۔
وہ فاطمہ کی گود کا پالا ہوا حسین
کردارِ مرتضٰی سے سنبھالا ہوا حسین
حق کی تجلیوں سے اُجالا ہوا حسین
قرآن کے لباس میں ڈھالا ہوا حسین
[align=left:5791514c7b]ایمان یہ ہے حاصلِ ایماں حسین تھے
دنیا میں بولتا ہوا قرآں حسین تھے[/align:5791514c7b]
نانا کا حِلم ، باپ کی قوت ، حَسن کی خُو
جو مصطفٰے کا خون ، رگوں میں وہی لہو
خود دار ، خود شناس ، حق آگاہ ، صُلح جُو
ایمان کا شباب مسلماں کی آبرو
[align=left:5791514c7b]سبطِ محمد عربی ، ذی شرف حسین
سلطانِ دین و ابنِ امیرِ نجف حسین[/align:5791514c7b]
ہونے لگی جو ظلم کی یلغار دین پر
شیطانیت کی فوج اُتر آئی زمین پر
پڑتی تھی گرد مُصحفِ دینِ مبین پر
لہرائے شک و وہم کے سائے یقین پر
[align=left:5791514c7b]جب اہلِ ظُلم ، ظُلم پہ مغرور ہو گئے
شبیر بھی دفاع پہ مجبور ہوگئے [/align:5791514c7b]
چھوڑا مدینہ ، جانبِ کرب و بلا چلے
ہمراہ لے کے قافلۂ اقربا چلے
انصارِ سر فروش بہ عزمِ وغا چلے
ایسے چلے بہشت کی جیسے ہوا چلے
[align=left:5791514c7b]ناقوں پہ محذراتِ حرم کو لئے ہوئے
عباسِ نامدار علم کو لئے ہوئے[/align:5791514c7b]
بخشا تھا جو نبی نے علی کو وہی عَلَم
اللہ رے عَلَم کی بلندی زہے حشم
ایسا علم کہ پشتِ فَلَک سامنے تھی خَم
نصرت نے لیں بلائیں پھر پَرے کی دم بدم
[align=left:5791514c7b]شقّے سے سربلندی دیں آشکار تھی
پرچم پہ زُلفِ حور بہشتی نثار تھی
[/align:5791514c7b]
کیا کہئے اس عَلَم کا علُو ، عظمت و کمال
اُونچا ہو اس سے طائرِ طوبٰی یہ کیا مجال
ظاہر تھی اس سے شانِ خداوندِ ذوالجلال
اس کو اُٹھا کے چلتا تھا شیرِ خدا کا لال
[align=left:5791514c7b]اس سے عیاں مشیتِ ربِ عظیم تھی
چوبِ علم نہیں تھی عصائے کلیم تھی
[/align:5791514c7b]
پنجے میں اس کے پنجتنی نُور جلوہ گر
وہ آب و تاب تھی کہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
حیران ہو کے دیکھتے تھے اس کو دیدہ ور
محجوب آفتاب تھا شرمندہ تھا قمر
[align=left:5791514c7b]اہلِ زمیں نہیں ، نگراں آسمان ہے
کیسے نہ ہو حَسِیں ، حُسینی نشان ہے
[/align:5791514c7b]
رفعت ہے زورِ بازوئے عباس کی گواہ
خِیرہ شروں کی اس پہ پہنچتی نہیں نگاہ
فطرت ہے جن کی پست وہ ہیں دیکھ کر تباہ
سائے میں اس کے چلتی ہے اِسلام کی سپاہ
[align=left:5791514c7b]یہ زندگی ہے دین کی ، ایماں کی جان ہے
اسلام کے عروج کا زندہ نشان ہے
[/align:5791514c7b]
تھے سربکف حُسین کے انصار و اقربا
مُسلم کے بھائی ، زینبِ غمگیں کے مہ لقا
ہمراہ تھے برادرِ عباس با وفا
تیور کچھ ایسے ، رُوح اجل کی بھی ہو فنا
[align=left:5791514c7b]قاسم بھی تھے حَسن کی نشانی بھی ساتھ تھی
