شراپتی ٹرین

anwarjamal

محفلین
شراپتی ٹرین ،،،،،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پلیٹ فارم سے جو بھی ٹرین دو بجکر دس منٹ پر گزرتی ہے اسے شراپ لگ جاتا ہے ، جس کے اثرات کم از کم سو کلومیٹر تک نہیں جاتے ۔
سو کلو میٹر دور بھگوان کرشن جی کا مندر ہے جس کے پڑوس میں ہی ایک ولی اللہ کی درگاہ ہے ۔ یہاں ہندو مسلم ایک طرح سے بھائی بھائی ہیں سو کبھی آپس میں دنگا فساد نہیں ہوتا ۔
ٹرین اور ٹرین کے لوگ یہاں پہنچ کر شانت ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں بھاری یقین ہوتا ہے کہ ٹرین کے ساتھ چمٹے بھوت پریت اب ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔
یہ چیز جسے ،، یقین،، کہتے ہیں بڑے کام کی چیز ہوتی ہے، اسی میں معجزے، کرامات اور انہونیاں چھپی ہوتی ہیں ۔ چنانچہ جسے جیسا یقین ہو قدرت اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتی ہے ۔
کچھ لوگ مرنے کے بعد یقین ہی نہیں کرتے کہ وہ مر چکے ہیں، تو شاید وہی لوگ دنیا کے لیے بھوت پریت بن جاتے ہوں ۔
میں ٹرین میں اپنی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا مگر سُومیّا ابھی نہیں آئی تھی ۔ براہ کرم آپ اس نام کی درست ادائیگی کیجیے گا اسے آپ سومیا somya نہ پڑھیے بلکہ یہ سُومیّا soo-mayya ہے ۔
وہ میری دلہن ہے، بالکل نئی نویلی دلہن جسے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا تھا شادی کیے ۔ اس کے ہاتھوں پر مہندی کا لال رنگ ابھی بھی اتنا ہی شدت سے چڑھتا ہے جتنا کہ کسی کنواری کے ہاتھوں پر ۔
اگلے روز وہ لال رنگ کچھ سیاہی مائل سا ہو جاتا ہے پھر بتدریج سیاہی مائل سے ہوتے ہوتے دوبارہ لال اور پھر ہلکا نارنجی ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں جس ناری کے ہاتھوں پر مہندی کا رنگ جتنا کھل کے آئے اتنا ہی زیادہ اس کے دل میں پیار ہوتا ہے ۔
سُومیّا کے من میں کسی کے لیے کتنا پیار ہو سکتا ہے یہ مجھ سے زیادہ کون جانتا ہو گا ۔ مگر وہ تھی کہاں؟
ابھی تک آئی کیوں نہیں؟
جب ہم دونوں ٹرین میں سوار ہو رہے تھے تو اس نے کہا تھا تم جا کر سیٹ پر بیٹھو، ، میں واش روم سے ہو کر آتی ہوں ۔ حالانکہ میں نے اسے کہا بھی تھا کہ جب ٹرین اسٹیشن پر کھڑی ہو تو واش روم استعمال نہیں کرتے ۔
ٹرین ابھی بھی کھڑی تھی جبکہ یہ اسٹیشن ویران تھا ۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں کسی ڈائن کا بسیرا ہے اور وہ ڈائن ماؤں کے نوزائیدہ بچے چھین لیا کرتی ہے اور اگر کو ئی ٹرین دو بجکر دس منٹ پر یہاں سے گزرے یا ٹھہر جائے تو اس میں گھس جاتی ہے ۔
تاہم اس ڈائن کے بارے اطمینان بخش بات یہ تھی کہ کرشن جی کے مندر یا ولی اللہ کی درگاہ سے پہلے ہی وہ چھینا ہوا بچہ کسی نہ کسی خالی سیٹ پر یا کسی کی گود میں مل جایا کرتا ۔
ٹرین کا وسل سنائی دیا ۔ پہلا وسل جو خبردار کرتا ہے کہ فالتو لوگ ٹرین سے دور ہو جائیں اور جو کوئی مسافر باہر کھڑا ہے فوراً اندر آجائے ۔
سُومیّا ڈبے کے اندر آگئی ۔
اس نے مجھے دیکھ لیا اور میں نے اسے ،،، وہ میری طرف بڑھنے لگی ۔
یہ ڈبہ خالی خالی سا تھا ۔ میرے سامنے والی سیٹ پر محض ایک نوجوان براجمان تھا اور اس کی مخالف سیٹ پر صرف ایک میں تھا، حالانکہ وہاں چار چار بندے بیٹھ سکتے تھے ۔
