شباب یا جوانی۔ ۔۔مفتی عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ۔

الشفاء

لائبریرین
اردو زبان ميں اس موضوع پر یہ مضمون ملا ہے۔ جو کہ غنیمت ہے۔

شباب یا جوانی

علامہ مفتی عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ۔​

انسانی زندگی کے تین دور ہیں۔ ابتدائی زمانہ کو بچپن، انتہائی عمر کو بڑھاپا اور ان دو زمانوں کے درمیان والی مدت کو جوانی یا شباب کہتے ہیں۔ ہم جس وقت کی یاد ناظرین کے دل و دماغ میں تازہ کرنا چاہتے ہیں وہ اس شباب کے آغاز یا جوانی کی ابتداء ہے۔ انسانی زندگی میں بہار کا سماں ہے۔ درخت کا بیج، زمین میں پہنچا، زمین کی اگانے والی قوت پودا نکال کر مضبوط بنا رہی ہے۔ رحمت کے پانی کے چھینٹے ،نسیم بہار کے جھونکے سرسبزی و شادابی کا سامان پہنچا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہی چھوٹا سا پودا پھل پھول سے آراستہ ہو کر اپنے دلربایانہ، مستانہ انداز میں جھوم جھوم کر ایک عالم کو اپنی اداؤں کا متوالا بناتا اور اپنے پھولوں پھلوں کی عام دعوت دنیا کو پہنچاتا ہے۔ انسانی زندگی کا بیج بھی مقررہ قاعدہ کے مطابق اس سرزمین میں پہنچ کر جہاں اس کی آبیاری کے لیے قدرت نے ہر قسم کا سامان بہم پہنچا رکھا ہے، نو مہینے کے بعد ایک نرم و نازک موہنی سی صورت لیے ہوئے جلوہ آرائے عالم ہوتا ہے۔ دودھ کی نہریں جو قدرت نے اس کی خاطر جاری فرمائیں، اس کے لیے غذا پہنچانے کا کام سر انجام دے رہی ہیں۔ پھر طرح طرح کی غذائیں اس کی نشو ونما کا فرض بجا لا رہی ہیں۔
علم طب کے مطابق بدن کے جوڑ جوڑ کا حال دیکھنے والے مطالعہ کرتے ہیں کہ غذائیں معدہ میں پہنچتی ہیں، معدہ کی گرمی ان کو دوبارہ پکاتی ہے اور قسم قسم کے کھانوں کو ایک جان بناتی ہے۔ قدرت کی چھلنی نے تیار کیے ہوئے دلیے کو اچھی طرح چھانا، تلچھٹ یا فضلہ باہر پھینکا گیا، اصل غذائی مادہ جگر میں پہنچا اور وہاں جگر کی مشینری نے اپنا کام شروع کیا۔ جگر کی ہانڈی میں اچھی طرح پک کر چار قسم کے خلط تیار ہوئے۔ زرد زرد پتلا پانی صفرا کہلاتا ہے، سفید لیس دار رطوبت بلغم کہلاتی ہے اور بالکل نیچے جل جانے والا مادہ سودا کہلاتا ہے۔ لیکن اس پورے غذائی مادہ کا اصلی جوہر سرخ رنگ لیے ہوئے خون بن کر قلب میں پہنچتا ہے اور پھیپھڑوں سے آنے جانے والی ہوائیں اسے صاف و شفاف بناتی ہیں۔ اس صاف جوہر کو رگوں کی نہروں اور نالیوں نے تمام بدن کے جوڑ جوڑ بال بال تک پہنچایا ، بدن کے ہر ہر حصے نے اس سے غذا پائی اور کمزور جان میں اسی خون کے ذریعہ سے طاقت آئی۔ بدن کی نشو ونما کے لیے جس قدر خون کی حاجت تھی، خرچ میں آتا رہا اور انسانی پودا اسی خون کے ذریعہ نشو ونما پاتا رہا۔ جب بدن کا بناؤ ایک اوسط درجہ میں آیا تو جو خون بدن کی فربہی کی خدمت سے بچا ، انسان کے بدن میں ٹھہرا۔ اب ذرا غور کریں کہ یہ خون تمام غذاؤں کا بہترین جوہر اپنے اندر رکھتا ہے اور تمام بدن کے جوڑ جوڑ اور بال بال کی سیر کر لینے کے سبب ہر ہر عضو کی کیفیت کا اثر پیش کرتا ہے۔ بلا تمثیل دریا کا پانی جس حصے سے گزرتا ہے اس کے اثرات اپنے ساتھ لئے چلتا ہے۔ اسی طرح رگوں کی نالیوں اور نہروں میں بہتا ہوا خون جب اپنے ٹھہرنے کی جگہ پہنچا تو اپنے قطرے قطرے میں سارے بدن کے کمالات کا اثر رکھتاہے۔ اور اس اثر کی لطافت سے اعضائے رئیسہ دل و دماغ خاص ذوق حاصل کرتے ہیں اور روح حیوانی اسی ارغوانی امرت سے لذت یاب ہوتی ہے۔ یہی امرت انسانی وجود میں وہ جوش و کیفیت پیدا کرتا ہے جس پر لاکھوں کروڑوں ناپاک بوتلوں کے گندے نا پائیدار نشے قربان۔ اسی جوہر میں وہ قوت ہے جو تمام عالم کے جواہرات کے خمیروں اور تمام عالم کی بہترین معجونوں میں مل جل کر بھی نصیب نہیں ہو سکتی۔ اسی جوہر کی طاقت سے آنکھوں میں نور، قلب میں سرور، بدن میں ہمت و حوصلہ اور جرات ہے۔ بلکہ یوں سمجھیے کہ تمام وجود کی طاقت و قوت اسی جوہر کی بدولت ہے۔ تم اپنے سینوں پر اپنی چھاتیوں میں جو سختی جوان ہوتے وقت محسوس کرتے ہو یہ اسی خون کے جوہر یا جوانی کے مادہ یا شباب کی علامت ہے۔
انسانی عادت و فطرت کا تقاضہ یہ ہے کہ جس کسی شخص میں کوئی کمال پیدا ہوتا ہے فوراً اس کے اظہار و نمائش کے ولولے قلب میں خاص گدگداہٹ پیدا کرتے ہیں۔ شاعر جب کوئی شعر تصنیف کرتا ہے اس کا دل چاہتا ہے کہ کوئی اہل فن اس کو سنے، حسین وجمیل چاہتا ہے کہ میرے حسن وجمال کے قدرداں آئیں اور مجھے دیکھیں۔ مقرر چاہتا ہے کہ میری تقریر سن کر لوگ محظوظ ہوں اور میں اپنے کمال دکھاؤں۔ سنار، لوہار، نجار، کاتب غرض ہر اہل فن کمال حاصل کرنے کے بعد اپنا کمال دکھانا چاہتا ہے۔ کمال کے اظہار کا یہ فطرتی جذبہ اُس خاص دولت و مخصوص قوت کے پیدا ہونے اور کمال کی صورت اختیار کرنے کے بعد اس کے اظہار کی طرف مائل کرتا ہے۔ اور خواہ مخواہ دل میں یہ سودا سماتا ہے کہ اس دولت کو صرف کرنے کی لذت اٹھائے۔ جس طرح زبان بولنے، کان سننے اور آنکھیں دیکھنے کے لیے بے چین ہوتے ہیں کیونکہ ان اعضاء کا یہی کام ہے، اسی طرح اس خاص قوت کے اظہار کے لیے بھی ایک عجیب و غریب انتشار ہوتا ہے۔ اور یہ مادہ مخصوص اپنے استعمال میں لائے جانے کے لیے بعض اوقات انسان کو مجبور اور بے قرار کر دیتا ہے۔ بلکہ ایسا خود رفتہ بنا دیتا ہے کہ اگر اس حالت کو جنون سے تعبیر کیا جائے تو بجا ہوگا۔