اکبر کی شاندار جوانی بھی ساتھ تھی
[/align:5791514c7b]
وہ منزلیں کہ جن سے گزرتا تھا کارواں
فیضِ قدم سے بنتی گئیں رشکِ کہکشاں
جُھک جُھک کے دیکھتا تھا زمیں کو خود آسماں
ایسی بہار گلشنِ فردوس میں کہاں
[align=left:5791514c7b]انداز قدسیانِ فلک کے جلوس کا
یہ قافلہ تھا صرف بہتّر نفوس کا
[/align:5791514c7b]
سب کی رگوں میں جوش سے تپتا ہوا لہو
ارمان یہ کہ پیشِ خدا جائیں سُرخرو
پوری ہو نصرتِ شہ والا کی آرزو
پڑھ لیں نماز ، خون سے کر لیں ذرا وضو
[align=left:5791514c7b]اس بندگی کی داد ذرا آسمان دے
پیری پڑھے نماز ، جوانی اذان دے
[/align:5791514c7b]
طالع ہوا اُفق پہ محرم کا جب ہلال
تھا پاس کربلا کے رسولِ خدا کا لال
دل میں جو تھا جُدائی صُغرٰی کا بھی ملال
چہرہ تھا پُر سکون مگر قلب پُر جلال
[align=left:5791514c7b]تصویر ضبطِ دشت میں وہ شیر مرد تھا
دِل میں مزارِ جَد سے بچھڑنے کا درد تھا
[/align:5791514c7b]
آئے جو کربلا میں امامِ فلک مقام
دیکھا کہ چار سمت ہے فوجوں کا اژدہام
صُبح حرم کو گھیرنے آیا ہے ابرِ شام
خواہش کہ خوں میں غرق ہو دیں کا مہ تمام
[align=left:5791514c7b]کینہ قلوب میں جو تھا بدر و حنین کا
بیعت بہانہ بن گئی قتلِ حُسین کا
[/align:5791514c7b]
قرآن و شرعِ دین کا نگہدار وہ حُسین
ارضِ حرم کا مالک و مختار وہ حُسین
توحید کا مجسّمِ اظہار وہ حُسین
حق کی چٹان ، دین کی دیوار وہ حُسین
[align=left:5791514c7b]
ٹکرا کے جس سے ظلم کی موجیں بکھر گئیں
جو ندیاں ہوَس کی چڑھی تھیں اُتر گئیں
[/align:5791514c7b]
ہاتھوں میں فاطمہ کے کھلایا ہوا حُسین
آغوشِ حیدری میں سمایا ہوا حُسین
اوجِ سپہرِ دین پہ چھایا ہوا حُسین
خوشبوئے مصطفٰے میں سمایا ہوا حُسین
[align=left:5791514c7b]
اپنی جبیں پہ تاجِ امامت لئے ہوئے
سانسوں میں باغِ خُلد کی نکہت لئے ہوئے
[/align:5791514c7b]
جس میں تمام حق کے کمالات وہ حُسین
بدلی ہے جس نے موجِ خیالات وہ حُسین
جس نے پلٹ دیا رُخِ حالات وہ حُسین
ممکن بنائے جس نے محالات وہ حُسین
[align=left:5791514c7b]دنیا کو جس کے عزم نے مبہوت کردیا
تختِ شہی کو تختۂ تابوت کردیا
[/align:5791514c7b]
توڑی ہے جس نے جبر کی زنجیر وہ حُسین
جس نے مٹائی ظلم کی تصویر وہ حُسین
قائم ہے جس سے کعبے کی تعبیر وہ حُسین
جس نے کیا ہے موت کو تسخیر وہ حُسین
[align=left:5791514c7b]جس کی صفات آئیں خدا کی کتاب میں
ٹھکرا دیا تھا دہر کو جس نے شباب میں
[/align:5791514c7b]
نرغے میں آگیا تھا جو اب دینِ مصطفٰے
بدلا تھا جبرِ وقت سے آئینِ مصطفٰے
تبدیل ہو رہے تھے فرامینِ مصطفٰے
ہونے لگی تھی کُھل کے جو توہینِ مصطفٰے
