شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

مرگیا فرہاد جیسے مرتے بارے اِس طرح
سر کوئی پتّھر سے مارے بھی، تو مارے اِس طرح

ٹکڑے ٹکڑے کر دِکھایا مَیں نے اِن کو اِس لیے
یعنی جی مارا کرو آیندہ پیارے اِس طرح

مست و بیخود ہر طرف پہروں پِھرا کرتے ہو تم
حیف ہے، آتے نہیں ٹُک گھر ہمارے اِس طرح

عِشق کی کہیے طرح کیا وامق و فرہادوقیس
بیکسا نہ مرگئے وےلوگ سارے اِس طرح

جو عرق تحرِیک میں اُس رشکِ مہ کے مُنہ پر ہے
مِیؔر کب ہووے ہیں گرمِ جلوہ تارے اِس طرح

میرتقی میؔر
 

طارق شاہ

محفلین


پہونچے ہیں ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح
ہوتے ہیں ہم ستم زدہ ، بِیمار ہر طرح

ترکیب و طرح، ناز و ادا ، سب سے دِل لگے
اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح

یوسف کی اِس نظیر سے، دِل کونہ جمع رکھ
ایسی متاع! جاتی ہے بازار ہر طرح

جِس طرح مَیں دِکھائی دِیا ، اُس سے لگ پڑے!
ہم کُشت و خُوں کے ہینگے سزاوار ہر طرح

چُھپ لگ کے بام و دَر سے، گلی کوچے میں سے، مِیؔر
مَیں دیکھ لُوں ہُوں یار کو اِک بار ہر طرح


میرتقی میؔر
 

طارق شاہ

محفلین

یک بہ یک شَورشِ فُغاں کی طرح
فصلِ گُل آئی اِمتحاں کی طرح

صحنِ گُلشن میں بہرِ مُشتاقاں
ہر رَوِش کھِنچ گئی کماں کی طرح

پِھر لہُو سے، ہر ایک کاسۂ داغ!
پُر ہُوا جامِ ارغواں کی طرح

یاد آیا جنونِ گُم گشتہ
بے طَلَب قرضِ دَوستاں کی طرح

جانے کِس پر ہو مہرباں قاتِل
بے سَبَب مرگِ ناگہاں کی طرح

ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں
دِل سنبھالے رہو زباں کی طرح

فیض احمد فیضؔ
 

طارق شاہ

محفلین

سو بار تِرا دامن ہاتھوں میں مِرے آیا
جب آنکھ کھُلی دیکھا اپنا ہی گریباں ہے

کیا کیا ہوا ہنگامِ جنُوں یہ نہیں معلوُم
کُچھ ہوش جو آیا تو گریباں نہیں دیکھا

اِس طرح زمانہ کبھی ہوتا نہ پُر آشوب
فِتنوں نے تِرا گوشۂ داماں نہیں دیکھا

اضغر گونڈوی
 
Top