سُومیّا آ رہی تھی ۔ مجھے اس کے لیے جگہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ وہ آکر آرام سے میرے ساتھ بیٹھ سکتی تھی مگر جب وہ قریب آئی تو میں ایکدم سے تشویش میں مبتلا ہو کر کھڑا ہو گیا ۔ اس کی جھولی میں ایک نوزائیدہ بچہ تھا ۔ ۔
یہ کون ہے؟ میں چلایا
وہ بولی،، چلاؤ تو مت، بچہ ڈر جائے گا ۔
مگر ۔ ۔ یہ ۔ ۔ یہ ۔ ۔ کس کا بچہ ہے؟
اپنا ہی ہے ۔ وہ مسکرائی، پچھلے ڈبے میں چھوٹی خالہ بیٹھی ہیں، انہوں نے اسے مجھے پکڑا دیا،، بولنے لگیں ذرا میں اپنا سب سامان اچھی طرح سیٹوں کے نیچے ٹھونس لوں ،،جب تک تم اسے سنبھالو ۔۔
سامنے سیٹ پر بیٹھا نوجوان ہماری باتیں سن رہا تھا
سُومیّا میری جگہ بیٹھ کر بچے کو سنبھالنے لگی ۔ بچہ اوں آں کر کے ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا جیسے کسی انجان گود میں آ کر بے چین ہو رہا ہو ۔
اور میں اس لیے بے چین ہو رہا تھا کہ کہیں سُمیّا کی بجائے میرے پاس ڈاٰئن تو نہیں آ گئی تھی ۔ میں بار بار سُمیّا کا چہرہ تک رہا تھا، اور وہ نوجوان بھی بار بار اسے دیکھے جا رہا تھا ۔ ۔ مگر وہ تو شاید اس لیے دیکھ رہا ہو کہ سُمیّا جیسی حسین لڑکی پہلے کبھی نہ دیکھی ہو گی ۔
ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی ۔
میں نے کھڑکی کے باہر دیکھا۔ دور آکاش پر کالے بادلوں کے غول ایکدوسرے سے ٹکرا رہے تھے جس کے نتیجے میں بجلیاں چمک چمک جاتیں ۔ مگر ان کی گھن گرج سنائی نہ دے رہی تھی ۔شاید وہ بادل بہت دور تھے ۔ سُمیّا بچے کو چومے جا رہی تھی ۔ آخر کار وہ ننھا کسی اجنبی بو کی تاب نہ لاتے ہوئے پھٹ پڑا اور چیخ چیخ کر رونے لگا ۔
ہائے میرا بچہ ،، ہائے میرا منا،، سُمیّا بالکل ایک ماں کی طرح اسے چمکارنے لگی ۔
نوجوان کو بچے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ بس سُمیّا کو دیکھے جا رہا تھا ۔حالانکہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ شاید فرسٹ ائیر کا اسٹوڈنٹ ہے ۔ سُمیّا کے آنے سے پہلے وہ ایک کتاب میں کھویا ہوا تھا ، جیسے کوئی سبق یاد کر رہا ہو ۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ کوئی ایسا نوجوان ہے جو اپنا وقت کسی صورت ضائع نہیں کرتا ۔ جہاں ذرا سا بھی موقع ملے کتاب کھول کر بیٹھ جایا کرتا ہے ۔ اسے صرف ایک فکر ہے ۔ اور وہ ہے مستقبل بنانے کی فکر ۔ کچھ کر دکھانے کی فکر ۔ وہ کامیاب ترین لوگوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتا تھا ۔ اس لیے دنیا کے تماشوں سے دور صرف اور صرف محنت پر یقین رکھتا تھا ۔ اس غریب کو کیا پتہ کہ زندگی کے کسی موڑ پر اچانک کوئی سُمیّا بھی ٹکرا سکتی ہے ۔
سُمیّا بچے کو چپ کرا کرا کے تھک گئی مگر بچہ خاموش نہ ہوا ۔ تنگ آکر سُمیّا نے وہ حرکت کی جو صرف ایک ماں ہی کر سکتی ہے ۔ اس نے اپنی قمیض اٹھائی اور بچے کا منہ چھاتی سے لگا لیا ۔
بچے کا منہ بند اور نوجوان کا کھلے کا کھلے رہ گیا ۔ پھر وہ نوجوان شرما گیا ۔ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ۔ اس کی آنکھوں میں کوئی ایسی بجلی کوند گئی تھی جو آکاش میں ٹکراتے بادلوں میں کہیں نہ تھی ۔
