شرح دیوانِ غالب نظم طباطبائی

الف عین

لائبریرین
نظمؔ طباطبائی ۔ایک تعارف
ردیف ۔(ا )
ردیف ( ب )
ردیف ( ت )
ردیف ( ج )
ردیف (چ) جیم فارسی
ردیف ( د )
ردیف ( ر )
ردیف ( ز )
ردیف ( س )
ردیف ( ش )
ردیف ( ع )
ردیف ( ف )
ردیف ( ک )
ردیف ( گ )
ردیف ( ل )
ردیف ( م )
ردیف ( ن )
ردیف ( و )
ردیف ( ہ )
ردیف ( ی )

 

الف عین

لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نظمؔ طباطبائی ۔ایک تعارف

سید محمد حسین محسن حیدرآبادی​



جناب نظمؔ طباطبائی کی عظیم المرتبت اور بھاری بھر کم شخصیت دنیائے ادب اور خاص کر اہل حیدرآباد کیلئے محتاج تعارف نہیں ہے ۔ یہ وہ صاحب قلم ہیں جنہوں نے اردو کو نہایت متین اور عالمانہ گفتگو سے نہ صرف روشناس کرایا بلکہ ایسے اصول و ضوابط و ضع کئے کہ ہر قسم کے دقیق اور جدید سائنسی مضامین ادب کی چاشنی کے ساتھ با آسانی تحریر کئے جاسکتے ہیں ۔نظمؔ طباطبائی حیدرآباد کے دارالترجمہ اور مجلس وضع اصطلاحات کے قیام کے روز اول سے تاحیات وابستہ رہے اور دارالترجمہ کے ناظر ادبی کی حیثیت سے دیکھئے تو کوئی کتاب ایسی نہ تھی جس کے ترجمہ ہونے کے بعد اس کے ہر ہر لفظ کو اور جملوں کی ساخت کو انہوں نے دیکھا اور پرکھا نہ ہو ۔ یوں سمجھئے کہ جامعہ عثمانیہ کے اردو میں تمام تدریسی مواد کی صحتِ زبان پر نظمؔ طباطبائی کی مہر تصدیق ثبت تھی ۔ ان کی اسکریننگ کے بعد ہی کوئی ترجمہ لائق طباعت و اشاعت سمجھا جاتا تھا ۔نقد و نظر ‘ شاعری ‘ نثر نگاری ‘ ترجمہ ‘ قواعد ‘ عروض ‘ ضائع بدائع یا اور کوئی شعبہ زبان ایسا نہ تھا جس میں نظم ؔ صاحب کا اجتہاد داخل نہ ہو ۔ ان کے زبان سے متعلق کسی بھی فیصلے کو ادبیات کی دنیا میں کسی کی جرات نہیں تھی کہ اس کی تردید کرتا یا اس کے بر خلاف رائے دیتا ۔ ہماری زبان میں جناب نظمؔ طباطبائی ایک طرح سے مجتہد جامع الشرائظ تھے ۔ جناب نظمؔ طباطبائی کا سلسلہ نسب حسنی سادات سے ملتا ہے ۔ امام حسن ؑ کے پوتے جناب اسمعٰیل تھے جن کا لقب ’’طبا طبا‘‘ تھا اس لئے یہ سلسلہ طباطبائی کے نام سے موسوم ہے ۔ ان کے اجداد ایران سے ہندوستان آئے اور لکھنؤ میں آکر آباد ہوئے ۔ ان کی والدہ نواب معتمد الدولہ سید محمد خان عرف آغا میر کے خاندان کی تھیں اور ان کے والد سید مصطفےٰ حسین دربار اودھ سے وابستہ تھے ۔ 18نومبر 1853ء کو محلہ حیدرگنج قدیم میں بروز جمعہ نظمؔ طباطبائی پیدا ہوئے ۔ سید علی حیدر نام تھا۔ کبھی نظمؔ اور کبھی حیدرؔ تخلص کرتے تھے ۔ علم و فضل میں یہ خاندان لکھنؤ میں مشہور تھا ۔ نظمؔ صاحب کی تعلیم ایک مکتب میں ہوئی جہاں ملاباقر جیسے عالم ان کو پڑھاتے تھے عربی ادب اور فقہ میں استعداد علمی کا آغاز انہیں بزرگ اساتذہ کی بدولت ہوا ۔ فارسی اور علم عروض کی تعلیم انہوں نے میندولال رازؔ سے حاصل کی ۔ 1868ء میں پندرہ برس کی عمر میں یہ اپنی والدہ کے ساتھ مٹیا برج (کلکتہ ) چلے آئے جہاں واجد علی شاہ کی بدولت ایک چھوٹا لکھنؤ آباد ہوگیا تھا ۔ یہاں مولانا محمد علی مجتہد العصر سے درسِ نظامی منطق اور فلسفہ پڑھا اور اس طرح اپنی تعلیم مکمل کی ۔ پھر وہ مٹیا برج میں ہی واقع شہزادگانِ اودھ کے لئے قائم کردہ مدرسہ میں ملازم ہوگئے ۔ مدرسہ کے انگریزی کے استاذ محمد عسکری سے انہوں نے انگریزی زبان سیکھی اور اسکے بدلے عسکری صاحب کو عربی پڑھائی ۔واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد مدرسہ ٹوٹ گیا تو ان کا ذریعہ معاش ختم ہوگیا ۔ پھر مولوی سید افضل حسین لکھنؤی ‘ چیف جسٹس حیدرآباد کی دعوت پر 1887ء میں نظمؔ صاحب حیدرآباد آگئے ۔ افضل حسین صاحب سے ان کی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ اس سے قبل تفریحاً حیدرآباد آئے تھے ۔ کسی مستقل معاشی وسیلہ کے فراہم ہونے تک افضل حسین صاحب نے اپنے فرزند آغا سید حسین کی اتالیقی ان کے سپرد کی ۔ 1889ء میں نواب عمادالملک سید حسین بلگرامی نے جو ناظم تعلیمات تھے نظمؔ صاحب کو مدرسہ اعزہ میں عربی کا استاد مقرر کردیا ۔ 1890ء میں کتب خانہ آصفیہ کے پہلے مہتمم بنائے گئے ۔ اس کی تنظیم اور توسیع میں نظمؔ صاحب نے بڑی دلچسپی لی ۔ اس وقت یہ کتب خانہ اس جگہ تھا جہاں پر اب صدرٹپہ خانہ عابد روڈ سرکل پر ہے ۔ اسکے بعد مدرسہ عالیہ میں عربی فارسی کے استاد کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا ۔پھر ان کا تبادلہ نظام کالج کردیا گیا جہاں پہلے عربی اور فارسی پڑھاتے رہے پھر اردو کے پروفیسر بنادئے گئے ۔ 1912ء میں ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ تک شہزادگان آصفیہ کے اتالیق رہے پھر نظام سابع کے حکم سے 1918ء نظمؔ صاحب کو صرفِ خاص مبارک سے جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ منتقل کردیا ۔ یہاں پر ان کی تدریسی مشغولیات ختم ہوئیں اور علمی اور ادبی تحقیقات کی زندگی کا آغاز ہوا ۔ 1921ء میں وظیفہ پر علحدہ ہونے کے بعد ان کو دوبارہ ملازمت پر بلالیا گیا کیونکہ ان کے بغیر بہت سے کام رک گئے تھے۔ ملازمت کا یہ سلسلہ ان کے انتقال 1933ء تک جاری رہا ۔ سرکاری وظیفہ کے علاوہ ان کو دارالترجمہ کی خدمت اور تاریخ طبری کے اردو ترجمے پر انعام واکرام سے نوازا گیا تھا ۔ 1927ء کو انہیں سرکار نظام کی طرف سے حیدریارجنگ کا خطاب عطا کیا گیا ہے ۔ شاعری میں انکے شاگردوں میں سلطنت اودھ اور سلطنت آصفیہ کے شہزادگان کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو دنیائے ادب میں نامور ہوئے ۔ مرزا آسمان جاہ انجم ‘ پرنس جہاں قدرنیر (داماد واجد علی شاہ )‘ عبدالحلیم شرر ‘ پنڈت رتن ناتھ سرشارؔ‘ منشی فیاض الدین فیاض ؔ ‘ سید غلام مصطفےٰ ذہین ‘ سید ناظر حسین ہوش بلگرامی ‘ مہاراجہ کرشن پرشاد، نواب تراب یارجنگ سعید، حکیم محمد عابد غیور ؔ ، شہید یارجنگ شہید، اصغر یارجنگ اصغر ؔ اور میرے والد سید علی محمد اجلال ۔ یہ نسبت دیگر ماہرین زبان کے نظمؔصاحب کی شہرت یوں عام نہیں ہے ان کے رشحاتِ قلم اتنے بلند ہیں کہ ان کو پڑھنے والا اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے گھبراتا ہے اور اس لئے صرف نظر کرلیتا ہے ۔ جب نظمؔ صاحب نے دیوان غالبؔ کی شرح اعلیٰ جماعتوں میں پڑھنے والے اور ریسرچ کے طالب علموں کی مدد کے لئے لکھی تو عام ادیبوں نے یہ اعتراض کیا کہ یہ شرح ایسی ہے جس کیلئے ایک اور شرح کی ضرورت ہے ۔ یہ بالواسطہ اعتراف کم علمی تھا ۔ یہ نظم ؔ طباطبائی کی ہی جلالتِ علمی تھی کہ انہوں نے غالب کے ہر شعر پرنگاہ ڈالی اور اسکے محاسن اور معائب پر بے لاگ تبصرہ کیا اور جو فیصلہ انہوں نے سنادیا وہ آج تک حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ شرح عوام کے لئے نہیں لکھی گئی تھی ۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو غالب کا کلام باوجود شہرت کے جس قدر عام آدمی کے لئے ہے وہ صرف چند ہی اشعار پر مشتمل ہے ۔ غالب کے کلام کے دیگر شارحین نے نظمؔ صاحب کی شرح کو ہی پیش نظر رکھا ہے یا ان ہی کے اشارات کو تفصیل یا اجمال یا تکرار سے بیان کیا ہے ۔ اور اختلاف وہاں کیا ہے جہاں انہوں نے غالب ؔ کے خلاف لکھا ہے ۔ غالب ؔ کے بعد شاعری میں جو تجربے کئے گئے وہ موضوع کے اعتبار سے تھے جس میں ردیف ‘ قافیہ ‘ اور بحر کی ساری رائج الوقت پابندیاں سامنے رکھی گئی تھیں لیکن نظم ؔ صاحب نے یہ اجتہاد کیا کہ نظمؔ اور شعر کی ’’ہئیت ‘‘ میں نئے نئے تجربات کئے ۔ غزل ‘ مثنوی ‘ رباعی وغیرہ کی عام ہئیت سے ہٹ کر انہوں نے اردو میں اسٹینز (stanza) کو رائج کیا اور انگریزی ساخت کی نظمیں لکھیں جو ایک بالکل نئی چیز تھی ۔ انہوں نے انگریزی منظومات کے اردو منظومات میں انگریزی نہج پر ترجمے کئے اور ایک نئی بات یہ کی کہ ردیف اور قافیہ انگریزی اصولوں کی بناء پر متعین کئے ۔ نظمؔ صاحب کے بعد ہی اردو میں اسٹینزا نویسی کا آغاز ہوا ۔ نظمؔ طباطبائی کے انگریزی منظومات سے کئے گئے یوں تو بہت سے ترجمے اردو میں موجود ہیں لیکن جو مرتبہ انگلستان کے نامی شاعر طامس گرے کی ایلیجی Elegyکے ترجمہ ’’گورغریباں ‘‘ کو حاصل ہے اس درجہ کو آج تک کوئی نہ پہنچ سکا ۔ ’’گورغیرباں ‘‘ کی کامیابی کا رازیہ ہے کہ نظمؔ صاحب نے مفہوم کا ترجمہ کیا ہے اور اردو زبان کے اسلوب اور مقامی اسلوب اور مقامی ماحول کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے ۔ یہ لفظی ترجمہ نہ ہونے کے باوجود ایلیجی کی تمام خوبیاں موجود ہیں ۔ اگر اس کے لئے لفظ ترجمہ استعمال نہ کیا جائے تو یہ کلاسکی ادب اردو کی بلند پایہ منظومات میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ بقول پروفیسر سروری کے یہ ان چند ترجموں میں سے ایک ہے جو اصل سے بڑھ گئے ہیں ۔ اس ساری نظم میں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے ہیں ۔ اس ساری نظم میں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے کہ عروسِ شاعری کا حسن دمک اٹھا ہے ۔ یہ نظمؔ اس طرح شروع ہوتی ہے ۔!
وداع روز روشن ہے گجر شام غریباں کا
چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے
قدم کس شوق سے گھر کی طرف اٹھتا ہے دہقاں کا
یہ ویرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے
چونکہ یہ ایک مرثیہ کا ابتدائی بند ہے اسلئے اگر آپ اسکی لفظیات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ الفاظ وداع ،شامِ غریباں ، بے زبانی ، ویرانہ وغیرہ ایسے ہیں جو نوحہ گری کا ماحول پیدا کررہے ہیں اس کے علاوہ بحر میں بھی ایک دھیمے قسم کا سوز پایا جاتا ہے ۔ یہی تاثرات کم و بیش آخر تک موجود ہیں ۔ اس مختصر مضمون میں تحسین کی زیادہ گنجائش نہیں ہے صرف ایک بند کی طرف توجہ دلانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا بے نام،غریب اور معصوم زندگی جی کر گاؤں کے قبرستان میں دفن ہوجانے والوں کے لئے کتنی خوبصورت تشبیہیں استعمال کی گئی ہیں ۔
بہت سے گوہر شہوار باقی رہ گئے ہونگے
کہ جن کی خوبیاں سب مٹ گئیں تہہ میں سمندر کی
ہزاروں پھول دشت و در میں ایسے بھی کھلے ہونگے
کہ جن کے مسکرانے میں ہے، خوشبو مشک اذفر کی
(ازفر۔ تیز خوشبو )
طباطبائی کی شعری تخلیقات صرف دو ۔ دو ادین کی صورت میں ہیں ۔ ایک دیوان قصائد اور منظومات کا ہے جو ’’ نظمؔ طباطبائی ‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور دوسرا دیوان ’’صوتِ تغزل‘‘ ہے ۔ غزلیں ساری فرمائشی ہیں یا کسی مصرعہ طرح پر ہیں ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ارادے سے کبھی کوئی غزل نہیں کہی ۔ ان کے کچھ اشعاریہ ہیں ۔
عبث ہے آپ کی تغیر حال کا رونا
جناب نظمؔ رہی ایک سدا کس کی
اے صبا ! تذکرہ وطن کا نہ کر
رہنے والے ہیں دشتِ غربت کے
آدمی آدمی کے کام آئے
یہی معنی ہے آدمیت کے
تقدیر کے لکھے کو نہ ہرگز برا سمجھ
لغزش محال ہے قلم کارساز میں
نظمؔ صاحب دراز قد ‘ کسی قدر مٹانے کی طرف مائل جسم ‘کتابی چہرہ ‘ بھرے بھرے گال ‘ گھنی داڑھی اونچی ناک ‘ غلافی آنکھیں (مطالعہ کی کثرت کی وجہ سے آنکھوں کے پپوٹے ڈھلک گئے تھے ) اور سرخ و سفید رنگ کے مالک تھے ۔ شیر وانی زیب تن کرتے تھے ۔ کبھی ایرانی کبھی ترکی ٹوپی پہنتے تھے ۔ آصف جاہی دربار میں ان پر درباری لباس کی پابندی نہیں تھی ۔1928ء میں رفیقہ حیات کے انتقال کے بعد ان کی عام تندرستی بہت خراب ہوگئی مگر ان کی مصروفیات میں کوئی خلل نہیں آسکا چنانچہ انتقال سے دودن قبل تک وضع اصطلاحات کی مجلس میں شریک رہے ۔ 23مئی 1933ء بروز سہ شنبہ داعی اجل کو لبیک کہا ۔ باغ مرلی دھر کے عقب میں تکیہ موسیٰ شاہ قادری میں مدفون ہوئے ۔ ان کے مدفن پر جوکتبہ لگا ہے اس پر ان کا یہ شعر کندہ ہے ۔
مل گئی قبر کی جگہ اے نظمؔ
ہوگئی ختم عمر بھر کی تلاش
اور اسی لوح کی دوسری طرف ’’گور غریباں ‘‘ کے آخری بنددرج ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ طامس گرے کے مزار پر بھی یہی اشعار انگریزی میں تحریر ہیں ۔ سچ ہے کہ غم ہستی کے افسانے میں ساری انسانیت شریک ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
ردیف ۔ (ا)

