شرم تم کو مگر نہیں آتی

آج ایک دفعہ پھر حکومت نے ننگی جارحیت اور بدترین ریاستی تشدد کا مظاہرہ کیا جو اس حکومت کی عادت بن چکی ہے جہاں حکومت کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں وہ مخالفین کو دبانے ، ہراساں کرنے اور مارنے پر اتر آتی ہے۔ یہ کام نو مارچ کے بعد چیف جسٹس کی حمایت میں کئی جلسوں میں ہوا ، جیو کے دفتر پر حملہ ہوا ، لاہور ہائی کورٹ پر بکتر بند گاڑیاں چڑھا کر اور آنسو گیس سے ہائیکورٹ کو گھیرے میں لے کر پورا دن ریاستی تشدد ہوتا رہا۔ ١٢ مئی کو چیف جسٹس کراچی گئے تو وہاں ایم کیو ایم اور حکومت نے مل کر ٤٣ لوگوں کے خون سے کراچی کو سرخ کیا اور اسی دن اسلام آباد میں حکومتی اراکین بشمول چوہدری شجاعت ، مشرف رات کو میلہ لگایا ،بھگنڑے ڈلوائے اور کہا کہ عوام نے اپنی طاقت کا اظہار کیا ہے اور کراچی میں بھی عوام نے طاقت دکھائی ہے۔
آج ٢٩ ستمبر کو وکلاء چیف الیکشن کمیشن میں اپنا احتجاج رقم کروانا چاہتے تھے مشرف کے کاغذات نامزدگی کی توثیق پر اور قوم کی مایوسی کی ترجمانی کرنا چاہتے تھے مگر بے حوصلہ اور غنڈہ حکومت سے یہ بھی برداشت نہ ہوا اور آج انہوں نے ایک بار پھر تشدد اور جارحیت کی راہ اپنائی جو اب اس حکومت کی پہچان بن چکا ہے۔ گجرات کے دو غنڈے جو اب وزیر اعلی پنجاب اور مسلم ق کے صدر ہیں انہوں نے سفید لباس میں غنڈے منگوا کر صحافیوں اور وکلا پر وحشتناک تشدد کیا ، اعتزاز احسن اور علی احمد کرد جنہوں نے چیف جسٹس کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا ان دونوں کو بیدردی سے مارا اور وحشت کا یہ شرمناک کھیل کئی صحافیوں کے ساتھ بھی کھیلا۔ پنجاب کے سب سے بڑے غنڈے وزیر اعلی پرویز الہی (سندھ میں عشرت العباد اور دہشت گرد تنظیم ایم کیو ایم کو نافذ کیا ہوا ، بلوچستان اور سرحد میں فوج کو مامور کیا ہے دہشت گردی کے لیے ) نے اپنی فرعونیت دکھاتے ہوئے گاڑی صحافیوں اور وکلا کے ساتھ ٹکرا کر نکلوائی اور ایک بوڑھے کے پاؤں کے اوپر سے رعونت کے ساتھ گاڑی گزار دی۔ اعتزاز اور علی کرد کو خصوصیت

29 صحافی زخمی ہوئے ہیں جن میں ایک ICU میں ہے اور اسے اب تک ہوش نہیں آئی۔

آج ، اے آر وائی ، جیو ٹی وی کی نشریات معطل رہیں۔

حکومت کا نعرہ رہا ہے کہ آزادی اظہار جو پہلے کبھی نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی کبھی کسی ایک دن میں اتنے صحافی اتنی بیدردی سے زود کوب اور پولیس تشدد کا شکار ہوئے۔ لٹا لٹا کر صحافیوں کو مارا گیا ، وزیر اعظم اندر الیکشن کمیشن میں موجود تھے اور بے حمیتی کی تصویر بنے مجرمانہ غفلت برتے رہے۔ کئی صحافیوں کے سر پھٹ گئے ، کئی صحافیوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور کئی بیہوش ہوئے۔
آئی جی صاحب خود مارنے کا کام کر رہے تھے اور باقاعدہ بتا رہے تھے کہ اس صحافی کو مارو ، علی کرد کو مارو ، صحافی اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں انہیں صحیح سبق سکھاؤ۔

آنسو گیس کے تین شیل پھینکے گئے اور بغیر اشتعال کے جس سے بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔

ایک فارن ٹیلی ویژن کے کیمرے کو بھی توڑنے کی کوشش کی گئی ، جس صحافی کا کیمرہ توڑنے کی کوشش کی گئی اس سے جب پوچھا گیا کہ ایسے حالات کا سامنا انہیں دنیا میں اور کہاں کرنا پڑتا ہے تو جو جواب صحافی نے دیا اس کے بعد پاکستان کا جو تاثر ابھرا وہ انتہائی شرمناک تھا۔ صحافی کے مطابق ایسا اب صرف چار جگہ ہوتا ہے

نیپال
برما
مقبوضہ کشمیر
پاکستان

اس میں تین جگہ حالات ایمرجنسی جیسے ہیں اور چوتھا ملک پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شرم اگر ہو حکومت کو تو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر جائے مگر شرم تو انہوں نے بیچ کر کھا لی ہے وہ کہاں سے آئے۔

٢١ صحافی مشرف کے دور میں مارے گئے
١٠٠ واقعات ایسے ہوئے ہیں جن میں صحافیوں کو بری طرح سے مارا گیا ہے ۔

ایسا کبھی ایوب اور ضیا کے گیارہ سالہ دور میں بھی نہیں ہوا۔ خدارا اب جو لوگ یہ کہتے تھکتے نہیں تھے کہ اس گورنمنٹ نے صحافت کو آزادی دی ہے وہ اللہ سے معافی مانگیں اور اپنی اس رائے سے رجوع کرلیں ورنہ قیامت کے دن اللہ کے پاس کیا منہ لے کر جائیں گے۔

مشرف اور تمام حکومتی عہدیدار شرم کرو کچھ شرم کرو آخر یہ اقتدار کا سورج غروب بھی ہونا ہے۔

چیف جسٹس صاحب آپ کہاں سوئے پڑے ہیں ، اعتزاز ، علی کرد وہ لوگ ہیں جنہوں‌ نے دن رات ایک کرکے آپ کو دوبارہ بحال کروایا اور آج ان پر بدترین تشدد ہوا ہے ، آپ کو خبر ہوئی یا آپ بھی کسی مصلحت کا شکار ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ لوگوں نے آپ کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں ، خدارا انصاف کے لیے نہ سہی لوگوں کا احسان اتارنے کے لیے ہی ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیں۔

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
 
محب بھائی جذباتی نہ ہوں۔ قوموں‌کی زندگی میں اس طرح کے وقت اتےہی رہتے ہیں۔ مشرف دوبار یا تبارہ صدر بن جائے گا اگرچہ مجھے پسند ہو کہ نہ ہو۔ اپنے اعمال کا خمیازہ قوموں‌کو بھگتنا پڑتا ہے۔ علی کرد اور دیگر صحافیوں‌کا احتجاج صرف کھسیانی بلی کا کھمبا نوچنا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر سر تسلم خم کیوں نہیں‌کرتے۔
 

ظفری

لائبریرین
مجھے یہ بات ماننے مین ذرا سا بھی تردد نہیں کہ ملک میں آئین کی پاسداری ہمارا سب ست بڑا مسئلہ ہے ۔ جب تک فوج اپنے آئینی کردار تک محدود نہیں ہوتی ۔ اور عوام کو ان کا حقِ حکمرانی لوٹایا نہیں جاتا ۔ ہمیں کسی منزل کا سراغ نہیں مل سکتا ۔ اور یہ کام کسی بابصیرت سیاسی قیادت کے ناممکن ہے ۔ چیف جسٹس کے حوالے سے جس سفر کاآغاز ہوا تھا ۔ اس سفر کو رائیگاں ہونے سے بچانے کے لیئے ضروری ہے کہ اہلِ سیاست میں کوئی ہو جو گروہی سیاست سے بلند تر ہو ۔ اور جس کے پاس ایسی نظر ہو جو مستقبل کی صورت گری کر سکے ۔

سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ جو صدر مشرف کی دوبارہ تقرری سے متعلق ہے ۔ اس کی صدائے بازگشت ہر جگہ سنی جا سکتی ہے ۔ جس کے مظاہرے ہم نے آج دیکھے ہیں اور کل بھی دیکھیں گے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اقتدار پر فائز لوگوں کے بارے میں عدالتیں فیصلے دیتیں رہتیں ہیں ۔ لیکن ان کی زندگی اور سیاسی کردار پر اثرانداز ہونے والے فیصلے وہی ہوتے ہیں ۔ جو عوام اور تاریخ کی عدالتوں میں ہوتے ہیں ۔ یہ فیصلے ان پر بھی اثر ڈالتے ہیں جو ایوانِ اقتدار میں آمدورفت کے لیئے عوامی رائے کا محتاج نہیں ہوتے ۔ اس کی وجہ بڑی واضع ہے ۔ ہر معاملہ صرف عدالتی یا قانونی نہیں‌ ہوتا ۔ وہ ہمہ پہلو ہوتا ہے ۔ معاملات کے اخلاقی ، سماجی اور سیاسی پہلوؤں کو نظر انداز کرنے والے لوگ ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں ۔ انسانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ دیگر پہلوؤں‌کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور یوں تاریخ کے ہاتھوں نظرانداز ہوجاتے ہیں ۔

میری اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ قانونی پہلوؤں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ بلاشبہ ہوتی ہے ۔ اور مہذب معاشروں ‌میں عدالتی فیصلے متعبر ٹہرتے ہیں ۔ صرف قانونی پہلو میں پیش نظر رکھنا ان معاشروں میں غیر حکیمانہ ہے جہاں حکومت سمیت کسی ریاستی ادارے کی اپنی اخلاقی حیثیت متنازعہ اور قوم میں زیرِ بحث ہو ۔ بدقسمتی سے پاکستان کا بھی شمار ایسے ہی معاشرے میں ہوتا ہے ۔ اقتدار کے استحکام کے لیئے صرف مادی قوت ہی کافی نہیں ہوتی ۔ اس کے لیئے اخلاقی وقت کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ موجودہ حکومت بھی اپوزیشن کی اس کمزوری کے باعث اسی مقام پہ کھڑی دکھائی دیتی ہے کہ چونکہ اب اس کو کوئی بڑا سیاسی چیلنج داخلی طور پر درپیش نہیں ہے اس لیئے اس کے لیئے بھی یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے اقدامات کے لیئے اخلاقی جواز کو سامنے رکھے ۔ جو کچھ کل ہوا ۔ وہ بھی اس بڑی خامی کا ایک بڑا مظہر ہے ۔ لہذا ٰ جب ہم کسی کو اس کے آئینی اور قانونی دائرے سے متجاوز قرار دیتے ہیں تو پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارا دامن اس الزام سے کتنا پاک ہے ۔ بصورت دیگر ہم مقدمہ قائم کرتے وقت اخلاقی قوت سے محروم ہوتے ہیں ۔ دوستوں کے اندازِ فکر میں وہی خرابی ہے کہ وہ معاملے کو ایک ہی پہلو سے دیکھ رہا ہے ۔ تاریخ ایک ہمہ جہتی عمل ہے ۔ اور یک رخے پن کا شکار ہونا بلآخر کسی خسارے کا ضامن ہونا ہے ۔
 
محب بھائی جذباتی نہ ہوں۔ قوموں‌کی زندگی میں اس طرح کے وقت اتےہی رہتے ہیں۔ مشرف دوبار یا تبارہ صدر بن جائے گا اگرچہ مجھے پسند ہو کہ نہ ہو۔ اپنے اعمال کا خمیازہ قوموں‌کو بھگتنا پڑتا ہے۔ علی کرد اور دیگر صحافیوں‌کا احتجاج صرف کھسیانی بلی کا کھمبا نوچنا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر سر تسلم خم کیوں نہیں‌کرتے۔

