الشفاء
لائبریرین
اردو زبان ميں اس موضوع پر یہ مضمون ملا ہے۔ جو کہ غنیمت ہے۔
شباب یا جوانی
علامہ مفتی عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ۔
انسانی زندگی کے تین دور ہیں۔ ابتدائی زمانہ کو بچپن، انتہائی عمر کو بڑھاپا اور ان دو زمانوں کے درمیان والی مدت کو جوانی یا شباب کہتے ہیں۔ ہم جس وقت کی یاد ناظرین کے دل و دماغ میں تازہ کرنا چاہتے ہیں وہ اس شباب کے آغاز یا جوانی کی ابتداء ہے۔ انسانی زندگی میں بہار کا سماں ہے۔ درخت کا بیج، زمین میں پہنچا، زمین کی اگانے والی قوت پودا نکال کر مضبوط بنا رہی ہے۔ رحمت کے پانی کے چھینٹے ،نسیم بہار کے جھونکے سرسبزی و شادابی کا سامان پہنچا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہی چھوٹا سا پودا پھل پھول سے آراستہ ہو کر اپنے دلربایانہ، مستانہ انداز میں جھوم جھوم کر ایک عالم کو اپنی اداؤں کا متوالا بناتا اور اپنے پھولوں پھلوں کی عام دعوت دنیا کو پہنچاتا ہے۔ انسانی زندگی کا بیج بھی مقررہ قاعدہ کے مطابق اس سرزمین میں پہنچ کر جہاں اس کی آبیاری کے لیے قدرت نے ہر قسم کا سامان بہم پہنچا رکھا ہے، نو مہینے کے بعد ایک نرم و نازک موہنی سی صورت لیے ہوئے جلوہ آرائے عالم ہوتا ہے۔ دودھ کی نہریں جو قدرت نے اس کی خاطر جاری فرمائیں، اس کے لیے غذا پہنچانے کا کام سر انجام دے رہی ہیں۔ پھر طرح طرح کی غذائیں اس کی نشو ونما کا فرض بجا لا رہی ہیں۔
علم طب کے مطابق بدن کے جوڑ جوڑ کا حال دیکھنے والے مطالعہ کرتے ہیں کہ غذائیں معدہ میں پہنچتی ہیں، معدہ کی گرمی ان کو دوبارہ پکاتی ہے اور قسم قسم کے کھانوں کو ایک جان بناتی ہے۔ قدرت کی چھلنی نے تیار کیے ہوئے دلیے کو اچھی طرح چھانا، تلچھٹ یا فضلہ باہر پھینکا گیا، اصل غذائی مادہ جگر میں پہنچا اور وہاں جگر کی مشینری نے اپنا کام شروع کیا۔ جگر کی ہانڈی میں اچھی طرح پک کر چار قسم کے خلط تیار ہوئے۔ زرد زرد پتلا پانی صفرا کہلاتا ہے، سفید لیس دار رطوبت بلغم کہلاتی ہے اور بالکل نیچے جل جانے والا مادہ سودا کہلاتا ہے۔ لیکن اس پورے غذائی مادہ کا اصلی جوہر سرخ رنگ لیے ہوئے خون بن کر قلب میں پہنچتا ہے اور پھیپھڑوں سے آنے جانے والی ہوائیں اسے صاف و شفاف بناتی ہیں۔ اس صاف جوہر کو رگوں کی نہروں اور نالیوں نے تمام بدن کے جوڑ جوڑ بال بال تک پہنچایا ، بدن کے ہر ہر حصے نے اس سے غذا پائی اور کمزور جان میں اسی خون کے ذریعہ سے طاقت آئی۔ بدن کی نشو ونما کے لیے جس قدر خون کی حاجت تھی، خرچ میں آتا رہا اور انسانی پودا اسی خون کے ذریعہ نشو ونما پاتا رہا۔ جب بدن کا بناؤ ایک اوسط درجہ میں آیا تو جو خون بدن کی فربہی کی خدمت سے بچا ، انسان کے بدن میں ٹھہرا۔ اب ذرا غور کریں کہ یہ خون تمام غذاؤں کا بہترین جوہر اپنے اندر رکھتا ہے اور تمام بدن کے جوڑ جوڑ اور بال بال کی سیر کر لینے کے سبب ہر ہر عضو کی کیفیت کا اثر پیش کرتا ہے۔ بلا تمثیل دریا کا پانی جس حصے سے گزرتا ہے اس کے اثرات اپنے ساتھ لئے چلتا ہے۔ اسی طرح رگوں کی نالیوں اور نہروں میں بہتا ہوا خون جب اپنے ٹھہرنے کی جگہ پہنچا تو اپنے قطرے قطرے میں سارے بدن کے کمالات کا اثر رکھتاہے۔ اور اس اثر کی لطافت سے اعضائے رئیسہ دل و دماغ خاص ذوق حاصل کرتے ہیں اور روح حیوانی اسی ارغوانی امرت سے لذت یاب ہوتی ہے۔ یہی امرت انسانی وجود میں وہ جوش و کیفیت پیدا کرتا ہے جس پر لاکھوں کروڑوں ناپاک بوتلوں کے گندے نا پائیدار نشے قربان۔ اسی جوہر میں وہ قوت ہے جو تمام عالم کے جواہرات کے خمیروں اور تمام عالم کی بہترین معجونوں میں مل جل کر بھی نصیب نہیں ہو سکتی۔ اسی جوہر کی طاقت سے آنکھوں میں نور، قلب میں سرور، بدن میں ہمت و حوصلہ اور جرات ہے۔ بلکہ یوں سمجھیے کہ تمام وجود کی طاقت و قوت اسی جوہر کی بدولت ہے۔ تم اپنے سینوں پر اپنی چھاتیوں میں جو سختی جوان ہوتے وقت محسوس کرتے ہو یہ اسی خون کے جوہر یا جوانی کے مادہ یا شباب کی علامت ہے۔
انسانی عادت و فطرت کا تقاضہ یہ ہے کہ جس کسی شخص میں کوئی کمال پیدا ہوتا ہے فوراً اس کے اظہار و نمائش کے ولولے قلب میں خاص گدگداہٹ پیدا کرتے ہیں۔ شاعر جب کوئی شعر تصنیف کرتا ہے اس کا دل چاہتا ہے کہ کوئی اہل فن اس کو سنے، حسین وجمیل چاہتا ہے کہ میرے حسن وجمال کے قدرداں آئیں اور مجھے دیکھیں۔ مقرر چاہتا ہے کہ میری تقریر سن کر لوگ محظوظ ہوں اور میں اپنے کمال دکھاؤں۔ سنار، لوہار، نجار، کاتب غرض ہر اہل فن کمال حاصل کرنے کے بعد اپنا کمال دکھانا چاہتا ہے۔ کمال کے اظہار کا یہ فطرتی جذبہ اُس خاص دولت و مخصوص قوت کے پیدا ہونے اور کمال کی صورت اختیار کرنے کے بعد اس کے اظہار کی طرف مائل کرتا ہے۔ اور خواہ مخواہ دل میں یہ سودا سماتا ہے کہ اس دولت کو صرف کرنے کی لذت اٹھائے۔ جس طرح زبان بولنے، کان سننے اور آنکھیں دیکھنے کے لیے بے چین ہوتے ہیں کیونکہ ان اعضاء کا یہی کام ہے، اسی طرح اس خاص قوت کے اظہار کے لیے بھی ایک عجیب و غریب انتشار ہوتا ہے۔ اور یہ مادہ مخصوص اپنے استعمال میں لائے جانے کے لیے بعض اوقات انسان کو مجبور اور بے قرار کر دیتا ہے۔ بلکہ ایسا خود رفتہ بنا دیتا ہے کہ اگر اس حالت کو جنون سے تعبیر کیا جائے تو بجا ہوگا۔
الشباب شعبۃ من الجنون اسی حالت سے عبارت اور "جوانی دیوانی" سے یہی مرادہے۔ ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن قدرت کی دی ہوئی اس نعمت کا غلط استعمال فضول و لغو ہی نہیں بلکہ تباہ کرنے والی صورت حال سے دوچار کرتا ہے۔ اور اس نعمت کو ضائع کرنا سخت ترین ظلم ہی سمجھا جائے گا۔ جس طرح دن رات کی عرق ریزی اور پوری محنت و مشقت کے ساتھ تجارت کے ذریعہ جو دولت ہاتھ آئے اس کا ضروری کاموں کے لیے بھی صرف میں نہ لانا بخل اور اخلاقی خرابی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔لیکن یہ ظاہر ہے کہ اس کا بے جا استعمال اور آمدنی سے زیادہ صرف بھی یقیناً ایک نہ ایک دن دیوالیہ بنائے گا، عمر بھر رلائے گا اور کھویا ہوا خزانہ پھر نہ پائے گا۔ اور اس وقت پچھتانا ہر گز کام نہ آئے گا۔ سمجھ داروں کا یہ کام ہے کہ اگر تجارت کو ترقی دینا مقصود ہے تو کم از کم کچھ دنوں نفع کو بھی اصل میں شامل کریں اور اس طرح تجارت کے سرمایہ کو ترقی دیں۔
