شریف برادران کی سزا معاف کرنے کی دستاویزات

قمراحمد

محفلین
شریف برادران کی سزا معاف کرنے کی دستاویزات

-----------------------------------------------------------------------------
روزنامہ جنگ 16 جون 2009


جنرل پرویز مشرف کی طرف سے میاں نواز شریف کو دی گئی 14 سال قید با مشقت کی سزا معاف کرنے کیلئے صدر سے اپیل

چیف ایگزیکٹوسیکرٹریٹ ، اسلام آباد
عنوان: معافی کی منظوری


اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 45 کے تحت صدر کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ :
(الف ) سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے 30 اکتوبر 2000ء کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 402-B اور سیکشن 7 کے تحت خصوصی اے ۔ ٹی اپیل نمبر 43 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء میں میاں محمد نواز شریف کو سنائی گئی عمر قید کی سزا معاف کی جائے۔
( ب ) احتساب عدالت اٹک قلعہ کی جانب سے 22 جولائی 2000ء کو قومی احتساب بیورو آرڈیننس 1999 ء کی شق 9(a)(v) ، ریفرنس نمبر 2 کے تحت میاں محمد نواز شریف کو سنائی گئی 14 سال قید با مشقت کی سزا معاف کی جائے۔

جنرل پرویز مشرف
چیف ایگزیکٹو آف پاکستان اور
چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف
اینڈ چیف آف آرمی اسٹاف


صدر مملکت:
درخواست منظور کی جاتی ہے، سزائیں معاف کر دی گئیں
(دستخط )

------------------------------------------------------------------------------

صدر کے نام سزا معاف کرنے کی اپیل
دی چیف ایگزیکٹو
نمبر 229/3/(A)/Dir-C/2000 بتاریخ 10 دسمبر 2000ء
بخدمت جناب صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان
ڈیئر سر


یہ کہ درخواست گزار نمبر ایک پر دیگر کے ہمراہ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 ء کی شق نمبر 6/7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعات نمبر 120B, 121, 121A, 123, 365, 402B, 324 کے تحت جرائم پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔
درخواست گزار نمبر ایک کے دیگر شریک ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا لیکن درخواست گزار نمبر ایک کو مذکورہ عدالت کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلے کے تحت 6 اپریل 2000ء کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 402 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 ء کی شق 7 کے تحت جرائم پر سزا سنائی گئی اور مندرجہ ذیل سزائیں سنائی گئیں۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 402-B کے تحت جرائم پر : ) (iعمر قید با مشقت (ii) پانچ لاکھ روپے جرمانہ ( عدم ادائیگی کی صورت میں )
(iii) تمام جائیداد کی ضبطی
انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت جرائم: (i) عمر قید (ii) پانچ لاکھ روپے جرمانہ ( عدم ادائیگی کی صورت میں پانچ سال قید با مشقت ) (iii) پرواز نمبر پی کے 805 کے تمام مسافروں کو مساوی شرح سے 20 لاکھ روپے ہرجانے کی ادائیگی
3: یہ کہ درخواست گزار نمبر ایک کی جانب سے فیصلے کے خلاف اپیل پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 402-B اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 پر سزا برقرار رکھی گئی ہے لیکن سزا میں مندرجہ ذیل تبدیلی کی گئی ہے (i) عمر قید (ii) پانچ لاکھ روپے جرمانہ ( جرمانے کی عدم ادائیگی پر پانچ سال قید با مشقت ) (iii) جائیداد کی ضبطی ( 50 کروڑ کی مالیت کی حد تک منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد )
4: یہ کہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے نیب آرڈیننس 1999ء کے تحت دائر کئے گئے ریفرنس میں درخواست گزار نمبر ایک پر احتساب عدالت اٹک قلعے میں مقدمہ چلایا گیا اور نیب آرڈیننس کی دفعہ 9(a) (v) کے تحت سزا سنائی گئی اور مندرجہ ذیل سزائیں دی گئیں۔ ( i ) 14 سال کیلئے قید با مشقت ( ii ) 2 کروڑ روپے جرمانہ ( جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں تین سال کی قید با مشقت ) ( iii ) حکومت پاکستان کی آئینی یا مقامی اتھارٹی یا کسی عوامی عہدے کی نمائندگی یا بطور رکن نامزد یا مقرر، منتخب کئے جانے کیلئے 21 سال تک نااہلی ۔
5: یہ کہ درخواست گزار نمبر ایک کو صحت کے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ یہ کہ درخواست گزار نمبر ایک اور درخواست گزار نمبر دو سے چار تک کے طرز عمل کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیوں کے پاس بعض انکوائریز اور تحقیقات زیر التواء ہیں اور تحقیقات کے نتیجے میں سزا ہو سکتی ہے۔
مندرجہ بالا نکات کے پیش نظر یہ درخواست کی جاتی ہے کہ درخواست گزار نمبر ایک کی قید کی سزا معاف کر دی جائے تا کہ وہ علاج کیلئے بیرون ملک جانے کے قابل ہو سکے اور درخواست گزاروں کو ماضی کے کسی مبینہ طرز عمل کے حوالے سے سزا نہ دی جائے۔
دستخط :
درخواست گزار نمبر ایک : میاں محمد نواز شریف
درخواست گزار نمبر دو: میاں شہباز شریف
درخواست گزار نمبر تین: میاں عباس شریف
درخواست گزار نمبر چار : حسین نواز