[align=left:5791514c7b]بہرِ دفاعِ دین بھلا اور کون تھا
سبطِ رسولِ حق کے سوا اور کون تھا
[/align:5791514c7b]
میدانِ کربلا میں جو پہنچا نبی کا پُھول
فردوس میں علی سے یہ فرماتی تھیں بتول
مانی تھی زندگی میں جو منّت ہوئی قبول
قرآنِ دیں کی آخری آیت کا ہے نزول
[align=left:5791514c7b]بھٹکے گی اس کے بعد نہ اُمّت رسول کی
تکمیل پارہی ہے رسالت رسول کی
[/align:5791514c7b]
عاشور کی سحر سے تھا آغازِ کار زار
کالی گھٹا سے تیر برستے تھے بے شمار
کھیلے خود اپنی جان سے انصارِ جاں نثار
لاکھوں کی فوج اور یہ گنتی کے دیندار
[align=left:5791514c7b]ایسا لڑے کہ فوج کے جی چُھوٹنے لگے
ذہنوں میں جو ہوَس کے تھے بُت ٹوٹنے لگے
[/align:5791514c7b]
انصارِ با صفا جو لڑائی میں مر گئے
آئینۂ ولا کی صفائی میں مر گئے
ابنِ حَسن بھی چہرہ نمائی میں مر گئے
عباسِ نامدار ترائی میں مر گئے
[align=left:5791514c7b]آنے دیا نہ حرف صداقت کے نام پر
زینب کے لاڈلے ہوئے صدقے امام پر
[/align:5791514c7b]
زین العباد تپ میں گرفتار رہ گئے
تاب و تواں نہیں تھی تو ناچار رہ گئے
اصغر ہمک کے جھولے میں ہر بار رہ گئے
سروَر کے ساتھ اکبرِ خوددار رہ گئے
[align=left:5791514c7b]تھا بھوک کا خیال نہ پانی کا ہوش تھا
نامِ خدا رگوں میں جوانی کا جوش تھا
[/align:5791514c7b]
وہ تین دن کی پیاس ، وہ بپھرا ہوا شباب
وہ ہاشمی جلال ، وہ گرمی ، وہ التہاب
شرما رہا تھا خود رُخِ روشن سے آفتاب
تھی مست انکھڑیوں میں ڈھلی کوثری شراب
[align=left:5791514c7b]پیشانئ حُسین پہ کچھ بل پڑے ہوئے
آئینے پر عرق کے نگینے جڑے ہوئے
[/align:5791514c7b]
گیسُو رُخِ حسیں پہ پریشاں اِدھر اُدھر
والّیل کے ہجوم میں الشّسُ والقمر
دو اَبرو ، دو ہلال تھے پیوستہ ہم دگر
مژگاں کی فوج چشمۂ آبِ حیات پر
[align=left:5791514c7b]ٹھہرے نظر نہ جلوۂ رخسارِ پاک پر
یوسف پڑھیں درود رُخِ تابناک پر
[/align:5791514c7b]
تھے دو کنارے ساغرِ یاقوت کے دو لب
رنگینی جن کی دیکھ کے جھومے مئے عنب
شق تھے گلوں کے سینے اسی رشک کے سبب
کُھلتے تھے یہ تو کُھلتا تھا گلخانۂ ادب
[align=left:5791514c7b]سنتے تھے ان کی لحن کو داؤد جھوم کے
تکبیر بھی نکلتی تھی ہونٹوں کو چوم کے
[/align:5791514c7b]
آنکھوں کے اِرد گرد ہیں مژگاں جو صف بہ صف
وہ تیر ہیں کہ جن سے ہو باطل کا دل ہدف
ہے کیا مجال کوئی نظر ڈالے اس طرف
منصب ، نگاہ بانی میخانۂ نجف
[align=left:5791514c7b]بہ پاسبانِ بزمِ جنابِ امیر ہیں
ابرو کھنچے کمان ہیں یہ ان کے تیر ہیں
[/align:5791514c7b]
چڑھتے ہوئے شباب کی اللہ ری آب و تاب
رُوئے حسیں پہ کِھلتا ہوا تختۂ گلاب
بھیگی ہوئی مَسوں سے بڑھی حُسن کی وہ آب
شاداب دیکھ کر ہوں غلامانِ بوتراب
[align=left:5791514c7b]باقی ہے ان کے دم سے نشانی رسول کی
پھرنے لگی نظر میں جوانی رسول کی
[/align:5791514c7b]
زینب کے دل کا چاند تو بانو کے دل کا چین
عین الیقیں ہے سبطِ پیمبر کا نورِ عین
جب تک یہ سامنے ہیں ، قوی ہے دلِ حُسین
جب دیکھتے ہیں ان کو شہنشاہِ مشرقین
[align=left:5791514c7b]کہتے ہیں یہ بھی جائیں گے اب قتل گاہ میں
کیا سخت مرحلے ہیں شہادت کی راہ میں
[/align:5791514c7b]
یہ سوچ ہی رہے تھے اِمامِ فلک حَشم
اکبر نے آ کے چوم لئے دفعتاً قدم
لب تشنگی سے خُشک تو آنکھوں میں اشکِ غم
لب تھر تھرا گئے سرِ تسلیم کر کے خم
[align=left:5791514c7b]دل کے قریں شبیہِ پیمبر کو لے لیا
آغوش میں حُسین نے اکبر کو لے لیا
[/align:5791514c7b]
آغوش میں پدر کے جو آیا وہ خوش خصال
شانے پہ رکھ کے سر کو کیا ایسے عرض حال
اے بابا جان ، رَد نہ ہو یہ آخری سوال
اس دَہرِ بے ثبات میں ہے زیست پُر ملال
[align=left:5791514c7b]تھے دوستی کے جن سے مراسم ، نہیں رہے
جینے میں کیا مزا ہے کہ قاسم نہیں رہے
[/align:5791514c7b]
جو ہم سے سِن میں کم تھے وہ سب ہو چکے شہید
کرتے ہیں وہ بہشت میں اب مصطفٰے کی دید
اپنے لئے یہ زیست ہے اِک صدمۂ شدید
اے بابا جان ، صبر کی طاقت نہیں مزید
[align=left:5791514c7b]ایسا نہ ہو حضور کہ باتوں میں ٹال دیں
بابا ہمیں خوشی سے رضائے جدال دیں
[/align:5791514c7b]
یہ سُن کے دیکھنے لگے سُوئے فلک حُسین
آنکھوں میں تھا اندھیرا بچھڑتا تھا نُورِ عین
اک مرحلہ تھا فرض و محبت کے بین بین
صبر و رضا ادھر تو اُدھر بیبیوں کے بین
[align=left:5791514c7b]چرکے جو لگ چکے تھے دلِ چاک چاک پر
زینب پچھاڑیں کھا کے تڑپتی تھیں خاک پر
[/align:5791514c7b]
اکبر کو لے کے داخلِ خیمہ ہوئے امام
سوکھے ہوئے لبوں نے حرم سے کیا کلام
جائے گا قتل گاہ کو اپنا مہِ تمام
جو انتہا ہے صبر کی آیا ہے وہ مقام
[align=left:5791514c7b]فقرہ خلافِ ضبط زباں سے نکل نہ جائے
اسلام کا شباب ضعیفی میں ڈھل نہ جائے
[/align:5791514c7b]
حُکمِ امام سنتے ہی سب بین تھم گئے
آنکھوں میں تھے جو اشک وہ پلکوں پہ جم گئے
گوشوں میں اپنے اپنے سب اہلِ حرم گئے
زینب کی سمت شاہ اُٹھا کر قدم گئے
[align=left:5791514c7b]تعظیم دی بہن نے بھی اُٹھ کر امام کو
اکبر بھی بڑھ کے آئے پھوپھی کے سلام کو
[/align:5791514c7b]
شبیر نے یہ زینبِ محزوں سے پھر کہا
بے شک تمہارا پالا ہوا ہے یہ مہ لقا
اس کو خدا کی راہ میں کرتے ہیں ہم فدا
گیسو ، تمہی سنوار دو اِس کے بہن ذرا
[align=left:5791514c7b]ثابت قدم رہو یہ بڑا امتحان ہے
نامِ خدا تمہارا بھتیجا جوان ہے
[/align:5791514c7b]
زینب نے دل پکڑ کے کہا ، وا مصیبتا
زخموں سے چُور چُور ہے دلِ مامتا بھرا
بھیّا تمہارے حکم کو ٹالا نہ جائے گا
اس کو قریب لاؤ ، بَلائیں تو لوں ذرا
[align=left:5791514c7b]یہ بھی جناں کو جائے گا اب قتل گاہ سے
چُھپ جائے گی
شبیہِ پیمبر نگاہ سے
[/align:5791514c7b]
بولیں سجا کے جسم پہ سارے سلاحِ جنگ
لڑنا کچھ اس طرح کہ ستم کیش بھی ہوں دنگ
میں جانتی ہوں دل میں تمہارے جو ہے اُمنگ
اب عرصۂ جدال کرو شامیوں پہ تنگ
[align=left:5791514c7b]نازاں ہے اس شباب پہ کُنبہ رسُول کا
تم آخری سہارا ہو ابنِ بتول کا
[/align:5791514c7b]
سر پر رکھا عمامۂ شاہنشہ انام
باندھی کمر میں پھر اسدُاللہ کی حُسام
خاموش دیکھتے رہے کونین کے امام
حاضر تھا بابِ خیمہ پہ رہوارِ خوشخرام
[align=left:5791514c7b]کر کے سلام خیمے سے اکبر نکل گئے
با وصفِ ضبط شاہ کے آنسو مچل گئے
[/align:5791514c7b]
رہوار پر سور ہوئے اکبرِ جواں
نازاں ہوا فرس تو کھڑی کیں کنوتیاں
صیحہ کیا تو گونج گیا دشتِ بیکراں
ٹاپیں زمیں پہ ماریں لرز اُٹھا آسماں
[align=left:5791514c7b]نظریں ملائکہ کی تھیں سازِ ویراق پر
گویا نبی سوار ہوئے ہوں بُراق پر
[/align:5791514c7b]
اکبر کا وہ جمال سواری کی آن بان
پُشتِ فرس سے پست نظر آیا آسمان
دیکھے کوئی تو حیدرِ صفدر کا ہو گمان
خود بھی جوان ، ولولۂ جنگ بھی جوان
[align=left:5791514c7b]قبضے پہ ایک ہاتھ تھا اور ایک باگ پر
مَرکَب بھی منہ سے جھاگ اُڑاتا تھا جھاگ پر
[/align:5791514c7b]
جھپٹا جو فوجِ شام پہ وہ نونہالِ دیں
میدانِ کارِ زار کی ہلنے لگی زمیں
گِھر گِھر کے جو اُٹھی تھیں گھٹائیں وہ چھٹ گئیں
مرکز کہیں ، سپاہ کہیں ، اسلحہ کہیں
[align=left:5791514c7b]وہ حال تھا کسی کو کسی کا نہ ہوش تھا
سر بھی سُبک سروں کے لئے بارِ دوش تھا
[/align:5791514c7b]
صف بستہ تھے جو فوجی رسالے بکھر گئے
دریا چڑھے تھے ظُلم کے جتنے اُتر گئے
میداں میں چھوڑ چھوڑ کے تیغ و سِپَر گئے
جو بچ گئے ، وہ سمجھے کہ بے موت مر گئے
[align=left:5791514c7b]سیفِ علی ہے ، کیسی روانی کا ہاتھ ہے
روکے گا کون اس کو ، جوانی کا ہاتھ ہے
[/align:5791514c7b]
سیفِ علی ، دعائے نبی میں ڈھلی ہوئی
اعدائے دینِ حق کے لہو پر پلی ہوئی
صیقل سے اور آئینۂ منجلی ہوئی
خیبر میں اور بدر و اُحد میں چلی ہوئی
[align=left:5791514c7b]جوہر جو اُبھرے غرق جواہر میں ہوگئی
کچھ اور تیز قبضۂ اکبر میں ہوگئی
[/align:5791514c7b]
رُوئیں تنوں کے جسم اِسے لقمۂ ہائے نرم
یکساں ہیں اس کے واسطے سب استخوان و چرم
ہے سخت سرد مہر کہ ہوتی نہیں ہے گرم
میداں میں خوش غلاف کو آتی نہیں ہے شرم
[align=left:5791514c7b]دوڑے ہوا کی طرح قطاروں کی بھیڑ میں
لہرائے بے حجاب ہزاروں کی بھیڑ میں
[/align:5791514c7b]
خَود و زِرَہ کو کاٹ دے مثلِ خیارِ تر
اس کی برش پہ موت بھی کہتی ہے الحذر
نخلِ حیات اس نے کئے لاکھوں بے ثمر
پکّے پھلوں کی طرح گرائے تنوں سے سر
[align=left:5791514c7b]مامُور باغبانئ گلزارِ دین پر
لاشوں کے گُل کھلائے ہیں اس نے زمین پر
[/align:5791514c7b]
میدانِ کارِ زار میں اکبر تھے محوِ جنگ
عباس کی لڑائی کے تھے سارے رنگ ڈھنگ
دریائے خون میں تھا فَرَس صورتِ نہنگ
تھا عرصۂ حیات اُدھر بزدلوں پہ تنگ
[align=left:5791514c7b]کیا وار تھے بنیرۂ شیرِ اُلاہ کے
روباہ ڈھونڈتے تھے وسیلے پناہ کے
[/align:5791514c7b]
دیوارِ کُوفہ تک ہوئی پسپا جو فوجِ شام
ٹھہرا فَرَس کو روک کے دم بھر مہِ تمام
تلوار اُٹھا کے خیموں کی جانب کیا سلام
محوِ دُعا اُدھر تھے امامِ فلک مقام
[align=left:5791514c7b]یہ باپ کی ضعیفی کا روشن چراغ تھا
بیٹے کی جنگ دیکھ کے دل باغ باغ تھا
[/align:5791514c7b]
زینب ادھر تھیں پردۂ خیمہ سے محوِ دید
اکبر کی جنگ دیکھ کے بڑھنے لگی امید
فرماتی تھیں کہ دیر نہیں فتح میں مزید
لو دیکھو بھاگنے لگے شیطان کے مُرید
[align=left:5791514c7b]ہو مژدۂ ظفر پسرِ بُو تراب کو
اللہ چشمِ بد سے بچائے شباب کو
[/align:5791514c7b]
دیکھو سکینہ بی بی ، وہ اکبر ہیں نعرہ زَن
دُشمن فرار ہوگئے خالی پڑا ہے رَن
اب ظالموں کا نشۂ قوّت ہوا ہرَن
سب کو بھگا کے آتا ہے اب میرا صَف شِکن
[align=left:5791514c7b]اللہ میرے یوسفِ ثانی کی خیر ہو
پیری کا آسرا ہے جوانی کی خیر ہو
[/align:5791514c7b]
آئے پلٹ کے رَن سے جو اکبر سُوئے خیّام
آغوش کر کے وا ، بڑھے کونین کے امام
اکبر نے کی یہ عرض کہ ہوں سخت تشنہ کام
سُوکھی ہوئی زبان سے ہوتا نہیں کلام
[align=left:5791514c7b]اس تشنگی سے مجھ کو اماں دیجئے ذرا
بابا مرے دہن میں زباں دیجئے ذرا
[/align:5791514c7b]
اکبر کے منہ میں شاہ نے جب ڈال دی زباں
بیٹے نے ہٹ کے پیچھے کہا اے شہِ زماں
ہے آپ کی تو مجھ سے بھی کچھ خشک تر زباں
تشنہ لبی میں جائے گی شاید اب اپنی جاں
[align=left:5791514c7b]اب سامنا اجل کا کریں گے سکون سے
ہم تشنگی بجھائیں گے دُشمن کے خون سے
[/align:5791514c7b]
یہ کہہ کے پھر پلٹ کے گئے سوئے کارِ زار
دیکھا مقابلہ پہ ہیں پھر جمع بَد شعار
تیروں کی بارشیں ہوئیں پیاسے پہ بے شمار
چاروں طرف سے ہونے لگے سینکڑوں کے وار
[align=left:5791514c7b]دیکھا جو دشمنوں کو جوانی بپھر گئی
لشکر ہوا فرار جہاں تک نظر گئی
[/align:5791514c7b]
ابنِ نمیر لاشوں کے ڈھیروں میں تھا نہاں
دَستِ شقی میں زہر کی ڈوبی ہوئی سِناں
نکلا چھپا چھپا جو عقب سے وہ ناگہاں
