صفحہ 132
"میں اس عرصہ میں اپنے فرض سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔" یہ کہکر سپاہی کو آواز دی۔
"آپ خوب سمجھ لیجئے کہ میری توہین ہو رہی ہے۔ اور آپ کو جب تک سپرنٹنڈنٹ پولیس کا جواب نہ آ جائے قانوناً رکنا پڑے گا۔" بیرسٹر صاحب نے کہا۔
"میں معافی چاہتا ہوں کہ میں انتظار نہیں کر سکتا اور بہتر ہوتا کہ آپ اس معاملہ کو طول نہ دیتے۔"
اتنے میں موٹر کی آواز آئی اور حامد صاحب وارد ہوئے۔ سیدھے کمرہ میں چلے آئے اور سب انسپکٹر صاحب اور بیرسٹر صاحب کو پایا۔ سب انسپکٹر صاحب نے حامد سے کہا۔ "یہ بہت اچھا ہوا کہ آپ آ گئے۔ براہ کرم بیرسٹر صاحب کو سمجھا دیجئے۔"
"آخر کیا معاملہ ہے؟" حامد نے دریافت کیا۔
"آپ خود بیرسٹر صاحب سے دریافت کر لیجئے۔ میں علٰیحدہ ہوا جاتا ہوں۔" یہ کہکر وہ باہر آ گئے اور برآمدہ میں بیٹھ گئے۔
حامد نے بناوٹ کے ساتھ تعجب سے بیرسٹر صاحب کو دیکھا جن کی عجیب ہی حالت تھی اور کچھ پوچھنے ہی والے تھے کہ تھانیدار صاحب پھر کمرہ میں گھس آئے۔ اور حامد صاحب سے کہا کہ میری ذرا بات سن لیجیئے۔ پہلے میں آپ کو سب حال سنا دوں۔ بیرسٹر صاحب کا بس نہ کہ وہ سب انسپکٹر صاحب کو اس سے باز رکھتے۔ سب انسپکٹر صاحب نے حامد کو ذرا علٰیحدہ لے جا کر سب