شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔ (منتخب کلام)

شیزان

لائبریرین
نیاز عاشقی کو ناز کے قابل سمجھتے ہیں
ہم اپنے دل کو بھی اب آپ ہی کا دل سمجھتے ہیں

عدم کی راہ میں رکھا ہی ہے پہلا قدم میں نے
مگر احباب اس کو آخری منزل سمجھتے ہیں

قریب آ آ کے منزل تک پلٹ جاتے ہیں منزل سے
نہ جانے دل میں کیا آوارہء منزل سمجھتے ہیں

الٰہی ایک دل ہے، تُو ہی اس کا فیصلہ کردے
وہ اپنا دل سمجھتے ہیں، ہم اپنا دل سمجھتے ہیں

جگر مراد آبادی
 

شیزان

لائبریرین
کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اُٹھانے کے لئے
شام بے چین ہے سورج کو گرانے کے لئے

میں نے تو جسم کی دیوار ہی ڈھائی ہے فقط
قبر تک کھودتے ہیں لوگ خزانے کے لئے

عباس تابش
 

شیزان

لائبریرین

یہ دورِ آسماں بدلا، کہ اب بھی وقت پر بادل !
برستے ہیں، مگر اگلی سی برساتیں نہیں ہوتیں

سبب کچھ اور ہے ، یا اتفاقاتِ زمانہ ہیں
کہ اب تجھ سے بھی، پہلی سی مُلاقاتیں نہیں ہوتیں

فراق گورکھپوری
 

شیزان

لائبریرین
یوں تو اُداس غمکدہء عشق ہے، مگر
اِس گھر میں اِک چراغ سا جلتا ہے آج تک

ہم بیخودانِ عشق بہت شادماں سہی
لیکن دلوں میں درد سا اٹھتا ہے آج تک

فراق گورکھپوری
 

شیزان

لائبریرین
غمِ جاں بخش کو آرام ِجاں کہنا ہی پڑتا ہے
کِسی نا مہرباں کو مہرباں کہنا ہی پڑتا ہے

بہار ِزندگی سے غم کا بھی گہرا تعلق ہے
کہ کانٹوں کو بھی جزو گلستاں کہنا ہی پڑتا ہے

تغافل ایک طبعی خاصیت ہے رسمِ الفت کی
تغافل کو مزاجِ دوستاں کہنا ہی پڑتا ہے

وہ لہراتے ہوئے چلتے ہیں جب صحنِ گلستاں میں
قد رعنا کو سرو بوستاں کہنا ہی پڑتا ہے

جوانی ایک کیفیت ہے قیدِ عمر بالا سے
جو افسردہ نہ ہوں، اُن کو جواں کہنا ہی پڑتا ہے

بسا اوقات دو چیزوں میں اتنا ربط ہوتا ہے
کہ اِک کو دوسری کا ترجماں کہنا ہی پڑتا ہے

عدم ہم حالِ دل کہنے کی رغبت تو نہیں رکھتے
مگر جب رُک نہیں سکتے تو ہاں کہنا ہی پڑتا ہے

عبدالحمید عدمؔ
 

شیزان

لائبریرین
پھر اس کے بعد تنہائی کے دُکھ بھی جھیلنے ہوں گے
یہی ڈر تھا رفاقت کے ہر اِک اِمکان سے پہلے

منُاسب ہے کہ اپنے راستے تبدیل کر لیں ہم
کسِی اُلجھن‘ کسِی تلخی‘ کسِی خلجان سے پہلے

اعتبار ساجد
 

شیزان

لائبریرین
ملے ہو تم تو بچھڑ کر اُداس مت کرنا
کسِی جدائی کی ساعت کا پاس مت کرنا

مَحبتیں تو خُود اپنی اساس ہوتی ہیں
کسِی کی بات کو اپنی اساس مت کرنا

کہ برگ برگ بکھرتا ہے پھول ہوتے ہی
برہنگی کو تم اپنا لباس مت کرنا

بلند ہو کے ہی ملنا جہاں تلک ملنا
اس آسماں کو زمیں پر قیاس مت کرنا

جو پیڑ ہو تو زمیں سے بھی کھینچنا پانی
کہ ابر آئے گا کوئی یہ آس مت کرنا

یہ کون لوگ ہیں کیسے یہ سربراہ ہوئے
خدا کو چھوڑ کے ان کی سپاس مت کرنا

عبید اللہ علیم
 
آخری تدوین:

شیزان

لائبریرین

ہجر میں خُون رلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
لوٹ کر کیوں نہیں آتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

جب بھی ملتا ہے کوئی شخص بہاروں جیسا
مجھ کو تم کیسے بُھلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

یاد آتی ہیں اکیلے میں تمھاری نیندیں
کِس طرح خُود کو سُلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

مجُھ سے بچھڑے ہو تو محبوبِ نظر ہو کِس کے
آج کل کِس کو مناتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

شب کی تنہائی میں اکثر یہ خیال آتا ہے
اپنے دُکھ کِس کو سُناتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

موسمِ گل میں نشہ ہجر کا بڑھ جاتا ہے
میرے سب ہوش چراتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

سرد راتوں میں تمھیں کیسے بھُلا سکتا ہوں؟
آگ سی دل میں لگاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

تُم تو خُوشیوں کی رفاقت کے لیے بچھڑے تھے
اب اگر اشک بہاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

شہر کے لوگ بھی واثق یہی کرتے ہیں سوال
اب بھی کم نظر آتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

سعید واثق
 

شیزان

لائبریرین

متاعِ جاں کا بدل ایک پل کی سرشاری
سلوک خواب کا آنکھوں سے تاجرانہ تھا

ہوا کی کاٹ شگوفوں نے جذب کر لی تھی
تبھی تو لہجہِ خوشبو بھی جارحانہ تھا

افتخار عارف
 

شیزان

لائبریرین

مری زندگی کے مالک، مِرے دل پہ ہاتھ رکھ لے
ترے آنے کی خوشی میں مِرا دم نِکل نہ جائے

مجھے پُھونکنے سے پہلے، مِرا دل نکِال لینا
یہ کسِی کی ہے امانت ،مِرے ساتھ جل نہ جائے

انور مرزا پوری
 

شیزان

لائبریرین
تعبیر کی کتاب کا ہر باب خاک ہے
یعنی ہماری آنکھ کا ہر خواب خاک ہے

دریا میں گرد آج کل اڑتی ہے اس قدَر
ساحل بھی کہہ رہا ہے کہ سیلاب خاک ہے

جبار واصف
 

شیزان

لائبریرین
بہت پہلے سے اُن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دُور سے پہچان لیتے ہیں

مَری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں
نِگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سُنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

خُود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
اُسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

جسے صُورت بتاتے ہیں، پتا دیتی ہے سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں
ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں

فراق اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں ،کبھی پہچان لیتے ہیں

فراق گورکھپوری
 

شیزان

لائبریرین
کام آخر جذبۂ بے اِختیار آ ہی گیا
دل کچھ اِس صُورت سے تڑپا،اُن کو پیار آ ہی گیا


جب نِگاہیں اُٹھ گئیں، اللہ رے معراجِ شوق!
دیکھتا کیا ہوں، وہ جان ِاِنتظار آ ہی گیا

ہائے یہ حُسن ِتصور کا فریب ِرنگ و بُو
میں یہ سمجھا جیسے وہ جان ِبہار آ ہی گیا

ہاں سزا دے، اے خدائے عشق، اے توفیق ِ غم!
پھر زبانِ بے ادب پر ذکرِ یار آ ہی گیا

اِس طرح خوش ہوں کِسی کے وعدہء فردا پہ میں
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا

ہائے کافر دل کی یہ کافر جنُوں انگیزیاں
تم کو پیار آئے نہ آئے، مجھ کو پیار آ ہی گیا

درد نے کروٹ ہی بدلی تھی کہ دل کی آڑ سے
دفعتآ پردہ اٹھا اور پردہ دار آ ہی گیا

دل نے اِک نالہ کیا آج اس طرح دیوانہ وار
بال بِکھرائے کوئی مستانہ وار آ ہی گیا

جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عُمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا

جگر مراد آبادی
 

Qaisar54

محفلین
تشنہ کامی کی سزا دو تو مزا آ جائے
تم ہمیں زہر پلا دو تو مزہ آجائے
میر محفل بنے بیٹھے ہیں بڑے ناز سے ہم
ہمیں محفل سے اٹھا دو تو مزہ آجائے
تم نے احسان کیا تھا جو ہمیں چاہا تھا
اب وہ احسان جتا دو تو مزہ آجائے
اپنے یوسف کو زلیخا کی طرح تم بھی کبھی
کچھ حسینوں سے ملا دو تو مزہ آجائے
چین پڑتا ہی نہیں ہے تمہں اب میرے بغیر
اب جو تم مجھ کو گنوا دو تو مزہ آجائے
جون ایلیا
 

Qaisar54

محفلین
ہجر میں خُون رلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
لوٹ کر کیوں نہیں آتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

جب بھی ملتا ہے کوئی شخص بہاروں جیسا
مجھ کو تم کیسے بُھلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

یاد آتی ہیں اکیلے میں تمھاری نیندیں
کِس طرح خُود کو سُلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

مجُھ سے بچھڑے ہو تو محبوبِ نظر ہو کِس کے
آج کل کِس کو مناتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

شب کی تنہائی میں اکثر یہ خیال آتا ہے
اپنے دُکھ کِس کو سُناتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

موسمِ گل میں نشہ ہجر کا بڑھ جاتا ہے
میرے سب ہوش چراتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

سرد راتوں میں تمھیں کیسے بھُلا سکتا ہوں؟
آگ سی دل میں لگاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

تُم تو خُوشیوں کی رفاقت کے لیے بچھڑے تھے
اب اگر اشک بہاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

شہر کے لوگ بھی واثق یہی کرتے ہیں سوال
اب بھی کم نظر آتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

سعید واثق
تُم تو خُوشیوں کی رفاقت کے لیے بچھڑے تھے
اب اگر اشک بہاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
 

شیزان

لائبریرین
تو کیا یہ طے ہے، کہ اب عمر بھر نہیں ملنا
تو پھر یہ عمربھی کیوں، تم سے گر نہیں ملنا

یہ کون چپکے سے تنہائیوں میں کہتا ہے
تِرے بغیر سکوں عمر بھر نہیں ملنا

چلو زمانے کی خاطر یہ جبربھی سہہ لیں
کہ اب ملے تو کبھی ٹوٹ کر نہیں ملنا

رہِ وفا کے مسافر کو کون سمجھائے
کہ اس سفر میں کوئی ہمسفر نہیں ملنا

جُدا تو جب بھی ہوئے، دل کو یوں لگا، جیسے
کہ اب گئے تو کبھی لوٹ کر نہیں ملنا

سرور بارہ بنکوی
 

شیزان

لائبریرین
کیا خبر کیسی ہے وہ، سودائے سر میں زندگی
اک سرائے رنج میں ہے یا سفر میں زندگی

ظلم کرتے ہیں کسی پر اور پچھتاتے ہیں پھر
ایک پچھتاوا سا ہے اپنے نگر میں زندگی

ہم ہیں جیسے اک گناہ دائمی کے درمیاں
کٹ رہی ہے مستقل خاموش ڈر میں زندگی


اِک تغیر کے عمل میں ہے جہان بحر و برَ
کچھ نئی سی ہو رہی ہے بحر و برَ میں زندگی

یہ بھی زندگی ہے اپنے لوگوں میں منیرؔ
باہمی شفقت سے خالی ایک گھر میں زندگی

منیر نیازی​
 

شیزان

لائبریرین
وفا کا کاغذ تو بھیگ جائے گا بدگمانی کی بارشوں میں
خطوں کی باتیں تو خواب ہوں گی، پیام ممکن نہیں رہے گا

میں جانتا ہوں، مجھے یقیں ہے، اگر کبھی تو مجھے بھلا دے
تو میری آنکھوں میں روشنی کا قیام ممکن نہیں رہے گا

منور جمیل
 
Top