نوجوان کیا سوچ رہا تھا ۔ نہیں معلوم ۔ میں تو بس اپنے بارے بتا سکتا تھا کہ جب میری آنکھوں میں پہلی بار سُمیّا نے بجلیاں چمکائی تھیں تو میں بس ایک ہی جملہ سوچ رہا تھا ۔ ۔ کہ سُمیّا ۔ ۔ ۔ تیرے بغیر نہیں جی سکتا میں ۔
اور اس جملے کے بعد سے کسی کتاب کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھ پایا ۔ تعلیم اور مستقبل کو پس ِ پشت رکھ کر سُمیّا سے شادی کر لی ۔
بچے کو اپنا جوھر مقصود نہ ملا تو وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر پھیر کر ایک بار پھر رونے لگا ۔ اور ساتھ ہی سُمیّا بھی رونے لگی ۔ مجھ سے کہنے لگی،، میری چھاتیوں میں دودھ نہیں ہے ۔
میں نے کہا،، ہو بھی کیسے سکتا ہے ، جاؤ اسے خالہ کو واپس کرآؤ ۔
مگر وہ نہ مانی ۔ بچے کو بہلانے میں لگی رہی ۔ تنگ آکر میں ہی اٹھ گیا ۔ میرا ارادہ اس کی خالہ کو بلا کر لانے کا تھا ۔
یہ ٹرین شراپتی تھی اور فی الحال اس کا شراپ ختم ہونے کو نہیں تھا ۔ بھگوان جی کا مندر دور تھا ۔تاہم ٹرین فراٹے بھر رہی تھی ۔
میں لمبے لمبے ڈگ بھر کر دوسرے ڈبے میں گیا وہاں چند لوگ بیٹھے تھے مگر خالہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔میں اور آگے بڑھا ۔ اس کے بعد والے ڈبے میں جا کر دیکھا ۔
اور تب میں دیکھتا رہ گیا ۔ میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ اس ڈبے میں سامنے ایک سیٹ پر میری نئی نویلی اور شاید اوریجنل دلہن سُمیّا بیٹھی تھی ۔ خالی گود ۔ بغیر کسی بچے کے ۔ وہ کھڑکی سے باہر کے نظاروں میں محو تھی ۔
میں بے اختیار پکار اٹھا ۔ سُمیّا ۔ ۔
تت ۔ ۔تم یہاں ہو ۔ ۔ تو وہاں وہ کون ہے؟
اس نے شور سن کر کھڑکی سے نظریں ہٹائیں اور میری طرف دیکھا ۔ ۔ مگر پہچان نہ سکی ۔اجنبی نظروں سے ٹکر ٹکر تکنے لگی ۔
میں نے پھر اسے پکارا،، سُمیّا ۔ ۔ یہ کیا ماجرا ہے یار ۔ چلو میرے ساتھ ۔۔ ابھی چلو ۔ میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ تبھی پیچھے سے کسی نے میرا کالر پکڑ کر کھینچا ۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو اپنے سامنے ہوبہو میں ہی کھڑا تھا ۔ اس بوگی میں موجود تمام لوگ ہماری طرف متوجہ ہو گئے ۔ انہیں ایک جیسی شکل کے دو انسان نظر آ رہے تھے ۔ پھر کسی نے اچانک صدا لگائی ۔۔۔ بھوت ۔ ۔ یہ بھوت ہے ۔۔
لوگ مجھے دھکیل کے چلتی ٹرین کے دروازے تک لے گئے ۔ پھر ایک زوردار دھکے کے ساتھ مجھے ہوا میں اچھال دیا گیا ۔
میں ہوا میں تھا اور ٹرین میری آنکھوں کے سامنے سے بھاگتی ہوئی دور جا رہی تھی ۔وہ مجھ سے ڈر گئی تھی اور اس کے مسافر بھی ڈر گئے تھے حالانکہ میں کوئی بھوت ووت نہیں تھا ۔ میں تو بس وہ تھا جسے اپنی موت کا اب تک یقین نہیں آیا تھا ۔
میں تو بس وہ تھا جو ہر وقت کتابوں میں کھویا رہتا تھا ۔ پھر ایک دن سُمیّا مجھ سے ٹکرا گئی ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ اتنی حسین اتنی حسین ہوگی کہ میں سب کچھ بھلا کر اسے اپنانے کے لیے کچھ بھی کر گزروں گا ۔ میرا اب کوئی مستقبل تھا تو وہ سُمیّا تھی ۔ پھر ایک دن ہم نے بھاگ کر شادی کر لی کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہ تھا ۔ یہ شادی ہمارے لیے وہ جرم بن گئی جس کی سزا موت کے سوا اور کچھ نہ تھی کیونکہ سُمیّا کے خاندان میں غیرت کا لیول بہت ہائی تھا ۔