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِتصویر کا
مصنف مرحوم ایک خط میں خود اس مطلع کے معنی بیان کرتے ہیں کہتے ہیں ، ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا ، پس شاعر خیال کرتا ہے کہ نقش کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِتصویر ہے ، اُس کا پیرہن کاغذی ہے ، یعنی ہستی اگرچہ مثل ہستی تصاویر اعتبار محض ہو موجب رنج و ملال و آزار ہے ، غرض مصنف کی یہ ہے کہ ہستی میں مبداء حقیقی سے جدائی و غیریت ہو جاتی ہے اور اس معشوق کی مفارقت ایسی شاق ہے کہ نقش تصویر تک اُس کا فریادی ہے اور پھر تصویر کی ہستی کوئی ہستی نہیں ، مگر فنا فی اللہ ہونے کی اُسے بھی آرزو ہے کہ اپنی ہستی سے نالاں ہے ، کاغذی پیرہن فریادی سے کنایہ فارسی میں بھی ہے اور اُردو میں ، میر ممنونؔ کے کلام میں اور مومنؔ خاں کے کلام میں بھی میں نے دیکھا ہے ، مگر مصنف کا یہ کہنا کہ ایران میں رسم ہے کہ دادخواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، میں نے یہ ذکر نہ کہیں دیکھا نہ سنا ، اس شعر میں جب تک کوئی ایسا لفظ نہ ہو جس سے فنا فی اللہ ہونے کا شوق اور ہستی اعتباری سے نفرت ظاہر ہو اس وقت تک اسے بامعنی نہیں کہہ سکتے ، کوئی جان بوجھ کر تو بے معنی کہتا نہیں یہی ہوتا ہے کہ وزن و قافیہ کی تنگی سے بعض بعض ضروری لفظوں کی گنجائش نہ ہوئی اور شاعر سمجھا کہ مطلب ادا ہو گیا تو جتنے معنی کہ شاعر کے ذہن میں رہ گئے ، اسی کو المعنی فی بطن الشاعر کہنا چاہئے ، اس شعر میں مصنف کی غرض یہ تھی کہ نقش تصویر فریادی ہے ، ہستی بے اعتبار و بے توقیر کا اور یہی سبب ہے کاغذی پیرہن ہونے کا ہستی بے اعتبار کی گنجائش نہ ہوسکی اس سبب سے کہ قافیہ مزاحم تھا اور مقصود تھا مطلع کہنا ہستی کے بدلے شوخی تحریر کہہ دیا اور اس سے کوئی قرینہ ہستی کے حذف پر نہیں پیدا ہوا آخر خود ان کے منہ پر لوگوں نے کہہ دیا کہ شعر بے معنی ہے ۔
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
کاوِ کاوِ کھودنا اور کریدنا مطلب یہ ہے کہ تنہائی و فراق میں سخت جانی کے چلتے اور دم نہ نکلنے کے ہاتھوں جیسی جیسی کاوشیں اور کاہشیں مجھ پر گذر جاتی ہیں اُسے کچھ نہ پوچھ رات کا کاٹنا اور صبح کرنا جوئے شیر کے لانے سے کم نہیں یعنی جس طرح جوئے شیر لانا فرہاد کے لئے دُشوار کام تھا
اسی طرح صبح کرنا مجھے بہت ہی دُشوار ہے ۔ اس شعر میں شاعر نے اپنے تئیں کوہکن اور اپنی سخت جانی شب ہجر کو کوہ اور سپیدۂ صبح کو جوئے شیر سے تشبیہ دی ہے ۔
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہئے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
دم کے معنی سانس اور باڑھ اور یہاں دونوں معنی تعلق و مناسبت رکھتے ہیں کہ سینۂ شمشیر کہا ہے ، مطلب یہ ہے کہ میرے اشتیاق قتل میں ایسا جذب و کشش ہے کہ تلوار کے سینہ سے اس کا دم باہر کھینچ آیا ۔
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
یعنی میری تقریر کو جس قدر جی چاہے سنو ، اُس کے مطلب کو پہنچنا محال ہے ، اگر شوق آگہی نے صیاد بن کر شنیدن کا جال بچھایا بھی تو کیا ، میری تقریر کا مطلب طائر عنقا ہے جو کبھی اسیر دام نہیں ہونے کا غرض یہ ہے کہ میرے اشعار سراسر اسرار ہیں ۔
بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
مضطرب اور بے تاب کو آتش زیرپا کہتے ہیں اور آتش جب دیرپا ہوئی تو زنجیرپا گویا موئے آتش دیدہ ہے اور یہ معلوم ہے کہ بال آگ کو دیکھ کر پیچ دار ہو جاتا ہے اور حلقۂ زنجیر کی سی ہیئت پیدا کرتا ہے ۔
_______
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغِ جگر ہدیہ
مبارکباد اسدؔ غم خوارِ جانِ دردمند آیا
مشہور ہے کہ الماس کے کھالینے سے دل و جگر زخمی ہو جاتے ہیں تو جو شخص کہ زخم دل و جگر کا شائق ہے ، الماس اُس کے لئے ارمغاں ہے ، یہ سارا شعر مبارکبادی کا مضمون ہے ، کہتا ہے کہ ایسی ایسی نعمتیں اور ہدیے حسن و عشق نے مجھے دئیے ، وہ میرا غم خوار ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ غم خوار سے ناصح مراد ہے اور مبارکباد تشنیع کی راہ سے ہے ۔
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
یعنی ایک قیس کا نام تو صحرا نوردی میں ہو گیا ، اس کے سوا کسی اور کی بہتری صحرائے حاسدِچشم سے نہ دیکھی گئی ، گویا کہ صحرا باوجود وسعتِچشم حاسد کی سی تنگی رکھتا ہے ، مگر یہاں شاید کے معنی رکھتا ہے ۔
آشفتگی نے نقش سویدا کیا دُرست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
داغ سویدائے دل سے ہمیشہ دود آہ اُٹھ اُٹھ کر پھیلا کرتا ہے ، اس سے ظاہر ہوا کہ سویدائے دل کی حلقت آشفتگی سے ہے ، معنوی تعقید اس شعر میں یہ ہو گئی ہے کہ پریشانی کی جگہ آشفتگی کہہ گئے ہیں ، غرض یہ تھی کہ سویدائے دل سے دود پریشان اُٹھا کرتا ہے اور اس کا سرمایہ و حاصل جو کچھ ہے یہی دود آہ ہے جو ایک پریشان چیز ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ نقش سویدا خدا نے محض پریشانی ہی سے بنایا ہے اور یہ داغ دود آہ سے پیدا ہوا ہے ، جبھی تو اس سے ہمیشہ دُھواں اُٹھا کرتا ہے ۔
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
یعنی زمانہ عیش اس طرح گذر گیا جیسے خواب دیکھا تھا ، نہ اب لطفِوصل ہے ، نہ صدمۂ ہجر کا مزہ ہے ، یوں سمجھو کہ مصنف نے گویا اس شعر کو یوں کہا ہے : ’’ زمانہ عیش نہ تھا بلکہ تھا خواب میں خیال کو الخ ‘‘ ۔
پڑھتا ہوں مکتبِغم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
غم وہ کیفیتِنفسانی ہے جو مطلوب کے فوت ہو جانے سے پیدا ہو ، مطلب یہ ہے کہ مکتبِغم میں میرا سبق یہ ہے کہ رفت گیا اور بود تھا ، یعنی زمانہ عیش کبھی تھا اور اب جاتا رہا ۔
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِوجود تھا
یعنی مرجانے ہی سے عیبِبرہنگی مٹا نہیں تو ہر لباس میں میں ننگِہستی و وجود تھا ، ننگِوجود ہونے کو برہنگی سے تعبیر کیا ہے ، فقط لفظ کا متشابہ مصنف کے ذہن کو اُدھر لے گیا۔
تیشہ بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
کوہ کن پر طعن ہے کہ رسم و راہ کی پابندی جو دیوانگی و آزادی کے خلاف ہے ، اس قدر اس کو تھی کہ جب تیشہ سے سر پھوڑا تو کہیں مرا ، اگر نشہ عشق کامل ہوتا تو بغیر سر پھوڑے مرگیا ہوتا ، خمارِ نشہ اُترنے سے جو بے کیفیتی اور بے مزگی ہوتی ہے ، اُسے کہتے ہیں رسوم و قیود کو بے مزہ و بے لطف ظاہر کرنے کے لئے اُسے خمار سے تشبیہ دی ہے ۔
_______
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجئے ہم نے مدعا پایا
یعنی تمہاری چتون یہ کہہ رہی ہے کہ تیرا دل کہیں پڑا پائیں گے تو پھر ہم نہ دیں گے ، یہاں دل ہی نہیں ہے جسے ہم کھوئیں اور تمہیں پڑا ہوا مل جائے ، مگر اس لگاوٹ سے ہم سمجھ گئے دل تمہارے ہی پاس ہے ۔
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
یعنی زیست میرے لئے ایک درد تھی کہ عشق اُس کی دوا ہو گیا اور خود وہ درد بے دوا ہے ۔
دوست دارِ دُشمن ہے اعتماد دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا
یعنی آہ میں اثر نہیں ، نالہ میں رسائی نہیں ، دل پر بھروسہ نہیں کہ وہ دُشمن کا دوست ہے ۔
سادگی و پرکاری بے خودی و ہوشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
یعنی حسینوں کا تغافل کرنا اور عشاق کے حال سے بے خبر بننا یہ فقط عشاق کا دل دیکھنے کے لئے اور جرأت آزمانے کے واسطے ہے ، اصل میں پرکاری و ہوشیاری ہے اور ظاہر میں سادگی و بے خبری ہے ۔