ہمت علی اگر لا تعلقی اور بے حسی ہی وقت کی ضرورت ہے تو میں کم از کم یہ نہیں کر سکتا۔ آپ لوگ دور ہیں آپ لوگوں نے شاید کل کا شرمناک کھیل نہیں دیکھا ، جس بری طرح لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے بغیر کسی وجہ کے اس کے بعد بھی غیر جذباتی رہنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ 60 سے زائد وکلا اور صحافی پمز ہسپتال میں داخل ہیں اور حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا ہے صرف طارق عظیم اور فاروق ستار پر تشدد کے حوالے سے اور اس سلسلے میں سات ایف آئی آر کٹوائی ہیں اسلام آباد میں وکلا اور صحافیوں پر یعنی انسان صرف حکومتی عہدیدار ہیں باقی سب مجرم ہیں اور انسانیت کے شرف سے ہی محروم ہیں۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کیا یہ دیکھا ہے آپ نے اور اس پر غور کیا ہے باقی عزت مآب ججوں کا تجزیہ سنا ہے آپ نے ، تمام ملک کے دانشوروں کے تجزیے سنے ہیں آپ نے ۔ صرف حکومتی عہدیداروں کی طرح یہ کہہ دینا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو پوری طرح سے تسلیم کرنا چاہیے کیا معنی رکھتا ہے ، کیا سپریم کورٹ‌ کے فیصلے پر تنقید نہیں کی جا سکتی کیا اس فیصلے کے خلاف رجوع نہیں کیا جا سکتا ، یہ فیصلہ لارجر بنچ کا ہے ابھی فل کورٹ تشکیل دے کر دوبارہ اس پر نظر ثانی ہو سکتی ہے تو پھر پہلے ہی شکست خوردہ کس وجہ سے ہوا جائے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کرتے کرتے تو آج یہ حالت ہوگئی کہ جو فوجی آمر آتا ہے اپنے لیے سپریم کورٹ سے ایک پروانہ لے آتا ہے اور سب چپ چاپ مان لیتے ہیں چاہے آئین کے ساتھ مذاق ہی کیوں نہ کیا جا رہا ہو۔
میں پاکستان کا شہری ہوں ، میرا حکومت اور ریاست کے ساتھ معاہدہ ہے آئین پاکستان کی صورت میں جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کوئی سرکاری افسر الیکشن نہیں لڑ سکتا اور یہ خلاف آئین ہے ۔ اگر میں اپنے اس معاہدے کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ کا در کھٹکھٹاتا ہوں اور وہاں سے مجھے دو ہفتوں بعد یہ مژدہ سنا دیا جاتا ہے کہ آپ کی درخواست قابل سماعت ہی نہیں تو میں کہاں جاؤں ، مجھے بتائیں آپ ، کیا میں اس پر الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کرنے کے حق سے بھی چلا گیا جب کہ اسی سپریم کورٹ کا حکم تھا کہ الیکشن کمیشن کے گرد رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں اور لوگوں کی آمد و رفت میں مسائل پیدا نہ کیے جائیں۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہے ، یہ دیکھا اور پڑھا ہے آپ نے۔ فیصلہ صرف یہ ہے کہ یہ درخواست تکنیکی بنیادوں پر قابل سماعت نہیں اس میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ صدر مشرف الیکشن دوبارہ لڑ سکتے ہیں یا کوئی سرکاری افسر اس کا اہل ہے کہ وہ صدر کا الیکشن لڑ سکے۔ اس پر تمام نیک نام اور اچھی شہرت رکھنے والے جسٹس صاحبان کی رائے دیکھ لیں۔

جسٹس وجیہ الدین : یہ ایک عجیب فیصلہ ہے ، ہم فیصلہ پر تعمیری تنقید کر سکتے ہیں تاکہ عدالتیں اور جج آئیندہ غلطیاں نہ دہرائیں۔
جسٹس سعیدالزماں صدیقی : میری نظر میں ایسا فیصلہ کبھی نہیں گزرا جس میں دو ہفتوں تک سماعت کے بعد یہ کہا گیا ہو کہ یہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر قابل سماعت نہیں۔
جسٹس فخر الدین ابراہیم : نہ کوئی جیتا نہ ہارا ، کوئی فیصلہ ہی نہیں ہوا۔ اتنی دیر کس وجہ سے لی گئی اگر یہی فیصلہ دینا تھا۔

یہ تو جسٹس صاحبان کی رائے ہے ، آپ وکلا ، دانشوروں کی رائے دیکھ لیں اور جدوجہد اب بھی نہیں ہوئی تو کب ہوگی ، ساٹھ سال چپ رہ کر ملک کی کیا حالت ہوگئی کیا ابھی مزید چپ رہنے کی گنجائش ہے ، کیا ابھی اور ظلم سہنے کی طاقت بچی ہے۔ اگر خود میدان میں نہیں نکلے تو جو اس میدان میں آپ کی لڑائی لڑ‌رہے ہیں کم از کم ان کا ساتھ دے کر انہیں مضبوط تو کریں۔