الشباب شعبۃ من الجنون اسی حالت سے عبارت اور "جوانی دیوانی" سے یہی مرادہے۔ ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن قدرت کی دی ہوئی اس نعمت کا غلط استعمال فضول و لغو ہی نہیں بلکہ تباہ کرنے والی صورت حال سے دوچار کرتا ہے۔ اور اس نعمت کو ضائع کرنا سخت ترین ظلم ہی سمجھا جائے گا۔ جس طرح دن رات کی عرق ریزی اور پوری محنت و مشقت کے ساتھ تجارت کے ذریعہ جو دولت ہاتھ آئے اس کا ضروری کاموں کے لیے بھی صرف میں نہ لانا بخل اور اخلاقی خرابی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔لیکن یہ ظاہر ہے کہ اس کا بے جا استعمال اور آمدنی سے زیادہ صرف بھی یقیناً ایک نہ ایک دن دیوالیہ بنائے گا، عمر بھر رلائے گا اور کھویا ہوا خزانہ پھر نہ پائے گا۔ اور اس وقت پچھتانا ہر گز کام نہ آئے گا۔ سمجھ داروں کا یہ کام ہے کہ اگر تجارت کو ترقی دینا مقصود ہے تو کم از کم کچھ دنوں نفع کو بھی اصل میں شامل کریں اور اس طرح تجارت کے سرمایہ کو ترقی دیں۔
انسانی جواہرات کا یہ انمول خزانہ انسانی جسم کی بیش قیمت کانوں اور زندگی کے سمندر کی گہرائیوں سے نکل کر جسم انسانی کی بعض محفوظ کوٹھڑیوں میں پہنچتا ہے۔ اگر چند روز تک اس صندوق میں امانت رہے تو وہ دوبارہ خون میں جذب ہو کر خون کو تقویت دینے والا، صحت کو درست اور بدن کو مضبوط بنانے والا ہو گا۔ رعب داب ، حسن وجمال کو بڑھانے والا اور مردوں میں مردانہ اور عورتوں میں زنانہ خصوصیات کو چار چاند لگانے والا ثابت ہو گا۔ دماغ کی ذکاوت ترقی پائے گی، قوت حافظہ میں تیزی آئے گی، آنکھوں میں سرخی کے ڈورے، اس مالداری پر دلالت کرنے والے اور ہمت کی بلند پروازی اورحوصلہ کی سر بلندی اس دولت میں زیادتی کی علامت ہو گی۔ البتہ اس کے بعد جب یہ سرمایہ کافی مقدار کو پہنچ جائے کہ مالداروں کی فہرست اور اعلیٰ تاجروں کی فرد میں نام شمار ہونے لگے تو اس وقت میدان عمل کی طرف قدم اٹھائیے اور اس بیش گاڑھی کمائی کو بہترین طریق پر صرف میں لائیے۔ وہ صحیح طریق استعمال کیا ہے ، آگے چل کر ملاحظہ فرمائیے۔ یہ فیصلہ ہم آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو کتنا مالدار بنائیں اور کم از کم کس حد تک پہنچائیں بشرطیکہ آپ کے متعلق ہمیں یہ یقین ہو جاتا ہے کہ آپ اس معاملہ میں صحیح رائے قائم کر سکیں گے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ آج ایسے مالداروں کی صرف کمی ہی نہیں بلکہ تقریباً بالکل ہی نہیں۔ اس لیے مثال اور نمونہ پیش کریں تو کسے؟ اور آپ بھی معیار اور کسوٹی بنائیں تو کسے؟ بعض پرانے زمانے کے لوگوں نے پچیس برس کی عمر کو ایک اوسط عمر قرار دیا اور بتایا کہ اگر اچھی عمدہ غذائیں کھانے کو ملیں ، بے فکری کی زندگی نصیب ہو تو بدن کو اچھی طرح تربیت دینے اور کافی طاقتور بنانے کے لیے پچیس برس کی عمر تک اس امرت کی حفاظت کی ضرورت اور استعمال سے بچنے کی حاجت ہے لیکن پچیس تو پچیس، آج ہمارے نوجوان ہنسیں گے اور مذاق اڑائیں گے اگر ہم ان سے یہ درخواست کریں کہ کم از کم بیس برس کی عمر تک ہی اس کی حفاظت کر لو، اور اس انمول دولت کو ابھی ضائع نہ کرو۔ ذرا صبر سے کام لو، پھر اس کے بہترین نتائج دیکھو۔ اس کے بعد یا خیر جانے دو، اس سے پہلے ہی سہی، اس کا استعمال کرتے ہو تو تمہیں تمہاری ابھرتی ہوئی جوانی کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ اس پر رحم کھاؤ اور اسے برباد نہ کرو۔ بے دردی سے لٹانے والے تو نہ بنو ورنہ یاد رکھو، پچھتاؤ گے اور بری طرح پچھتاؤ گے۔ تم نے ابھی شاید پورے طور سے نہ سمجھا ہو کہ اس قیمتی خزانہ میں کیا کیا جواہرات موجود ہیں۔ دیکھو دیکھو، یہی کیا کچھ بننے والا ہے۔ یہ ایک بیج ہے جس سے بہت سے پودے اگیں گے، بہت سے پھل نکلیں گے، بہت سے پھول کھلیں گے۔ آج اس بیج کو ضائع نہ کرنے میں ہی تمہاری آئندہ زندگی کی بہار پوشیدہ ہے۔۔۔