خفیہ اور ضررسے پاک قرار دینے کا معاہدہ
میں زیر دستخطی محمد نواز شریف تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے اپنی جانب سے پاکستان میں قید سے اپنی رہائی کیلئے ” جنٹلمین “ کی مذاکرات میں معاونت کرنے کی منظوری دی ہے۔ میں زیر دستخطی مزید تسلیم کرتا ہوں کہ میں اپنی جانب سے مذاکرات کے نتائج اور تسلسل سے پوری طرح مطمئن ہوں، یہ کہ مجھ سے مذاکرات پر پوری طرح مشورہ کیا جاتا رہا ہے، یہ کہ میں مذاکرات کے ہر مرحلے سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں اور یہ کہ میں نتائج سے پوری طرح متفق اور اسے تسلیم کرتا ہوں۔ میں نے جس ملک میں جانا منظور کیا ہے وہاں اپنی آمد پر، میں زیر دستخطی عہد اور اتفاق کرتا ہوں کہ میں 10 سال تک کے عرصے کیلئے پاکستان میں اپنی قید کے حوالے سے یا پاکستان کے مفادات کے خلاف کسی بھی نوعیت کی سرگرمیوں، سیاسی یا کاروباری سرگرمیوں میں شمولیت اختیار نہیں کروں گا۔ مزید یہ کہ میں زیر دستخطی پاکستان سے باہر، جس ملک میں رہائش پزیر ہونا میں نے منظور کیا ہے، 10 سال تک قیام کروں گا لیکن میں اس شرط پر سفر کر سکوں گا کہ میں اپنی جائے قیام پر واپس آؤں گا۔ میں زیر دستخطی مزید اتفاق کرتا ہوں کہ میں ماسوا پہلے سے حاصل کردہ تحریری منظوری کے پاکستان سے اپنی رہائی اور منظور شدہ مقام پر اپنے قیام میں شامل نہ تو ” جنٹلمین “ اور نہ ہی ملک کا نام کسی فریق پر منکشف کروں گا۔ مزید یہ بھی کہ میں زیر دستخطی خاص طور سے تمام شامل فریقوں کو پاکستان سے اپنی رہائی، میری جانب سے ” جنٹلمین “ کے مذاکرات اور میرے منظور کردہ ملک میں رہائش کے حوالے سے خواہ کسی بھی نوعیت کے دعوے ہوں یا رہے ہوں بری الذمہ کرتا ہوں۔
2 دسمبر 2000ء کے دن دستخط کئے گئے۔