برچھی کی زد پہ آ ہی گیا سینۂ جواں
[align=left:5791514c7b]نوکِ سِناں گزر گئی سینے کو توڑ کر
بھاگا وہ نامراد ، ہدف اپنا چھوڑ کر
[/align:5791514c7b]
اکبر گرے جو مَرکبِ تازی سے خاک پر
خیموں کی سمت ڈال دی حسرت بھری نظر
دِل نے کہا نہ ہو شہِ والا کو کچھ خبر
کسے سہیں گے داغ مرا سیدُ البشر
[align=left:5791514c7b]اللہ وقت ہے یہ بڑے امتحان کا
کیسے اُٹھے گا پیری سے یہ لاشہ جوان کا
[/align:5791514c7b]
اکبر کے زَخمِ سینہ سے بہنے لگا لہو
ضعفِ بدن سے زرد ہوا اور ماہ رُو
خیمے میں بیقرار ہوئے شاہِ نیک خُو
دِل نے کہا نکل گئی اکبر کی آرزُو
[align=left:5791514c7b]
افسانۂ شباب کا انجام آ گیا
آخر مرا جوان پسر کام آ گیا
[/align:5791514c7b]
دوڑے کلیجہ تھام کے مقتل کو شاہِ دیں
رکھتے قدم کہیں تھے تو پڑتا تھا وہ کہیں
آئے قریبِ لاشۂ اکبر دلِ حزیں
دیکھا کہ آس پاس کی گُلرنگ ہے زمیں
[align=left:5791514c7b]زخمی بساطِ خاک پہ وہ گل عذار ہے
نوکِ سنانِ ظلم کلیجے کے پار ہے
[/align:5791514c7b]
باقی جو تھی ہنوز تن نیم جاں میں جاں
مقتل کی سر زمیں پہ رگڑتا تھا ایڑیاں
شبیر نے کلیجے سے جب کھینچ لی سِناں
زخمِ جگر سے خون کا دریا ہوا رواں
[align=left:5791514c7b]آنکھیں کُھلیں تو صورتِ شبیر دیکھ لی
دُھندلی جو پڑ رہی تھی وہ تصویر دیکھ لی
[/align:5791514c7b]
بیٹے کے سر کو باپ نے زانو پہ رکھ لیا
فرمایا ، جاؤ جانِ پدر سُوئے مُصطفٰے
کہنا بصد ادب کہ شہنشاہِ دو سَرا
نانا کے دیں کا نام نواسے نے رکھ لیا
[align=left:5791514c7b]تکمیل کی حُسین نے ہر امتحان کی
پیری نے خُود اُٹھائی تھی میّت جوان کی
[/align:5791514c7b]
زینب کے دِل کا حال بھی کہنا بصد ادب
مقتول سب کو دیکھ کے زندہ ہے جاں بلب
خیموں کی آگ دیکھنی باقی ہے اس کو اب
سجاد کی اسیری کا ہے مرحلہ غضب
[align=left:5791514c7b]چلنا جسے محال ہے دو چار گام تک
جانا ہے پیادہ پا اُسے دربارِ شام تک
[/align:5791514c7b]
کہنا کہ تھوڑی دیر کا باقی ہے اور کام
کرنا ہے بے زبانئ اصغر کو بھی کلام
پھر سجدۂ اخیر کا ہونا ہے اہتمام
اور اس کے بعد عالمِ فانی کو ہے سلام
[align=left:5791514c7b]کہنا یہ بارگاہِ رسالت مآب میں
عباس بھی فدا ہوئے عینِ شباب میں
[/align:5791514c7b]
بس اے صبا کہ اب نہ رہی طاقتِ رقم
خُوں رو رہا ہے دامنِ قرطاس پر قلم
پیری میں یہ سخن کی جوانی نہیں ہے کم
ٹھوکر کہیں نہ کھائی یہ مولا کا ہے کرم
[align=left:5791514c7b]آنکھیں لہُو سے تر ہُوئیں ہر شیخ و شاب کی
اکبر کی موت ، موت بھی عہدِ شباب کی
[/align:5791514c7b]
اکبر کی موت ، موت بھی عہدِ شباب کی !
-×--------- اختتام ---------×-