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
ایک عاشق بے دل غنچہ پر یہ گمان کرتا ہے کہ یہی میرا دل ہے جو مدت سے کھویا ہوا تھا ۔
حالِ دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا تم نے بارہا پایا
ڈھونڈا اور پایا کا مفعول بہ دل ہے ۔
شورپند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
’ آپ ‘ کا اشارہ ناصح کی طرف ہے اور اس میں تعظیم نکلتی ہے اور مقصود تشنیع ہے اور مزہ اور شور نمک کے مناسبات میں سے ہیں ، مصنف نے ’ مزہ ‘ کو قافیہ کیا اور ہائے مختفی کو الف سے بدلا ، اُردو کہنے والے اس طرح کے قافیہ کو جائز سمجھتے ہیں ، وجہ یہ ہے کہ قافیہ میں حروفِملفوظہ کا اعتبار ہے ، جب یہ ’ہ ‘ ملفوظہ نہیں بلکہ ’ ز ‘ کے اشباع سے الف پیدا ہوتا ہے تو پھر کون مانع ہے اُسے حرف روی قرار دینے سے ، اسی طرح سے فوراً اور دُشمن قافیہ ہو جاتا ہے ، گو رسم خط اس کے خلاف ہے ، لیکن فارسی والے مزہ اور دوا کا قافیہ نہیں کرتے اور وجہ اُس کی یہ ہے کہ وہ ہائے مختفی کو کبھی حرف روی ہونے کے قابل نہیں جانتے ۔
_______
دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموش کے مانند گویا جل گیا
یعنی چپکے چپکے کس طرح جلا کیا کہ کسی کو خبر نہ ہوئی ، ’ گویا ‘ کا لفظ خاموش کی مناسبت سے ہے ، ’ مانند ‘ کا لفظ بول چال میں نہیں ہے ، مگر شعراء نظم کیا کرتے ہیں ۔
دل میں ذوقِ وصل و یاد یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
یعنی رشک کی آگ ایسی تھی کہ معشوق کو دل سے بھلادیا اور اس کا غیر سے ملنا دیکھ کر ذوقِ وصل جاتا رہا ۔ گھر سے دل مراد ہے اور آگ سے رشکِرقیب ۔
میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا
مصنف کی غرض یہ ہے کہ میری نیستی و فنا یہاں تک پہنچی کہ اب میں عدم میں بھی نہیں ہوں اور اس سے آگے نکل گیا ہوں ، ورنہ جب تک میں عدم میں تھا ، جب تک میری آہ سے عنقا کا شہپر اکثر جل گیا ہے ، عنقا ایک طائر معدوم کو کہتے ہیں اور جب وہ معدوم ہوا تو وہ بھی عدم میں ہوا اور ایک ہی میدان میں آہِ آتشیں و بالِ عنقا کا اجتماع ہوا ، اسی سبب سے آہ سے شہپر عنقا جل گیا ، لیکن مصنف کا یہ کہنا کہ میں عدم سے بھی باہر ہوں ، اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ میں نہ موجود ہوں ، نہ معدوم ہوں اور نقیضین مجھ سے مرتفع ہیں ، شاید ایسے ہی اشعار پر دلی میں لوگ کہا کرتے تھے کہ غالب شعر بے معنی کہا کرتے ہیں اور اُس کے جواب میں مصنف نے یہ شعر کہا ؂
نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پرواہ
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
پرے کا لفظ اب متروک ہے ، لکھنؤ میں ناسخؔ کے زمانہ سے روزمرہ میں عوام الناس کے بھی نہیں ہے ، لیکن دلی میں ابھی تک بولا جاتا ہے اور نظم میں بھی لاتے ہیں ، میں نے اس امر میں نواب مرزا خاں صاحب داغؔ سے تحقیق چاہی تھی ، اُنھوں نے جواب دیا کہ میں نے آپ لوگوں کی خاطر سے ( یعنی لکھنؤ والوں کی خاطر سے ) اس لفظ کو چھوڑ دیا ، مگر یہ کہا کہ مومنؔ خاں صاحب کے اس شعر میں ؂
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منھ
اے شبِہجر تیرا کالا منھ
اگر پرے کی جگہ اُدھر کہیں تو برا معلوم ہوتا ہے ، میں نے کہا کہ ’ پرے ہٹ ‘ بندھا ہوا محاورہ ہے ، اس میں ’ پرے ‘ کی جگہ ‘ اُدھر ‘ کہنا محاورہ میں تصرف کرنا ہے ، اس سبب سے برا معلوم ہوتا ہے ، ورنہ پہلے جس محل پر ’ چل پرے ہٹ ‘ بولتے تھے اب اُسی محل پر دور بھی محاورہ ہو گیا ہے ، اس توجیہ کو پسند کیا اور مصرع کو پڑھ کر الفاظ کی نشست کو غور سے دیکھا : ’ دور بھی ہو مجھے نہ دکھلا منھ ‘ اور تحسین کی ۔
عرض کیجئے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
یعنی یہ کہاں ممکن ہے کہ اپنی طبیعت کی گرمی ظاہر کرسکوں فقط دشت نوردی کا ذرا خیال کیا کہ صحرا میں آگ لگ اُٹھی اور یہ مبالغہ غیر علوی ہے کہ طبیعت میں ایسی گرمی ہو کہ جس چیز کا خیال آئے وہ چیز جل جائے عرض کو لوگ جوہر کے ضلع کا لفظ سمجھتے ہیں حالاں کہ جوہر کے مناسبات میں سے عرض بہ تحریک ہے نہ بہ سکون ۔
دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا کارفرما جل گیا
دل کو کارفرما بنایا ہے اور داغوں کو چراغاں لفظ چراغاں کو چراغ کی جمع نہ سمجھنا چاہئے ۔
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب ؔکہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاک اہل دُنیا جل گیا
طرزِ تپاک سے تپاک ظاہری و نفاق باطنی مراد ہے اور افسردگی اور جلنا اس کے مناسبات سے ہیں ۔
شوق ، ہر رنگ رقیبِسر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردہ میں بھی عریاں نکلا
یعنی مجنوں کی تصویر بھی کھنچتی ہے تو ننگی ہی کھنچتی ہے ، اس حال میں بھی عشق دُشمن سر و سامان ہے ، شوق سے مراد عشق ہے ، ہر رنگ کے معنی ہر حال میں اور ہر طرح سے اگر یوں کہتے کہ شوق ہر طرح رقیب سر و ساماں نکلا جب بھی مصرع موزوں تھا ، لیکن تصویر کے مناسبات میں سے رنگ کو سمجھ کر ہر رنگ کہا اور ہر طرح و بے طرح کو ترک کیا ، مناسبات کے لئے محاورہ کا لفظ چھوڑ دینا اچھا نہیں اور رقیب کے معنی دُشمن کے لئے ہیں ۔
زخم نے داد نہ دی تنگیٔ دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پر افشاں نکلا
یعنی زخم دل نے بھی کچھ تنگی دل کی تدبیر نہ کی اور زخم سے بھی دلِ تنگی کی شکایت دفع نہ ہوئی کہ وہی تیر جس سے زخم لگا وہ میری تنگیٔدل سے ایسا سراسیمہ ہوا کہ پھڑکتا ہوا نکلا تیر کے پر ہوتے ہیں اور اُڑتا ہے ، اس سبب سے پر افشانی جو کہ صفتِمرغ ہے ، تیر کے لئے بہت مناسب ہے ، مصنف مرحوم لکھتے ہیں یہ ایک بات میں نے اپنی طبیعت سے نئی نکالی ہے ، جیسا کہ اس شعر میں ؂
نہیں ذریعۂ راحت جراحت پیکاں
وہ زخم تیغ ہے جس کو دل کشا کہئے
یعنی زخم تیر کی توہین بسبب ایک رخنہ ہونے کے اور تلوار کے زخم کی تحسین بسبب ایک طاق سا کھل جانے کے ۔
بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
یعنی تیری بزم سے نکلنا پریشانی کا باعث ہے ، پہلے مصرع میں سے فعل اور حرفِتردید محذوف ہے ، یعنی پھولوں کی مہک ہو یا شمعوں کا دُھواں ہو یا عشاق کی فغاں ہو ۔
دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بقدرِلب و دنداں نکلا
یعنی جس میں جتنی قابلیت تھی اُس نے اُسی قدر مجھ سے لذتِدرد کو حاصل کیا ، ورنہ یہاں کچھ کمی نہ تھی ، کام کا لفظ لب و دنداں کے ضلع کاہے ۔
تھی نو آموز فنا ہمت دُشوار پسند
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا
اے ہمت تو باوجود یہ کہ ابھی نو آموز فنا ہے ، کس آسانی سے مرحلۂ فنا کو طے کرگئی ، ہمت کو دُشوار پسند کہہ کر یہ مطلب ظاہر کرنا منظور ہے کہ میری ہمت خوف و خطر میں مبتلا ہونے کو لذت سمجھتی ہے یہ کام اشارہ ہے فنا کی طرف یعنی ہم جانتے تھے کہ جان دینا بہت مشکل کام ہے مگر افسوس ہے کہ وہ بھی آساں نکلا ۔
دل میں پھر گریہ نے اک شور اُٹھایا غالبؔ
آہ ! جو قطرہ نہ نکلا ، تھا سو طوفاں نکلا
یعنی جس گریہ پر میرا ضبط ایسا غالب تھا کہ میں اُسے قطرہ سے کم سمجھتا تھا ، اب وہ طوفان بن کر مجھ پر غالب ہو گیا ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ آنسو کا جو قطرہ کہ آنکھ سے نکلا نہ تھا وہ اب طوفان ہو گیا ۔
_______
 