خفیہ اور ضررسے پاک قرار دینے کا معاہدہ
میں زیر دستخطی محمد شہباز شریف تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے اپنی جانب سے پاکستان میں قید سے اپنی رہائی کیلئے ” جنٹلمین “ کی مذاکرات میں معاونت کرنے کی منظوری دی ہے۔ میں زیر دستخطی مزید تسلیم کرتا ہوں کہ میں اپنی جانب سے مذاکرات کے نتائج اور تسلسل سے پوری طرح مطمئن ہوں، یہ کہ مجھ سے مذاکرات پر پوری طرح مشورہ کیا جاتا رہا ہے، یہ کہ میں مذاکرات کے ہر مرحلے سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں اور یہ کہ میں نتائج سے پوری طرح متفق اور اسے تسلیم کرتا ہوں۔ میں نے جس ملک میں جانا منظور کیا ہے وہاں اپنی آمد پر، میں زیر دستخطی عہد اور اتفاق کرتا ہوں کہ میں 10 سال تک کے عرصے کیلئے پاکستان میں اپنی قید کے حوالے سے یا پاکستان کے مفادات کے خلاف کسی بھی نوعیت کی سرگرمیوں، سیاسی یا کاروباری سرگرمیوں میں شمولیت اختیار نہیں کروں گا۔ مزید یہ کہ میں زیر دستخطی پاکستان سے باہر، جس ملک میں رہائش پزیر ہونا میں نے منظور کیا ہے، 10 سال تک قیام کروں گا لیکن میں اس شرط پر سفر کر سکوں گا کہ میں اپنی جائے قیام پر واپس آؤں گا۔ میں زیر دستخطی مزید اتفاق کرتا ہوں کہ میں ماسوا پہلے سے حاصل کردہ تحریری منظوری کے پاکستان سے اپنی رہائی اور منظور شدہ مقام پر اپنے قیام میں شامل نہ تو ” جنٹلمین “ اور نہ ہی ملک کا نام کسی فریق پر منکشف کروں گا۔ مزید یہ بھی کہ میں زیر دستخطی خاص طور سے تمام شامل فریقوں کو پاکستان سے اپنی رہائی، میری جانب سے ” جنٹلمین “ کے مذاکرات اور میرے منظور کردہ ملک میں رہائش کے حوالے سے خواہ کسی بھی نوعیت کے دعوے ہوں یا رہے ہوں بری الذمہ کرتا ہوں۔
2 دسمبر 2000ء کے دن دستخط کئے گئے۔

حلف نامہ
مجھے، میاں شہباز شریف ،ہنگامی طور پر محض علاج کیلئے سعودی عرب سے امریکا جانے کی ضرورت ہے کیونکہ میری بیماری آپریشن کی متقاضی ہو سکتی ہے اور یہ سہولت سعودی عرب میں دستیاب نہیں ہے۔ میں حامی بھرتا ہوں کہ میں اپنے علاج کی تکمیل پر فوری طور پر سعودی عرب واپس آ جاؤں گا۔ میں مزید حامی بھرتا ہوں کہ امریکا میں اپنے قیام کے دوران میں اور میرے ہمراہی کوئی انٹرویو دیں گے نہ میڈیا سے رابطہ کریں گے اور نہ ہی میں اپنی موجودہ یا سابقہ حیثیت کے حوالے سے یا پاکستان اس کی موجودہ حکومت ، سیاسی حالات یا پاکستان اور اس کی حکومت کے کسی بھی معاملے کے حوالے سے خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو کوئی عوامی بیان جاری نہیں کروں گا۔
بتاریخ26 جنوری 2003 ء
میاں شہباز شریف
 
بہت زبردست شئیرنگ ہے ، خوب محنت کی ہے بھئی آپ نے، لیکن ایک بات ہے کہ اس سے ہمارے قومی سیاسی خود ساختہ سیاسی قائدین کے اصل چہرے کھل کر عوام کے سامنے آ گئے ہیں کہ یہ سادہ لوح عوام کو کسطرح برسوں جھوٹ پر جھوٹ بول کر بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
ہاں امیر سرمایہ دار لوگ ہیں۔ پیسا دیکر سزا سے بچ سکتے ہیں۔ امید ہے دوزخ میں‌یہ پیسا ساتھ نہیں‌لیجا سکیں گے!
 

