شوہر کے نام کی چھت منظور مگر اطاعت ناگوار ! کیوں ؟؟

عندلیب

محفلین
شوہر کی اطاعت ناگوار کیوں ؟!

مضمون : اسماء فرید (بحرین)۔

اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔۔
بدلتے وقت کے ساتھ لوگوں کی سوچ بدلتی ہے ، طور طریقے بھی بدلتے ہیں اور نئے زمانے میں نئی سوچ کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ اب پرانے خیالات نہیں چلیں گے۔
وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک دنیاوی معاملات کا تعلق ہے ، وہاں تو یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے۔ مثلاً کسی کو خط لکھنے کے بجائے اب ای میل یا ایس ایم ایس سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ یا ایسی ہی بیشمار سہولتیں ہیں جن کا تعلق دنیا کی آسانی سے ہے۔ یہاں ہم پہلے طریقے کے بجائے نئے طریقے پر عمل کرنے لگے ہیں۔
مگر کیا عقائد کے معاملے میں بھی ہم یہی سوچ اپنا سکتے ہیں؟
یقیناً نہیں ، ہرگز نہیں !

اس کے باوجود آج کل ہر طرف یہی آواز کیوں آتی ہے کہ
یہ تو پرانے زمانے میں ہوتا تھا ، ایسی باتیں آج کل نہیں چل سکتیں !

ایک خاتون سے ملاقات کے دوران جو گفتگو ہوئی اس میں انہوں نے مختلف خیالات کا اظہار کیا جن کو سن کر ان کی ناانصافی پر حیران ہی ہوا جا سکتا تھا۔ وہ محترمہ میاں بیوی کے معاملات پر بہت پرجوش انداز میں فرمانے لگیں:
یہ کوئی پرانا زمانہ نہیں کہ عورت ، شوہر کی ہر بات مانے اور ہر بات میں اس کی اطاعت کرے۔ یہ سب پرانے وقتوں میں ہوتا تھا ، آج کی عورت یہ سب نہیں کر سکتی (معاذ اللہ)۔
تھوڑی ہی دیر میں گفتگو کا رخ بدلا اور بات عورت کے حقوق کی ہونے لگی تو وہی خاتون فرمانے لگیں :
اگر عورت شوہر سے الگ گھر کا مطالبہ کرے تو یہ اس کا حق ہے جو اسلام نے اس کو دیا ہے اور مرد کے لئے اسے پورا کرنا ضروری ہے !

ہم نے کہا :
واہ واہ ! بہت خوب ! یہ کہاں کا اور کیسا انصاف ہے ؟
بھلا دین پر چلنے کا یہ کیسا طریقہ ہے کہ جو بات پسند ہے یا اپنے فائدے کی ہے تو اس کو قبول کر لو اور جو ناپسند ہے اس کو (نعوذ باللہ) پرانے وقتوں کی باتیں کہہ کر ٹال دو۔

شوہر کی اطاعت کا حکم تو اللہ کریم اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا ہے۔
اور اسی رب کریم نے ان تعلقات کے متعلق تعلیم بھی عطا فرما دی ہے۔
اور پھر ہم عورتوں پر مرد کو یہ فضیلت اللہ کریم نے ہی دی ہے۔
اور اللہ تعالیٰ ہی کے کلام پاک میں نیک عورتیں ، اطاعت کرنے والیاں ، اپنی حفاظت کرنے والیاں ، فرمایا گیا ہے۔

