صفحہ 181
ایک دھماکہ ہوا اور وہ تہ آب تک چلی گئی۔ کہ اس کو پانی نے اوپر پھینکا۔ اس کے ہاتھ پاؤں اس کے کپڑوں میں الجھ گئے تھے۔ مگر اس نے بے اختیاری کے عالم میں زور سے چلا کر ہاتھ پاؤں مارے۔ کیونکہ اس کو دراصل اب معلوم ہوا کہ مرنا کیسا ہے۔ مگر اس کی چیخ کو پانی کے ریلے نے خاموش کر دیا۔ اور وہ تھوڑی ہی دیر کی کشمکش کے بعد ایک بے خبری کے عالم میں ڈوب گئی۔
(4)
جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے کو حسین بخش کے گھر میں ایک چارپائی پر پڑا پایا اور تیمارداری کے لئے اس کی بہن تھی۔ اس نے وہاں ہر طرح کا آرام پایا۔ حسین بخش جب سے یہ آئی تھی، چپکے سے گھر میں آتا اور اسی طرح چلا جاتا۔ سوا سات مہینہ بعد اس کے بچہ پیدا ہوا۔
حسین بخش نے جب سے اب تک اس کو اچھی طرح رکھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ فلک کی ستائی ہوئی ہے۔ اور مظلوم ہے۔ کیونکہ وہ ہر وقت غمگین اور اُداس رہتی اور اس کی بہن ہر طرح اس کا غم دور کرنے کی ناکام کوشش کر چکی تھی۔ لیکن پھر بھی حسین بخش کو پوری امید تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اس کا غم دور ہو گا اور تب یہ میری گھر والی بن کر رہے گی۔ وہ اپنی بہن کے ذریعہ سے کئی مرتبہ عندیہ لے چکا تھا اور ہر مرتبہ معصومہ کو اپنی راہ پر پختہ پایا تھا۔ کہ وہ اسی طرح زندگی بسر کر دے گی۔ وہ جانتی تھی کہ حسین بخش کے دل کی کیا حالت ہے۔ وہ غلاموں کی طرح اس کی خدمت کرتا تھا اور معصومہ کو بھی اس سے وہ محبت ہو گئی تھی۔ جر کو بردرانہ کہتے ہیں۔ اس کا منہ اس کو بھائی کہتے کہتے سوکھتا تھا اور وہ اس سے بے حد ہمدردی رکھتی تھی۔ کیونکہ