صفحہ 128
اس درخت کے پاس پہنچے۔ اوپر جو نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو بیرسٹر صاحب معلق ہیں۔ تعجب سے ہم نے تصنع کے ساتھ چلا کر بیرسٹر صاحب کو پکار اور ساتھی بھی دوڑ کر آئے۔ بیرسٹر صاحب سے ہم نے اور حامد نے کہا کہ کیوں جناب آپ تو شہر میں کسی سے ملنے جلنے والے تھے۔ آخر یہ کیا خلاف شرع معاملہ ہے کہ درخت پر آویزاں ہیں۔ خدا کے واسطے جلد اس معمہ کو حل کیجئے۔ بیرسٹر صاحب خفت کی مسکراہٹ سے کام لے رہے تھے۔ کہنے لگے کہ بھئی میں دراصل آج کل سیاروں کی نقل و حرکت پر بھی غور کر رہا ہوں۔ چنانچہ زحل کا طلوع دیکھنے چڑھا تھا۔ ہم لوگوں نے ایک قہقہہ لگایا اور مختلف رائیں قائم کیں۔ بیرسٹر صاحب نہ معلوم کس مصبیت سے چڑھے ہوں گے۔ کیونکہ جوتہ پہنیں ہوئے تھے۔ ہم لوگوں نے امداد دے کر اتارا۔ اب سنجیدگی اور خاموشی سے جو ان سے وجہ دریافت کی تو پھر وہی کہنے لگے کہ زحل کا طلوع دیکھ رہا تھا۔ بیرسٹر صاحب کو چاندنی نے ایسا زحل دکھایا کہ انکا لوگوں نے ناطقہ بند کر دیا۔ یار دوست ملنے والے جن کو اصل وجہ معلوم نہ تھی۔ سب یہی کہتے تھے کہ نہ معلوم کیا معاملہ ہو گا۔ کلب میں اور کچہری میں غرض جہاں بھی کوئی کسی سے بہانہ کرے تو آپس میں یہ محاورہ استعمال ہونے لگاکہ کہیں زحل دیکھنے تو نہیں جا رہے ہو۔ غرض بیرسٹر صاحب کا ناک میں دم آ گیا۔
غرض اسی طرح ہمارے چاندنی نے بیرسٹر صاحب کو کئی جگہ دوڑایا ایک مرتبہ لکھدیا کہ پرانے قلعہ کے دروازہ کے سامنے موٹر پر ٹھیک ساڑھے پانچ بجے ملئے گا۔ میں ٹہلنے آؤں گی۔ مگر براہ کرم تنہا ہوئیے گا۔ ہم لوگ چہل