سے ، آنکھوں سے خون بہتا ہے
بہت اداس ہے ان بھیڑیوں سے کہتا ہے
کیوں میرے ساتھ یہ ظلم و ستم کیا تم نے
کیوں مجھکو مال غنیمت سمجھ لیا تم نے
مری رگوں میں کیوں نفرت کا زہر بھر ڈالا
کیوں میرے جسم کو دو لخت تم نے کر ڈالا
کیوں مجھکو لوٹا کھسو ٹا ہے اسطرح تم نے
کہ جیسے کوئی خریدار جسم سے کھیلے
ہزار بھیڑیوں کو ایک جسم کیا جھیلے
مرا قصور بتاؤ گے میرے باشندو
اب اور کتنا ستاؤگے میرے باشندو
سہم کے پوچھ رہا ہوں اگر اجازت ہو
کوئی تو ایسا ملے جس میں کچھ شرافت ہو
نہیں ہے کوئی بھی احساس اب کہیں حد تک
اے میرے بے حسو ناقابل یقین حد تک
تمہیں خدا نے جہاں میں حسیں جہان دیا
اس ارض پاک کی صورت میں اک مکان دیا
جھلستی دھوپ میں تاروں کا سائبان دیا
تمہاری اپنی زمیں اپنا آسمان دیا
صلہ یہ اہل وطن تم نے کیا دیا مجھکو
مجھ ہی کو لوٹ لیا ، فتح کر لیا مجھ کو
-
-
-
-
ہمیں یقین ہمارا قصور نکلے گا
خدا کے در سے کرم کا ظہور نکلے گا
اندھیری شب ہے کہیں سے تو نور نکلے گا
مرے وطن میں بھی سورج ضرور نکلے گا
 

کاشفی

محفلین
نظم کی پسندیدگی کے لیئے۔۔۔
شکریہ فرخ منظور صاحب!
شکریہ فرحان دانش صاحب!
شکریہ عائشہ عزیز سسٹر!
 
Top