الف عین

لائبریرین
دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
باب نبرد یعنی لائق نبرد مطلب یہ ہے کہ جو شخص مرد میدانِ عشق نہ تھا وہ اس کی دھمکی ہی میں مرگیا ، میر ممنون ؔ کے کلام میں باب ان معنی پر بہت جگہ آیا ہے ۔
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اُڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
یعنی رنگ میرا جب نہیں اُڑا تھا جب بھی زرد تھا ، ورنہ مرنے کے وقت تو سبھی کا رنگ اُڑکر زرد ہو جاتا ہے اور مردنی چہرہ پر پھر جاتی ہے ، یعنی اُڑنے سے مرنے کے وقت اُڑنا رنگ کا مقصود ہے
تالیف نسخہائے وفا کررہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا
یعنی فن عشق میں مجھے اور بھی مرتبۂ تصنیف حاصل ہوچکا تھا ، میرے عقل و ہوش کا مجموعہ تک فرد فرد غیر مرتب ہورہا تھا یعنی ناتجربہ کاری کا زمانہ تھا ۔
دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے آب
اس رہ گذر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا
یعنی میرے دل سے لے کر جگر تک اب تو ایک دریائے خون ہے آگے اسی رہ گذر میں وہ بہاریں تھیں کہ جلوۂ گل جس کے آگے گرد ہوا جاتا تھا ، یعنی کسی زمانہ میں ہم بھی دلِ شگفتہ و رنگین رکھتے تھے اور اب خاطر افسردہ و غمگین رکھتے ہیں ۔
جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی
دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا
یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی طرح اندوہِ عشق کم ہو جائے ، دل بھی جاتا رہا ، جب بھی اسی طرح دردِ دل باقی رہا ، وہی کے معنی ، اسی طرح دوسرا پہلو یہ ہے کہ دل کا جانا خود ہی دردِ دل ہے ۔
احباب چارہ سازی وحشت نہ کرسکے
زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
یعنی میں زنداں میں بند تھا ، مگر میرا خیال بیاباں میں تھا ، کچھ قید سے چارہ سازی ، وحشت نہ ہوئی ۔
یہ لاش بے کفن اسد ؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
یعنی عجب آزاد تھا کہ لاش بے کفن ہے ۔
_______
شمار سبحہ مرغوب بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف بردنِ صد دل پسند آیا
مرغوب آیا ، یعنی مرغوب ہوا ، مشکل پسند بت کی صفت ہے محض قافیہ کے لئے حاصل اس شعر کا یہ ہے کہ اُسے ایک ہتھے میں سو سو دل عاشقوں کے لے لینا پسند ہے ، پھر اس سو دل کی ایک تسبیح بھی مصنف نے بنائی ہے اور کہتے ہیں کہ گویا اُسے تسبیح کا شمار بہت مرغوب ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ مصنف نے بیک کف بردن صد دل میں حساب عقد انامل کی طرف اشارہ کیا ہے اور عقدِصد کی یہ شکل ہے کہ چھنگلیا کی سر کو انگوٹھے کی جڑ میں لگاکر انگوٹھا سارا اُس کی پشت پر جمادیتے ہیں ، عرب میں اس حساب کا رواج تھا ، رسولِ خدا انے جس حدیث میں فتنۂ چنگیز و ہلاکو و تیمور وغیرہ کی زینب بنت جحش ؓسے پیشین گوئی کی ہے ، اس میں ذکر ہے : حضرت ایک دن ڈرے ہوئے ان کے پاس آئے اور فرمایا : ’’ لا الہ الا اﷲ ویل للعرب من شرقد اقترب فتح الیوم من روم ، یاجوج وماجوج مثل ہذہ ‘‘ یہ کہہ کر آپ نے کلمہ کی اُنگلی کو انگوٹھے سے ملاکر حلقہ بنایا ذہیب اور سفیان بن عیینہ نے اس حدیث کو روایت کرکے عقدِتسعین کی شکل دونوں اُنگلیوں سے بنائی ، یعنی کلمہ کی اُنگلی کا سر انگوٹھے کی جڑ میں سے لگاکر انگوٹھے کو اس کی پشت پر جمادیا ، فتنۂ تاتار سے کئی سو برس پیشتر کی کتابوں میں بخاری وغیرہ کی یہ حدیث موجود ہے ، خوارزم شاہ نے جب دیوارِ ترکستان کو کھدوا ڈالا جب ہی سے چنگیز و ہلاکو و تیمور کو ملی اور سلطنت عرب کو تباہ کرڈالا ، اُس زمانہ میں شاہ خوارزم قطب الدین سلجوقی تھے ۔
بفیض بے دلی نومیدی جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا
یعنی دُنیا کی طرف سے جو بے دلی و بے دماغی ہم کو ہے اس کی بدولت صدمہ نومیدی و یاس کا اُٹھا لینا ہم کو سہل ہے ، ہمیں دُنیا پر خود رغبت نہیں ہے ، کشود کار کی اُمید ہو تو کیا اور نا اُمیدی ہو جائے تو کیا ۔ یہ پہلے مصرع کے معنی ہوئے اور دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا عقدۂ مشکل کشائش کو پسند آگیا ، یعنی اب کبھی اس کی کشائش نہ ہو گی ، اس سبب سے کہ کشائش کو اس کا عقدہ ہی رہنا پسند ہے اور پسند اس سبب سے ہے کہ ہمیں پرواہ نہیں ، پھر ایسی بے نیازی کشائش کو کیوں نہ پسند آئے ۔
ہوائے سیر گل آئینۂ بے مہری قاتل
کہ اندازِ بخوں غلطیدن بسمل پسند آیا
یعنی اسے تماشائے گل کی خواہش ہونا اُس کی بے مہری کا آئینہ ہے اور اس کی جفاجوئی کی دلیل ہے ، اس وجہ سے کہ گل میں بسمل بخوں غلطیدہ کا انداز ہے ، پہلے مصرع میں سے فعل محذوف ہے ۔
_______
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
یعنی لوگ جو دُنیا میں وفا کرتے ہیں ، اس کے معنی یہی ہیں کہ تسلی چاہتے ہیں ، جب وفا کرکے تسلی نہ ہوئی تو فقط وفا بے معنی و مہمل رہ گیا ، حاصل یہ کہ وفاداریٔ عشاق بے معنی بات ہے ۔
سبزۂ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِدم افعی نہ ہوا
مشہور ہے کہ زمرد کے سامنے سانپ اندھا ہو جاتا ہے ، مگر تیرا سبزۂ خط کیا زمرد ہے کہ افعی زلف پر اس کا اثر نہ ہوا ، یعنی خط نکل آنے کے بعد بھی زلف کی دل فریبی میں فرق نہیں آیا ۔
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
یعنی مر کے غم سے پیچھا چھڑانا چاہا تو اس نے رسوائی و بدنامی کے اندیشہ سے اسے بھی گوارا نہ کیا ، معنوی خوبیاں اس شعر میں بہت سی ہیں ، کثرتِ اندوہ علاج میں درماندگی اس پر بھی دل آزاری و جفاکاریٔ معشوق ، پھر اس حالت میں بھی اسی کی مرضی پر رہنا ۔
دل گذرگاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادۂ سرمنزل تقوی نہ ہوا
تار اور رشتہ اور خط اور جادۂ نفس کے تشبیہات میں سے ہیں ، غرض شاعر کی یہ ہے کہ اگر تقویٰ نہ حاصل ہوا تو رندی ہی سہی ، قافیہ تقویٰ میں فارسی والوں کا اتباع کیا ہے کہ وہ لوگ عربی کے جس جس کلمہ میں ہی دیکھتے ہیں اُس کو کبھی ’ الف ‘ اور کبھی ’ ی ‘ کے ساتھ نظم کرتے ہیں ۔ ’’ تمنی و تمنا ، تجلی و تجلیٰ وتسلی و تسلیٰ و ہیولی و ہیولیٰ و دینی و دُنیا ‘‘ بکثرت اُن کے کلام میں موجود ہے ۔
_______
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کش گل بانگ تسلی نہ ہوا
یعنی اگر تو وعدۂ وصل کرتا تو جب بھی میں خوش تھا ، اس وجہ سے کہ وہ عین مقصود ہے اور تو نے وعدہ نہیں کیا تو اس پر بھی میں خوش ہوں کہ احسان سے بچا اور اُس احسان سے جو کبھی نہیں اُٹھایا تھا ۔
کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجئے
ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں سو وہ بھی نہ ہوا
یعنی آخری خواہش میں نے یہ کی تھی کہ موت ہی آجائے اُس سے بھی محروم رہا ۔
مرگیا صدمۂ یک جنبش لب سے غالبؔ
ناتوانی سے حریف دمِ عیسیٰ نہ ہوا
اس شعر میں معنی کی نزاکت یہ ہے کہ شاعر حرکتِ لبِ عیسیٰ کو صدائے عیسیٰ کی حرکت سے مقدم سمجھتا ہے ، کہتا ہے کہ میں پہلے حرکت ِلب ہی کے اوجھڑ سے مرگیا اور حریفِدمِ عیسیٰ نہ ہوا ، یعنی دمِ عیسیٰ سے معاملہ نہ پڑا اور ناتوانی کے سبب سے صدائے عیسیٰ کے سننے کی نوبت ہی نہ آنے پائی ۔
_______
 