ہم ان باتوں کو کسی طور بھی کوئی بہانہ بنا کر یا نام دے کر نظرانداز نہیں کر سکتے۔
ہم عورتوں کو مرد کے نام کی چھت کے نیچے بحفاظت رہنا تو اچھا لگتا ہے ، اس کے ہاتھوں کی محنت سے کمایا گیا رزق حلال بھی اچھا لگتا ہے ، اس کی کمائی سے اپنا حصہ لینا بھی بہت بھاتا ہے ۔۔۔۔۔
تو پھر بدلے میں اس کی اطاعت کرنی بری کیوں لگتی ہے؟
ہمارا طرزِ عمل صرف اپنے حقوق مانگنے کی حد تک نہیں بلکہ حقوق کی ادائیگی کے لئے بھی ہونا چاہئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا :
سب عورتوں سے بہتر کون سی عورت ہے؟
آپ نے جواباً جو ارشاد عالی فرمایا ، اس کا مفہوم کچھ یوں ہے :
وہ عورت سب سے اچھی ہے کہ جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ خاوند کو خوش کر دے اور جب وہ اس کو کوئی حکم دے تو مان لے۔ اس کی نافرمانی نہ کرے اور نہ اس کے مال سے ایسا تصرف کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔
(ابوداؤد ، نسائی)

یہ ہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم مبارکہ جس میں واضح طور پر شوہر کا حکم ماننے کا ذکر موجود ہے اور یہی عالی تعلیمات ہمیں اپنی نئی نسل کو دینی ہیں !
اس کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ۔۔۔۔
ہم دین حنیف کے متعلق اپنی منافقانہ سوچوں سے نجات حاصل کریں ورنہ اپنے انہی خیالات کو ہم نئی نسل میں منتقل کر دیں گے۔
یاد رکھئے کہ ایسی سوچوں کی حامل خواتین اپنے گھر والوں کو ایک پرسکون اور کامیاب گھر نہیں دے سکتیں۔

شوہر کی اطاعت اس کی محبت میں نہیں بلکہ اللہ کریم کی محبت میں اگر کی جائے تو اللہ کریم ، ان شاءاللہ ، اپنی رحمت سے ہر اس کام میں برکت اور آسانی عطا فرما دے گا جو بندہ اس خالق حقیقی کی محبت میں سرانجام دے گا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ۔۔۔ کسی کی اطاعت کے لئے اپنا دل مارنا پڑتا ہے اور پھر عورت تو ویسے بھی قربانی کا دوسرا نام ہے۔ اپنی ضد ، انا اور خواہشات کا گلا گھونٹ کر ہی وہ مقام حاصل کیا جا سکتا ہے جس سے دنیا میں بھی سرخ روئی ہو اور آخرت میں بھی۔ نہ کہ دین کے احکامات کو ، معاذ اللہ ، " اگلے وقتوں کی باتیں " کہہ کر۔

ہمارے معاشرے کا مضبوط خاندانی نظام انہی مطیع و فرمانبردار عورتوں کا مرہون منت ہے۔
مگر مردوں کو بھی یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کے آگے سر تسلیم خم کرنے یا اس کی اطاعت کرنے کے لئے اپنا نفس ، اپنی انا ختم کرنا پڑتی ہے جو آسان کام نہیں۔ یہ عورت کا امتحان ہوتا ہے۔
اس لئے اگر آپ کے پاس فرمانبردار اور مطیع بیوی ہے تو اس کی قدر کیجئے کیونکہ یہ بھی اللہ کریم کی "نعمت" ہے جس سے آپ فائدہ اٹھا رہے ہیں !!!


بشکریہ : اردو نیوز ، جمعہ ایڈیشن۔ 17 جولائی 09
 

dxbgraphics

محفلین
شوہر کی اطاعت ناگوار کیوں ؟!

مضمون : اسماء فرید (بحرین)۔

اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔۔
بدلتے وقت کے ساتھ لوگوں کی سوچ بدلتی ہے ، طور طریقے بھی بدلتے ہیں اور نئے زمانے میں نئی سوچ کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ اب پرانے خیالات نہیں چلیں گے۔
وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک دنیاوی معاملات کا تعلق ہے ، وہاں تو یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے۔ مثلاً کسی کو خط لکھنے کے بجائے اب ای میل یا ایس ایم ایس سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ یا ایسی ہی بیشمار سہولتیں ہیں جن کا تعلق دنیا کی آسانی سے ہے۔ یہاں ہم پہلے طریقے کے بجائے نئے طریقے پر عمل کرنے لگے ہیں۔
مگر کیا عقائد کے معاملے میں بھی ہم یہی سوچ اپنا سکتے ہیں؟
یقیناً نہیں ، ہرگز نہیں !

