صفحہ 78
کئے۔ کیونکہ ٹوکری کا منہ بالکل اوپر کے تختے سے ملا ہوا تھا۔ لالہ صاحب کو پتہ ہی نہ تھا کہ کیو ہو رہا ہے۔ امرود اس نے ایک ایک کر کے ہمارے اوپر پھینکنا شروع کئے۔ ہم اشارے سے کہہ رہے تھے کہ ضرور تو ماری جائے گی اور دراصل ہم سخت گھبرا رہے تھے کہ کہیں یہ چوری کرنے میں پکڑی نہ جائے۔ ایک ایک کرکے اس نے سب امرود نکال لئے اور ہم سے اشارہ سے کہا کہ نیچے لوگوں کو بانٹ دو۔ ہم نے پھر دیکھا اور امرعادے کے مالک کو بے خبر سوتے پایا۔ لٰہذا ہم نے جلدی سے اتر کر بے تکلف ہو کر تمام لوگوں کے ہاتھوں میں دو دو امرود دے دیئے اور بقیہ سب کے بیچ میں ایک بنچ پر رکھدیئے کہ کھائیے۔ ان میں سے ایک صاحب چاندنی کو شاید یہ تمام شرارتیں کرتے دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ کونے میں بیٹھے چپکے چپکے مسکرا رہے تھے۔ چاندنی نے ان کو دیکھا ور وہ سمجھ گئی۔ لٰہذا ان سے انگلی سے خاموشی کو کہا اور وہ ہنس کر سر ہلانے لگے کہ میں نہ بولوں گا۔ ہم بدستور اپنی جگہ پر آ کر لیٹ گئے۔ نیچے لوگ بے تکلفی کے ساتھ امرودوں کی دعوت اڑا رہے تھے کہ اسٹیشن آیا اور ریل کے جھٹکے سے لالہ صاحب جاگ اٹھے۔ وہ حضرت جو اس کونہ میں بیٹھے تھے اور اس شرارت سے واقف تھے انہوں نے ایک صاحب سے کہا کہ جناب لالہ صاحب کو بھی امرود کھلائیے۔
لوگوں نے جب ان سے کہا تو کہنے لگے کہ میرے پاس کود الہ آباد کے امرود موجود ہیں۔ ایک صاحب بولے بہتر ہوتا اگر آپ کم از کم اپنے امرودوں کا نمونہ چکھاتے۔ انہوں نے مسکرا کر کہا۔ "بڑے شوق سے ٹوکری سے