برقعہ پوش عورت کے اس میں کوئی نہ رہا تھا۔ چنانچہ وہ اتر کر ایک آدمی کے ساتھ چلی گئی۔ دونوں کے پاس ٹکٹ آگرہ سٹی سے راجہ منڈی تک کے تھے ۔ دوسرا آدمی ملازم معلوم ہوتا تھا۔ جو ان کو کسی بند گاڑی میں بٹھا لے گیا۔
یہاں اس تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں کہ کس طرح دن اور رات پولیس نے تفتیش کی ۔ مگر یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ غریب سن رسیدہ بی بی صاف چھوٹ گئیں۔ دوسرے ہی روز صبح کو ان کا خط ان کے بیٹے کو مل گیا۔ جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ڈولی لے کر اسٹیشن پر ملنا۔ اصغر کا برا حال تھا۔ سر ٹکرا ٹکرا کر انہوں نے دیوانوں کی طرح پھوڑ لیا تھا۔ بلکہ کیا عجب کہ اگر گھر والے نہ ہوتے تو وہ اپنی جان گنوا دیتے کیونکہ ان کو اپنی بیوی سے محبت ہی نہ بلکہ عشق تھا۔ ان کی حالت زار قابل رحم تھی اور ان کو دیکھنے سے عبرت ہوتی تھی۔ وہ بالکل پاگل ہو رہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ ان کا بکس مل گیا۔ کوئی بھلے مانس دھوکہ میں لے گئے تھے وہ غلطی کا علم ہونے پر واپس کر گئے جو یہاں آگیا۔ مگر یہاں تو اب بکس والی کا رونا تھا۔ ہم ان کے گھر والوں سے اور ان سے اظہار عمدردی کر کے رنجیدہ گھر واپس آئے اور چاندنی کو حال سنایا ۔ اس کو بھی بے حد افسوس ہوا۔
سال بھر تک ہم آگرے میں رہے اس وقت تک تو ان کی بیوی ملی نہ تھیں۔ اور ان کا قصہ بھی پرانا ہوچکا تھا۔ کہ ہم دوسری جگہ پہنچے۔