اس کے باوجود آج کل ہر طرف یہی آواز کیوں آتی ہے کہ
یہ تو پرانے زمانے میں ہوتا تھا ، ایسی باتیں آج کل نہیں چل سکتیں !

ایک خاتون سے ملاقات کے دوران جو گفتگو ہوئی اس میں انہوں نے مختلف خیالات کا اظہار کیا جن کو سن کر ان کی ناانصافی پر حیران ہی ہوا جا سکتا تھا۔ وہ محترمہ میاں بیوی کے معاملات پر بہت پرجوش انداز میں فرمانے لگیں:
یہ کوئی پرانا زمانہ نہیں کہ عورت ، شوہر کی ہر بات مانے اور ہر بات میں اس کی اطاعت کرے۔ یہ سب پرانے وقتوں میں ہوتا تھا ، آج کی عورت یہ سب نہیں کر سکتی (معاذ اللہ)۔
تھوڑی ہی دیر میں گفتگو کا رخ بدلا اور بات عورت کے حقوق کی ہونے لگی تو وہی خاتون فرمانے لگیں :
اگر عورت شوہر سے الگ گھر کا مطالبہ کرے تو یہ اس کا حق ہے جو اسلام نے اس کو دیا ہے اور مرد کے لئے اسے پورا کرنا ضروری ہے !

ہم نے کہا :
واہ واہ ! بہت خوب ! یہ کہاں کا اور کیسا انصاف ہے ؟
بھلا دین پر چلنے کا یہ کیسا طریقہ ہے کہ جو بات پسند ہے یا اپنے فائدے کی ہے تو اس کو قبول کر لو اور جو ناپسند ہے اس کو (نعوذ باللہ) پرانے وقتوں کی باتیں کہہ کر ٹال دو۔

شوہر کی اطاعت کا حکم تو اللہ کریم اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا ہے۔
اور اسی رب کریم نے ان تعلقات کے متعلق تعلیم بھی عطا فرما دی ہے۔
اور پھر ہم عورتوں پر مرد کو یہ فضیلت اللہ کریم نے ہی دی ہے۔
اور اللہ تعالیٰ ہی کے کلام پاک میں نیک عورتیں ، اطاعت کرنے والیاں ، اپنی حفاظت کرنے والیاں ، فرمایا گیا ہے۔

ہم ان باتوں کو کسی طور بھی کوئی بہانہ بنا کر یا نام دے کر نظرانداز نہیں کر سکتے۔
ہم عورتوں کو مرد کے نام کی چھت کے نیچے بحفاظت رہنا تو اچھا لگتا ہے ، اس کے ہاتھوں کی محنت سے کمایا گیا رزق حلال بھی اچھا لگتا ہے ، اس کی کمائی سے اپنا حصہ لینا بھی بہت بھاتا ہے ۔۔۔۔۔
تو پھر بدلے میں اس کی اطاعت کرنی بری کیوں لگتی ہے؟
ہمارا طرزِ عمل صرف اپنے حقوق مانگنے کی حد تک نہیں بلکہ حقوق کی ادائیگی کے لئے بھی ہونا چاہئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا :
سب عورتوں سے بہتر کون سی عورت ہے؟
آپ نے جواباً جو ارشاد عالی فرمایا ، اس کا مفہوم کچھ یوں ہے :
وہ عورت سب سے اچھی ہے کہ جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ خاوند کو خوش کر دے اور جب وہ اس کو کوئی حکم دے تو مان لے۔ اس کی نافرمانی نہ کرے اور نہ اس کے مال سے ایسا تصرف کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔
(ابوداؤد ، نسائی)

