طارق شاہ
محفلین

غم مجسّم نظر آیا ، تو ہم اِنساں سمجھے
برق جب جِسم سے وابسطہ ہُوئی ، جاں سمجھے
شوق کی گرمیِ ہنگامہ کو وحشت جانا
جمع جب خاطرِ وحشت ہُوئی، ارماں سمجھے
حکمِ وحشت ہےکہ، زِنداں کو بھی صحرا جانو
دِل وہ آزاد کہ صحرا کو بھی زِنداں سمجھے
فانؔی اِس عالَمِ ظاہر میں سراپا غم تھا !
چُھپ گیا خاک میں تو ہم غَمِ پنہاں سمجھے
فانؔی بدایونی
(شوکت علی خاں)