(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
انسانی جوڑے۔۔۔
قدرت نے ہر نر کے لیے مادہ اور ہر مادہ کے لیے نر پیدا فرما کر بہت سے جوڑے عالم میں بنائے۔ اور ہر ایک کے بدن کی مشین پر مختلف پرزوں اور آلوں کو اس انداز کے ساتھ سجایا کہ وہ ہر ایک کی فطرت کے مطابق اس کی ضرورت کو پورا کرنے والے ہیں۔۔۔ مرد کے عنفوان شباب کی قدر دان فقط عورت ہی بن سکتی ہے۔ اسی طرح عورت کے جواہرات جوانی کی قدرت دانی صرف مرد ہی کر سکتا ہے۔ زندگی کے امرت اور اس انسانی بیج کو نکمی زمین پر ڈالا جائے تو سخت حماقت اور بدترین جہالت ہے۔ اس مادہ کی یہ خصوصیت ہے کہ مرد و عورت کے ملاپ اور ایک دوسرے کے جذبات کے برانگیختہ ہونے پر رنگ بدلنا شروع کرتا ہے اور نیچے غدودون میں پہنچ کر سپید یا زرد رنگ اختیار کرتا ہے۔ اب اگر صحیح موسم اور ٹھیک وقت پر ظاہری جسم کے ملنے کے ساتھ ، مرد و عورت کی یہ دولت مشترکہ سرمایہ کی صورت اختیار کر لے تو ایک پیاری موہنی صورت نو ماہ بعد جوانی کے پھل کی شکل میں جلوہ دکھائے۔ یہ قدرت فطرت نے عورت کو عطا فرمائی ہے کہ وہ مرد کی اس امانت کو حفاظت کے ساتھ رکھتی اور اپنے خون جگر سے اس کو ترقی دیتی اور آخر بڑھا چڑھا کر ایک تیسرے انسان کے پیکر میں ڈھال کر سامنے لاتی ہے۔ اس لیے مرد کی اس دولت کے خرچ کرنے کی جگہ عورت اور فقط عورت کے پاس ہے۔

عورت اور مرد کے درمیان قانونی رشتہ کی ضرورت۔
آپ نے ابھی مطالعہ فرمایا کہ اس انسانی بیج کی حفاظت اور تربیت کی ذمہ داری کا زبردست بوجھ عورت ہی کے کاندھوں پر ہے۔ یہ مادہ عورت کے پاس پہنچ کر بڑھنا اور پلنا شروع ہو گا، نو مہینہ کی مدت اس کی تکمیل کے لیے درکار ہے۔ اس زمانہ میں عورت فطرتاً اس امر کی محتاج ہو گی کہ کوئی شخص اس کی کفالت کرے اور وہ اپنی ضروریات زندگی کی طرف سے مطمئن رہے۔ زیادہ وزنی اور بوجھل کام میں مصروف ہو کر اپنی قوت نہ گھٹائے تاکہ وہ مادہ اچھی طرح ترقی کے درجے طے کرتا جائے۔ اس تکمیل کے بعد وہ بچہ بھی پیدا ہو کر فوراً اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں۔ بلکہ ایک مدت تک اس امر کا محتاج ہے کہ خود اس کی خبر گیری، کھلانے پلانے،سلانے ، اٹھانے بٹھانے کےلیے ذمہ دار ہستیاں موجود رہیں۔ اس لیے بچے کو خلق اور محبت کی ضرورت ہے۔ فطرتی محبت صرف اسی ذات کو ہو سکتی ہے جس نے نو مہینہ تک اس کی حفاظت کی خدمت انجام دی۔ یعنی اس نونہال کی ماں کہلانے والی خاتون چوبیس گھنٹے تک مسلسل ایک معصوم بے زبان کے دودھ پلانے، غذا پہنچانے اور ہر قسم کی خبر گیری کے فرائض بجا لانے کی خدمت انجام دینے والی خاتون جب اپنا سارا وقت اسی کام میں صرف کرے جس کی اشد ضرورت ہے تو خود اپنی ضروریا زندگی اور مصارف خانگی کے انتظام کے لیے کہاں سے وقت نکال سکے گی۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ اس کے خرچ کی ذمہ داری کسی دوسری ذات کے سپرد کی جائے کہ تاکہ عورت بے فکر ہو کر صرف بچہ کی خدمت بجا لائے۔ ایک بے تعلق آدمی ایسی ذمہ داری کیونکر لے سکتا ہے۔ اس ذمہ داری کا بوجھ یقیناً اسی شخص کے سر پر ہونا چاہیے جس کی امانت یہ عورت سنبھال رہی ہے۔ پس اس سے پہلے کہ یہ امانت عورت کی تحویل میں آئے، ضرورت ہے کہ کسی ایسے مرد کے ساتھ اس کا تعلق قائم ہو جائے جو امانت دینے کے بعد اس کی خدمت کی ذمہ داری اسی طرح نباہ سکے۔ اسی تعلق کا نام تعلق ازدواج ہے اور اس قانونی رشتہ کی تکمیل کو نکاح کہتے ہیں۔
نکاح ایک قانونی معاہدہ ہے جو بہت آسانی کے ساتھ منعقد ہو جاتا ہے۔ ایک طرف سے ایجاب ہو، دوسری طرف سے قبول۔ دونوں ایک دوسرے کے الفاظ سن لیں خواہ بلا واسطہ یا بالواسطہ، اور جس طرح ہ دنیوی معاملہ کے لیے گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اس معاہدہ کی تکمیل کے لیے صرف اس قدر درکار ہے کہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں اس پر گواہ ہو جائیں۔ عورت مرد سے بواسطہ وکیل کہے میں نے اپنے نفس کو تمہاری زوجیت میں دیا، مرد کہے میں نے قبول کیا ، دو گواہ اس کلمات کو سن لیں، لیجیے نکاح ہو گیا۔ ان ہی دو بول کے سبب مرد نے تمام ذمہ داریوں کو قبول کر لیا اور عورت اب اس مرد کے ساتھ ایسا تعلق پیدا کر چکی کہ دوسرے کسی مرد کو اس سے اس قسم کا فائدہ حاصل کرنے کا حق نہیں رہا جس کے لیے اس نے اپنے آپ کو اس مرد کے سامنے پیش کر دیا۔