یہ ہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم مبارکہ جس میں واضح طور پر شوہر کا حکم ماننے کا ذکر موجود ہے اور یہی عالی تعلیمات ہمیں اپنی نئی نسل کو دینی ہیں !
اس کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ۔۔۔۔
ہم دین حنیف کے متعلق اپنی منافقانہ سوچوں سے نجات حاصل کریں ورنہ اپنے انہی خیالات کو ہم نئی نسل میں منتقل کر دیں گے۔
یاد رکھئے کہ ایسی سوچوں کی حامل خواتین اپنے گھر والوں کو ایک پرسکون اور کامیاب گھر نہیں دے سکتیں۔

شوہر کی اطاعت اس کی محبت میں نہیں بلکہ اللہ کریم کی محبت میں اگر کی جائے تو اللہ کریم ، ان شاءاللہ ، اپنی رحمت سے ہر اس کام میں برکت اور آسانی عطا فرما دے گا جو بندہ اس خالق حقیقی کی محبت میں سرانجام دے گا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ۔۔۔ کسی کی اطاعت کے لئے اپنا دل مارنا پڑتا ہے اور پھر عورت تو ویسے بھی قربانی کا دوسرا نام ہے۔ اپنی ضد ، انا اور خواہشات کا گلا گھونٹ کر ہی وہ مقام حاصل کیا جا سکتا ہے جس سے دنیا میں بھی سرخ روئی ہو اور آخرت میں بھی۔ نہ کہ دین کے احکامات کو ، معاذ اللہ ، " اگلے وقتوں کی باتیں " کہہ کر۔

ہمارے معاشرے کا مضبوط خاندانی نظام انہی مطیع و فرمانبردار عورتوں کا مرہون منت ہے۔
مگر مردوں کو بھی یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کے آگے سر تسلیم خم کرنے یا اس کی اطاعت کرنے کے لئے اپنا نفس ، اپنی انا ختم کرنا پڑتی ہے جو آسان کام نہیں۔ یہ عورت کا امتحان ہوتا ہے۔
اس لئے اگر آپ کے پاس فرمانبردار اور مطیع بیوی ہے تو اس کی قدر کیجئے کیونکہ یہ بھی اللہ کریم کی "نعمت" ہے جس سے آپ فائدہ اٹھا رہے ہیں !!!


بشکریہ : اردو نیوز ، جمعہ ایڈیشن۔ 17 جولائی 09

بہت شکریہ اس مفید پوسٹ کا
 

تیشہ

محفلین
zzzbbbbnnnn-1.gif


چھت شوہر کی ہی رہتی ہے بس اسکی بیویاں بدل جایا کرتیں ہیں۔ ۔
zzzbbbbnnnn-1.gif

:tongue:
 

طالوت

محفلین
یہ مطالبہ صرف بیوی سے ہی کیوں ؟ شاید شوہر بغیر کہے کرتے ہیں ۔ :) ایک مخصوص تناظر میں اچھی تحریر ہے ۔
وسلام
 

مغزل

محفلین
شوہر کی اطاعت ناگوار کیوں ؟!

مضمون : اسماء فرید (بحرین)۔

اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔۔
بدلتے وقت کے ساتھ لوگوں کی سوچ بدلتی ہے ، طور طریقے بھی بدلتے ہیں اور نئے زمانے میں نئی سوچ کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ اب پرانے خیالات نہیں چلیں گے۔
وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک دنیاوی معاملات کا تعلق ہے ، وہاں تو یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے۔ مثلاً کسی کو خط لکھنے کے بجائے اب ای میل یا ایس ایم ایس سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ یا ایسی ہی بیشمار سہولتیں ہیں جن کا تعلق دنیا کی آسانی سے ہے۔ یہاں ہم پہلے طریقے کے بجائے نئے طریقے پر عمل کرنے لگے ہیں۔
مگر کیا عقائد کے معاملے میں بھی ہم یہی سوچ اپنا سکتے ہیں؟
یقیناً نہیں ، ہرگز نہیں !

