ساتھ کہا۔
ہم نے ہنس کر کہا۔ "جی نہیں۔"
"پھر کہاں بٹھایا ہے؟" اصغر نے پوچھا۔
"کہیں نہیں۔ بلکہ انہوں نے مجھے بٹھایا ہے۔"
"معاف کیجئے گا۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں"۔ اصغر نے مذاق سمجھ کر ناپنسدیدگی سے کہا۔
ہم نے ہنس کر کہا۔ "وہ مجھے یہاں بٹھا کر ٹکٹ لینے گئی ہیں۔ "
"ارے! یہ کیا؟"
ہم نے کہا۔ " صاحب وجہ یہ ہے کہ اسباب میرے پاس ضرورت سے زیادہ ہے۔ اُس میں کچھ تو مال گاڑی سے جائے گا اور کچھ سواری گاڑی سے جائے گا۔ پھر اُس میں کچھ ایسا ہے جو بریگ میںدیا جائے گا اور کچھ ساتھ رہے گا۔ میری طبیعت کچھ خراب تھی تو مجبوراََ وہ بیچاری مجھے یہاں آرام سے بٹھا کر ٹکٹ خریدنے اور سب اسباب بُک کرانے گئی ہیں۔ آدھ گھنٹہ سے زائد ہو گیا ہے اور ابھی تک نہیں آئیں۔"
"ارے ! کیا اکیلی گئی ہیں؟" اصغر تعجب سے بولے۔
ہم نے نہایت ہی روکھے منہ سے کہا۔ "جی نہیں بلکہ اُن کےساتھ بکنگ کلرک اور قلی بھی گیا ہے۔"
"خوب، یک نہ شد دو شد۔" اصغر صاحب آنکھیں پھاڑ کر بولے ۔ "تو وہ پردہ کیا بالکل نہیںکرتیں؟"