الف عین

لائبریرین
ستائش گر ہے زائد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا
کسی شئے کو طاق پر رکھنا یا بالائے طاق رکھ دینا محاورہ ہے اس کا خیال ترک کر دینے کے معنی پر اور طاق نسیاں پر رکھنا اور بھی زیادہ مبالغہ ہے اور یہاں گلدستہ کی لفظ نے یہ حسن پیدا کیا ہے کہ گلدستہ کو زینت کے لئے طاق پر رکھا کرتے ہیں ، دوسرے یہ کہ باغ کو مقام تحقیر گلدستہ سے تعبیر کیا ہے ، یہ بھی حسن سے خالی نہیں لیکن یہ حسن بیان و بدیع سے تعلق رکھتا ہے ، معنوی خوبی نہیں ہے ۔
بیاں کیا کیجئے بیداد کاوشہائے مژگاں کا
کہ ہر اک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا
یعنی سوزن مژگاں نے ایسی کاوشیں کیں کہ میرے جسم میں ہر ایک قطرۂ خوں تسبیح مرجان کا دانہ بن گیا ہے یعنی ہر قطرۂ خون سوراخ پڑگیا ۔
نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا
دستور ہے کہ کسی کے رعب و سطوت کے اظہار کرنے کے لئے جو مرعوب ہو جاتا ہے وہ اپنے دانتوں میں گھانس پھونس اُٹھاکر دبالیتا ہے تاکہ وہ شخص اسے اپنا مطیع و مغلوب سمجھے اور قصدِ قتل سے باز آئے ، شاعر کہتا ہے کہ قاتل کے رعب و سطوت سے بھی میری نالہ کشی نہ موقوف ہوئی میں نے جو تنکا اظہارِ رعب کے لئے دانتوں میں دبایا وہ ریشہ نیستاں ہو گیا اور یہ ظاہر ہے کہ نیستاں میں نے پیدا ہوتی ہے اور نے صاحبِ نالہ ہے غرض کہ وہ تنکا نالہ کشی کی جڑ ہو گیا ۔
دکھاؤں گا تماشا ، دی اگر فرصت زمانے نے
مرا ہر داغِ دل ایک تخم ہے سروِ چراغاں کا
یعنی ایک ایک داغ سے نالۂ پرشرر نکلے گا جو سرو چراغاں سے مشابہ ہو گا تو گویا داغ دل وہ بیج ہے جس سے سروِ چراغاں اُگے گا ۔
کیا آئینہ خانہ کا وہ نقشہ تیرے جلوہ نے
کرے جو پرتوِ خورشید عالم شبنم ستاں کا
یعنی جس طرح آفتاب کے سامنے شبنم نہیں ٹھہرسکتی اُسی طرح تیرے مقابلہ کی تاب آئینہ نہیں لاسکتا آئینہ خانہ کی تشبیہ شبنم ستاں سے تشبیہ مرکب ہے ۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کاہے خون گرم دہقاں کا
یعنی میں وہ دہقان ہوں جس کی سرگرمی خود اُسی کے خرمن کے لئے برق کا کام کرتی ہے یعنی خرمن کو جلا ڈالتی ہے ۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حرارت غریزی جو کہ باعثِ حیات ہے خود وہی ہر وقت تحلیل و فنا بھی کررہی ہے ۔ ہیولیٰ بمعنی مادہ اور مصنف نے صورت کی لفظ ہیولیٰ مناسبت سے استعمال کی ہے اور تعمیر سے تعمیر جسم خاکی مقصود ہے خون گرم بھنی ہوئی سرگرمی ۔ اس شعر میں جو مسئلہ طب مصنف نے نظم کیا ہے اُسے آگے بھی کئی جگہ باندھا ہے ۔
اُگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا
سبزہ سے مراد سبزۂ بیگانہ ہے اس سبب سے کہ جو سبزہ بے موقع اُگتا ہے اُسے سبزۂ بیگانہ کہتے ہیں اور گھر میں سبزہ کا اُگنا بے موقع ہے تو مراد مصنف کی یہ ہے کہ ویرانی کی نوبت یہ پہنچی ہے کہ سبزۂ بیگانہ میرے گھر میں اُگا ہے اور دربان کا کام ہے کہ بیگانہ کو گھر کے اندر سے نکال دے ، تماشا کر یعنی یہ سیر دیکھ ۔
خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغِ مردہ ہوں میں بے زباں گورِ غریباں کا
خاموش آدمی کو بے زبان کہتے ہیں اور چراغ کی لو کو زبان سے تشبیہ دیتے ہیں تو بجھے ہوئے چراغ کو بے زبان آدمی کے ساتھ مشابہت ہے اور اسی طرح سے خوں گشتہ آرزوؤں کو گورِ غریباں سے مشابہت ہے ۔
ہنوز اک پرتوِ نقشِ خیالِ یار باقی ہے
دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا
ہنوز کی لفظ سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ خیال بھلانے پر بھی کچھ پرتو اس کا باقی رہ گیا ہے اور اس پرتو میں بھی یہ نور ہے کہ دل پر حجرۂ زندان یوسف کا عالم ہے اور اس شعر میں لفظ افسردہ سے دل کا حجرہ ہونا ظاہر ہوا اور خیال یار کے بھلانے کا سبب بھی اسی لفظ سے پیدا ہے یعنی جب دل افسردہ ہوا تو پھر خیالِ یار کیسا اور افسردگی کو تنگی لازم ہے ، اس سبب سے حجرہ اُسے کہا کہ تنگ کوٹھری کا نام حجرہ ہے ۔
بغل میں غیر کے آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ
سبب کیا خواب میں آ کر تبسم ہائے پنہاں کا
مصنف کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ رقیب کی بغل میں جو چپکے چپکے تو ہنس رہا ہے مجھے وہ ہنسی خواب میں دکھائی دے رہی ہے اور اُسی ہنسی کا اندازہ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اس انداز کی ہنسی وصل ہی کے وقت ہوتی ہے ورنہ تو میرے خواب میں آ کر میرے ساتھ تبسم پنہاں کرے میرے ایسے نصیب کہاں ۔
نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا
قیامت ہے سر شک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
لہو پانی ایک ہونا رونے کے معنی پر ہے یعنی تیری آنکھ میں آنسو دیکھنے کی تاب کس کو ہے اور اشارہ اس بات کی طرف بھی کیا ہے کہ مژگانِ معشوق جو ہمیشہ دل و جگر عشاق میں کھٹکا کرتی ہے اُس کا آنسو وہی آنسو ہیں جو عشاق کے دل میں پیدا ہوکر آنکھوں کی طرف جایا چاہتے تھے یعنی تیری پلکوں پر جو آنسو ہیں وہ تیرے دل سے نکلے ہوئے نہیں ہیں بلکہ یہ آنسو وہی ہیں جو عشاق کے دل و جگر میں پیدا ہوئے تھے اور تیری مژہ پر آنسو ہونا اس کی علامت ہے کہ عشاق کا لہو پانی ایک ہو گیا ۔
نظر میں ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالبؔ
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا
یعنی جس رشتۂ فنا میں تمام اوراقِ عالم سئے ہوئے ہیں اُن سے بھولا ہوا نہیں ہوں یعنی فنا ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے ہے ۔
_______
 