ہمارے دوستوں نے ہمیں دور پار کے ایک چھوٹے سے شہر میں چھپا دیا تھا جہاں ہم ایک سال تک خیریت سے رہے ۔ سُمیّا نے اس دوران ایک ننھا سا پھول بھی کھلا دیا تھا ۔ ہمارا بچہ اتنا پیارا تھا کہ محض ایک نظر بھر کر اسے دیکھنے سے ہی ہماری سزا معاف ہو سکتی تھی ۔ مگر جو لوگ ہمیں ڈھونڈ رہے تھے وہ نہایت ہی کٹھور نکلے ۔ وہ سر پر آن پہنچے تھے ۔ میں اور سُمیّا قریبی ریلوے اسٹیشن کی طرف بھاگے ۔دو بجکر دس منٹ پر ہم ایک ٹرین میں چھپے خوف سے تھر تھر کانپ رہے تھے ۔ٹرین چل پڑی تو میں نے سُمیّا کو تسلی دی ،، لگتا ہے ہم ان کی نظروں سے بچ گئے ۔ سُمیّا چپ تھی مگر اس افراتفری کی وجہ سے بچہ بے تحاشا رو رہا تھا ۔ میں نے کہا ،، اسے دودھ پلا دو ۔
اس نے قمیض اوپر کر کے دودھ پلانے کی بہت کوشش کی، مگر دودھ آیا ہی نہیں ۔خوف کی شدت سے وہ خشک ہو چکا تھا ۔
بچے کے رونے سے دیگر مسافر ناگواری محسوس کر رہے تھے ۔ میں نے کہا لاؤ اسے مجھے دے دو ۔۔وہ منے کو میری طرف بڑھانے لگی مگر پھر یکدم واپس کھینچ کر اسے بھینچ لیا ۔۔اس کی نگاہوں میں دوڑتا خوف موت کی سرخی بن گیا ۔ میں سمجھ گیا کہ ہمیں موت کی سزا سنانے والوں کو اس نے دیکھ لیا ہے ۔
ہائے میرا بچہ،، ہائے میرا منا ۔ ۔ وہ بلبلانے لگی ۔ اور تبھی یک بہ یک میرے دل سے ایک شدید دعا نکلی ۔ ہئے بھگوان،، ہمیں ان کے ہاتھ لگنے سے پہلے ہی موت دے دے ۔ ہم نے جو غلطی کی تھی اس کے عوض ایک ایک لمحہ خوف میں گزرا تھا ۔ ہمیں اس خوف سے اب مکتی دلا دے ۔ یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ لآ آف ایٹریکشن کا قانون فوری حرکت میں آگیا اور بھاگتی دوڑتی ٹرین پٹری سے اتر گئی یا جانے اسے کیا حادثہ پیش آیا ۔ سُمیّا کے ہاتھ سے بچہ چھوٹ کر جانے کہاں جا گرا ۔ ہم دونوں اب ہر طرح کے خوف سے آزاد یعنی مر چکے تھے ۔ اور ظاہر ہے ہمارا لاڈلا بھی کہاں بچا ہوگا ۔ ہاتھ سے چھوٹ کر کہیں کھو جانے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ زندہ بچ گیا ہو گا ۔ ایک ماہ کے بچے میں جان ہی کتنی ہوتی ہے ۔ مگر یہ بات سُمیّا مانے تب نا ۔
مجھے بھوت کہہ کر ٹرین سے باہر اچھال دیا گیا تھا ۔ یہی سب یاد. کرتے کرتے میں دھم سے زمین پر آن گرا ۔۔ ٹرین گزر چکی تھی ۔ قدموں کی چاپ نے سُمیّا کے آنے کی خبر دی ۔ میں نے اس سے پوچھا،، کیا بالکل تمہاری ہی شکل کی کوئی تمہاری بہن بھی ہے؟
بولی ،، نہیں تو ۔
پھر وہ کون تھی ۔ اور وہاں بالکل میرے ہی جیسا ایک آدمی بھی تھا ۔
وہ مجھے ایک ہاتھ سے سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے بولی،، جب ہم مر جاتے ہیں تو ہمارے جیسا ہی کوئی دوسرا پیدا ہو جاتا ہے ۔
مگر کیا ۔ ۔ میں نے نہایت دکھی دل سے پوچھا،، کیا ان کا نصیب بھی ہمارے جیسا ہی ہوتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انور جمال انور
یکم اگست 2019
 

وسیم

محفلین
بہت خوبصورت تحریر۔

کیا ان کا نصیب بھی ہمارے جیسا ہی ہوتا ہے؟

کیا بات ہے، انور صاحب
 

سیما علی

لائبریرین
مجھے بھوت کہہ کر ٹرین سے باہر اچھال دیا گیا تھا ۔ یہی سب یاد. کرتے کرتے میں دھم سے زمین پر آن گرا ۔۔ ٹرین گزر چکی تھی ۔ قدموں کی چاپ نے سُمیّا کے آنے کی خبر دی ۔ میں نے اس سے پوچھا،، کیا بالکل تمہاری ہی شکل کی کوئی تمہاری بہن بھی ہے؟
