جلدی کرو۔" کہہ کر اور بھی رہے سہے ہوش اڑائے دے رہا تھا۔ مجوراََ اصغر نے اپنی بیوی سے اترنے کو کہا۔ پلیٹ فارم تو تھا نہیں گویا چھت پر سے یہاں اترنے کا مضمون درپیش تھا۔ ہماری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ کس طرح کوئی آنکھیں بند کر کے اتر سکتا ہے۔ مگر یہاں اصغر صاحب کی بیوی موجود تھیں جن سے اس کمال کی توقع کی جارہی تھی۔ وہ عورت جو ڈولی سے ایک قدم رکھ کر گاڑی کے ڈبے میںبیٹھنے کی عادی ہو۔ وہ بھلا کیونکہ برقعہ اور برقعہ کے اوپر چادر اوڑھ کر اس حیرانی اور پریشانی میں اتر سکتی ہے۔ کانپتے ہاتھوں سے ٹٹول کر غریب نے کھڑکی کو پکڑا پیر نیچے کر کے ٹٹول رہی تھیں کہ کس چیز پر اور کہاں رکھوں کہ بے پردگی ہونے لگی یعنی ہوا سے چادر اڑ کر کچھ حصہ پوشاک کا کھل گیا۔ اصغر زور سے چلائے ۔ غریب نے گھبرا کر سنبھلنا چاہا کہ پیر کہیںپڑا ۔ ہاتھ سے کھڑکی چھوٹی اور دھم سے نیچے گریں۔ نیچے ٹرنک رکھا گیا تھا۔ جس پر اصغر کھڑے تھے۔ اس کو کونہ کولہے پر اس زور سے لگا کہ بے دم ہی تو ہوگئیں۔ مگر زبان سے اُف تک نہ نکلی۔ ایک تو گرمی کی شدت پھر اس پر کپڑوں کا حبس اور اس پر یہ چوٹ۔ غریب بے ہوش ہو گئیں۔ جوں توں کر کے گھبراہٹ اور جلدی میں چاندنی سے سہارا دے کر اُٹھوایا ۔ کسی دوسرے مرد کی اعانت کے روا دار نہ تھے اور چاندنی میں اتنی قوت نہ تھی۔ نتیجہ یہ کہ بیچاری کو کنکروں پر مردہ کی طرح گھیسٹ کر لے چلے۔ (کیا یہی ہمارے مذہب کی شان ہے۔؟)