پر انہوں نے مفصل طور پر روشنی ڈالی ۔ اور پھر سارا الزام دہی بڑے والے پر رکھا کہ اگر وہ اپنا ہاتھ خواہ مخواہ پاؤں میں حائل نہ کردیتا تو وہ قطعی اس کو پھاند گئے ہوتے۔ غرض خوب جھائیں جھائیں ہونے کے بعد دہی بڑے والا پانچ روپے لے کر ٹلا۔ ریل چلی اور ذرا اطمینان ہوا تو پریشانیوں کی پوری تفصیل سننے میں آئی۔ اب غور سے دیکھتے ہیں تو پتلون کے پائینچوں اور موزوں پر دہی اور سونٹھ کی چٹنی کے جگہ جگہ دھبے تھے۔ لہذا ان کو رومال تر کر کے چھڑانے کی کوشش کر کے خوب پھیلایا۔
ذرا غور سے دیکھئے کہ جتنا اسباب ان کے ساتھ تھا اس سے چوگنا ہمارے ساتھ پاس تھا۔ سفر کرنے والے دو میاں بیوی وہ اور وہی ہم دو میاں بیوی تھے۔ مگر وہ ایک مصیبت میں گرفتار تھے اور ہم آرام سے تھے۔ ان کی بیوی اگر باعثِ مصیبت تھیں تو ہماری بیوری باعث آرام و تفریح۔ اگر وہ واقعی مذہب کے پابند تھے اور ہم اس سے آزاد تھے۔ تو کیا یہ صحیح ہے کہ یہ مذہب اس زمانہ اور معاشرت کے لئے ناموزوں ہے۔ یا ہمارا دعوی کہ ہمارا مذیب دین فطرت ہے، صحیح ہے۔ ذرا پھر سوچئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین چار اسٹیشن بعد اصغر نے اتر کر بیوی کی خبر لی کہ کس حال میں ہیں وہاں دیکھتے کیا ہیں کہ سب کھڑکیاں جو بند کر کے گئے تھے کھلی ہیں۔ فوراََ ان کو چڑھایا۔ بیوی نے یہ خبر وحشت اثر سنائی کہ کوئی شخص کالی اچکن پہنے ان کے چلے جانے کے بعد زنانہ درجہ میں آیا اور ایک قلی پر ان کا ایک ٹرنک دن دہاڑے رکھوا کر چلتا بنا۔