سیدھے پھاٹک کی طرف دوڑے ۔ قلی باہر نکل چکا تھا مگر اب بھی نظر آرہا تھا۔ پھاٹک پر جو کشمکش ہوتی ہے وہ سب جانتے ہیں۔ وہاں کشتم کشتا کر کے کوشش کی کہ باہر نکل جاؤں کہ دہی بڑے والے نے پکڑا۔ اُس سے ہاتھ چھڑاتے ہیں اور اطمینان دلاتے ہیں مگر توبہ کیجئے وہ کاہے کو چھوڑتا ۔ دیکھتا تھا کہ یہ باہر نکلے جارہے ہیں پھر کاہے کو ہاتھ آئیںگے۔ اس کو کیا معلوم کہ یہ کہاں جارہے ہیں ۔ غرض یہاں یہ دہی بڑے والے سے ایسی پکڑ لڑے کہ آخر کو ٹکٹ کلکٹر کی چھاتی پر پہنچے۔ اس نے کہا ٹکٹ! مگر یہاں قلی نکلا جاتا تھا۔ بری طرح پھاند کر زور دے کر نکل گئے اور تڑپ کر قلی کا ہاتھ جا پکڑا۔ اور ادھر ٹکٹ کلکٹر اور ایک سپاہی معہ دہی بڑے والے کے ان پر ٹوٹ پڑے۔ جس کا یہ قلی اور اسباب تھا۔ اس نے کہا۔'یاوحشت حضرت خیر تو ہے؟ سخت شرمندگی ہوئی۔ کیونکہ نہ ان کا قلی تھا اور نہ اسباب۔ ٹکٹ کلکٹر کو اپنی پریشانی مختصر الفاظ میںبتا کر ٹکٹ دیکھا کر بے طرح واپس ہوئے۔ اور دہی بڑے والے سے کہا ذرا دم لے۔ وہاں سے نکل کر جو واپس آئے تو دوسرا قلی بھی غائب ۔ حیران ہو کر پولیس کے دفتر کی طرف جارہے تھے کہ کسی نے کہا صاحب ایسا نہیں ہوسکتا۔ قلی دونوں پالکی کے پاس ہوں گے۔ دوڑ کر پالکی کے پاس پہنچے ۔ وہاں ایک ہی موجود تھا۔ اتنے میں خیال آیا کہ دوسرے قلی نے پوچھا تھا کہ میاں کون سے درجہ میں سامان رکھا جائے گا۔ فوراََ دوڑے ہوئے ہماری طرف آئے اور قلی کو ہمارے ڈبہ کے سامنے کھڑا پایا۔ ان کو اطمینان ہوگیا۔ اور بغیر ہماری بات سنے سیدھے پالکی کی طرف بھاگے۔