شعراء و اُدَبا کی تصاویر

محمد وارث

لائبریرین
لاجواب برادرم۔ ہفتہ شعر و ادب میں تو آپ نے ون مین شو ہی شروع کیا ہوا ہے۔ :)

شکریہ برادرم تشریف آوری کیلیے!

ایسی بات نہیں ہے ہاں صرف اس تھریڈ میں فی الحال میں ہی تصاویر پوسٹ کر رہا ہوں وگرنہ دوسرے سلسلوں میں تو سبھی احباب نے خوب حصہ لیا ہے :)
 

محمد وارث

لائبریرین
پروین شاکر کی خوبصورت تصویر انکے مجموعے 'خوشبو' سے:

PerveenShakar.jpg
 

فرخ منظور

لائبریرین
وارث صاحب، وجاہت مسعود نے بی بی سی اردو پر ادبا کے آٹو گراف کی کچھ تصاویر رکھی تھیں۔ کیا وہ آٹو گراف میں یہاں شئیر کر سکتا ہوں؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
تحریر وجاہت مسعود بی بی سی اردو

اردو پڑھنے والوں میں کون ہے جس نے مجید امجد کی نظم آٹو گراف نہیں پڑھی۔ یہ نظم دراصل پاکستان کرکٹ کے ہیرو فضل محمود کی بے پناہ مقبولیت اور ادیبوں کی ناقدری کا گلا تھا۔ آج مجید امجد اجنبی ہیں اور نہ بے نشاں۔ بس یوں ہے کہ اچھے ادب کی رسائی راتوں رات نہیں ہوتی۔ لاہور کے کہنہ مشق صحافی اسلم ملک نے ادیبوں کے آٹو گراف کس محبت سے سینت کر رکھے ہیں۔ اس نادر ذخیرے کا ایک انتخاب اسلم ملک کے شکریے کے ساتھ بی بی سی اردو کے قارئین کی نذر ہے۔


عبدالحمید عدم (1909 – 1978

شعر بر لب، پیمانہ بدست۔ عدم نے خود اپنے لفظوں میں حیات کا طویل سفر میکدے کی راہ سے ہو کر مختصر کیا تھا۔ معاش ملٹری اکاؤنٹس سے وابستہ تھا مگر منافقت اور ریا کاری کی عبا چاک کرتے ہوئے نفع نقصان کا جھگڑا نہیں پالا۔ 50 اور 60 کی دہائی میں برصغیر پاک و ہند کے مشاعرے عدم کی رواں دواں اور بےباک شاعری سے گونجتے تھے۔ پھر زمانہ بدلا اور ’خرابات’ کے شاعر نے کسی فراموش شعر کی طرح زندگی تمام کی۔

674948_adam.jpg
 

فرخ منظور

لائبریرین
عبیداللہ علیم (1939-1998

683713_ubaid_ullah_aleem.jpg

ساٹھ کے عشرے میں ملک کا دارالخلافہ تو پوٹھوہار منتقل ہو گیا مگر اردو شعر کا سمندر کراچی ہی میں رہ گیا۔ اس جوار بھاٹے میں جون ایلیا، محبوب خزاں اور عبیداللہ علیم جیسی کم یاب مچھلیاں منہ میں آبدار موتی لیے ساحل پر نمودار ہوئیں۔ فارسی اور عربی سے آزاد تازہ لہجہ، چست زبان میں نازک جذبوں کی تفسیر۔ چاند چہروں اور ستارہ آنکھوں کا شاعر عبیداللہ علیم عقیدے کے اعتبار سے احمدی تھا۔ کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی۔ شراب اور ریش ایک ساتھ چھوڑ دی۔ کچھ برس بعد دنیا بھی چھوڑ دی۔