اس کے باوجود آج کل ہر طرف یہی آواز کیوں آتی ہے کہ
یہ تو پرانے زمانے میں ہوتا تھا ، ایسی باتیں آج کل نہیں چل سکتیں !

ایک خاتون سے ملاقات کے دوران جو گفتگو ہوئی اس میں انہوں نے مختلف خیالات کا اظہار کیا جن کو سن کر ان کی ناانصافی پر حیران ہی ہوا جا سکتا تھا۔ وہ محترمہ میاں بیوی کے معاملات پر بہت پرجوش انداز میں فرمانے لگیں:
یہ کوئی پرانا زمانہ نہیں کہ عورت ، شوہر کی ہر بات مانے اور ہر بات میں اس کی اطاعت کرے۔ یہ سب پرانے وقتوں میں ہوتا تھا ، آج کی عورت یہ سب نہیں کر سکتی (معاذ اللہ)۔
تھوڑی ہی دیر میں گفتگو کا رخ بدلا اور بات عورت کے حقوق کی ہونے لگی تو وہی خاتون فرمانے لگیں :
اگر عورت شوہر سے الگ گھر کا مطالبہ کرے تو یہ اس کا حق ہے جو اسلام نے اس کو دیا ہے اور مرد کے لئے اسے پورا کرنا ضروری ہے !

ہم نے کہا :
واہ واہ ! بہت خوب ! یہ کہاں کا اور کیسا انصاف ہے ؟
بھلا دین پر چلنے کا یہ کیسا طریقہ ہے کہ جو بات پسند ہے یا اپنے فائدے کی ہے تو اس کو قبول کر لو اور جو ناپسند ہے اس کو (نعوذ باللہ) پرانے وقتوں کی باتیں کہہ کر ٹال دو۔

شوہر کی اطاعت کا حکم تو اللہ کریم اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا ہے۔
اور اسی رب کریم نے ان تعلقات کے متعلق تعلیم بھی عطا فرما دی ہے۔
اور پھر ہم عورتوں پر مرد کو یہ فضیلت اللہ کریم نے ہی دی ہے۔
اور اللہ تعالیٰ ہی کے کلام پاک میں نیک عورتیں ، اطاعت کرنے والیاں ، اپنی حفاظت کرنے والیاں ، فرمایا گیا ہے۔

ہم ان باتوں کو کسی طور بھی کوئی بہانہ بنا کر یا نام دے کر نظرانداز نہیں کر سکتے۔
ہم عورتوں کو مرد کے نام کی چھت کے نیچے بحفاظت رہنا تو اچھا لگتا ہے ، اس کے ہاتھوں کی محنت سے کمایا گیا رزق حلال بھی اچھا لگتا ہے ، اس کی کمائی سے اپنا حصہ لینا بھی بہت بھاتا ہے ۔۔۔۔۔
تو پھر بدلے میں اس کی اطاعت کرنی بری کیوں لگتی ہے؟
ہمارا طرزِ عمل صرف اپنے حقوق مانگنے کی حد تک نہیں بلکہ حقوق کی ادائیگی کے لئے بھی ہونا چاہئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا :
سب عورتوں سے بہتر کون سی عورت ہے؟
آپ نے جواباً جو ارشاد عالی فرمایا ، اس کا مفہوم کچھ یوں ہے :
وہ عورت سب سے اچھی ہے کہ جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ خاوند کو خوش کر دے اور جب وہ اس کو کوئی حکم دے تو مان لے۔ اس کی نافرمانی نہ کرے اور نہ اس کے مال سے ایسا تصرف کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔
(ابوداؤد ، نسائی)

