صبح چار بجے ہی آکر حامد نے کھٹکھٹایا ۔ بیرسٹر صاحب سے ہماری تو ملاقات کئی مرتبہ ہو چکی تھی۔ مگر ہماری بیوی کی اور ان کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ بہت جلد ہم نے چائے تیار کرائی۔ اور فارغ ہو کر حامد کی موٹر میں روانہ ہو گئے۔ حامد موٹر خود چلا رہے تھے اور آگے ان کے پاس ہماری بیوی بیٹھی تھی اور ہم بیرسٹر صاحب پیچھے بیٹھے تھے۔
بارہ پندرہ میل پختہ سڑک کا راستہ طے کر کے کچی سڑک آئی اور پھر دو چار میل چل کر گڑھے اور اونچی نیچی زمین سے سابقہ پڑا یہ مشکل بھی آسانی سے طے ہوگئی اور جھیل آگئی۔ ہم لوگ اُتر پڑے اور جھیل کی طرف چلے ۔ جھیل میں مرغابیاں اور قازیں بھری پڑی تھیں۔ ہم نے چاندنی کو ایسی جگہ بٹھا دیا جہاں سے وہ تماشہ دیکھ سکے۔ اور ہم تینوں جھیل کی طرف چلے۔ ہم لوگ الگ الگ چلے گئے۔ اور جھیل کو تین طرف سے گھیر لیا۔ حامد نے پہلے بندوق چلائی اور پھر اڑنے پر بیرسٹر صاحب اور حامد نے بہت فائر کئے۔ ہم نے بھی طبع آزمائی کی ہم نے تو ایک پر تک نہ مارا مگر حامد اور بیرسٹر صاحب نے مل کر سات بڑی قازیں اور تین چھوٹی مرغابیاں ماریں ۔
یہاں سے فراغت پا کر اب ہرن کے شکار کا ارادہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد بیرسٹر صاحب ہم سے اور ہماری بیوی سے بھی بے تکلف ہو گئے اور شکار میں خوب لطف آیا۔ حامد سے اور بیرسٹر صاحب پرانا شکار کا یارانہ تھا۔ اور دونوں پرانے شکاری تھے۔