صفحہ 182
اس نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اس کو کنویں سے نکالا تھا۔
قصہ مختصر وہ اس وقت تک حسین بخش کے یہاں تھی اور اس وقت وہ حسین بخش کے ساتھ ریل میں اس کے کچھ عزیزوں سے مل کر آ رہی تھی۔ کیونکہ حسین بخش اس کو گھر پر بالکل تنہا چھوڑ کر کہین باہر نہ جا سکتا تھا۔ کہ قسمت سے اصغر اور ہم مل گئے۔
(5)
اصغر کمرے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے دیکھا کہ معصومہ تصویر غم بنی زمین پر بیٹھی ہے۔ وہ ایک سوسی کا پاجامہ پہنے تھی اور ایک میلا سا سفید چادرا۔ پاؤں میں جوتا تک نہ تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب جاری تھا۔ جیسے ہی اس نے اپنی آنکھیں پونچھ کر اصغر کی طرف دیکھا۔ تو اصغر کے دل پر ایک چوٹ لگی اور وہ بے تاب ہو کر اس کی طرف لپکے۔ کیونکہ واقعی اصغر کی محبت معصومہ سے عشق کا درجہ رکھتی تھی۔
"خبردار مجھے ہاتھ نہ لگانا۔ الگ الگ" معصومہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ اصغر ایک دم سے ایک غیر معمولی برتاؤ کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ کیونکہ وہ تو یہ سمجھے تھے کہ وہ مجھے دیکھتے ہی لپٹ کر بے ہوش ہو جائے گی۔ اس کے منہ سے ایک دم سے نکلا "معصومہ" اور یہ کہکر وہ پھر بڑھا کہ معصومہ نے ہاتھ اتھا کر کہا "الگ الگ خبردار مجھے ہاتھ نہ لگانا۔"
اصغر نے متعجب ہو کر کہا۔ " یہ کیوں۔"
معصومہ نے ٹھنڈی سانس بھر کے اصغر کی طرف عجیب طرح دیکھا۔ اور کہا،