مقاربت کا فطری اور شرعی طریقہ۔
عورت اور مرد کے اعضاء کی ساخت ہی ہر ایک کے فرائض کی صورت سامنے لاتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے اپنے حکیمانہ انداز بیان جہاں اس مقدمہ کے دوسرے شعبوں پر مکمل ہدایت نامہ پیش کیا وہاں عورت و مرد کے ملنے کا طریق بھی بتلا دیا۔
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُواْ حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُواْ لِأَنفُسِكُمْ۔
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ، اور اپنے لئے آئندہ کا کچھ سامان کرلو۔

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 223۔
یعنی وہ طریقہ استعمال کرو جس میں آئندہ نسل بڑھے، غیر فطرتی طریقہ اختیار نہ کرو ورنہ تخم حیات برباد ہو جائے گا، بیج تربیت کے لیے مقام ہی نہ پائے گا اور کوئی حظ و لطف بھی نہ آئے گا۔ حدیث میں صاف صاف بتا دیا کہ
لا تاتوالنساء فی ادبارھن ۔۔۔ یعنی عورتوں کےساتھ ان کی پیچھے کی شرم گاہ کی طرف سے نہ ملو۔
پھر تاکید و تہدید فرمائی کہ​
ملعون من اتی امرتہ فی دبرھا۔۔۔ یعنی جو شخص اپنی عورت کے پیچھے کے مقام سے ملتا ہے، ملعون ہے۔
اس لیے کہ اس طرح تخم حیات برباد ہو جائے گا اور جانبین کی صحت میں بھی خلل آئے گا۔ کاشت کے لیے ایک زمانہ مقرر ہے، تخم ریزی کا وقت معلوم ہے۔ اگر بے وقت بیج زمین میں ڈالا جائے گا تو محنت برباد جائے گی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ
فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلاَ تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللّهُ۔
سو تم حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کش رہا کرو، اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جایا کرو، اور جب وہ خوب پاک ہو جائیں تو جس راستے سے اﷲ نے تمہیں اجازت دی ہے ان کے پاس جایا کرو۔

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 222۔
عورتوں کے پاک ہونے کے بعد ملنے کا خاص وقت ہے۔ اس وقت مقاربت و صحبت نتیجہ خیز ہو گی۔ اطباء کی تحقیق بھی اس باب میں یہی ہے۔یہاں ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ گندگی یا ناپاکی ایسی ناپاکی نہیں جس میں چھوت چھات شروع کر دی جائے اور ایک صاف ستھری پاکیزہ عورت کو ایسا ناپاک سمجھ لیا جائے کہ کوئی اس کے ہاتھ کی چیز نہ کھائے۔ نہیں نہیں، وہ اس آزار میں مبتلا ہے تو نماز نہ پڑھے، قرآن کو ہاتھ نہ لگائے اور مرد اس زمانہ میں مقاربت نہ کرے۔ باقی سا تھ کھلائے پلائے، بلکہ پاس لیٹے، ایک چادر میں سلائے تو مضائقہ نہیں۔ صرف اس بات کا خیال رہے کہ بے قابو نہ جائے اور جس بات سے منع کیا گیا ہے اس میں نہ پھنس جائے۔ جو خون اس زمانہ میں نکل رہا ہے، اپنے اندر ایک خاص زہریلا مادہ رکھتا ہے اسی لیے قدرت اس کو باہر نکال رہی ہے۔ اگر اس زمانہ میں قربت کی جائے گی تو وہ زہریلا مادہ مرد میں اپنا اثر کرتے ہوئے اس کو گرمی اور خون کی خرابی کے درد ناک امراض میں مبتلا کر دے گا۔ ادھر عورت کو اس زمانہ میں کھال کے نازک ہو جانے کے سبب قربت میں تکلیف بھی ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ جسمانی طب اور اخلاقی و روحانی طب دونوں اصولوں میں اس کی ممانعت کر دی گئی۔