یہ ہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم مبارکہ جس میں واضح طور پر شوہر کا حکم ماننے کا ذکر موجود ہے اور یہی عالی تعلیمات ہمیں اپنی نئی نسل کو دینی ہیں !
اس کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ۔۔۔۔
ہم دین حنیف کے متعلق اپنی منافقانہ سوچوں سے نجات حاصل کریں ورنہ اپنے انہی خیالات کو ہم نئی نسل میں منتقل کر دیں گے۔
یاد رکھئے کہ ایسی سوچوں کی حامل خواتین اپنے گھر والوں کو ایک پرسکون اور کامیاب گھر نہیں دے سکتیں۔

شوہر کی اطاعت اس کی محبت میں نہیں بلکہ اللہ کریم کی محبت میں اگر کی جائے تو اللہ کریم ، ان شاءاللہ ، اپنی رحمت سے ہر اس کام میں برکت اور آسانی عطا فرما دے گا جو بندہ اس خالق حقیقی کی محبت میں سرانجام دے گا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ۔۔۔ کسی کی اطاعت کے لئے اپنا دل مارنا پڑتا ہے اور پھر عورت تو ویسے بھی قربانی کا دوسرا نام ہے۔ اپنی ضد ، انا اور خواہشات کا گلا گھونٹ کر ہی وہ مقام حاصل کیا جا سکتا ہے جس سے دنیا میں بھی سرخ روئی ہو اور آخرت میں بھی۔ نہ کہ دین کے احکامات کو ، معاذ اللہ ، " اگلے وقتوں کی باتیں " کہہ کر۔

ہمارے معاشرے کا مضبوط خاندانی نظام انہی مطیع و فرمانبردار عورتوں کا مرہون منت ہے۔
مگر مردوں کو بھی یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کے آگے سر تسلیم خم کرنے یا اس کی اطاعت کرنے کے لئے اپنا نفس ، اپنی انا ختم کرنا پڑتی ہے جو آسان کام نہیں۔ یہ عورت کا امتحان ہوتا ہے۔
اس لئے اگر آپ کے پاس فرمانبردار اور مطیع بیوی ہے تو اس کی قدر کیجئے کیونکہ یہ بھی اللہ کریم کی "نعمت" ہے جس سے آپ فائدہ اٹھا رہے ہیں !!!


بشکریہ : اردو نیوز ، جمعہ ایڈیشن۔ 17 جولائی 09


شکریہ عندلیبِ‌ہند، جیتی رہیے ، مالک و مولی سلامت رکھے،
زندگی کی گاڑی تبھی چلتی ہے جب ’’ ٹیون ‘‘ ہو اور پہیے برابر ہوں۔
مالک و مولیٰ ہمیں ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


رشتہ کوئی بھی ہو اسے پوری ایمانداری کے ساتھ نبھانا چاھیئے

شکریہ خوشی ، سچ کہا، یہی زندگی کا اصل حسن ہے ،

اور اگر چھت شوہر کے نام کی نہ ہو۔۔۔۔

تو ، فلیکن کا سیمنٹ ، تھلے کی بجری، اتفاق کا سریا اور ٹی گارڈر ، جی ٹی روڈ لاہور :rollingonthefloor:

آپ اتنے شکی کیوں ھیں

ک کک کون ،، کیا میں‌ں ں ؟؟ :notlistening:
 
بہت اچھا مضمون ہے، مگر کسی نے بھی مضمون کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ، سب مذاق میں لگے ہوے ہیں ،
اللہ کی بندو اگر کسی نے اچھی بات کی ہے تو ذرا اس کا شکریہ ہی ادا کر دو
 

مغزل

محفلین
بہت اچھا مضمون ہے، مگر کسی نے بھی مضمون کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ، سب مذاق میں لگے ہوے ہیں ،
اللہ کی بندو اگر کسی نے اچھی بات کی ہے تو ذرا اس کا شکریہ ہی ادا کر دو

مرزا جی یہ دیکھیے ، شکریہ ادا کیا گیا ہے :

شکریہ عندلیبِ‌ہند، جیتی رہیے ، مالک و مولی سلامت رکھے،
زندگی کی گاڑی تبھی چلتی ہے جب ’’ ٹیون ‘‘ ہو اور پہیے برابر ہوں۔
مالک و مولیٰ ہمیں ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 
بہت اچھا مضمون شیئر کیا ہے عندلیب صاحبہ !