الف عین

لائبریرین
نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا
ذوق سے صحرا نوردی مراد ہے اور رفتار کو موج اور نقش قدم کو حباب کے ساتھ تشبیہ دینے سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح موج کا ذوق روانی کبھی کم نہیں ہوتا اسی طرح میرا بھی ذوق کم نہیں ہو گا ، ایک بیابانِ ماندگی خواہ صد بیابانِ ماندگی کہو مراد ایک ہی ہے یعنی ماندگی مصرع ایک بیابان کہہ کر ماندگی کی مقدار بیان کی ہے گویا بیابان کو پیمانہ اُس کا فرض کیا ہے ۔
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا
بوئے گل دم کھنچنے کے ساتھ ناک میں آتی ہے تو یہ کہنا کہ بوئے گل سے ناک میں دم آتا ہے بیجا نہیں اور ناک میں دم آنا بیزار ہونے کے معنی پر ہے ، یہاں دوسرے معنی مقصود ہیں اور پہلے معنی کی طرف ابہام کیا ہے ۔
_______
سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کیا
اس شعر میں عشق کو برق اور ہستی و خرمن سے تشبیہ دی ہے کہتے ہیں رہن عشق بھی ہوں اور جان بھی عزیز ہے میری دہائی ہے جیسے کوئی آتش پرست برق کی پرستش بھی کرے اور خرمن کے جل جانے کا افسوس بھی کرے ، پہلے مصرع میں فعل ’ ہوں ‘ محذوف ہے حاصل کے معنی خرمن ۔ ناگزیر اُلفتِ ہستی ہوں یعنی جان کو عزیز رکھنے پر مجبور ہوں جس طرح یہ کہتے ہیں کہ فلاں امر ناگزیر ہے یعنی ضرور ہے اسی طرح فارسی میں یوں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص ارفلانِ ناگزیر است ۔
بقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی بھی
جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
ساحل کی تشنگی مشہور ہے اور اس کا کج دوا کج ہونا خمیازہ کی صورت پیدا کرتا ہے اور خمیازہ خمار کی علامت ہے مطلب یہ ہے کہ شراب پلانے میں جس قدر تیرا حوصلہ بڑھا ہوا ہے پینے میں اُسی قدر میرا ظرف بڑھا ہوا ہے ۔
_______
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
یعنی جس چیز کو تو عالم حقیقت کا حجاب سمجھتا ہے وہ رباب کا ایک پردہ ہے جس سے نغمہ ہائے رازِ حقیقت بلند ہیں مگر اس کے تال سر سے تو خود ہی واقف نہیں لطف نہیں اُٹھاسکتا ۔
رنگ شکستہ صبح بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا
یعنی نظارہ اُس کا موسم بہار ہے اور نظارہ سے اُس کے میرا رنگ اُڑ جانا طلوع صبح بہار ہے اور طلوع صبح بہار پھولوں کے کھلنے کا وقت ہوتا ہے غرض یہ ہے کہ بروقت نظارہ میرے منہ پر ہوائیاں اُڑتے ہوئے اور مہتاب چھٹتے ہوئے دیکھ کر وہ سرگرم ناز ہو گا یعنی میرا رنگ اُڑ جانا وہ صبح ہے جس میں گل ہائے ناز شگفتہ ہوں گے ۔
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ ترے مژہ ہائے دراز کا
اس شعر میں ’ ہائے ‘ یا تو علامت جمع و اضافت ہے یا کلمۂ تاسف ہے ، دونوں صورتیں صحیح ہیں ۔
صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں
طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا
اس شعر میں اپنی ناتوانی و نقاہت اور اپنی آہ کی شدت و حدت کا بیان مقصود ہے یعنی اگر ضبط کروں تو ایک ہی آہ میں تحلیل ہوکر فنا ہو جاؤں ۔
ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اُچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا
شیشہ باز مرد شعبدہ باز کو کہتے ہیں جو کہ شعبدہ دکھاتے وقت ہاتھوں کو اور سر کو ہلاتا ہے اور بساط سے وہ فرش مراد ہے جس کے گوشوں پر شراب کے شیشے چنے ہوئے ہیں ۔
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا
یعنی دل میرا جو کہ تنگی و گرفتگی سے گرہ ہو کے رہ گیا ناخن غم سے کاوش کا تقاضا کرتا ہے جیسے کوئی اپنا قرض مانگتا ہے اور نیم باز کے لفظ سے یہ ظاہر ہے کہ کاوش غم پہلے بھی ہوئی مگر ناتمام ہوئی ۔
تاراج کاوشِ غم ہجراں ہوا اسدؔ
سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
یعنی اے اسدؔ افسوس دفینہ راز کو غم نے کھودکر نکالا اور تاراج کیا ، حاصل یہ کہ غم نے رُسوا کیا ۔
_______
 

الف عین

لائبریرین
بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا
اس شعر میں یہ اشارہ ہے کہ بزم شاہی میں جو گنجینۂ گوہر ہے تو فقط اسی سبب سے ہے کہ میرے اشعار کا دفتر وہاں کھلا ہے اور یہ دُعا ہے کہ الٰہی در کو کھلا رکھ ، اس کے معنی یہ ہیں کہ آباد رکھ اور اس کا فیض جاری رکھ ۔
شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا
اس تکلف سے کہ گویا بت کدئے کا در کھلا
فقط تاروں کے کھلنے کا سماں دکھایا ہے یہ شعر غزل کا نہیں بلکہ قصیدہ کی تشبیب کاہے غالباً اور شعر اس کے ساتھ ہوں گے جو انتخاب کے وقت نکال ڈالے گئے ۔
گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا
یعنی دُنیا کی دوستی ایسی ہے کہ ظاہر و باطن یکساں نہیں ہاتھ میں نشتر کھلا ہوا ہونا اظہارِ غم خواری کے لئے ہے یعنی فصد و علاج کا قصد ظاہر کرتا ہے اور آستین میں دشنہ چھپائے ہوئے ہیں یعنی چھریاں مارنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔
گو نہ سمجھوں اُس کی باتیں گو نہ پاؤں اُس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
اس شعر میں ’ کھلنا ‘ بے تکلف ہوکر باتیں کرنے کے معنی پر ہے ۔
ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
’ خیالِ حسن ‘ یعنی تصور چہرۂ معشوق سے قبر میں باغ بہشت دکھائی دے رہا ہے اس لئے کہ اُس کے چہرہ میں باغ کی سی رنگینی ہے تو گویا کہ تصور حسن اور حسن اعمال کا ایک ہی ثمرہ ہے ۔
منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا
اس شعر میں ’ کھلنا ‘ زیب دینے کے معنی پر ہے دیکھو معنی ردیف میں جدت کرنے سے شعر میں کیا حسن ہو جاتا ہے ۔
درپہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصہ میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
فقط معشوق کی ایک شوقی کا بیان منظور ہے اور یہ بہترین مضامین غزل ہوا کرتا ہے ۔
کیوں اندھیری ہے شبِ غم ہے ؟بلاؤں کا نزول
آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا
پہلے مصرع میں سوال و جواب ہے یعنی تاریکی شبِ غم کا سبب یہ ہے کہ بلندی عرش پر سے بلائیں اُتر رہی ہیں اور تاروں نے اُن کے اُترنے کا تماشہ دیکھنے کے لئے اس طرف سے اُس طرف آنکھیں پھیرلی ہیں یعنی اس کثرت سے اُتر رہی ہیں جیسے میلہ قابل تماشا ہوتا ہے ۔
کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
دستور ہے کہ خبر مرگ جس خط میں لکھتے ہیں اُسے کھلا ہی روانہ کرتے ہیں اور غربت کے معنی مسافرت ۔
اُس کی اُمت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شے کے غالبؔ گنبدِ بے در کھلا
یعنی معراج کی شب میں ۔
_______
شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
شعلۂ جوالہ ہر یک حلقۂ گرداب تھا
یعنی ابر کا زہرہ آب تھا اور جو گرداب اس میں پڑتا تھا وہ شعلہ جوالہ تھا ، یہ فقط میرے سوزِ دل کی تاثیر تھی ۔

واں کرم کو عذر بارش تھا عناں گیر خرام
گریہ سے یاں پنیۂ بالش کفِ سیلاب تھا
یعنی انھیں تو کرم کرنے میں بارش مانع تھی اور میرا روتے روتے یہ حال ہوا تھا کہ پان بجائے پنیۂ بالش کفِ سیلاب تھا ۔
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجوم اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا
یعنی تار نگہ میں اس کثرت سے آنسو پروئے ہوئے تھے کہ وہ خود پوشیدہ و مفقود ہو گیا تھا جس طرح دھاگے کو موتی چھپالیتے ہیں دیکھو پوری تشبیہ پائی جاتی ہے مگر تازگی اس بات کی ہے کہ تشبیہ دینا مقصود نہیں ہے شاعر دو متشابہ چیزیں ذکر کررہا ہے اور پھر تشبیہ نہیں دیتا ہے ۔
جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آبجو
یاں رواں مژگان چشم تر سے خون ناب تھا
یعنی وہاں اس کثرت سے اور اتنی دُور تک تختۂ گل تھا کہ اس کے عکس سے معلوم ہوتا تھا کہ چراغاں نہر میں ہورہا ہے اور یہاں دُور تک خون کے آنسو بہہ نکلے تھے اور آب جو کے مقابلے میں چشم تر تھی اور شاخ ہائے گل کے جواب میں پلکوں پر لہو کی بوندیں ۔ آب جو کے بعد ’ کو ‘ کا لفظ حذف کر دینا کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتا ۔
یاں سر پر شور بے خوابی سے تھا دیوار جو
واں وہ فرق ناز محو بالش کمخواب تھا
یعنی نیند نہ آنے کے سبب سے میرا سر دیوار کو ڈھونڈ رہا تھا اور میں سر ٹکرانا چاہتا تھا ۔
یاں نفس کرتا تھا روشن شمع بزم بے خودی
جلوۂ گل واں بساط صحبتِ احباب تھا
یعنی ہماری محفل میں شمع آہ روشن تھی اور وہاں کی صحبت میں پھولوں کا فرش تھا ، احباب سے معشوق کے احباب مراد ہیں ۔

فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا
یعنی وہاں رنگ و عیش کی رنگ رلیاں ہورہی تھیں اور ہم یہاں جل رہے تھے سوختن کے باب سے ماضی و حال و مستقبل کی تصریف مراد ہے نزاکت یہ ہے کہ اس امتداد زمانے کو جو تصریف میں سوختن کے ہے مصنف نے امتداد مکانی پر منطبق کیا ہے دوسرا پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ یہاں کا زمین و آسمان آگ لگادینے کے قابل ہے ۔
ناگہاں اس رنگ سے خون نابہ ٹپکانے لگا
دل کہ ذوقِ کاوش ناخن سے لذت یاب تھا
یعنی اس رنگ سے جو آگے کی غزل میں آتا ہے اور کاوش ناخن استعارہ ہے کاوش غم سے ۔
نالۂ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا
تھا سپند بزم وصل غیر گو بیتاب تھا
یعنی اگرچہ دل بیتاب بنا مگر اُس کی بیتابی برخلاف مدعا تھی گویا دل بیتاب سپند بزم وصل غیر تھا ۔
مقدم سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے
خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا
یعنی سیلاب کے آنے سے خانۂ عاشق صدائے آب کا ارغنوں بن گیا جس کو سن کر دل کو سرور و نشاط ہے ۔ آہنگ کا لفظ مناسب ساز ہے غرض یہ ہے کہ عشاق کو اپنی خانہ خرابی سے لذت حاصل ہوتی ہے ۔
نازش ایام خاکستر نشینی کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ وقفِ بستر سنجاب تھا
یعنی اگرچہ میں خاک نشیں تھا لیکن میرا دل قناعت کے فخر و ناز کے سبب سے فرش سنجاب پر لوٹ رہا تھا ۔
کچھ نہ کی اپنے جنونِ نارسا نے ورنہ یاں
ذرّہ ذرّہ روکش خورشید عالم تاب تھا
جنونِ نارسا نے کچھ نہ کی یعنی اکتسابِ فیض سے اور اتحادِ معشوق سے محروم رکھا ، ورنہ ایک ایک ذرّہ نے ایسا اکتسابِ نور کیا تھا کہ رشک دہ آفتاب تھا ۔
آج کیوں پرواہ نہیں اپنے اسیروں کی تجھے
کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا
یاد کر وہ دن کہ ہر اک حلقہ تیرے دام کا
انتظار صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا
یہ قطعہ ہے اور حلقۂ دام کو دیدۂ بے خواب سے تشبیہ دی ہے وجہ شبیہ یہ ہے کہ دیدۂ بے خواب کی طرح حلقۂ دام کھلا رہتا ہے ۔
میں نے روکا رات غالبؔ کو وگرنہ دیکھتے
اُس کے سیل گریہ میں گردوں کفِ سیلاب تھا
یعنی سیلاب گریہ آسمان تک بلند ہو جاتا ۔
_______
ایک ایک قطرئے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا
حساب دینا پڑا یعنی آنکھوں سے خون بہانا پڑا گویا خونِ جگر اُس کی امانت تھا ۔
اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا
قاعدہ ہے کہ آئینہ میں ایک ہی عکس دکھائی دیتا ہے لیکن جب اُسے توڑ ڈالو تو ہر ہر ٹکڑے میں وہی پورا عکس معلوم ہونے لگتا ہے اور یہاں ہر ہر عکس کو دیکھ کر ایک ایک آرزو کا خون ہوتا ہے ۔ غرض کہ جس آئینہ میں معشوق کے عکس و تمثال کا جلوہ تھا اُس کے ٹوٹنے سے ایک شہر آرزو کا خون ہو گیا یہ کہا ہوا مضمون ہے :
نظر آتے کبھی کاہے کو اک جا خودنما اتنے
یہ حسن اتفاق آئینہ اُس کے روبرو ٹوٹا
ایک شہر آرزو میں ویسی ہی ترکیب ہے جیسی ایک بیاباں ماندگی و یک قدم وحشت میں ہے ۔
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سر رہ گذار تھا
ہوا کے معنی آرزو اور رہ گذار سے معشوق مراد ہے ۔
موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرّہ مثل جوہر تیغ آبدار تھا
یعنی جس طرح تلوار میں جوہر آبدار ہوتے ہیں اسی طرح موج سراب کے ذرّہ تھے حاصل یہ کہ سرزمین عشق پر تلوار برستی ہے ۔
کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غم روزگار تھا
یعنی کم ہوئے پر بھی بہت زیادہ نکلا ۔
_______
 

