شریف۔۔۔ طرزِ حکمرانی ۔ایک تجزیہ ،از؛زرقا مفتی

شریف۔۔۔ طرزِ حکمرانی ۔ایک تجزیہ ،از؛زرقا مفتی
؛زرقا مفتی ۔لاھور


1990 کے انتخابات میں شہباز شریف صاحب اندرون شہر لاہور سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ الیکشن لڑنے کے لیے انہوں نے مقامی کونسلر حضرات کی خدمات حاصل کیں ۔ الیکشن مہم کے دوران کونسلر حضرات کی نیندیں بھی حرام رہیں ۔کیونکہ انتخابی جلسے اور کارنر میٹنگز نمازِ فجر کی اذانوں تک جاری رہتیں۔

شہباز شریف صاحب نے اس مہم کے دوران فنڈز تقسیم کیے ، ترقیاتی کام کروائے ، ایک نوکری کے لئے پانچ پانچ امیدواروں کو(مختلف الفاظ میں) سفارشی خطوط عطا کیے ظاہر ہے نوکری کسی ایک ہی کو ملتی۔ ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ پر ترقیاتی کاموں کے لیے افسران بلائے جاتے ۔ کسی بھی کام کی ڈیڈ لائن بتائی جاتی، وارننگ بھی دی جاتی افسروں کے لیے اُن کا تکیہ کلام ” آئی ول ہینگ یو“ تھا۔

انتخابات کے بعد نواز شریف صاحب وزیرِ اعظم بن گئے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ غلام حیدر وائیں صاحب کے سپرد کی گئی مگر درحقیقت پنجاب کاکنٹرول شہباز شریف صاحب کے اپنے ہاتھ میں تھا۔ الیکشن کے پلاٹوں کی بے دریغ الاٹمنٹ کی گئی حلقے کے ووٹر ز سپورٹرز کو نوازا گیا ۔

شہباز شریف بنیادی طور پر صنعتکار ہیں اور آمرانہ مزاج کے حامل بھی افسران سے اُن کا سلوک کچھ ایسا ہی ہوتاتھا جیسے کسی مل مالک کا ایک مل مزدور کے ساتھ ہوتا ہے۔

نواز شریف صاحب فوج کی نرسری سے نکل کر اقتدار کے ایوان میں براجمان ہوئے تھے۔ مگر 1993 میں نواز حکومت کی برطرفی کی ایک وجہ فوج سے اُن کے نا خوشگوار تعلقات بھی تھے۔ 1997 کے انتخابات میں اسلامی جماعتوں کی حمایت کے بغیر ایک بھاری مینڈیٹ لے کر کامیاب ہوئے ۔ سو انہوں نے طے کر لیا کہ اس بار فوج ، عدلیہ یا افسر شاہی کسی کا جائز ناجائز دباؤبرداشت نہیں کرنا۔ انتخابات سے پہلے چوہدری برادران سے عہد ہوا تھا کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پرویز الہی ٰ کو سونپی جائے گی مگر انتخابات کے بعد اس عہد کی پاسداری کی کوئی اہمیت نہ رہی ۔ اور شہباز شریف صاحب پنجاب کے مطلق العنان حکمران بن گئے۔
باقی پڑہنے کئے کلک کریں
 

مہوش علی

لائبریرین
اللہ۔ لگتا ہے کہ ابھی تک کچھ لوگ باقی ہیں کہ جنہیں پچھلے ادوار اور ماضی قریب کی تاریخ بھولنے کی بیماری نہیں لگی ہوئی۔

مگر افسوس کہ 97 فیصد ہمارے میڈیا اور عوام کو یہ بیماری لاحق ہے اور وہ بہت جلد ایک سیاسی لیڈر کی دشمنی میں دوسرے کے گناہ بھول جانے کے عادی ہیں۔

اللہ تعالی میری قوم کو بلند و تیز حافظہ عطا فرمائے۔ امین۔

زرقا مفتی نے بہت ہی اچھا کالم لکھا ہے اور اچھے کاموں کی تعریف بھی بالکل صحیح کی ہے۔ اس پر انہیں میری طرف سے مبارکباد۔
 

arifkarim

معطل
مگر افسوس کہ 97 فیصد ہمارے میڈیا اور عوام کو یہ بیماری لاحق ہے اور وہ بہت جلد ایک سیاسی لیڈر کی دشمنی میں دوسرے کے گناہ بھول جانے کے عادی ہیں۔

افسوس کہ "سیاست" اسی چڑیا کا نام ہے!:(
پچھلے گناہ دباؤ، نئے گناہوں کا آغاز کرو!
 

زینب

محفلین
آپ لوگوں نے جیو پے۔۔مجھے یاد ہے زرہ زرہ ۔۔۔۔۔تجھے یاد ہو کہ نا یاد ہو۔۔۔کے عنوان سے ایک فلم دیکھی جو پی پی کے تازہ ترین جھوٹوں پے مبنی ہے :rollingonthefloor:۔اس میں گداری کو یہ کہتے ہوئے بھی سنایا دکھایا گیا ہے کہ جو بھی نیا صدر آئے گا وہ 17ویں ترمیم کر کے اپنے اختیارات عوام کو سرینڈر کر کی ہسٹری بنائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔واہ کیا ہسٹری بنائی ہے غداری نے کو نے:rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

arifkarim

معطل
بہر حال پولنگ میں پی پی پی کے وولٹ سب سے زیادہ تھے۔ عوام کو چاہیے تھا کہ غداروں کو ووٹ نہ دیتی!
 

زینب

محفلین
بی بی کا نیاقتل ہوا تھا نا اسی لیے غداری نے الیکشن کا بایئکاٹ نہیں کیا تھا ۔اور ہمدردیاں سمیٹ لیں بے وقوف عوام کی اور کیا۔۔۔۔۔۔۔
 
قربانیوں کے لیئے "باشعور" عوام جو ہے ۔ 60 برسے سے دے رہے ہیں کبھی سیاہ ست اور کبھی سیاہ مت کے لیئے آخر کیا ہوتا ہے ۔

چلو چلیئے دنیا دی اوس نکرے جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے
 

طالوت

محفلین
بہر حال پولنگ میں پی پی پی کے وولٹ سب سے زیادہ تھے۔ عوام کو چاہیے تھا کہ غداروں کو ووٹ نہ دیتی!
پیپ ای کی خوش قسمتی کہ اس کے اکثریتی ووٹرز و حمایتی شعور سے عاری ہیں ۔۔ اور کچھ ووٹرز اور حمایتی ایران کی محبت میں ہین ۔۔ اس کے لیے تاریخی جائزہ مناسب ہو گا ۔۔
وسلام
 
سر جی ایتھے سارا ٹبر وی مر گیا تے عوام چوں چوہدری کوئی نئیں بننا ،

ہنجابی سے نابلد افراد سے معذرت اس کا مترادف مجھے اردو میں نہیں مل سکا کیونک اس بات کی ایک تاریخ ہے جو تقریبا ہر پنجابی کو معلوم ہے ۔ یہ وہ ہے نہیں جو نظر آتی ہے اور جو یہ ہے وہ نظر نہیں آتی۔
 
جیسا کہنا چاہیئے تھا اگر کہ دیتی تو بیچاری پر محفل بین ہوجاتی تین ماہ کے لیئے ۔ شمشاد بھائی زرداری کو غداری کہنا توہین ہے ۔ "غداری کی"
 
Top