غیر قانونی صورت۔۔۔

جب قانونی رشتہ کے ہوتے ہوئے بھی حالت حیض و نفاس میں مقاربت شرعی و طبی دونوں اصولوں سے ناجائز قرار پائی کہ اس میں تخم انسانی کی بربادی ہے۔ تو ذرا غور کریں کہ جہاں قانونی رشتہ ہی نہ ہو یا دوسرے کسی شخص کےساتھ قانونی رشتہ میں بندھی ہوئی عورت ہو کہ تمہارے تخم انسانی کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتی تو اس انمول امرت کا ایسی زمین پر ڈالنا اور برباد کرنا کس قدر شدید ظلم ہے۔ اگر عورت کسی رشتہ سے منسلک نہیں، پاک دامن ہے، با عصمت ہے اور کوئی مرد اس کی عزت و عصمت کو اپنی سیاہ کاری سے برباد کر رہا ہے یا وہ خود جوانی کے جنون میں گرفتار ہو کر اس زشت کاری کا شکار ہو رہی ہے تو پہلے اس کا انجام سوچ لیں۔ اگر یہ بیج اپنے مقام پر پہنچ کر جم گیا، پودا اگا، پھل نکلا تو کیا یہ عورت اپنی اس بے بسی کی حالت میں اس کی تربیت کی ذمہ داری لے سکتی ہے؟ اور کیا اس نمونہ کے ساتھ ہوتے ہوئے پھر کسی شریف و با حمیت مرد سے جائز تعلق پیدا کرنے کے لیے منہ رکھتی ہے؟ اگر نہیں تو کیا یہ اس کو ضائع کر دے گی؟ اور ایک خون ، ایک قتل کی مرتکب بنے گی؟ یقیناً ایسا ہی ہو گا اور ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ نالیوں میں پڑے جیتے جاگتے بچے کراہ کراہ کر پکار رہے ہوتے ہیں کہ ہم ظالم مرد و عورت کے ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کی درد بھری آہیں سخت سے سخت کلیجہ کو بھی تڑپا دیتی ہیں۔۔۔آہ۔۔۔۔ وہ گوشت کا ٹکڑا جو ابھی کچا پکا گرایا گیا ، اگرچہ بے زبان ہے کہ ابھی اس کی ہائے کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی مگر ان قاتل ، ظالم مردو عورت پر لعنت کر رہا ہے جنہوں نے اس پر آفت ڈھائی۔
پیاے نوخیز جوانو! تمہیں اپنی ابھرتی ہوئی جوانی کا صدقہ، سنبھلنا، بچنا، ہوشیار رہنا۔ دیکھو ، اس گلی میں قدم بھی نہ رکھنا جہاں تمہاری عمر بھر کی کمائی برباد ہو۔ پیارے عزیزو! بازاری عورتیں بھی وہی برہما کی کیڑوں بھری پنھی ہیں، پوڈر ، سرمہ پر نہ بہلنا، بالوں کی بناوٹ اور پشواز کی سجاوٹ نہ دیکھنا۔ یہ وہی سرپوش اور طشتری ہے جس میں مختلف مزاج والے انسانوں کے ہاتھ پڑ چکے ہیں۔ اور مختلف قسم کے مادوں نے ایک جگہ مل کر اس کے مزاج کو اس قدر سڑا دیا ہے اور ایسے باریک باریک کیڑے جو دیکھنے میں نہیں آتے، اس میں پیدا کر دیے ہیں کہ تم اس کے پاس گئے اور انہوں نے ڈنگ مارا۔ بہر حال یہ ایسا ناگ ہے جس کا کاٹا سانس بھی نہیں لیتا۔ ایک وقت کی ذرا سی لذت پر اپنی عمر بھر کی دولت، آرام و راحت ،تندرستی و صحت اور عیش و عشرت کو نہ کھو بیٹھنا۔۔۔

(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
مکمل مضمون میں مندرجہ بالا نکات کی تفصیل کے ساتھ موضوع سے متعلقہ دیگر عنوانات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے احباب مندرجہ ذیل لنک کے ذریعے اصل مضمون سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
اللہ عزوجل ہمیں اور ہمارے بچوں کو پاکیزہ زندگی عطا فرمائے اور پاکیزہ صحبتوں میں رکھے۔ آمین۔۔۔
شباب یا جوانی ۔ علامہ مفتی عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔
 
Top