راشد احمد

محفلین
جان بچانا ہرشخص کا بنیادی حق ہے۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو ٹھیک کیا ہے لیکن غلط مشرف کے ساتھ کسی معاہدے سے انحراف کرکے کیا ہے

کیا وہ پھانسی پر چڑھ جاتے بھٹو کی طرح؟ اور پھر اس کے بیٹے بیٹیاں شہیدوں کے نام پہ ووٹ‌ مانگتے؟

ابھی تو زرداری صاحب اقتدار پہ ہیں جب ن لیگ اقتدار میں آئے گی تو ان کی مہربانی سے این آر او کی دستاویزات یہاں نظر آئیں گی۔
 
جان بچانا ہرشخص کا بنیادی حق ہے۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو ٹھیک کیا ہے لیکن غلط مشرف کے ساتھ کسی معاہدے سے انحراف کرکے کیا ہے

کیا وہ پھانسی پر چڑھ جاتے بھٹو کی طرح؟ اور پھر اس کے بیٹے بیٹیاں شہیدوں کے نام پہ ووٹ‌ مانگتے؟

ابھی تو زرداری صاحب اقتدار پہ ہیں جب ن لیگ اقتدار میں آئے گی تو ان کی مہربانی سے این آر او کی دستاویزات یہاں نظر آئیں گی۔

بے شک جان بچانے سے کس نے منع کیا ہے ، یہاں تو بات ہو رہی ہے کہ اتنے برسوں تک پاکستانی عوام کے ساتھ جو جھوٹ بولا، کیا وہ ایک سیاسی رہبر کے بلند کردار کی علامت ہے؟ ہمیں تو بس یہ لوگ مصلحتوں کے نام پر جھوٹ پر جھوٹ بول کر بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
بے شک جان بچانے سے کس نے منع کیا ہے ، یہاں تو بات ہو رہی ہے کہ اتنے برسوں تک پاکستانی عوام کے ساتھ جو جھوٹ بولا، کیا وہ ایک سیاسی رہبر کے بلند کردار کی علامت ہے؟ ہمیں تو بس یہ لوگ مصلحتوں کے نام پر جھوٹ پر جھوٹ بول کر بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔

سیاست ایک سفید جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟ الیکشن سے پہلے عوام سے وعدے، الیکشن کے بعد غیر ممالک سے وعدے!
 

راشد احمد

محفلین
بے شک جان بچانے سے کس نے منع کیا ہے ، یہاں تو بات ہو رہی ہے کہ اتنے برسوں تک پاکستانی عوام کے ساتھ جو جھوٹ بولا، کیا وہ ایک سیاسی رہبر کے بلند کردار کی علامت ہے؟ ہمیں تو بس یہ لوگ مصلحتوں کے نام پر جھوٹ پر جھوٹ بول کر بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔

جھوٹ تو اس نے بولا ہے اور باربار بولا ہے۔ لیڈر کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ سچا، باکردار، دیانت دار ہوتا ہے۔

یہ خوبیاں نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری، الطاف حسین، مولانا فضلو رحمان، اسفندیار ولی، چوہدری برادران، شہید بے نظیر بھٹو میں بھی نہیں تھیں۔ پاکستان کی سیاست میں کوئی شخص مخلص نہیں‌ہے
 

راشد احمد

محفلین
خدا کا خوف کرو یار
سچا اور دیانت دار آدمی نبی نہیں بن جاتا لیکن اللہ اور مخلوق کا محبوب ضرور بن جاتا ہے
 
Top