الف عین

لائبریرین
بسکہ دُشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
یعنی کمالِ انسانیت کے مرتبہ پر پہنچنا سہل نہیں ہے ۔
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانہ کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
ٹپک رہا ہے یعنی ظاہر ہورہا ہے اور ٹپکنے کی لفظ گہر کے لئے اور گریہ کے ساتھ بھی بہت ہی مناسبت رکھتی ہے :
لفظ یہ کہ تازہ است بمضموں برابر است
وائے دیوانگی شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا
ہر دم یعنی ہر مرتبہ سانس لینے میں اُس مبدأ حیات و وجود کی طرف دوڑتا ہوں اور اپنی نارسائی سے حیران ہوکر رہ جاتا ہوں ۔
جلوہ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
جوہر آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا
یعنی اُس کا جلوۂ حسن یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے دیکھو تو آئینہ چاہتا ہے کہ آنکھ بن جائے اور جوہر یہ چاہتا ہے کہ پلکیں بن جائیں اور آئینہ سے آنکھ کی تشبیہ مضمون مشہور ہے اور یہاں آئینہ سے آئینہ فولادی مراد ہے کہ جوہر اسی میں ہوتے ہیں ۔
عشرتِ قتل گہ اہل تمنا مت پوچھ
عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
یعنی قتل گاہ میں عشاق کو ایسی مسرت حاصل ہے کہ شمشیر کو عریاں دیکھ کر وہ جانتے ہیں کہ ہلال عید کا نظارہ دکھائی دیا لفظ ہلال تنگی وزن سے نہ آسکا اور شعر کا مطلب ناتمام رہ گیا ۔
لے گئے خاک میں ہم داغ تمنائے نشاط
تو ہو اور آپ بصد رنگ گلستاں ہونا
یعنی ہم داغ لیکے چلے اب تجھے باغ باغ ہونا مبارک ہو اور یہی محاورہ ہے باغ باغ ہونے کی جگہ پر گلستاں ہونا خالص مصنف کا تصرف ہے ۔
عشرتِ پارۂ دل زخم تمنا کھانا
لذتِ ریش جگر عرق نمکداں ہونا
دونوں مصرعوں میں فعل ’ ہے ‘ محذوف ہے ۔
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
یعنی لہو دیکھتے ہی رحم آگیا کہ یہ میں نے کیا کیا ، نہ غصہ آتے دیر لگی نہ پشیمان ہوتے دیر لگی اور ممکن ہے کہ زود پشیماں طعن و طنز سے کہا ہو یعنی جب کام اختیار سے باہر ہوچکا جب رحم آیا کیا جلد پشیمان ہوا ۔

حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالبؔ
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
یعنی اگر ہجر ہے تو وہ آپ چاک کرے گا اور اگر وصل ہے تو شوخی معشوق کے ہاتھوں پر پرزے اُڑجائیں گے ۔
_______
شب خمارِ شوق ساقی رست خیز انداز تھا
تامحیط بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا
یعنی رات کو میرے شوق نے قیامت برپا کر رکھی تھی اور شوق میں بے لطفی و بے مزگی جو تھی اس وجہ سے اُسے خمار سے تشبیہ دی اور کہتا ہے کہ یہاں سے لے کر دریائے بادہ تک میرے خمیازہ کا صورت خانہ بنا ہوا تھا یعنی میں نے خمار میں ایسی لمبی لمبی انگڑائیاں لیں جن کی درازی محیط بادہ تک پہنچی ، غرض مصنف کی یہ ہے کہ انگڑائیاں لینے میں جو ہاتھ پاؤں پھیلتے تھے وہ گویا شراب کو ڈھونڈتے تھے ۔
یک قدم وحشت سے درس دفتر امکاں کھلا
جادہ اجزائے دوعالم دشت کا شیرازہ تھا
یک قدم وحشت سے وحشت کا مرتبہ ادنیٰ مقصود ہے اور اجزائے دو عالم دشت بمنزلہ اجزائے عالم ، عالم دشت یا اجزائے دو صد دشت ہے جس سے مراد کثرت ویرانی ہے یعنی ممکنات نے اپنے مبدأ سے ایک ذراسی وحشت و مغائرت جو کی تو عالم امکان موجود ہو گیا اور اُس وحشت کا ایک قدم جس جادہ پر پڑا گویا وہ اوراق دو صد دشت کا شیرازہ تھا اس سبب سے کہ وحشت میں جب قدم اُٹھے گا دشت ہی کی طرف اُٹھے گا اور عارف کی نظر میں تمام عالم امکان ویران ہے ۔ دو عالم دشت کی ترکیب میں مصنف نے دشت کی مقدار کا پیمانہ عالم کو بتایا ہے جس طرح ماندگی کی مقدار کا پیمانہ بیابان کو اور تامل کی مقدار کا پیمانہ زانو کو اور آرزو کا پیمانہ شہر کو قرار دیا ہے ۔
مانع وحشت خرامی ہائے لیلیٰ کون ہے
خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا
مصنف نے صحرا گرد مجنوں کی صفت ڈال کر اُس کے گھر کا پتہ دیا یعنی مجنوں کا گھر تو صحرا ہے اور صحرا وہ گھر ہے جس میں دروازہ نہیں پھر لیلیٰ کیوں وحشی ہوکر اُس کے پاس نہیں چلی آتی کون اُسے مانع ہے ۔
پوچھ مت رُسوائی انداز استغنائے حسن
دست مرہون حنا رخسار رہن غازہ تھا
یعنی حسن کو باوجود استغنا ایسی احتیاج ہے کہ ہاتھ حنا کی طرف اور منہ غازہ کی طرف پھیلائے ہوئے ہے ۔
نالۂ دل نے دیے اوراق لخت دل بباد
یادگار نالا اک دیوان بے شیرازہ تھا
بباد دیے یعنی برباد کئے اس میں پارۂ دل کو اوراق سے تشبیہ دی پھر اوراق کو دیوان بے شیرازہ سے تشبیہ دی اور نالہ کو شاعر فرض کیا ہے جس نے اپنی یادگار کو آپ برباد کیا ۔ بباد و ادن فارسی کا محاورہ ہے اُردو میں برباد کرنا کہتے ہیں ۔
_______
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
پہلے مصرع میں ’ کیا ‘ تحقیر کے لئے ہے اور دوسرے مصرع میں استفہام انکاری کے لئے ، یعنی میرے ناخن کاٹنے سے کیا فائدہ ، کیا پھر بڑھ نہ آئیں گے ۔
بے نیازی حد سے گذری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا ؟
کہتے ہیں تمہاری بے توجہی حد سے گذرگئی کہ میرا حال متوجہ ہوکر نہیں سنتے اور ہر بار تجاہل سے کہتے ہو کہ ’ کیا کہا ‘ اس شعر میں کیا ، محل حکایت میں ہے جس طرح آگے مصنف نے کہا ہے :
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا
حضرتِ ناصح گر آویں ، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھادو کہ سمجھائیں گے کیا
صاف شعر کا کیا کہنا گو دوسرے مصرع میں سے ’ مگر ‘ محذوف ہے مگر خوبی یہ ہے کہ اس طرح سے اور کیا ہے کہ دیوانگی کی تصویر کھنچ گئی ۔
آج وہاں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا ؟
یعنی اگر اس کے پاس تلوار نہ ہو گی تو میں دے دوں گا ۔
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا ؟
’ کیا ‘ استفہام انکاری کے لئے ہے اور قید ہونا اور چھٹ جانا دونوں کا اجتماع لطف سے خالی نہیں ۔
خانہ زادِ زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا زنداں سے گھبرائیں گے کیا
فاعل یعنی لفظ ’ ہم ‘ محذوف ہے ۔
ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسدؔ
ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھائیں گے کیا
ہمیں تو غم کھانے کا مزہ پڑا ہوا ہے اور وہی یہاں نہیں یعنی اس شہر میں ایسے معشوق نہیں جن سے محبت کیجئے ۔
_______
 