ظلم سہنا بھی تو ظالم کی پذیرائی ہے
 
زندگی میں بہت کم مواقع ایسے آئے ہیں کہ میری زبان گنگ ہوئی ہے۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا ہی وقت ہے۔ لاقانونیت کی انتہا، بناء کسی مقصد۔۔۔ کمنٹس کرنے سے قاصر ہوں۔
 

حسن علوی

محفلین
محب آپ نے بجا طور پر میرے خیالات کی بھی ترجمانی کر ڈالی۔ سو فیصدی درست اور حقیقت پر مبنی باتیں بیان کیں آپ نے۔

ہوتا ھے شب و روز تماشہ میرے آگے
 

ابوشامل

محفلین
یقین کیجیے کل کے اسلام آباد نے تو کراچی کے 12 مئی کی یاد تازہ کرتی، جس ننگی جارحیت کا مظاہرہ کیا گیا اس سے صاف ظاہر تھا کہ احکامات کہیں "اوپر" سے ہیں۔ خصوصا صحافیوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا وہ اس بات کا شاہد ہے کہ چند روز قبل جو اشتہارات اخبارات میں شائع ہوئے وہ سب ڈھونگ تھے جن میں سرخی یہ تھی "اظہار رائے کی آزادی، پہلے تو ایسی نہ تھی" اور واقعی اظہار رائے کی آزادی پہلے ایسی نہ تھی۔
 
زندگی میں بہت کم مواقع ایسے آئے ہیں کہ میری زبان گنگ ہوئی ہے۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا ہی وقت ہے۔ لاقانونیت کی انتہا، بناء کسی مقصد۔۔۔ کمنٹس کرنے سے قاصر ہوں۔

فاروق واقعی لکھنا بڑا مشکل ہے اور سمجھ نہیں آتا کہ اس لاقانونیت اور بربریت کی مذمت کس طرح سخت سے سخت الفاظ‌ میں کی جائے۔
 
محب آپ نے بجا طور پر میرے خیالات کی بھی ترجمانی کر ڈالی۔ سو فیصدی درست اور حقیقت پر مبنی باتیں بیان کیں آپ نے۔

ہوتا ھے شب و روز تماشہ میرے آگے

جو اپنی آنکھوں سے ٹی وی پر دیکھا وہ تفصیل سے لکھو تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ یہ حکومت کس قدر وحشی اور درندہ صفت ہے۔
 
یقین کیجیے کل کے اسلام آباد نے تو کراچی کے 12 مئی کی یاد تازہ کرتی، جس ننگی جارحیت کا مظاہرہ کیا گیا اس سے صاف ظاہر تھا کہ احکامات کہیں "اوپر" سے ہیں۔ خصوصا صحافیوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا وہ اس بات کا شاہد ہے کہ چند روز قبل جو اشتہارات اخبارات میں شائع ہوئے وہ سب ڈھونگ تھے جن میں سرخی یہ تھی "اظہار رائے کی آزادی، پہلے تو ایسی نہ تھی" اور واقعی اظہار رائے کی آزادی پہلے ایسی نہ تھی۔

بالکل صحیح کہا ہے۔ پنجاب سے آئی جی دو دن قبل ہی منگوایا گیا خاص اس کام کے لیے کہ وکلا اور صحافیوں کو سبق سکھایا جائے، آگے الیکشن بھی آنے ہیں انہیں سیدھا کرکے رکھا جائے۔
 

حسن علوی

محفلین
کچھ حال اس کا بھی

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باہر ہونے والے ہنگامے میں پولیس نے صحافیوں اور وکلاء کو تشدد کا نشانہ بنایا اور مشرف صاحب نے ایک Enlightened Moderate Pakistan کا امیج پیش کیا، ذرا ملاحظہ ہو:

[ame="http://www.youtube.com/watch?v=Il1Fk0ujHNw"]http://www.youtube.com/watch?v=Il1Fk0ujHNw[/ame]

فیصلہ آپ خود کیجیئے
 

فرضی

محفلین
چیف جسٹس صاحب آپ کہاں سوئے پڑے ہیں ، اعتزاز ، علی کرد وہ لوگ ہیں جنہوں‌ نے دن رات ایک کرکے آپ کو دوبارہ بحال کروایا اور آج ان پر بدترین تشدد ہوا ہے ، آپ کو خبر ہوئی یا آپ بھی کسی مصلحت کا شکار ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ لوگوں نے آپ کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں ، خدارا انصاف کے لیے نہ سہی لوگوں کا احسان اتارنے کے لیے ہی ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے سنیچر کو اسلام آباد میں وکلاء ، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اتوار کو متعلقہ سرکاری افسران اور اداروں کے سربراہوں کو نوٹس جاری کیے ہیں۔