انسانی جواہرات کا یہ انمول خزانہ انسانی جسم کی بیش قیمت کانوں اور زندگی کے سمندر کی گہرائیوں سے نکل کر جسم انسانی کی بعض محفوظ کوٹھڑیوں میں پہنچتا ہے۔ اگر چند روز تک اس صندوق میں امانت رہے تو وہ دوبارہ خون میں جذب ہو کر خون کو تقویت دینے والا، صحت کو درست اور بدن کو مضبوط بنانے والا ہو گا۔ رعب داب ، حسن وجمال کو بڑھانے والا اور مردوں میں مردانہ اور عورتوں میں زنانہ خصوصیات کو چار چاند لگانے والا ثابت ہو گا۔ دماغ کی ذکاوت ترقی پائے گی، قوت حافظہ میں تیزی آئے گی، آنکھوں میں سرخی کے ڈورے، اس مالداری پر دلالت کرنے والے اور ہمت کی بلند پروازی اورحوصلہ کی سر بلندی اس دولت میں زیادتی کی علامت ہو گی۔ البتہ اس کے بعد جب یہ سرمایہ کافی مقدار کو پہنچ جائے کہ مالداروں کی فہرست اور اعلیٰ تاجروں کی فرد میں نام شمار ہونے لگے تو اس وقت میدان عمل کی طرف قدم اٹھائیے اور اس بیش گاڑھی کمائی کو بہترین طریق پر صرف میں لائیے۔ وہ صحیح طریق استعمال کیا ہے ، آگے چل کر ملاحظہ فرمائیے۔ یہ فیصلہ ہم آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو کتنا مالدار بنائیں اور کم از کم کس حد تک پہنچائیں بشرطیکہ آپ کے متعلق ہمیں یہ یقین ہو جاتا ہے کہ آپ اس معاملہ میں صحیح رائے قائم کر سکیں گے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ آج ایسے مالداروں کی صرف کمی ہی نہیں بلکہ تقریباً بالکل ہی نہیں۔ اس لیے مثال اور نمونہ پیش کریں تو کسے؟ اور آپ بھی معیار اور کسوٹی بنائیں تو کسے؟ بعض پرانے زمانے کے لوگوں نے پچیس برس کی عمر کو ایک اوسط عمر قرار دیا اور بتایا کہ اگر اچھی عمدہ غذائیں کھانے کو ملیں ، بے فکری کی زندگی نصیب ہو تو بدن کو اچھی طرح تربیت دینے اور کافی طاقتور بنانے کے لیے پچیس برس کی عمر تک اس امرت کی حفاظت کی ضرورت اور استعمال سے بچنے کی حاجت ہے لیکن پچیس تو پچیس، آج ہمارے نوجوان ہنسیں گے اور مذاق اڑائیں گے اگر ہم ان سے یہ درخواست کریں کہ کم از کم بیس برس کی عمر تک ہی اس کی حفاظت کر لو، اور اس انمول دولت کو ابھی ضائع نہ کرو۔ ذرا صبر سے کام لو، پھر اس کے بہترین نتائج دیکھو۔ اس کے بعد یا خیر جانے دو، اس سے پہلے ہی سہی، اس کا استعمال کرتے ہو تو تمہیں تمہاری ابھرتی ہوئی جوانی کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ اس پر رحم کھاؤ اور اسے برباد نہ کرو۔ بے دردی سے لٹانے والے تو نہ بنو ورنہ یاد رکھو، پچھتاؤ گے اور بری طرح پچھتاؤ گے۔ تم نے ابھی شاید پورے طور سے نہ سمجھا ہو کہ اس قیمتی خزانہ میں کیا کیا جواہرات موجود ہیں۔ دیکھو دیکھو، یہی کیا کچھ بننے والا ہے۔ یہ ایک بیج ہے جس سے بہت سے پودے اگیں گے، بہت سے پھل نکلیں گے، بہت سے پھول کھلیں گے۔ آج اس بیج کو ضائع نہ کرنے میں ہی تمہاری آئندہ زندگی کی بہار پوشیدہ ہے۔۔۔