مگرمنظر پر موجود حقائق کے پس منظر میں کچھ اور حقیقتیں بھی ہیں جن کو ہمیں سوچنا پڑتا ہے

اسلام ایک رجعت پسند مذپب کبھی بھی نہیں تھا اور نہ ہو سکتا ہے جہاں عورتوں کی بات ہے تو محض احادیث کے حوالے اس انداز میں دیکر اور قرآن کریم کی کوٹیشنز دینے سے تشفی نہیں ہوتی ہے۔ عورت کو محض تسکین کا ذریعہ بنانا نہ تو دین نے سکھایا ہے اور نہ ہی احادیث سے ثابت ہوتا ہے ، جہاں تک مرد کی فوقیت کو تعلق ہے تو اس کی جسمانی ساخت کا معاملہ مگر کہیں بھی ذہانت اور تدبیر کی فوقیت کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔

عورت بے شک اپنی جسمانی ساخت اور اس میں ہونے والی رد بدل کے لحاظ پغمبر تو نہ بن سکی مگر ذرا اس پر بھی غور کیجئے کہ عورت ہی کے بطن سے اس مرد نے جنم لیا جس کی رگ رگ میں اس کی ماں کا لہو دوڑ رہا ہے۔ اور وہی مرد جوانی یا حصول علم کے بعد اپنی ماں پر کیسے فوقیت لے جا سکتا ہے۔ قرٓآن منبع رشد و ہدایت ہے اس کو سمجھنے کے لئے محض ترجمے کا سہارا نہ لجیئے بلکہ تفکر کی عادت بھی ڈالیں تاکہ اس کا ہر ہر حرف آپ پر اپنی حقیقت آشکار کر سکے
 

طالوت

محفلین
بہت اچھا مضمون شیئر کیا ہے عندلیب صاحبہ !

مگرمنظر پر موجود حقائق کے پس منظر میں کچھ اور حقیقتیں بھی ہیں جن کو ہمیں سوچنا پڑتا ہے

اسلام ایک رجعت پسند مذپب کبھی بھی نہیں تھا اور نہ ہو سکتا ہے جہاں عورتوں کی بات ہے تو محض احادیث کے حوالے اس انداز میں دیکر اور قرآن کریم کی کوٹیشنز دینے سے تشفی نہیں ہوتی ہے۔ عورت کو محض تسکین کا ذریعہ بنانا نہ تو دین نے سکھایا ہے اور نہ ہی احادیث سے ثابت ہوتا ہے ، جہاں تک مرد کی فوقیت کو تعلق ہے تو اس کی جسمانی ساخت کا معاملہ مگر کہیں بھی ذہانت اور تدبیر کی فوقیت کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔

عورت بے شک اپنی جسمانی ساخت اور اس میں ہونے والی رد بدل کے لحاظ پغمبر تو نہ بن سکی مگر ذرا اس پر بھی غور کیجئے کہ عورت ہی کے بطن سے اس مرد نے جنم لیا جس کی رگ رگ میں اس کی ماں کا لہو دوڑ رہا ہے۔ اور وہی مرد جوانی یا حصول علم کے بعد اپنی ماں پر کیسے فوقیت لے جا سکتا ہے۔ قرٓآن منبع رشد و ہدایت ہے اس کو سمجھنے کے لئے محض ترجمے کا سہارا نہ لجیئے بلکہ تفکر کی عادت بھی ڈالیں تاکہ اس کا ہر ہر حرف آپ پر اپنی حقیقت آشکار کر سکے
101 فیصد متفق !
وسلام
 
Top