بولی ،، نہیں تو ۔
پھر وہ کون تھی ۔ اور وہاں بالکل میرے ہی جیسا ایک آدمی بھی تھا ۔
وہ مجھے ایک ہاتھ سے سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے بولی،، جب ہم مر جاتے ہیں تو ہمارے جیسا ہی کوئی دوسرا پیدا ہو جاتا ہے ۔
مگر کیا ۔ ۔ میں نے نہایت دکھی دل سے پوچھا،، کیا ان کا نصیب بھی ہمارے جیسا ہی ہوتا ہے؟
بہت خوبصورت تحریر ۔۔۔۔
بہت اچھا انداز ۔۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
اس پلیٹ فارم سے جو بھی ٹرین دو بجکر دس منٹ پر گزرتی ہے اسے شراپ لگ جاتا ہے ، جس کے اثرات کم از کم سو کلومیٹر تک نہیں جاتے ۔
سو کلو میٹر دور بھگوان کرشن جی کا مندر ہے جس کے پڑوس میں ہی ایک ولی اللہ کی درگاہ ہے ۔ یہاں ہندو مسلم ایک طرح سے بھائی بھائی ہیں سو کبھی آپس میں دنگا فساد نہیں ہوتا ۔
ٹرین اور ٹرین کے لوگ یہاں پہنچ کر شانت ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں بھاری یقین ہوتا ہے کہ ٹرین کے ساتھ چمٹے بھوت پریت اب ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔
یہ چیز جسے ،، یقین،، کہتے ہیں بڑے کام کی چیز ہوتی ہے، اسی میں معجزے، کرامات اور انہونیاں چھپی ہوتی ہیں ۔ چنانچہ جسے جیسا یقین ہو قدرت اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتی ہے ۔
کچھ لوگ مرنے کے بعد یقین ہی نہیں کرتے کہ وہ مر چکے ہیں، تو شاید وہی لوگ دنیا کے لیے بھوت پریت بن جاتے ہوں ۔
میں ٹرین میں اپنی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا مگر سُومیّا ابھی نہیں آئی تھی ۔ براہ کرم آپ اس نام کی درست ادائیگی کیجیے گا اسے آپ سومیا somya نہ پڑھیے بلکہ یہ سُومیّا soo-mayya ہے ۔
وہ میری دلہن ہے، بالکل نئی نویلی دلہن جسے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا تھا شادی کیے ۔ اس کے ہاتھوں پر مہندی کا لال رنگ ابھی بھی اتنا ہی شدت سے چڑھتا ہے جتنا کہ کسی کنواری کے ہاتھوں پر ۔
اگلے روز وہ لال رنگ کچھ سیاہی مائل سا ہو جاتا ہے پھر بتدریج سیاہی مائل سے ہوتے ہوتے دوبارہ لال اور پھر ہلکا نارنجی ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں جس ناری کے ہاتھوں پر مہندی کا رنگ جتنا کھل کے آئے اتنا ہی زیادہ اس کے دل میں پیار ہوتا ہے ۔
سُومیّا کے من میں کسی کے لیے کتنا پیار ہو سکتا ہے یہ مجھ سے زیادہ کون جانتا ہو گا ۔ مگر وہ تھی کہاں؟
ابھی تک آئی کیوں نہیں؟
جب ہم دونوں ٹرین میں سوار ہو رہے تھے تو اس نے کہا تھا تم جا کر سیٹ پر بیٹھو، ، میں واش روم سے ہو کر آتی ہوں ۔ حالانکہ میں نے اسے کہا بھی تھا کہ جب ٹرین اسٹیشن پر کھڑی ہو تو واش روم استعمال نہیں کرتے ۔
ٹرین ابھی بھی کھڑی تھی جبکہ یہ اسٹیشن ویران تھا ۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں کسی ڈائن کا بسیرا ہے اور وہ ڈائن ماؤں کے نوزائیدہ بچے چھین لیا کرتی ہے اور اگر کو ئی ٹرین دو بجکر دس منٹ پر یہاں سے گزرے یا ٹھہر جائے تو اس میں گھس جاتی ہے ۔
تاہم اس ڈائن کے بارے اطمینان بخش بات یہ تھی کہ کرشن جی کے مندر یا ولی اللہ کی درگاہ سے پہلے ہی وہ چھینا ہوا بچہ کسی نہ کسی خالی سیٹ پر یا کسی کی گود میں مل جایا کرتا ۔