(جاری ہے)
شباب یا جوانی
علامہ مفتی عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ۔
انسانی زندگی کے تین دور ہیں۔ ابتدائی زمانہ کو بچپن، انتہائی عمر کو بڑھاپا اور ان دو زمانوں کے درمیان والی مدت کو جوانی یا شباب کہتے ہیں۔ ہم جس وقت کی یاد ناظرین کے دل و دماغ میں تازہ کرنا چاہتے ہیں وہ اس شباب کے آغاز یا جوانی کی ابتداء ہے۔ انسانی زندگی میں بہار کا سماں ہے۔ درخت کا بیج، زمین میں پہنچا، زمین کی اگانے والی قوت پودا نکال کر مضبوط بنا رہی ہے۔ رحمت کے پانی کے چھینٹے ،نسیم بہار کے جھونکے سرسبزی و شادابی کا سامان پہنچا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہی چھوٹا سا پودا پھل پھول سے آراستہ ہو کر اپنے دلربایانہ، مستانہ انداز میں جھوم جھوم کر ایک عالم کو اپنی اداؤں کا متوالا بناتا اور اپنے پھولوں پھلوں کی عام دعوت دنیا کو پہنچاتا ہے۔ انسانی زندگی کا بیج بھی مقررہ قاعدہ کے مطابق اس سرزمین میں پہنچ کر جہاں اس کی آبیاری کے لیے قدرت نے ہر قسم کا سامان بہم پہنچا رکھا ہے، نو مہینے کے بعد ایک نرم و نازک موہنی سی صورت لیے ہوئے جلوہ آرائے عالم ہوتا ہے۔ دودھ کی نہریں جو قدرت نے اس کی خاطر جاری فرمائیں، اس کے لیے غذا پہنچانے کا کام سر انجام دے رہی ہیں۔ پھر طرح طرح کی غذائیں اس کی نشو ونما کا فرض بجا لا رہی ہیں۔
علم طب کے مطابق بدن کے جوڑ جوڑ کا حال دیکھنے والے مطالعہ کرتے ہیں کہ غذائیں معدہ میں پہنچتی ہیں، معدہ کی گرمی ان کو دوبارہ پکاتی ہے اور قسم قسم کے کھانوں کو ایک جان بناتی ہے۔ قدرت کی چھلنی نے تیار کیے ہوئے دلیے کو اچھی طرح چھانا، تلچھٹ یا فضلہ باہر پھینکا گیا، اصل غذائی مادہ جگر میں پہنچا اور وہاں جگر کی مشینری نے اپنا کام شروع کیا۔ جگر کی ہانڈی میں اچھی طرح پک کر چار قسم کے خلط تیار ہوئے۔ زرد زرد پتلا پانی صفرا کہلاتا ہے، سفید لیس دار رطوبت بلغم کہلاتی ہے اور بالکل نیچے جل جانے والا مادہ سودا کہلاتا ہے۔ لیکن اس پورے غذائی مادہ کا اصلی جوہر سرخ رنگ لیے ہوئے خون بن کر قلب میں پہنچتا ہے اور پھیپھڑوں سے آنے جانے والی ہوائیں اسے صاف و شفاف بناتی ہیں۔ اس صاف جوہر کو رگوں کی نہروں اور نالیوں نے تمام بدن کے جوڑ جوڑ بال بال تک پہنچایا ، بدن کے ہر ہر حصے نے اس سے غذا پائی اور کمزور جان میں اسی خون کے ذریعہ سے طاقت آئی۔ بدن کی نشو ونما کے لیے جس قدر خون کی حاجت تھی، خرچ میں آتا رہا اور انسانی پودا اسی خون کے ذریعہ نشو ونما پاتا رہا۔ جب بدن کا بناؤ ایک اوسط درجہ میں آیا تو جو خون بدن کی فربہی کی خدمت سے بچا ، انسان کے بدن میں ٹھہرا۔ اب ذرا غور کریں کہ یہ خون تمام غذاؤں کا بہترین جوہر اپنے اندر رکھتا ہے اور تمام بدن کے جوڑ جوڑ اور بال بال کی سیر کر لینے کے سبب ہر ہر عضو کی کیفیت کا اثر پیش کرتا ہے۔ بلا تمثیل دریا کا پانی جس حصے سے گزرتا ہے اس کے اثرات اپنے ساتھ لئے چلتا ہے۔ اسی طرح رگوں کی نالیوں اور نہروں میں بہتا ہوا خون جب اپنے ٹھہرنے کی جگہ پہنچا تو اپنے قطرے قطرے میں سارے بدن کے کمالات کا اثر رکھتاہے۔ اور اس اثر کی لطافت سے اعضائے رئیسہ دل و دماغ خاص ذوق حاصل کرتے ہیں اور روح حیوانی اسی ارغوانی امرت سے لذت یاب ہوتی ہے۔ یہی امرت انسانی وجود میں وہ جوش و کیفیت پیدا کرتا ہے جس پر لاکھوں کروڑوں ناپاک بوتلوں کے گندے نا پائیدار نشے قربان۔ اسی جوہر میں وہ قوت ہے جو تمام عالم کے جواہرات کے خمیروں اور تمام عالم کی بہترین معجونوں میں مل جل کر بھی نصیب نہیں ہو سکتی۔ اسی جوہر کی طاقت سے آنکھوں میں نور، قلب میں سرور، بدن میں ہمت و حوصلہ اور جرات ہے۔ بلکہ یوں سمجھیے کہ تمام وجود کی طاقت و قوت اسی جوہر کی بدولت ہے۔ تم اپنے سینوں پر اپنی چھاتیوں میں جو سختی جوان ہوتے وقت محسوس کرتے ہو یہ اسی خون کے جوہر یا جوانی کے مادہ یا شباب کی علامت ہے۔
انسانی عادت و فطرت کا تقاضہ یہ ہے کہ جس کسی شخص میں کوئی کمال پیدا ہوتا ہے فوراً اس کے اظہار و نمائش کے ولولے قلب میں خاص گدگداہٹ پیدا کرتے ہیں۔ شاعر جب کوئی شعر تصنیف کرتا ہے اس کا دل چاہتا ہے کہ کوئی اہل فن اس کو سنے، حسین وجمیل چاہتا ہے کہ میرے حسن وجمال کے قدرداں آئیں اور مجھے دیکھیں۔ مقرر چاہتا ہے کہ میری تقریر سن کر لوگ محظوظ ہوں اور میں اپنے کمال دکھاؤں۔ سنار، لوہار، نجار، کاتب غرض ہر اہل فن کمال حاصل کرنے کے بعد اپنا کمال دکھانا چاہتا ہے۔ کمال کے اظہار کا یہ فطرتی جذبہ اُس خاص دولت و مخصوص قوت کے پیدا ہونے اور کمال کی صورت اختیار کرنے کے بعد اس کے اظہار کی طرف مائل کرتا ہے۔ اور خواہ مخواہ دل میں یہ سودا سماتا ہے کہ اس دولت کو صرف کرنے کی لذت اٹھائے۔ جس طرح زبان بولنے، کان سننے اور آنکھیں دیکھنے کے لیے بے چین ہوتے ہیں کیونکہ ان اعضاء کا یہی کام ہے، اسی طرح اس خاص قوت کے اظہار کے لیے بھی ایک عجیب و غریب انتشار ہوتا ہے۔ اور یہ مادہ مخصوص اپنے استعمال میں لائے جانے کے لیے بعض اوقات انسان کو مجبور اور بے قرار کر دیتا ہے۔ بلکہ ایسا خود رفتہ بنا دیتا ہے کہ اگر اس حالت کو جنون سے تعبیر کیا جائے تو بجا ہوگا۔
الشباب شعبۃ من الجنون اسی حالت سے عبارت اور "جوانی دیوانی" سے یہی مرادہے۔ ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن قدرت کی دی ہوئی اس نعمت کا غلط استعمال فضول و لغو ہی نہیں بلکہ تباہ کرنے والی صورت حال سے دوچار کرتا ہے۔ اور اس نعمت کو ضائع کرنا سخت ترین ظلم ہی سمجھا جائے گا۔ جس طرح دن رات کی عرق ریزی اور پوری محنت و مشقت کے ساتھ تجارت کے ذریعہ جو دولت ہاتھ آئے اس کا ضروری کاموں کے لیے بھی صرف میں نہ لانا بخل اور اخلاقی خرابی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔لیکن یہ ظاہر ہے کہ اس کا بے جا استعمال اور آمدنی سے زیادہ صرف بھی یقیناً ایک نہ ایک دن دیوالیہ بنائے گا، عمر بھر رلائے گا اور کھویا ہوا خزانہ پھر نہ پائے گا۔ اور اس وقت پچھتانا ہر گز کام نہ آئے گا۔ سمجھ داروں کا یہ کام ہے کہ اگر تجارت کو ترقی دینا مقصود ہے تو کم از کم کچھ دنوں نفع کو بھی اصل میں شامل کریں اور اس طرح تجارت کے سرمایہ کو ترقی دیں۔
