شاید غزل : برائے تبصرہ و رائے دہی

محترم حاضرینِ محفل و اساتذہ کرام ! سلامِ مسنون
آپ کی پُرزور فرمائش پر اپنا اب تک کا سارا کچا چھٹا کھول کر سامنے لے آیا ہوں۔ یہ نظم دراصل دفتر سے چُھٹیوں اور اُکتاہٹ کا نتیجہ ہے۔ مجھے اپنی کج فہمی کا خوب ادراک ہے جس کی نشاندہی کرتے ہوئے اُستاد صاحب (الف عین ) نے پہلے ہی مطالعہ اور نتیجۃً طبیعت کی موزونی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ فی الحال تو مزید شاعری سے پہلے یہی کام کرنے کا ارادہ ہے۔ ذیل میں ایک اور غزل نما پیشِ خدمت ہے اپنی رائے سے مستفید فرمائیں۔
شاگرد شاعر
خلیل

-------------------
شاید غزل: جوگ
مورخہ 23 فروری ؁2013
خلیل الرّحمٰن
-------------------
دلوں پر قفل سجا لیے ہم نے
ویرانی کو ہے اب خوش آمدید

حسینوں سے توڑ لیے ناتے
خطوط کی بھیج دی تردید

اُلٹ دیے سبھی جام اپنے
پیالہ منش کا کر لیا کشید

دعوتِ عام ہے سب رقیبوں کو
اور خنجر کی ہے خصوصی تاکید

محفلِ سُرخ جوبن پر ہے اپنے اور
رقص میں ہے وحشت، اے چشمِ دید

حریف تو پابند ہے آدابِ عداوت کا
دوستوں نے دیے مگر گھاؤ شدید

آشنائی گوارا ہے صِرف رؤسا سے
پھولوں نے اپنا لی یہ رسمِ جدید

خلیلؔ اپنی بُزدلی پہ بچ نکلے ، وگرنہ
وفا شعار ہیں سب قبا دریدہ سر برید

(خلیلؔ )
 

زبیر مرزا

محفلین
واہ بہت خُوب جناب - کسی اور کی زبان سے اپنے دل کا حال سننا اچھا لگا
دلوں پر قفل سجا لیے ہم نے
ویرانی کو ہے اب خوش آمدید
حسینوں سے توڑ لیے ناتے
خطوط کی بھیج دی تردید
 
بہت بہت شکریہ۔
اُردو محفل میں اپنی گرتی پڑتی نظم ڈالنے سے یہ تحریر یوں نکھر کر سامنے آ گئی ہے جیسے گرد سے اٹا کوئی درخت بارش کے بعد اچانک سر سبز ہو جاتا ہے۔ لہٰذا پہلی بار یہ احساس ہوا ہے کہ جسے میں غزل کے قریب قریب سمجھ رہا تھا اُسکے اوپر تو مطلع موجود ہی نہیں ہے۔
حد ہوتی ہے خوش فہمی کی بھی !
 

الف عین

لائبریرین
کم از کم ایک بات سے تو عزیزی خلیل الرّحمٰن بخوبی واقف ہیں، قوافی۔ بس وزن سے شد بد ہو جائے تو کیا کہنا۔ ویسے اگر ردیف بھی استعمال کی جائے تو غزل ۔۔۔ نثری غزل زیادہ کہی جا سکتی ہے
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top