ٹرین کا وسل سنائی دیا ۔ پہلا وسل جو خبردار کرتا ہے کہ فالتو لوگ ٹرین سے دور ہو جائیں اور جو کوئی مسافر باہر کھڑا ہے فوراً اندر آجائے ۔
سُومیّا ڈبے کے اندر آگئی ۔
اس نے مجھے دیکھ لیا اور میں نے اسے ،،، وہ میری طرف بڑھنے لگی ۔
یہ ڈبہ خالی خالی سا تھا ۔ میرے سامنے والی سیٹ پر محض ایک نوجوان براجمان تھا اور اس کی مخالف سیٹ پر صرف ایک میں تھا، حالانکہ وہاں چار چار بندے بیٹھ سکتے تھے ۔
سُومیّا آ رہی تھی ۔ مجھے اس کے لیے جگہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ وہ آکر آرام سے میرے ساتھ بیٹھ سکتی تھی مگر جب وہ قریب آئی تو میں ایکدم سے تشویش میں مبتلا ہو کر کھڑا ہو گیا ۔ اس کی جھولی میں ایک نوزائیدہ بچہ تھا ۔ ۔
یہ کون ہے؟ میں چلایا
وہ بولی،، چلاؤ تو مت، بچہ ڈر جائے گا ۔
مگر ۔ ۔ یہ ۔ ۔ یہ ۔ ۔ کس کا بچہ ہے؟
اپنا ہی ہے ۔ وہ مسکرائی، پچھلے ڈبے میں چھوٹی خالہ بیٹھی ہیں، انہوں نے اسے مجھے پکڑا دیا،، بولنے لگیں ذرا میں اپنا سب سامان اچھی طرح سیٹوں کے نیچے ٹھونس لوں ،،جب تک تم اسے سنبھالو ۔۔
سامنے سیٹ پر بیٹھا نوجوان ہماری باتیں سن رہا تھا
سُومیّا میری جگہ بیٹھ کر بچے کو سنبھالنے لگی ۔ بچہ اوں آں کر کے ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا جیسے کسی انجان گود میں آ کر بے چین ہو رہا ہو ۔
اور میں اس لیے بے چین ہو رہا تھا کہ کہیں سُمیّا کی بجائے میرے پاس ڈاٰئن تو نہیں آ گئی تھی ۔ میں بار بار سُمیّا کا چہرہ تک رہا تھا، اور وہ نوجوان بھی بار بار اسے دیکھے جا رہا تھا ۔ ۔ مگر وہ تو شاید اس لیے دیکھ رہا ہو کہ سُمیّا جیسی حسین لڑکی پہلے کبھی نہ دیکھی ہو گی ۔
ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی ۔
میں نے کھڑکی کے باہر دیکھا۔ دور آکاش پر کالے بادلوں کے غول ایکدوسرے سے ٹکرا رہے تھے جس کے نتیجے میں بجلیاں چمک چمک جاتیں ۔ مگر ان کی گھن گرج سنائی نہ دے رہی تھی ۔شاید وہ بادل بہت دور تھے ۔ سُمیّا بچے کو چومے جا رہی تھی ۔ آخر کار وہ ننھا کسی اجنبی بو کی تاب نہ لاتے ہوئے پھٹ پڑا اور چیخ چیخ کر رونے لگا ۔
ہائے میرا بچہ ،، ہائے میرا منا،، سُمیّا بالکل ایک ماں کی طرح اسے چمکارنے لگی ۔
نوجوان کو بچے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ بس سُمیّا کو دیکھے جا رہا تھا ۔حالانکہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ شاید فرسٹ ائیر کا اسٹوڈنٹ ہے ۔ سُمیّا کے آنے سے پہلے وہ ایک کتاب میں کھویا ہوا تھا ، جیسے کوئی سبق یاد کر رہا ہو ۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ کوئی ایسا نوجوان ہے جو اپنا وقت کسی صورت ضائع نہیں کرتا ۔ جہاں ذرا سا بھی موقع ملے کتاب کھول کر بیٹھ جایا کرتا ہے ۔ اسے صرف ایک فکر ہے ۔ اور وہ ہے مستقبل بنانے کی فکر ۔ کچھ کر دکھانے کی فکر ۔ وہ کامیاب ترین لوگوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتا تھا ۔ اس لیے دنیا کے تماشوں سے دور صرف اور صرف محنت پر یقین رکھتا تھا ۔ اس غریب کو کیا پتہ کہ زندگی کے کسی موڑ پر اچانک کوئی سُمیّا بھی ٹکرا سکتی ہے ۔
سُمیّا بچے کو چپ کرا کرا کے تھک گئی مگر بچہ خاموش نہ ہوا ۔ تنگ آکر سُمیّا نے وہ حرکت کی جو صرف ایک ماں ہی کر سکتی ہے ۔ اس نے اپنی قمیض اٹھائی اور بچے کا منہ چھاتی سے لگا لیا ۔