انسانی جواہرات کا یہ انمول خزانہ انسانی جسم کی بیش قیمت کانوں اور زندگی کے سمندر کی گہرائیوں سے نکل کر جسم انسانی کی بعض محفوظ کوٹھڑیوں میں پہنچتا ہے۔ اگر چند روز تک اس صندوق میں امانت رہے تو وہ دوبارہ خون میں جذب ہو کر خون کو تقویت دینے والا، صحت کو درست اور بدن کو مضبوط بنانے والا ہو گا۔ رعب داب ، حسن وجمال کو بڑھانے والا اور مردوں میں مردانہ اور عورتوں میں زنانہ خصوصیات کو چار چاند لگانے والا ثابت ہو گا۔ دماغ کی ذکاوت ترقی پائے گی، قوت حافظہ میں تیزی آئے گی، آنکھوں میں سرخی کے ڈورے، اس مالداری پر دلالت کرنے والے اور ہمت کی بلند پروازی اورحوصلہ کی سر بلندی اس دولت میں زیادتی کی علامت ہو گی۔ البتہ اس کے بعد جب یہ سرمایہ کافی مقدار کو پہنچ جائے کہ مالداروں کی فہرست اور اعلیٰ تاجروں کی فرد میں نام شمار ہونے لگے تو اس وقت میدان عمل کی طرف قدم اٹھائیے اور اس بیش گاڑھی کمائی کو بہترین طریق پر صرف میں لائیے۔ وہ صحیح طریق استعمال کیا ہے ، آگے چل کر ملاحظہ فرمائیے۔ یہ فیصلہ ہم آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو کتنا مالدار بنائیں اور کم از کم کس حد تک پہنچائیں بشرطیکہ آپ کے متعلق ہمیں یہ یقین ہو جاتا ہے کہ آپ اس معاملہ میں صحیح رائے قائم کر سکیں گے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ آج ایسے مالداروں کی صرف کمی ہی نہیں بلکہ تقریباً بالکل ہی نہیں۔ اس لیے مثال اور نمونہ پیش کریں تو کسے؟ اور آپ بھی معیار اور کسوٹی بنائیں تو کسے؟ بعض پرانے زمانے کے لوگوں نے پچیس برس کی عمر کو ایک اوسط عمر قرار دیا اور بتایا کہ اگر اچھی عمدہ غذائیں کھانے کو ملیں ، بے فکری کی زندگی نصیب ہو تو بدن کو اچھی طرح تربیت دینے اور کافی طاقتور بنانے کے لیے پچیس برس کی عمر تک اس امرت کی حفاظت کی ضرورت اور استعمال سے بچنے کی حاجت ہے لیکن پچیس تو پچیس، آج ہمارے نوجوان ہنسیں گے اور مذاق اڑائیں گے اگر ہم ان سے یہ درخواست کریں کہ کم از کم بیس برس کی عمر تک ہی اس کی حفاظت کر لو، اور اس انمول دولت کو ابھی ضائع نہ کرو۔ ذرا صبر سے کام لو، پھر اس کے بہترین نتائج دیکھو۔ اس کے بعد یا خیر جانے دو، اس سے پہلے ہی سہی، اس کا استعمال کرتے ہو تو تمہیں تمہاری ابھرتی ہوئی جوانی کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ اس پر رحم کھاؤ اور اسے برباد نہ کرو۔ بے دردی سے لٹانے والے تو نہ بنو ورنہ یاد رکھو، پچھتاؤ گے اور بری طرح پچھتاؤ گے۔ تم نے ابھی شاید پورے طور سے نہ سمجھا ہو کہ اس قیمتی خزانہ میں کیا کیا جواہرات موجود ہیں۔ دیکھو دیکھو، یہی کیا کچھ بننے والا ہے۔ یہ ایک بیج ہے جس سے بہت سے پودے اگیں گے، بہت سے پھل نکلیں گے، بہت سے پھول کھلیں گے۔ آج اس بیج کو ضائع نہ کرنے میں ہی تمہاری آئندہ زندگی کی بہار پوشیدہ ہے۔۔۔
(جاری ہے)
آخری تدوین: