شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔ (منتخب کلام)

شیزان

لائبریرین
اپنا احوال سنُا کر لے جائے
جب مجھے چاہے منا کر لے جائے

میں نہ جاؤں جو وہاں، تو مجھ کو
میری تنہائی اُٹھا کر لے جائے

وہ مجھے بھُول گیا ہے شاید
یاد آ جاؤں تو آ کر لے جائے

ہوُں خفا اُس سے مگر اِتنا نہیں
خوُد نہ جاؤں گا، بلا کر لے جائے

خالی ہاتھوں کو ملے گی خوُشبو
جب ہوا چاہے چرُا کر لے جائے

در خزانے کا کہیں بند نہیں
یہ خزانہ کوئی آ کر لے جائے

دُھوپ میں بیٹھوں تو ساتھی میرا
اپنے سائے میں اٹھا کر لے جائے

تجھ کو بھی کوچۂ عشاقاں میں
اپنے مولا سے دُعا کر، لے جائے

کوئی قاتل نہیں گزرا ایسا
جس کو تاریخ بچا کر لے جائے

اِک دیا ایسا بھی دیکھا میں نے
ظلمتِ شب کو ہٹا کر لے جائے

کون محبوب ہوا ہے ایسا
اپنے عاشق کو بُلا کر لے جائے

پھر سے آ جائے کوئی چپکے سے
کہیں باتوں میں لگا کر لے جائے

اُس کے ہمراہ چلا جاتا ہوں
جو مِرے دل کو دُکھا کر لے جائے

ایسی دیوانگی و حیرانی
آئینہ کوئی دِکھا کر لے جائے

سامنے سب کے پڑی ہے دُنیا
ذات میں جو بھی سما کر لے جائے

ایسے ملتا نہیں مٹّی کو دوَام
بس خدا جس کو بنا کر لے جائے

ہو سُخنور کوئی ایسا پیدا
جو سخن میرا چرُا کر لے جائے

عبید اللّہ علیم
 

شیزان

لائبریرین
میرے پسندیدہ شاعر "گلزار" کی ایک خوبصورت نظم

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے

بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔۔
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں۔۔۔۔
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے۔۔۔۔۔
بہت کچھ تہ بہ تہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے​
 
آخری تدوین:

شیزان

لائبریرین
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ ، مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے​

اُس سے کب دیکھی گئی تھی میرے رُخ کی مردنی
پھیر لیتا تھا وہ منہ ، مجھ کو دوا دیتے ہوئے

خواب بے تعبیر سی سوچیں مرے کس کام کی؟
سوچتا اِتنا تو وہ ، دست عطا دیتے ہوئے

بے زبانی بخش دی خود احتسابی نے مجھے
ہونٹ سِل جاتے ہیں دُنیا کو گلہ دیتے ہوئے

اپنی رہ مسدود کر دے گا یہی بڑھتا ہجوم
یہ نہ سوچا ہر کسِی کو راستہ دیتے ہوئے

وہ ہمیں جب تک نظر آتا رہا ، تکتے رہے
گیلی آنکھوں ، اکھڑے لفظوں سے دُعا دیتے ہوئے

بے اماں تھا آپ، لیکن یہ معجزہ ہے ریاض
ہالہء شفقت تھا، اس کو آسرا دیتے ہوئے


ریاض مجید
 

شیزان

لائبریرین

یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اِضطراب میں ہیں
ہمارے بھولنے والے بھی اِس عذاب میں ہیں

اِسی خیال سے ہر شام جلد نیند آئی
کہ مجھ سے بچھڑے ہوئے لوگ شہرِ خواب میں ہیں

وہی ہے رنگِ جنوں ، ترکِ ربط و ضبط پہ بھی
تری ہی دُھن میں ہیں اب تک، اُسی سراب میں ہیں

عزیز کیوں نہ ہو ماضی کا ہر ورق ہم کو
کہ چند سُوکھے ہوئے پھول اُس کتاب میں ہیں

شناوروں کی رسائی کے منتظر ساجد
ہم اپنے عہد کے اِک شہرِ زیر آب میں ہیں

اعتبار ساجد
 

شیزان

لائبریرین
رویے اور فقرے اُن کے پہلو دار ہوتے ہیں
مگر میں کیا کروں یہ میرے رشتہ دار ہوتے ہیں

مرے غم پر اُنہیں کاموں سے فرُصت ہی نہیں ملتی
مری خوشیوں میں یہ دیگوں کے چوکیدار ہوتے ہیں

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اس بے درد ساعت میں
دلیلیں، منطقیں اور فلسفے بیکا ر ہوتے ہیں


جنہیں صبر و رضا کی ہر گھڑی تلقین ہوتی ہے
وہی مظلوم ہر تکلیف سے دو چار ہوتے ہیں

بہت قابو ہے اپنے دل پہ لیکن کیا کیا جائے
جب آنکھیں خوبصورت ہوں تو ہم لا چار ہوتے ہیں

غزل کے شعر خاصا وقت لیتے ہیں سنورنے میں
یہ نخرے باز بچے دیر سے تیار ہوتے ہیں

اُدھر کا رخ نہیں کرتا کوئی آسودہ دل ساجد
جہاں بیٹھے ہوئے ہم نوحہ گر دو چار ہوتے ہیں

اعتبار ساجد

 
آخری تدوین:

شیزان

لائبریرین
"تمھیں جانے کی جلدی تھی"

تمھیں جانے کی جلدی تھی
سو اپنی جلد بازی میں
تم اپنے لمس کی کرنیں، نظر کے زاویے ، پوروں کی شمعیں
میرے سینے میں بھڑکتا چھوڑ آئے ہو
وہاں تکیے کے نیچے
کچھ سنہرے رنگ کی ٹوٹی ہوئی سانسیں
کسی نوزائیدہ خوشبو کے تازہ خوابچے
بستر کی شکنوں میں گرے کچھ خوبرو لمحے
ڈریسنگ روم میں ہینگر سے لٹکی ایک صد رنگی ہنسی کو
بس اچانک ہی پسِ پردہ لٹکتا چھوڑ آئے ہو

تمھیں جانے کی جلدی تھی
اب ایسا ہے کہ جب بھی
بے خیالی میں سہی لیکن کبھی جو اِس طرف نکلو
تو اتنا یاد رکھنا
گھر کی چابی صدر دروازے کے بائیں ہاتھ پر
اک خول میں رکھی ملے گی
اور تمھیں معلوم ہے
کپڑوں کی الماری ہمیشہ سے کھلی ہے
سیف کی چابی تو تم نے خود ہی گم کی تھی
سو وہ تب سے کھلا ہے اور اُس میں
کچھ تمھاری چوڑیاں، اِک آدھ انگوٹھی
اور ان کے بیچ میں کچھ زرد لمحے
اور اُن لمحوں کی گرہوں میں بندھی کچھ لمس کی کرنیں،
نظر کے زاویے، پوروں کی شمعیں
اور سنہرے رنگ کی ٹوٹی ہوئی سانسیں ملیں گی
اور وہ سب کچھ جو میرا
اور تمھارا مشترک سا اک اثاثہ ہے
سمٹ پائے،
تو لے جانا
مجھے جانے کی جلدی ہے

ایوب خاور
 
Top