مکمل خبر بی بی سی اردو
 
محب چند سرپٹھول کا مجھے بھی افسوس ہے۔
بے حسی کی کیفیت تو پہلے سے ہی قوم پر طاری ہے۔ بے دریغ قتل پر قوم نجات کی خوشی مناتی رہی۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے (بی بی سی)۔ اور بھی بہت کچھ ہے۔ اس وقت چونکہ حالات حق میں‌تھے لہذا قوم خوشیاں مناتی رہی۔ کبھی کہتی رہی پاکستان بچ گیا۔ کبھی "جناح پور" کی سازش دکھائی دی۔
یہ سب تو قوم کی تنزلی کی ڈھلوان ہے اور ابھی اس ڈھلوان کی نچلی سرحد نہیں ائی ہے۔
 
ہمت علی اگر قوم پہلے بے حس رہی کسی موقع پر تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہر بار اس پرانی بے حسی کو مثال بنا کر بے حس ہی رہا جائے۔ پہلے میڈیا کے نہ ہونے سے بہت سے واقعات کی تو خبر ہی نہ ہوئی اور لوگوں کو پتہ ہی نہ چلتا تھا اب تو تمام چینلز اس کی کوریج کر رہے ہیں اور وہ مناظر ٹی وی پر براہ راست دکھائے گئے ہیں جس کے بعد کسی ابہام کی گنجائش ہی نہیں رہتی ہے۔
یہ تو حکومت کا وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو بنیاد بنا کر اپنی سیاہ کاریوں کو چھپایا کرتی ہے ، دوسرے الفاظ‌ میں وہ یہ مانتی ہے کہ وہ بھی ویسی ہی بد طینت اور سیاہ کردار کی مالک ہے جیسی پچھلی حکومتیں تھیں۔ افسوس کے ساتھ ساتھ سخت مذمت کی ضرورت ہے ورنہ اور کہیں نہیں تو کم از کم اپنے ضمیر کے سامنے آپ سرخرو نہ ہو سکیں گے۔
 
سخت مذمت کرنے میں مجھے تو کوئی عار نہیں۔ شاید اپ کو غلطی پڑ گئی ہے کہ مجھے مشرف بہت پسند ہے۔ حقیقت کا بیان الگ چیز ہے اور پسند نا پسند الگ۔
ایے مل کر مشرف کی حکومت کی مذمت کرتے ہیں۔
ائیے مشرف کی بلوچستان، قبائیلی علاقوں اور دیگر جگہ فوجی کاروائیوں‌کی (بشمول لال مسجد) مذمت کرتے ہیں۔
ائیے کچھ اور مذمتیں بھی کرتے ہیں۔جن کا قرض اب تک ہم پر ہے۔
لیاقت علی خان کے قتل کی مذمت کرتے ہیں۔
پاکستان کی ائین کے تمام توڑنے والوں‌کی مذمت کرتے ہیں۔
ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ کی مذمت کرتے ہیں۔
جنرل ٹکا خان کی دھشت گردیوں‌کی مذمت کرتے ہیں
بنگلہ دیش میں‌پاکستانی فوج کے قتل و ریپ کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔
بنگالی دانشوروں‌کے اجتماعی قتل کی مذمت کرتے ہیں۔
K_0261A.JPG

جنرل نیازی ویحییٰ کی مذمت کرتے ہیں
1973 کی ائین توڑنے والے ظالم جنرل ضیا کی مذمت کرتے ہیں۔
ضیا نے جو قتل سندھ میں ایم ارڈی کی تحریک کے دوران کیے اس کی مذمت کرتے ہیں۔
ًمحصورین پاکستان کو بنگلہ دیش کے پاکستان نہ لانے کی مذمت کرتے ہیں
کراچی میں‌ قتل عام کی مذمت کرتے ہیں
ائیے آمروں‌کے ہر کالے اقدام کی مذمت کرتے ہیں

ویسے یہ لکھ کر کہ اب میڈیا سب کچھ دکھا رہا ہے یہ تو مان ہی لیا کہ اظہار رائے اور میڈیا کو ازادی مشرف کی دور میں ہی ملی ہے۔
 
Top