بچے کا منہ بند اور نوجوان کا کھلے کا کھلے رہ گیا ۔ پھر وہ نوجوان شرما گیا ۔ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ۔ اس کی آنکھوں میں کوئی ایسی بجلی کوند گئی تھی جو آکاش میں ٹکراتے بادلوں میں کہیں نہ تھی ۔
نوجوان کیا سوچ رہا تھا ۔ نہیں معلوم ۔ میں تو بس اپنے بارے بتا سکتا تھا کہ جب میری آنکھوں میں پہلی بار سُمیّا نے بجلیاں چمکائی تھیں تو میں بس ایک ہی جملہ سوچ رہا تھا ۔ ۔ کہ سُمیّا ۔ ۔ ۔ تیرے بغیر نہیں جی سکتا میں ۔
اور اس جملے کے بعد سے کسی کتاب کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھ پایا ۔ تعلیم اور مستقبل کو پس ِ پشت رکھ کر سُمیّا سے شادی کر لی ۔
بچے کو اپنا جوھر مقصود نہ ملا تو وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر پھیر کر ایک بار پھر رونے لگا ۔ اور ساتھ ہی سُمیّا بھی رونے لگی ۔ مجھ سے کہنے لگی،، میری چھاتیوں میں دودھ نہیں ہے ۔
میں نے کہا،، ہو بھی کیسے سکتا ہے ، جاؤ اسے خالہ کو واپس کرآؤ ۔
مگر وہ نہ مانی ۔ بچے کو بہلانے میں لگی رہی ۔ تنگ آکر میں ہی اٹھ گیا ۔ میرا ارادہ اس کی خالہ کو بلا کر لانے کا تھا ۔
یہ ٹرین شراپتی تھی اور فی الحال اس کا شراپ ختم ہونے کو نہیں تھا ۔ بھگوان جی کا مندر دور تھا ۔تاہم ٹرین فراٹے بھر رہی تھی ۔
میں لمبے لمبے ڈگ بھر کر دوسرے ڈبے میں گیا وہاں چند لوگ بیٹھے تھے مگر خالہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔میں اور آگے بڑھا ۔ اس کے بعد والے ڈبے میں جا کر دیکھا ۔
اور تب میں دیکھتا رہ گیا ۔ میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ اس ڈبے میں سامنے ایک سیٹ پر میری نئی نویلی اور شاید اوریجنل دلہن سُمیّا بیٹھی تھی ۔ خالی گود ۔ بغیر کسی بچے کے ۔ وہ کھڑکی سے باہر کے نظاروں میں محو تھی ۔
میں بے اختیار پکار اٹھا ۔ سُمیّا ۔ ۔
تت ۔ ۔تم یہاں ہو ۔ ۔ تو وہاں وہ کون ہے؟
اس نے شور سن کر کھڑکی سے نظریں ہٹائیں اور میری طرف دیکھا ۔ ۔ مگر پہچان نہ سکی ۔اجنبی نظروں سے ٹکر ٹکر تکنے لگی ۔
میں نے پھر اسے پکارا،، سُمیّا ۔ ۔ یہ کیا ماجرا ہے یار ۔ چلو میرے ساتھ ۔۔ ابھی چلو ۔ میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ تبھی پیچھے سے کسی نے میرا کالر پکڑ کر کھینچا ۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو اپنے سامنے ہوبہو میں ہی کھڑا تھا ۔ اس بوگی میں موجود تمام لوگ ہماری طرف متوجہ ہو گئے ۔ انہیں ایک جیسی شکل کے دو انسان نظر آ رہے تھے ۔ پھر کسی نے اچانک صدا لگائی ۔۔۔ بھوت ۔ ۔ یہ بھوت ہے ۔۔
لوگ مجھے دھکیل کے چلتی ٹرین کے دروازے تک لے گئے ۔ پھر ایک زوردار دھکے کے ساتھ مجھے ہوا میں اچھال دیا گیا ۔
میں ہوا میں تھا اور ٹرین میری آنکھوں کے سامنے سے بھاگتی ہوئی دور جا رہی تھی ۔وہ مجھ سے ڈر گئی تھی اور اس کے مسافر بھی ڈر گئے تھے حالانکہ میں کوئی بھوت ووت نہیں تھا ۔ میں تو بس وہ تھا جسے اپنی موت کا اب تک یقین نہیں آیا تھا ۔
