۱۵۹
کیونکہ وہ کلب بھی نہیں گئے۔
"مگر اب تو کسی نہ کسی طرح کھول دیجئے۔" کامل نے گھبرا کر کہا۔ کیونکہ گھنٹوں سے قید محض کا لطف اٹھا رہے تھے۔ اس کا جو جواب چاندنی نے دیا تو کامل سن کر خوش ہی تو ہوگئے۔ اس نے کہا اگر آپ آج رات کو گھر نہ جائیں تو کچھ نقصان ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ کو رات کے دس بجے تک تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ پھر میں کھول دوں گی اور آپ چپکے سے برابر والے کمرے میں الماری کے پیچھے پردے کی آڑ میں چھپ جائیے گا۔
کانپتی ہوئی آواز میں کامل نے کہا۔ "بہت اچھا۔ آپ چائیے۔ میں سمجھ گیا۔"
سردی کا زمانہ تھا اور رات کا کھانا کھانے کے بعد چاندنی نے بہت سی چائے بنائی۔ ہم نے اس سے کہا کہ تو نے ہمارے دوست کو نہ تو چائے دی اور نہ رات کے کھانے کی فکر کی اس کا جواب اس نے مسکراتے ہوئے یہ دیا کہ یہ چائے دراصل انہی کے واسطے بن رہی ہے۔ مٹھائی، توس، مکھن، انڈے کچھ میوہ اور چائے یہ اس نے ایک کشتی میں سجائے۔ چائیدان بھر کر چائے اور دودھ دان بھی بالائی دار دودھ سے بھرا ہوا تھا۔ یہ سب چیزیں اس نے غسلخانہ میں پہنچادیں۔ کامل بھوکے تو تھے ہی سب صاف کر گئے۔ اس کے بعد پھر کسی نے کامل صاحب کی خبر نہ لی۔ کیونکہ ہم نے جب کہا کہ ان کو سردی لگ رہی ہوگی تو اس نے کہا کہ مجھے اپنے مہمان کے آرام کا تم سے زیادہ خیال ہے۔ اس کا انتظام پیشتر ہی ہوچکا ہے۔"