الف عین

لائبریرین
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
یعنی مرجانا ہی بہتر ہوا ۔
ترے وعدہ پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
یعنی ہم نے جو یہ کہا کہ فقط وعدہ وصل سن کے ہم مرنے سے بچ گئے تو ہم نے جھوٹ جانا دوسرا احتمال یہ ہے کہ تیرا وعدہ سن کر جو ہم جیے تو اس کا یہ سبب تھا کہ ہم نے اُسے جھوٹا وعدہ خیال کیا اور جان منادی ہے ۔
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
’ جانا ‘ کا فاعل ’ ہم نے ‘ محذوف ہے اور نازکی بمعنی نزاکت ۔
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
’ جو ‘ کا واؤ وزن سے ساقط ہو گیا اور یہ درست ہے بلکہ فصیح ہے لیکن اُس کے ساقط ہو جانے سے دو جس میں پیدا ہو گئیں اور عیب تنافر پیدا ہو گیا لیکن خوبی مضمون کہ ایسی باتوں کا کوئی خیال نہیں کرتا ۔ تیر نیم کش وہ جسے چھوڑتے وقت کمان دار نے کمان کو پورا نہ کھینچا ہو اور اسی سبب سے وہ پار نہ ہوسکا ۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
دوستوں کی شکایت ہے کہ اُنھوں نے نصیحت پر کیوں کمر باندھی ہے ۔
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
یعنی جس طرح دل میں غم چھپا ہوا ہے اگر اسی طرح شرار بن کر پتھر میں یہ پوشیدہ ہوتا تو اُس میں سے بھی لہو ٹپکتا ، حاصل یہ کہ غم کا اثر یہ ہے کہ دل و جگر لہو کر دیتا ہے ، پتھر کا جگر بھی ہو تو وہ بھی لہو ہو جائے ۔
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
’ پہ ‘ بمعنی مگر اور ان معنی میں ’ پر ‘ فصیح ہے اور آخر مصرعہ میں ’ ہے ‘ تامہ ہے اور پہلا ’ ہے ‘ ناقصہ ہے ۔
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
’ کیا ہے ‘ میں ضمیر مستقر ہے مرجع اس کا شبِ غم ہے جو دوسرے جملہ میں ہے کہ اگر اس شعر میں اضمار قبل الذکر اور ضمیر کو ستتر نہ لیں بلکہ ’ ہے ‘ کا فاعل شبِ غم کو کہیں تو لطف سجع جاتا ہے تاہم خوبی اس شعر کی حدِ تحسین سے باہر ہے ۔
ہوئے مرکے ہم جو رُسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
یعنی جنازہ اُٹھنے اور مزار بننے نے رُسوا کیا ڈوب مرتے تو اچھے رہتے ۔
اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں وہ چار ہوتا
دو چار ہونے سے دکھائی دینا مراد ہے ۔
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
اس مقطع کی شرح لکھنا ضرور نہیں بہت صاف ہے لیکن یہاں یہ نکتہ ضرور سمجھنا چاہئے کہ خبر سے انشاء میں زیادہ مزہ ہوتا ہے پہلا مصرع اگر اس طرح ہوتا کہ غالب تیری زبان سے اسرارِ تصوف نکلتے ہیں الخ تو یہ شعر جملہ خبریہ ہوتا ، مصنف کی شوقی طبع نے خبر کے پہلو کو چھوڑکر اسی مضمون کو تعجب کے پیرائے میں ادا کیا اور اب یہ شعر سارا جملہ انشائیہ ہے ۔
_______
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا
یعنی رقیب بوالہوس کی ہوس کو نشاط کا رو لطف وصل نگار حاصل ہے اب ہمارے جینے کا مزہ کیا رہا ، مصنف کی اصطلاح میں ہوس محبت رقیب کا نام ہے ، اسی غزل میں آگے کہتے ہیں :
ہوس کو پاس ناموس وفا کیا
دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ دُنیا میں انسان کو ہوا و ہوس سے رہائی نہیں ، اگر مرنا نہ ہوتا تو اس طرح کے جینے میں کچھ مزا نہ تھا یعنی حاصل زندگانی مرنا تھا ۔
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا
یعنی میرا حال سن کر تم کب تک ’ کیا کیا ‘ کہہ کر ٹالوگے ، اس تجاہل شعاری سے آخر تمہارا کیا مطلب ہے ۔
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا
نوازش بے جا وہ جو رقیب پر ہو اور جب رقیب پر تم التفات کرو تو میری شکایت سے کیوں برا مانو اور اُس کا گلہ کیوں کرو ۔
نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا
بے تکلف و بے حجاب ہوکر مجھ سے آنکھ چار کرو اور یہ تغافل صبر آزما کیسا یعنی میرا دل دیکھنے کے لئے اور میرے ضبط آزمانے کے لئے یہ چشم پوشی کیسی ۔
فروغِ شعلۂ خس اک نفس ہے
ہوس کو پاس ناموس وفا کیا
اس شعر میں رقیب پر طعن ہے کہ اُسے عشق نہیں ہے ہوس ہے اس کی محبت شعلہ خس کی طرح بے ثبات ہے اُسے ناموس وفا کا پاس بھلا کہاں ، اُس کا فروغ عشق چار دن کی چاندنی ہے ۔
نفس موج محیطِ بے خودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا
یعنی یہاں بے شراب پئے بے خودی ہے پھر بے التفاتی ساقی کا گلہ کرنا کیا ضرور ہے جسے اُس کی صورت دیکھ کر بے خودی ہو جائے اُسے وہ شراب نہ دے تو کیا شکایت ۔

دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
غم آوارگی ہائے صبا کیا
صبا سے بوئے گل مراد ہے اس سبب سے کہ صبا ہی کے چلنے سے پھول کھلتے ہیں تو اُس میں بوئے گل ملی ہوئی ہوتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اگر صبا آوارہ و پریشان نہ ہوتی تو سب پھولوں کی خوشبو ایک ہی جگہ جمع ہو جاتی لیکن شاعر کہتا ہے کہ مجھے پیراہن کے بسانے ہی کا دماغ نہیں ہے آوارہ مزاجی صبا کی کیا پروا ہے ہوس دُنیا نہ ہو اُسے بے وفائی دُنیا کا کیا غم ہے ۔
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
یعنی ہر قطرہ کو دریا کے ساتھ اتحاد کا دعویٰ ہے اسی طرح ہم کو بھی اپنے مبدأ کے ساتھ عینیت کا دعویٰ ہے وہ دریا ہے اور ہم اسی دریا کے قطرہ ہیں اور قطرہ دریا میں مل کر دریا ہو جاتا ہے ۔
محابا کیا ہے میں ضامن ادھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا ؟
’ ادھر دیکھ ‘ دو معنی رکھتا ہے ایک تو مقام تنبیہ میں یہ کلمہ کہتے ہیں دوسرے یہ کہ تو میری طرف دیکھ تو سہی اگر میں شہید نگاہ ہو جاؤں تو ذمہ کرتا ہوں کہ تجھے خون بہا نہ دینا پڑے گا ۔
سن اے غارت گر جنس وفا سن
شکست قیمت دل کی صدا کیا
یعنی تو جو یہ کہتا ہے کہ ہمیں شکست دل کی خبر نہیں تو کہیں شکست دل میں آواز ہوتی ہے جو تجھے سنائی دیتی مصنف نے شکست دل کو شکست قیمت دل سے تعبیر کیا ہے اور اسی لئے جنس و غارت اُس کے مناسبات ذکر کئے ہیں دوسرا پہلو اس بندش میں یہ نکلتا ہے کہ شکستِ دل کی صدا تجھے اچھی معلوم ہوتی ہے تو دل شکنی تو کئے جا اور سنے بھلا دل کی اور صدائے شکستِ دل کی کیا حقیقت ہے جو تو تامل کرے ۔
کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ
شکیب خاطر عاشق بھلا کیا
یعنی مجھے ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ بے تمہارے مجھے چین نہ آئے گا ۔
یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں
یہ کافر فتنۂ طاقت رہا کیا
اسی وعدۂ صبر آزما کو دوسرے مصرع میں فتنۂ طاقت ریا سے تعبیر کیا ہے اس شعر میں جس طرز کی بندش ہے مصنف کا خاص رنگ ہے اور اس میں منفرد ہیں ۔
بلائے جاں ہے غالبؔ اُس کی ہر بات
عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا
’ کیا ‘ اس شعر میں حرفِ عطف ہے جسے معطوف و معطوف علیہ میں بیان مساوات کے لئے لاتے ہیں ۔
_______
در خور قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہو
یعنی پھر ہمارا کہناکیا غلط ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا اور ہمسا کوئی آفت زدہ نہ ہوا ۔
بندگی میں بھی وہ آزاد و خودبیں ہیں کہ ہم
اُلٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
یعنی پھر کسی اور کی ہم کیوں اُٹھانے لگے ۔
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بت آئینہ سیما نہ ہوا
یعنی کسی نے مقابلہ نہ کیا ۔
کم نہیں نازش ہم نامی چشم خوباں
تیرا بیمار برا کیا ہے گر اچھا نہ ہوا
یعنی اگر میں بیمار رہا تو چشم معشوق بھی تو بیمار ہے یہ ہم نامی کا فخر کیا کم ہے ۔

سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
یعنی جس طرح کہ قطرہ خاک میں جذب ہوکر ایک داغ خاک پر پیدا کرتا ہے اُسی طرح نالہ ضبط کرنے سے سینہ میں داغ پڑجاتا ہے ۔
نام کا میرے ہی جو دُکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا
صاف ہے ۔
ہر بن مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خوناب
حمزہ کا قصہ ہوا عشق کا چرچا نہ ہوا
یعنی یہ نہیں ممکن کہ خوناب نہ ٹپکے ، اس شعر میں استفہام انکاری ہے کہ بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ خوناب نہ ٹپکے ۔
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے جزو کل میں
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
یعنی عارف کی نظر کھیل تھوڑی ہے ؟ اس شعر کو بھی استفہام انکاری کے طرز سے پڑھنا چاہئے ۔
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے یہ تماشا نہ ہوا
اپنی رُسوائی اور موردِ تعذیر ہونے کا اظہار ہے کہ لوگ اُسے تماشا سمجھے ہوئے ہیں ۔
_______
اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشتِ خار اپنا
اسدؔ اور آہو کا تقابل تو ظاہر ہے ، جنون جولان ہونے سے یہ اشارہ کیا ہے کہ آہو بھی میرے پیچھے رہ جاتا ہے اور پشتِ خار سے پیچھے ہی کھجاتے ہیں ۔ گدا کی لفظ پشتِ خار کی مناسبت کے لئے ہے ، بے سر و پا کہنے سے یہ مقصود ہے کہ پشتِ خار تک میرے پاس نہیں ہے ، اگر ہے تو مژگانِ آہو ہے پنجہ میں اور مژگان میں اور پشتِ خار میں ، وجہ شبہ جو ہے وہ ظاہر ہے یعنی شکل تینوں کی ایک ہی سی ہے ، مژگان کو پہلے پنجہ سے تشبیہ دی ، پھر پنجہ کو پشتِ خار سے تشبیہ دی ۔
_______
 

الف عین

لائبریرین
پنجند سائٹ پر تقریباً ہر کتاب پرانی برقی کتابوں یا بزم اردو لائبریری سے حاصل کی گئی ہے، یہ کتاب بھی پہلے برقی کتابوں میں شائع ہوئی تھی۔ بار بار توجہ دلانے پر بھی پنجند کے وقاص نے صرف کچھ کتابوں میں برقی کتابیں / بزم اردو کا حوالہ شامل کیا ہے
 
Top