674944_abaidulah-aleem.jpg
 

فرخ منظور

لائبریرین
ابن انشا (1927-1978


684044_ibn_e_insha.jpg

نام شیر محمد خان، طبع سیلانی، لغت رومانی، شعر میں آہنگ میر سے روانی اور نثر میں شعورِ عصر سے جولانی۔ یہ تھے ہمارے ابن انشا۔ آئے، ٹھہرے اور ایک ہی چوٹ میں نظم و نثر کا میدان سر کیا۔ شعر میں بجوگ کا جو رس تھا اسے ہی نثر میں بذلہ سنجی کا پردہ دیا تھا۔ زمانہ شوق سے سنتا تھا مگر چاند نگر کا دیوانہ صحرا کی طرف نکل گیا۔




675033_insha.jpg
 

فرخ منظور

لائبریرین
احمد فراز (2008-1931)



684340_ahmad_faraz.jpg

پشاور سے محسن احسان اور احمد فراز کی رونمائی ایک ساتھ ہوئی۔ انگریزی ادب میں تعلیم اور غزل سے شغف مشترک تھے مگر جہاں محسن میں ضبط تھا وہاں فراز میں خروش تھا۔ ترقی پسند لغت میں الھڑ عشق کے دو آتشے کی خوشبو پھیلی تو نوجوان دلوں کے قتلے ہو گئے۔ ضیا الحق کے عہد میں کچھ دیر کو مزاحمت کا پرچم بھی اٹھایا مگر غالب رنگ کچی عمر کے جذبوں ہی کا رہا۔ خدا جانے فراز پر تقلیدِ فیض کی تہمت پہلے پہل کس نے دھری تھی مگر اس کی چھاپ نے مٹ کر نہیں دیا۔

67505_ahmad-faraz.jpg
 

فرخ منظور

لائبریرین
انیس ناگی (1939)



ویتنام کی جنگ، ایوب مخالف تحریک اور انیس ناگی نے پاکستان پر ایک ساتھ دھاوا بولا۔ پہلی دو لہریں تو وقت کے دھارے میں گم ہو گئیں مگر انیس ناگی اپنے مورچے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کتاب سے وابستگی کا ایسا عاشق کم پیدا ہوا ہو گا۔ ناول، شاعری، تنقید اور دستاویزی فلم، غرض کسی گھر بند نہیں۔ ترجمے پر اترے تو اردو دنیا کو سینٹ جان پرس، کامیو اور پابلو نرودا سے متعارف کرایا۔ اس پر بھی بیان مزید وسعت کا تقاضا کرے تو اپنا رسالہ نکال لیتے ہیں۔ چوٹ کرنے سے گھبراتے ہیں نہ چوٹ کھا کر بد مزہ ہوتے ہیں۔
675010_anis-nagi.jpg
 

فرخ منظور

لائبریرین
اشفاق احمد (1924-2004)



683335_ashfaq_ahmad.jpg

گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی تدریس شروع ہوتے ہی ایک طالبعلم افسانہ نگار سامنے آیا۔ اشفاق احمد نے قصباتی معصومیت، شرارت بھری ذہانت اور گہرے مشاہدے سے چلبلی نثر کا ایسا نمونہ تیار کیا تھا جس سے محظوظ ہونا آسان اور جس کی نقل بہت مشکل ہے۔اردو کے دس بہترین افسانوں کی کوئی فہرست ’گڈریا’ سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ پھر نشریات اور عہدوں کی طرف نکل گئے۔ ترقی کے زینے پر قدم رکھا تو روحانیت کے دروازے بھی کھلتے گئے۔ ان غلام گردشوں میں ایسی بھول بھلیاں تھیں کہ افسانہ نگار اشفاق احمد لوٹ کے نہیں آیا۔

675014_ashfaq.jpg
 

فرخ منظور

لائبریرین
جوش ملیح آبادی (1898-1982)



