شمع روشن ہے ہماری آہ سے
لو لگائے بیٹھے ہیں اللہ سے

چلتے ہیں وہ کیا کیا رستہ کاٹ کر
جب گزرتے ہیں ہماری راہ سے

کیوں نہ رکھوں میں تبرک کی طرح
غم ملا ہے عشق کی درگاہ سے

مانگ کر تجھ کو بہت نادم ہوا
مانگتا تھا اور کچھ اللہ سے

خوبصورت ہو کے تم لڑنے لگے
بحث ہے دن رات مہر و ماہ سے

چاہنے والوں کی صورت دیکھ لی
موت بہتر ہے تمہاری چاہ سے

قبر پر میرے پڑھے کیا فاتحہ
جو نہ ہو آگاہ بسم اللہ سے

آئی تھی جو بات تیرے ذہن میں
کوئی چھپتی ہے دل آگاہ سے

داغ ؔ اس کافر کی نخوت دیکھنا
غیر کیا کم ہے زمرد شاہ سے

نواب مرزا داغ دہلوی
 
آخری تدوین:
Top