صفحہ 185
بیوی کو اپنے گلے سے لگا لیا۔
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
ہم الگ کمرہ میں بیٹھے تھے اور سمجھے تھے کہ چاندنی اندر زنانکانے میں گئی ہے کہ وہ آنکھوں سے آنسو پونچھتی ہوئی آئی۔ ہم نے کہا "ارے یہ تجھے کیا ہوا" تو اس نے اپنی چوری کا قصہ سنایا کہ وہ کس طرح بے ایمانی سے دروازہ کے ایک سوراخ سے میاں بیوی کی ملاقات دیکھ اور سن رہی تھی۔ ہم نے اس کی کمزوری اور چوری پر اس کو بہت کچھ برا بھلا کہا۔ مگر وہ تو اب سن آئی تھی اور خدا کو یہی منظور تھا کہ یہ قصہ مرتب ہو کر باعث عبرت ہو۔
(6)
حسین بخش غریب اب بھی خوش تھا۔ اور دراصل اس کو حقیقی خوشی ہوئی ہو گی۔ کیونکہ وہ شریف دل تھا۔ معصومہ نے اس کو اس کی خدمت کا یہ صلہ دیا کہ جس طرح اس کو بھائی کہتی آئی تھی۔ اسی طرح اس کو اب بھی بھائی سمجھا۔ اور اس صندوقچی کا پتہ دیا۔ جو اب تک اسی کنویں کی تہہ میں پڑی تھیں۔ جس میں سے اس نے معصومہ کو اپنی جان پر کھیل کر نکالا تھا۔ اس صندوقچی کو اب تک معصومہ ایک امانت سمجھی تھی۔ لیکن اب اس کو اسی طرح پڑا رہنے دینا بیکار معلوم ہوا۔ اس میں سے ساڑھے چار ہزار کی قمیت کی جھاڑ شاہی مہریں نکلیں۔ جو حسین بخش کی محبت اور خدمت کا بہترین صلہ تھیں۔
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
بُرا وقت کسی پر کہہ کر نہیں آتا۔ اس دنیا کی جد و جہد میں کمزور اور بے بس ہونا کوئی قابل تعریف صفت نہیں۔ ہر مذہب و معاشرت نے شرم و حیا اور پردے