684539_josh.jpg

تخلص کا انتخاب عام طور سے ابتدائی عمر میں کیا جاتا ہے سو اس میں لاشعور کا دخل زیادہ ہوتا ہے۔ شبیر حسن خاں کے لیے جوش سے بہتر تخلص ممکن نہیں تھا۔ جوش نے لکھنؤ کی نزاکت پسندی اور لسانی احتیاط کو ذاتی معیار کی جس سان پر رکھا اسے نرگسیت نہیں بلکہ ایسی خود پسندی کہنا چاہیے جو پشتوں کی مراعات یافتہ حیثیت سے پیدا ہوتی ہے۔ نظم ہو یا نثر، جوش کی لغت میں وسعت بھی ہے، جولانی بھی اور کاٹ بھی۔ معشوق صفت تھے مگر عشق کا دعوٰی رکھتے تھے۔ بیسویں صدی میں شاید ہی کسی نے انیسویں صدی کے مزاج کو ایسا نبھایا ہو۔


675043_josh.jpg
 

فرخ منظور

لائبریرین
عبدالرحمٰن چغتائی (1899-1975)



684733_chughtai.jpg

دن اور رات کے ملنے کی ساعت جھٹپٹے کا وقت کہلاتی ہے تو صدیوں کا سنگھم تو گویا زمانوں کا سفر ہوا۔ چغتائی بیسویں صدی کی دہلیز پر لاہور کے قریب موضع باغبانپورہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد میو سکول آف آرٹ میں مدرس ہوئے۔ ماسٹر عبدالرحمٰن سے استاد چغتائی کے درجے کو پہنچے۔ مشرق کی معروف دو جہتی ٹیکنیک میں ایلورا اجنتا کی مدور ڈھلانوں اور منور گولائیوں کو مغل لباس پہنا کر اسلامی عنوان جمائے۔ سکہ جم گیا۔ والیان ریاست کی سرپرستی میں ہندو دیو مالا کو مصور کرنے میں عار نہیں تھا۔ تقسیم کے بعد مصور پاکستان قرار پائے۔


675019_chughtai.jpg
 

فرخ منظور

لائبریرین
استاد دامن (1911-1984)



684836_ustad-daman.jpg

چراغ دین نام کا یہ دیا جس گھر میں فانوس ہوا وہاں باپ درزی تھا اور ماں دھوبن تھی۔ سو وہ شعر میں چاک گریباں سیتا تھا اور جلسوں میں دلوں کی میل کاٹتا تھا۔ وضع قطع پہلوانوں ایسی سادہ، رہن سہن میں ایسی بے نیازی کہ درویش پانی بھریں، علم ایسا بانس ڈباؤ کہ ہفت زباں، ہنر ایسا یکتا کہ پنڈت نہرو تڑپ اٹھیں اور طبع ایسی دبنگ کہ نواب کالا باغ کو خاطر میں نہ لائے۔ استاد دامن نے نصف صدی تک لوگوں کے درد کو انہی کی زبان بخشی۔
675025_damen.jpg
 

فرخ منظور

لائبریرین
فیض احمد فیض (1911-1984)



68516_faiz.jpg

فیض محبوب تھا۔ دانش وروں اور طالب علموں میں مقبول، سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کا رفیق، آمروں کو مطلوب اور خوب رو لیلاؤں کے دل کی دھڑکن۔ اقبال کے بعد کمالِ ہنر ، نظریاتی وابستگی اور بے پناہ قبول عام کا سہ جہتی معجزہ فیض کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ وارداتِ دروں ہو یا فصیل شہر کا افسانہ، وہ اپنی واردات کو غزل کے مانوس استعاروں میں رکھ کے اردگرد سجل لفظوں کی نازک تتلیاں باندھ دیتا تھا۔ اس پر طبعیت کا شرمایا اور گھبرایا ہوا انداز۔ فیض کو ڈھیل کے پیچ لڑانے میں مزا آتا تھا۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں اردو شاعری کا وقار فیض کے نام رہا۔

675029_faiz.jpg
 
Top