صفحہ 92
ہم نے کہا، "جناب آپ نے انتہائی پردہ کرا کے یہ حال کر دیا ہے اگر آپ اپنے ساتھ بٹھائیں۔ تو کیا مضائقہ ہے۔" مگر یہ سب بے سود تھا کیونکہ ہمارے اور ان کے خیالات میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔
ہماری بیوی پر شرارت کا جن پھر سوار ہو گیا۔ اس نے پہلے تو ہمارے دوست کی بیوی کی بزدلی پر خفا ہر کر بطور سزا کے ایک کڑوا پان کھلایا۔ نہ معلوم ایسی سیدھی عورت کے تنگ کرنے میں کیا مصلحت تھی۔ اس کے اس نے دیکھا کہ وہ حضرت آ رہے ہیں۔ وہ کھڑکی کی طرف منہ کھولے بیٹھی تھی اور پان کی ڈبیہ اس کے ہاتھ میں تھی۔ جیسے وہ قریب آیا ویسے ہی اس نے ڈبیا کھولی۔ وہ غنڈا مسکرا کر بولو " اکیلے ہی اکیلے" چاندنی نے فورا ایک پاس اسے دے دیا جو اس نے فورا لے لیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے دیکھا کہ یہ حضرت نل پر کھڑے تھوک تھوک کر اپنی چونچ صاف کر رہے ہیں کیونکہ سارا منہ کڑوا ہو رہا تھا۔
یہ حضرت جلے بُھنے پھر لوٹ کر آئے اور چاندنی سے پان کی کڑواہٹ کے بارے میں ایک سخت ناشائستہ اور بیہودہ لفظ کہا۔ اس نے ڈانٹ کر کہا "شریفوں کی سی باتیں کرو۔" اس کو بے حد غصہ آ رہا تھا۔ ہمارے دوست کی بیوٰ کا یہ باتیں دیکھ کر جو حال ہوا وہ بیان سے باہر ہے جب اس نے پان دیا تو کہنے لگھیں کہ "تمہارے میاں دیکھ لیتے تو کیا ہوتا۔" اس نے کہا "کچھ نہیں اس میں کیا ہرج ہے۔" غرض وہ کہتی تھیں کہ " خدا کے لئے رہنے دیجیئے۔ ورنہ وہ اور بھہ پیچھے لگ جائے گا۔" اتنے میں وہ پھر آیا۔ اور اس