تو تب بھی وہ کسی مرد سے اس کے اس کے پیچھے بات نہ کرتیں۔"
ہم نے کہا "تعجب ہے آپ نے اپنے گھر کی عورتوں کو اس درجہ معذور بنا رکھا ہے۔ میری دانست میں ان فرسودہ خیالات کو آپ سے روشن خیال آدمی کو جلد از جلد ترک کر دینا چاہیئے۔ اس پر وہ بولے بندہ پرور میں ایسی روشنی کا قائل نہیں۔ جو مذہب کے خلاف ہو۔ یہ روشنی مصطفی کمال کی بادشاہی کو مبارک ہو۔ یہی باتیں ہوا کیں۔ ایک اسٹیشن پر اصغر نے دیکھا کہ کوئی صاحب کھڑے زنانہ درجہ کی کھڑکیاں کھول رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا فوراََ لپک کر موقعہ پر پہنچے۔ "میں کھڑکیاں بند کرتا ہوںاور آپ ہیںجو کھول دیتے ہیں۔"
"اچھا یہ آپ ہیں۔ میں خود تنگ ہوں کہ بار بار کھولتا ہوں اور آپ بند کر دیتے ہیں۔ مارے گرمی کے عورتوں کا براحال ہے اور آپ کو پردہ کی سوجھی ہے۔ اگر یسا ہی ہے تو آپ اپنی عورتوں کو کسی اور جگہ بٹھائیے۔ ورنہ لے کر ہی کیوںچلے تھے؟ اجنبی نے کہا۔
"مگر میں جناب کو کھڑکیاں نہیںکھولنے دوں گا۔" اصغر نے ایک کھڑکی کو بند کر تے ہوئے کہا۔ "جتنا آپ کو حق ہے اتنا ہی مجھے ہے۔"
"میں حق وق کچھ نہیں جانتا اور کھولوں گا۔ عورتیں نہ ہوئیں جانور ہوگئیں"
"تو کم از کم آپ میری طرف والی کھڑکی رہنے دیجئے۔ " اصغر نے کہا۔
"میں آپ کی اور اپنی کچھ نہیںجانتا۔ میں اس کھڑکی کو تو ضرور کھولوں گا کیونکہ وہی تو ایک ضروری ہے۔" اس ٹرے اور ضدی شخص نے کہا۔
"آپ نہیں مانتے تو میں اسٹیشن ماسٹر سے کہتا ہوں۔ " اصغر نے کہا۔
"آپ لاٹ صاحب سے کہہ دیجئے، جائیے۔"
اسٹیشن ماسٹر اور گارڈ دونوں آئے اور یہ ٹرا اور ضدی شخص جیت گیا۔ گرمی ہی اس شدت کی تھی کہ کھڑکی بند کرنا محال تھا۔ مجبوراََ اصغر پیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔ اور غصہ بیوی پر اس طرح اتارا کہ ان سے کہا کہ برقعہ کے اوپر ایک چادر اور ڈھکر کونے میں ناک لگا کر بیٹھ جاؤ۔ کیا یہیمذہب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصغر صاحب کی مصیبت کا دراصل خاتمہ نہ ہوا تھا۔ بلکہ یہ تو آغاز تھا۔ قدم قدم پر ان کے مذہب اور موجوہ معاشرت کا تصادم ہوتا تھا۔
گاڑی چلتے چلتے آہستہ ہوئی اور رک گئی۔ زنانہ ڈیوڑھے درجہ کے پہیوں کے دھرے بوجہ روغن کی کمی اور گرمی کی شدت کے ٹپ اٹھے تھے اور آگ لگ جانے کا اندیشہ تھا۔ گاڑی جنگل میں رکی ہوئی تھی۔ اور اس کے دھرے پر پانی کا چھڑکا جارہا تھا۔ عورتوں کو جلدی جلدی امارا جارہا تھا۔ اصغر صاحب کی بدحواسی قابل عبرت تھی۔ تمام پردہ کے لوازمات کے ساتھ بیوی کا اتارنا اور اسباب اتروانا ایک مصیبت تھا ۔ یہاںکون تھا جو چادریں تانتا اور کون تھا جو ڈولی لاتا۔ ادھر گارڈ "اترو اترو