میں تو بس وہ تھا جو ہر وقت کتابوں میں کھویا رہتا تھا ۔ پھر ایک دن سُمیّا مجھ سے ٹکرا گئی ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ اتنی حسین اتنی حسین ہوگی کہ میں سب کچھ بھلا کر اسے اپنانے کے لیے کچھ بھی کر گزروں گا ۔ میرا اب کوئی مستقبل تھا تو وہ سُمیّا تھی ۔ پھر ایک دن ہم نے بھاگ کر شادی کر لی کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہ تھا ۔ یہ شادی ہمارے لیے وہ جرم بن گئی جس کی سزا موت کے سوا اور کچھ نہ تھی کیونکہ سُمیّا کے خاندان میں غیرت کا لیول بہت ہائی تھا ۔
ہمارے دوستوں نے ہمیں دور پار کے ایک چھوٹے سے شہر میں چھپا دیا تھا جہاں ہم ایک سال تک خیریت سے رہے ۔ سُمیّا نے اس دوران ایک ننھا سا پھول بھی کھلا دیا تھا ۔ ہمارا بچہ اتنا پیارا تھا کہ محض ایک نظر بھر کر اسے دیکھنے سے ہی ہماری سزا معاف ہو سکتی تھی ۔ مگر جو لوگ ہمیں ڈھونڈ رہے تھے وہ نہایت ہی کٹھور نکلے ۔ وہ سر پر آن پہنچے تھے ۔ میں اور سُمیّا قریبی ریلوے اسٹیشن کی طرف بھاگے ۔دو بجکر دس منٹ پر ہم ایک ٹرین میں چھپے خوف سے تھر تھر کانپ رہے تھے ۔ٹرین چل پڑی تو میں نے سُمیّا کو تسلی دی ،، لگتا ہے ہم ان کی نظروں سے بچ گئے ۔ سُمیّا چپ تھی مگر اس افراتفری کی وجہ سے بچہ بے تحاشا رو رہا تھا ۔ میں نے کہا ،، اسے دودھ پلا دو ۔
اس نے قمیض اوپر کر کے دودھ پلانے کی بہت کوشش کی، مگر دودھ آیا ہی نہیں ۔خوف کی شدت سے وہ خشک ہو چکا تھا ۔
بچے کے رونے سے دیگر مسافر ناگواری محسوس کر رہے تھے ۔ میں نے کہا لاؤ اسے مجھے دے دو ۔۔وہ منے کو میری طرف بڑھانے لگی مگر پھر یکدم واپس کھینچ کر اسے بھینچ لیا ۔۔اس کی نگاہوں میں دوڑتا خوف موت کی سرخی بن گیا ۔ میں سمجھ گیا کہ ہمیں موت کی سزا سنانے والوں کو اس نے دیکھ لیا ہے ۔
ہائے میرا بچہ،، ہائے میرا منا ۔ ۔ وہ بلبلانے لگی ۔ اور تبھی یک بہ یک میرے دل سے ایک شدید دعا نکلی ۔ ہئے بھگوان،، ہمیں ان کے ہاتھ لگنے سے پہلے ہی موت دے دے ۔ ہم نے جو غلطی کی تھی اس کے عوض ایک ایک لمحہ خوف میں گزرا تھا ۔ ہمیں اس خوف سے اب مکتی دلا دے ۔ یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ لآ آف ایٹریکشن کا قانون فوری حرکت میں آگیا اور بھاگتی دوڑتی ٹرین پٹری سے اتر گئی یا جانے اسے کیا حادثہ پیش آیا ۔ سُمیّا کے ہاتھ سے بچہ چھوٹ کر جانے کہاں جا گرا ۔ ہم دونوں اب ہر طرح کے خوف سے آزاد یعنی مر چکے تھے ۔ اور ظاہر ہے ہمارا لاڈلا بھی کہاں بچا ہوگا ۔ ہاتھ سے چھوٹ کر کہیں کھو جانے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ زندہ بچ گیا ہو گا ۔ ایک ماہ کے بچے میں جان ہی کتنی ہوتی ہے ۔ مگر یہ بات سُمیّا مانے تب نا ۔
مجھے بھوت کہہ کر ٹرین سے باہر اچھال دیا گیا تھا ۔ یہی سب یاد. کرتے کرتے میں دھم سے زمین پر آن گرا ۔۔ ٹرین گزر چکی تھی ۔ قدموں کی چاپ نے سُمیّا کے آنے کی خبر دی ۔ میں نے اس سے پوچھا،، کیا بالکل تمہاری ہی شکل کی کوئی تمہاری بہن بھی ہے؟
بولی ،، نہیں تو ۔
پھر وہ کون تھی ۔ اور وہاں بالکل میرے ہی جیسا ایک آدمی بھی تھا ۔
وہ مجھے ایک ہاتھ سے سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے بولی،، جب ہم مر جاتے ہیں تو ہمارے جیسا ہی کوئی دوسرا پیدا ہو جاتا ہے ۔
مگر کیا ۔ ۔ میں نے نہایت دکھی دل سے پوچھا،، کیا ان کا نصیب بھی ہمارے جیسا ہی ہوتا ہے؟
عمدہ تحریر۔
اندازِ بیاں بھی خوب ہے۔
 
Top